ہندوستان کی 28ریاستوں میں سے
کوئی 13ایسی ریاستیں ہیں ، جہاں مدرسہ تعلیمی بورڈ قائم ہے ۔ مثلاً ، یوپی
، بہار ، بنگال ، اڑیسہ ، چھتیس گڑھ ، مدھیہ پردیش ، اتراکھنڈ اور راجستھان
وغیرہ ۔ یہ تما م ریاستی بورڈ بہ ظاہر کسی نہ طرح مسلمانوں کی تعلیمی معیار
کو بلندکرنے میں ہمہ تن مصروف ہیں اور اپنے فارغین کے لئے مزید سہولتیں
دستیاب کرانے کے تئیں غوروخوض بھی کررہے ہیں ، مگر یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ
ہر جگہ بورڈ کے ذمہ داران ڈھلمل یقین ہیں ، ان کی فعالیت پر ہمیشہ سوالیہ
نشان ہی نمایاں نظر آتا ہے ، آئے دن تعلیمی معیار کے روبہ زوال ہونے کے
مشاہدات بورڈ کے مدارس میں نسبتاً زیادہ ہوتے ہیں ۔ طلباءسے ارباب مدارس کی
بے اعتنائی بے شما ر سوالات لے کر سامنے آتی ہے ۔
دیگر ریاستی بورڈوں کی تعلیمی صورتحال اورفعالیت کے تناظر میں دہلی مدرسہ
ایجوکیشن بورڈ کے قیام کی باتیں بڑے شدومد کے ساتھ سنائی دے رہی ہیں ۔ اس
کے قیام پر مخالفت وحمایت کی آوازیں بھی باز گشت کررہی ہیں ۔ گزشتہ دنوں
دہلی مدرسہ بورڈ کی تشکیل کے پیش نظر سریتا وہار دہلی میں ایک مشاورتی
میٹنگ کا انعقاد ہوا ، جس میں دہلی کے مختلف علاقوں سے علمائے اہل سنت نے
کثیر تعداد میں شرکت کی ۔ اس موقع پر متعدد مقررین نے اظہار خیال کرتے ہوئے
مدرسہ کی تشکیل کی زبردست حمایت کی اوربورڈ کی ضرورت و اہمیت پر گفت وشنید
کے بعد علمائے اہل سنت کو زیادہ نمائندگی دینے کا بھی مطالبہ کیا ہے ،
مجموعی طورسے یہ بات کہی گئی کہ’جب یو پی ، بہار اوردیگر ریاستوں میں بورڈ
قائم ہے تو آخر دہلی میں کیوں نہیں ؟ان ریاستوں میں مدرسہ بورڈ پوری
کامیابی کے ساتھ مدارج طے کررہا ہے ، مدارس کی جدید کاری اوران کی ترقی وقت
کا اہم تقاضہ ہے ،طلبائے مدارس کے زندگی کی ڈور میں پیچھے رہ جانے کی وجہ
دراصل جدید تعلیم سے دور ی ہے ، طلباءکی معاشی زندگی مضبوط بنانے کے لئے
نصاب ِ تعلیم میں ہندی ، حساب اورانگلش وغیرہ کی شمولیت انتہائی ناگزیر ہے
، اس لئے مدرسہ بورڈ کی تشکیل سے دہلی کے طلبائے مدارس کی زندگی سنورے گی
اوروہ بھی زندگی کے میدان میں پیش پیش نظرآئیں گے ‘۔
دہلی مدرسہ ایجو کیشن بورڈ کی تشکیل کی حمایت میں منعقد مشاورتی میٹنگ میں
کوئی ایسی بات سامنے نہیں آئی کہ اس کے لئے مدرسہ بورڈ کا قیام ہی ضرور ی
ہو ۔ جہانتک حساب ، ہندی اورانگلش کی تعلیم کا سوال ہے تو ہندوستان کے بے
شمار مدارس میں ا ن مضامین کی تعلیم ہورہی ہے، آزاد مدارس کے اساتذہ بھی ان
مضامین پر توجہ دے رہے ہیں ،مذکورہ مضامین سے گہری واقفیت کے لئے مدرسہ
بورڈ کی تشکیل ہی ناگزیر نہیں ہے ۔ اس کے لئے تو آزاد مدارس میں ہی قرآن و
احادیث کے ماہرین کی طرح ان مضامین کے ٹیچر رکھے جائیں۔ اور رہا یہ مسئلہ
کہ بہار یوپی ، راجستھان ، بنگال سمیت دیگر ریاستوں میں مدرسہ بورڈ فعال ہے
، وہاں تعلیمی نظام زبردست ہے ، زیرک اور باصلاحیت طلباءنکل کر آرہے ہیں
اور ہر اعتبار یہ سب بورڈ اوج کما ل کے مدارج طے کررہے ہیں تو یہ یادرکھیں
کہ کسی بھی ریاست کا مدرسہ بورڈ تعلیمی ڈگر پر گامزن نہیں، کہیں بھی تعلیم
نظام بہترنہیں ، کوئی بھی بورڈ فعال نہیں ، کسی بھی بورڈ میں طلباءکے
مستقبل کا اس طرح خیال نہیں رکھا جارہاہے ، جیساکہ قیام کے وقت بلندوبانگ
دعوے ہوتے ہیں ۔ مجموعی اعتبار سے ہر بورڈ میں تعلیمی نظام روبہ زوال ہے ،
ملحقہ مدارس میں ہندی ، ریاضی ، انگلش اور سائنس کی تعلیم تو کجا قرآن و
احادیث یعنی دینیات کی تعلیم بھی منظم طریقہ سے نہیں ہوپارہی ہے ۔ حالانکہ
ہر مدرسہ بورڈ کا نصاب اسلامیات اورعصری مضامین کا سنگم ہوتا ہے ۔مگر تلخ
حقیقت یہ ہے کہ کلی طور پر کسی بھی مدرسہ میں بورڈ کے نصاب کے مطابق تعلیم
نہیں ہوتی ہے ۔ بورڈ کے نصاب تعلیم میں ایسی ایسی کتابیں ہوتی ہیں ،جن سے
بورڈ کے بیشتر اعلی عہدیداران ، چیئر مین ، رجسٹرار تو کجا اساتذہ تک
ناواقف ہوتے ہیں ، لیکن ستم یہ کہ ان کتابوں کا ہی امتحان ہوتا ہے ۔ بھلا
تصورکیا جاسکتاہے کہ اس صورتحال میں تعلیم کیا ہوسکتی ہے ۔ راقم کی ان
باتوں کی تصدیق کے لئے یوپی بہا رکے ملحقہ مدارس کا جائزہ لیا جاسکتاہے ۔
مجھے معاف کریں کہ مدرسہ تعلیمی بورڈ کا نصاب محض سیاسی پارٹیوں کا انتخابی
منشورہوتا ہے یا ہاتھی کا دانت!!مادیت کے اس دور میں بھی آزاد مدارس کے
اساتذہ پابندی سے تعلیم دیتے ہیں ، دلجمعی کے ساتھ درس وتدریس کے فریضہ کی
انجام دہی میں اربابِ مدارس لگے رہتے ہیں ، مگر یہاں کے نصاب میں ذراتبدیلی
نہایت ضروری ہے ، یعنی مدرسہ بورڈ کا نصابِ تعلیم تو انتہائی زبردست ہوتا
ہے ، مگر تعلیم نہیں ہوتی ہے ، اساتذہ طلباءسے ربط نہیں رکھتے ہیں ، آزاد
مدارس میں تعلیم تو ہوتی ہے مگر نصاب میں تبدیلی ناگزیر ہے ۔ ہاں ! مدارس
کے نصاب میں اتنی بھی خامیاں نہیں ، جتنی کہ روشن خیال طبقہ کو نظر آتی ہیں
۔ بورڈ کے نصاب تعلیم کے مدنظر یہ کہنے میں ذرا بھی باک نہیں کہ صرف دلچسپ
اورزمانہ سے ہم آہنگ نصاب مرتب کرنے سے طلباءکاکوئی فائدہ ہے ۔
مدارس کا قیام جن مقاصد کے تحت ہواتھا ، وہ بورڈ کے مدارس میں یکسر مفقود
ہیں ۔ معاف کریں بورڈ کے مدارس پر مادیت کا ایسا بھوت سوار ہے ، جو
اخلاقیات ، اخلاص وللہیت اورخوف الہی کے لئے سم قاتل ہے ۔
تمام ریاستی بوڑدوں سے قطع نظر صرف یوپی بہار اوربنگال کے ایسے مدارس پر
نگاہ ڈالیں گے توتمام حقائق سامنے آجائیں گے ۔ مدرسہ بورڈ کی حالت زار پر
مولانا ولی رحمانی لکھتے ہیں :”بورڈ کا تجربہ بہت تلخ اوربے حد خراب رہا ہے
، بہار اوربنگال میں مدرسہ بورڈ کے مدارس پچھلے تیس برسوں میں کہا ں پہنچے
، یہ تعلیم گاہیں کیا کررہی ہیں ، کوئی جانے یا نہ جانے ،میرے جیسے مدرسہ
سے تعلق رکھنے والے اچھی طرح جان رہے ہیں ،بورڈ سے ملحق مدارس میں سے
پنچانوے فیصد مدارس کے ”طلبائ“صرف امتحان دینے اورڈگری پانے والوں
اوروالیوں کی خاصی تعداد ایک سطر صحیح اردو نہیں لکھ سکتی /سکتیں ۔ “(ماخوذ
: مرکزی مدرسہ بورڈ اوراقلیتوں کی تعلیم چند قانونی اورعملی مشورے ، صفحہ
18)
مولانا ابوالکلام قاسمی جو مدتوں اس مدرسہ کے استاذرہیں اوراب پرنسپل ہیں ،
جہاں سے بہار مدرسہ بورڈ کی ابتداءہوئی ہے ، لکھتے ہیں :
”جب سے مدارس ملحقہ میں اساتذہ کی تنخواہ کی ادائے گی حکومت کی جانب سے
ہونے لگی اوراہل خیرحضرات نے چندہ دینے میں قیل وقال شروع کیا تو مدارس
ملحقہ کے اساتذہ نے بھی اپنے آپ کو آزاد رکھنے میں ہی فائدہ محسوس کیا ،
نتیجہ یہ ہواکہ اکثر مدارس ملحقہ میں جاگیر کا انتظام ختم ہوگیا ، طلبہ کی
دلچسپی مدارس کی تعلیم سے کم ہونے لگی ، تنخواہ کی ادائیگی کی وجہ سے ہر
کوئی سکریٹری بننے کاخواہشمند ہوگیا ، دانشوران خاموش تماشائی بن گئے ،
گارجین کوکوئی دلچسپی نہیں رہی ، اس کاسب سے بڑا اثر تعلیمی نظا م پر پڑا ،
اب نہ تو اکثر مدارس ملحقہ میں اساتذہ کے لئے رہنے کا انتظام ہے اورنہ ہی
طلباءکے لئے جاگیر کا انتظام سرکاری کی جانب سے تنخواہ کی ادائے گی کی جانے
لگی ، تو اب اساتذہ کی جگہ پر اپنے رشتہ داروں کو بحال کرنے پر توجہ ہونے
لگی “۔
یہ صورتحال ہے بورڈ کے مدارس کی ! ایسی جانبداری کا کھیل ہونے لگا اسلامی
مدارس میں ! تعلیمی نظام اس درجہ ابتر ہوگیا ملحقہ مدارس کا!ان حقائق کے
باوجود یہ کہنا کیسے بجا ہوگا کہ اگر دہلی میں بھی ایجو کیشن بورڈ کی تشکیل
ہوگی تو طلبائے مدارس زندگی کی دوڑ میں نمایاں نظر آ ئیں گے ، ان کی معاشی
حالت بہتر ہوگی اور اعلٰی و معیاری تعلیم سے آراستہ ہوں گے ۔تعلیم بیدار
مبصرین کا ماننا ہے کہ اگر دہلی مدرسہ ایجو کیشن بورڈ کی تشکیل ہوتی ہے تو
تعلیم کے نام پر مزید کوئی لاکھ دولاکھ طلباءکی زندگی سے کھلواڑ اسی طرح
شروع ہوجائے گی،جس طرح دیگر یارستی بورڈ کے مدارس میں ہورہی ہے ۔ بہار میں
کوئی 1128مدارس امداد یافتہ ہیں مزید2460 کوامداد یافتہ کی فہر ست میں شامل
کئے جانے پر گفت وشنید ہورہی ہے ۔ یو پی میں تقریباً59سو مدار س منظور شدہ
ہیں، جن میں سے 459مدارس کو امداد مل رہا ہے ۔ مجموعی طور پر یوپی کے ملحقہ
مدارس میں 7لاکھ 70ہزار اوربہار کے مدارس میں کوئی دولاکھ طلباءزیر تعلیم
ہیں ۔ مسلم مفکرین ودانشوران کے لئے غوروفکر کا موضوع ہے کہ اتنی بڑی تعداد
صرف دو مدرسہ بورڈ میں ہی اپنی زندگی سنوارنے کے لئے حصول تعلیم کی غرض سے
داخل ہے اوران دونوں بورڈ میں بھی نظام تعلیم بہترنہیں ، بلکہ روبہ زوال ہے
تو ان کے مستقبل کیا ہوگا ؟وہ صرف اسناد لے کر شہروں کی خاک چھانتے رہیں گے
؟۔
گاہ بہ گاہ حکومتیں مدرسہ بورڈ کے طلباءکو ٹکنکل تعلیم سے جوڑنے اورزندگی
کے میدان میں انہیں کامیاب بنانے کے لئے امداد اوردیگر سہولیتیں دینے کا
اعلان کرتی ہیں اورچند چیزیں دے بھی دیتی بھی ہیں ، مگر کسی بھی سطح پر
بورڈ کے فارغین کا خاطر خواہ کوئی فائدہ نہیں ہوتا ہے ۔ مثلاً،2010 میں
مرکزی حکومت نے ایک حکم جاری کیاتھا ، جس کے مطابق بہار اسٹیٹ مدرسہ
ایجوکیشن بورڈ پٹنہ کے وسطانیہ کی سند کو سی بی ایس ای 8ویں ، فوقانیہ کو
10ویں اورمولوی کی سند کو12ویں کے مساوی تسلیم کیاگیا ۔ چھتیس گڑھ مدرسہ
بورڈ رائے پور اردو ادیب ، اردو ماہر ،اردو معلم ، ہائی اسکول مراسلاتی و
فاصلاتی کو رس کو 10ویں اورادیب ہائر سکنڈری کو 12ویں درجہ کے مساوی تسلیم
کیا گیا ۔ جہانتک مدھیہ پردیش کے مدرسہ بورڈ کا تعلق ہے تو اردو ماہر
اوراردو معلم کو 8ویں ، مولوی اورمادھیمک امتحان کو 10ویں اورعالم کو 12ویں
کے برابر مانا گیا ۔اسی طرح اترپردیش مدرسہ تعلیمی بورڈ کے منشی ومولوی کو
10ویں اورعالم کو 12ویں کے مساوی تسلیم کیا گیا ۔مگر بی ٹی سی تک میں اس کی
کوئی اہمیت نہیں ۔ گزشتہ چند دنوں قبل کی بات ہے کہ بی ٹی سی کا فارم بھرا
جارہاتھا ، مدارس کے ان فضلانے بھی فارم بھرے جنہوں نے مساوی ڈگریوں کی
بنیادپر اعلٰی یونیورسٹیوں سے گریجویشن کی ڈگری حاصل کی تھی ، کاؤنسلنگ کے
دوران اعلٰی نمبر ہونے کے باوجود انہیں ڈارپ کر دیاگیا کہ ہائی اسکول او
رانٹرمیڈیٹ کے لئے مدارس کی مساوی اسناد نا منظور ہیں ۔ لہذا کوئی منظور
شدہ سندلائیں یا واپس جائیں ۔جب اس کی اطلاع یوپی مدرسہ بورڈ کے ذمہ داران
کو دی گئی تو صاف لفظوں میں ان کا کہناتھا کہ ہمیں کیا مطلب ، متاثرین جائے
کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانے ، ہمیں حکومت نے کہاکہ اسنا د مساوی ہیں تو بس
مانتے ہیں کہ مساوی ہیں ۔
بورڈ کے ذمہ داران کی خودغرضی ، حکومت کے وعدوں کی دلفریبی ، طلباءسے
اساتذہ کی بے اعتنائی ، تعلیمی نظام کی زوال پذیری ، اساتذ ہ کی تقرری میں
جانبداری اورفعالیت کی نعرے بازی کے تناظر میں یہ کیسے کہا جاسکتاہے کہ
مزید بورڈ تشکیل دے کر مسلم نوجوانوں کی زندگی سے کھلواڑ کی جائے ۔ ان
ناگفتہ بہ حالات کے مدنظر یہ کہنے میں ذرابھی باک نہیں کہ مدرسہ بورڈ
مسلمانوں کے ہاتھوں محض ”لالی پاپ “ہے ،یعنی کچھ لے دے کر مسلم ذہین وفطین
طلباءکو تعلیمی اعتبار سے اپاہج کرنے کی سازش ہے ۔ |