فرائضِ اسلام

بقلم: مولانا طلحہ السیف حفظہ اللہ تعالی

ایمان کے بعدوہ احکام جو فرض کا درجہ رکھتے اور ان کی فرضیت کتاب اللہ سے ثابت ہے پانچ ہیں:
’’نماز، زکوٰۃ، روزہ، حج، جہاد فی سبیل اللہ‘‘

ان فرائض کے حوالے سے دو باتیں الگ الگ ملحوظ رکھی جائیں.
۱﴾ اعتقاد کے باب میں ان کی فرضیت ایک جیسی ہے. ان میں کوئی فرق نہیں۔
یعنی جس طرح نماز کو فرض ماننا ایمان کی بقائ کے لیے لازم اسی طرح زکوٰۃ، حج، روزہ، جہاد سب کو ایک ہی درجے میں فرض ماننا ضروری ہے. البتہ عمل کے باب میں یہ مختلف ہیں۔
ہر ایک کی اپنی شرائط ہیں.
کسی وقت عمل فرض ہوتا ہے کسی وقت نہیں.
کسی شخص پر عمل لازم ہوتا ہے اور کسی کو عمل سے رخصت ہے.
کوئی فرض عین ہے اور کوئی کبھی فرض عین کبھی فرض کفایہ.
یہی مطلب ہے ہماری جماعت کی ’’دعوتِ جہاد‘‘ کے بنیادی نکتے:
’’جہاد ﴿قتال﴾ فی سبیل اللہ نماز روزے کی طرح فرض ہے‘‘
کا.
کچھ لوگ سمجھتے نہیں اور کچھ سمجھ کر ضد کرتے ہیں اور ایک فضول بحث میں امت کو الجھاتے ہیں کہ نماز ہمیشہ فرض عین اور جہاد کبھی کفایہ کبھی عین تو یہ ایک دوسرے کی طرح کیونکر ہوئے؟.
تو جناب! بات ذہن نشین کر لیجئے۔ اعتقاد کے باب میں دونوں ایک جیسے ہیں اور ’’دعوتِ جہاد‘‘ کا پہلا مرحلہ اعتقاد کی درستگی کا ہے اور دوسرا عمل کا.
۲﴾ ان فرائض میں عمل کی کوتاہی اگرچہ اللہ تعالیٰ کو سخت ناراض کرنے والا عمل ہے اور ’’فسق‘‘ ہے مگر اہلسنت والجماعت کے نزدیک ایمان سے خارج نہیں کرتا.
تارک فرائض نافرمان ہے، اللہ تعالیٰ چاہیں تو اسے معاف فرمائیں چاہیں تو عذاب دیں.
مگر اعتقاد کی کوتاہی ایمان سے ہی خارج کر دیتی ہے.
اس لیے ’’منکر فریضہ‘‘ اہلسنت کے نزدیک مومن نہیں. اگرچہ عمل بھی درست رکھتا ہو.
پانچ وقت کی باجماعت نماز پڑھنے والا اگر فرضیت کا منکر ہو تو مومن نہیں.
اور نماز نہ پڑھنے والا اگر فرضیت کا معتقد ہے تو جیسا تیسا ہی سہی بہرحال مومن ہے.
اسلئے اپنے دل کو خوب اچھی طرح جانچ لیں کہ ہر فریضے سے متعلق ایمان و اعتقاد درست ہے یا نہیں؟.
اور اس باب میں زیادہ تر کوتاہی ’’جہاد‘‘ سے متعلق ہی پھیلی ہوئی ہے.
حضرات ائمہ کرام نے ’’جاحد جہاد‘‘ یعنی جہاد کی فرضیت کے منکر کو ’’کافر‘‘ کہا ہے.
یہ بات ہر مسلمان اچھی طرح اپنے دل میں بٹھا لے. بسا لے اور جما لے.
آئیے! اب ان فرائض اسلام کا مختصر تعارف پڑھتے ہیں۔
۱﴾ نماز.
الصلوٰۃ الصلوٰۃ.
اسلام کا پہلا فریضہ اور نبی کریم کی آخری وصیت.
اقیموا الصلوٰۃ. نماز قائم کرو.
صرف پڑھنا نہیں بلکہ حقوق کے ساتھ قائم کرنا لازم قرار دیا گیا.
ایمان کے بعد فرض کی جانے والی سب سے پہلی عبادت ایمان کا پہلا امتحان ہے.
لا الہ الا اللہ کہا. کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہیں.
ہاں صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت.
اگر عبادت ادب کا نام ہے تو نماز سراپا ادب.
ابتدائ ہی ’’تکبیر‘‘ سے. اللہ تعالیٰ کی مطلق بڑائی کا اعلان.
پھر ہاتھ باندھ کر خشوع والا قیام.
نظریں جھکی ہوئیں اور دل لرزاں و ترساں.
پھر رکوع اور پھر عاجزی کی انتہائ سجدہ.
تسبیح، تحمید، دعائ. سب ادب ہی ادب.
عبادت عشق و محبت کا نام ہے.
تو نماز اس کی بہترین عملی تصویر.
محبوب نے بلایا. صبح جب سو رہے تھے.
دوپہر کو جب کاروبار گرم تھا.
سہ پہر جب کام سمیٹنے کا مرحلہ درپیش تھا.
شام جب گھر لوٹے تھے اور بیوی بچوں سے مشغول تھے.
رات جب سونے کی تیاری تھی.
مگر عاشق کسی بات کو بھی خاطر میں نہیں لائے اور دوڑے چلے آئے.
اور پھر ایک عاشقانہ ادا کے ساتھ محبوب سے ہمکلام.
ایمان بندگی یعنی غلامی کا اقرار تو نماز اس غلامی کا عملی اظہار.
کہ ہر مرغوب کو ترک کرکے آقا کے حکم کی پیروی اور غلاموں جیسے اطوار کا اختیار.
کبھی با ادب کھڑے ہیں اور کبھی زمین پر جھکے ہیں.
موضوع بہت طویل ہے. نماز پر بات سمیٹنی مشکل ہے. پھر ہوتی رہے گی ا نشائ اللہ.
خلاصہ یہ کہ بندگی کے مراحل کی عملی تکمیل کا نام ’’نماز‘‘ ہے اور اسی کے لیے دن میں پانچ بار بلایا جاتا ہے.
۲﴾ روزہ.
بندگی مکمل نہیں ہوتی اگر آقا کی خاطر مرغوبات کی قربانی نہ ہو.
عشق مکمل نہیں ہوتا اگر محبوب کی خاطر بھوکا پیاسا رہنا نہ ہو.
ہم بندے ہیں اور عاشق.
اس لیے حکم ہے کہ عملی مثال پیش کریں اور سال میں ایک ماہ آقا و محبوب کی خاطر نفس کشی کریں.
صبح سے شام تک کھانا پینا اور شہوت رانی ترک کریں.
اور یہ کام ہم پر فرض کیا گیا ہے. کتب علیکم الصیام. روزہ تم پر فرض کر دیا گیا.
یہ بھی ہماری بندگی کا امتحان ہے کہ ہم جس آقا و مالک کا رزق کھاتے ہیں اسکے حکم پر اسے کبھی کبھار ترک بھی کر دیتے ہیں.
اور ادھر سے مہربانی دیکھئے.
ایک ماہ کی ہلکی سی آزمائش. مگر آزمائش کے ان دنوں اعمال کی اجرت یعنی ثواب ستر گنا زیادہ.
دنیا میں ایک دن چند فیصد بونس ملنے والا ہو تو سارا دن کھانے پینے اور بیوی کا خیال بھی پاس نہ پھٹکے.
اور یہاں ہر دن ستر گنا اجر و ثواب. زندگی بھر برکتیں. سال بھر رحمتیں.
سبحان اللہ.
۳﴾ زکوٰۃ.
دنیا کا اصول ہے کہ غلام مال کا مالک نہیں ہوتا. جو کماتا ہے اس کے مالک کا ہوتا ہے.
مگر مالک حقیقی کی مہربانی اور بے پایاں لطف و کرم دیکھئے کہ بندے جو کمائیں وہ ان کا.
کھیت سے جو نکالیں وہ بھی ان کا.
جانور بھی ان کے اور سونا چاندی بھی.
بس اظہار عبدیت کے لیے تھوڑا سا مال. صرف ڈھائی فیصد سال میں اُس مالک حقیقی کے نام پر دے دو. جس کا حق یہ تھا کہ وہ سارا لے لیتا.
دل کی خوشی سے احسان مند ہو کر دے دیا. سارا مال پاک ہو گیا اور مالک بھی راضی.
اور نہ دیا توبندگی نہ رہی. سب کچھ ناپاک ہو گیا اور وبال بن گیا.
اور ہاں! دل کو غیر کی محبت سے پاک بھی تو رکھنا ہے. اگر مال نہ نکلوایا جائے تو دل اسکی محبت کی آماجگاہ بن کر عشق حقیقی سے محروم ہو جائے گا. العیاذ باللہ
کتنا گھاٹے کا سودا ہے. ایک فانی کی محبت پر حقیقی محبت کی قربانی. ہرگز نہیں.
یوں عاشق کے اپنے فائدے کے لیے ’’ اتوالزکوٰۃ‘‘ ﴿زکوٰۃ اد اکرو﴾ کا حکم.
تاکہ عشق بھی کھوٹا نہ ہو اور بندگی بھی کہ ان دونوں کے بغیر تو انسان، انسان رہتا ہی نہیں.
جانوروں سے بھی گر جاتا ہے.
۴﴾ حج.
وللّٰہ علی الناس حج البیت ﴿اور اللہ کے لیے اس کے بندوں پر حج لازم ہے بیت اللہ کا﴾
کونسا عاشق ہے جسے محبوب کے گھر کے دیوانہ وار چکر اچھے نہیں لگتے؟.
کونسی محبت پراگندہ بالی، پریشان حالی اور اضطراب کے بغیر کمال کو پہنچتی ہے؟.
کون سا غلام ہے جسے آقا کے در پر پڑے رہنا اچھا نہیں لگتا؟.
محبوب کی خاطر زیب و زینت، آرام و آسائش اور مرغوبات کا ترک کرنا. گھر بار چھوڑ کر نکل جانا. یہ سب لوازم محبت ہیں.
تو محبوب حقیقی کیوں نہ پسند کریں گے کہ اپنے بندوں کو یوں دیکھیں.
تبھی فرض فرما دیا کہ ایک بار اپنے گھر سے ان کے گھر آئو.
زیب و زینت ترک کرکے آئو.
کار، کوٹھی، آرام و راحت چھوڑ کر مسافرت اور مشقت اختیار کرو.
دیوانہ وار گھر کے اردگرد پھرو. جگہ جگہ بیٹھ کر مانگو.
اور پراگندگی اختیار کرو.
اس کا نام حج ہے اور صحیح کیفیات کے ساتھ ادا ہو جائے تو مالک کی رضا پکی.
۵﴾ جہاد.
اپنے مالک کی خاطر غیرت کرنا. اس کے مال و متاع کی حفاظت کرنا.
اسکی خاطر قربانی پیش کرنا. وقت آنے پر خوشی سے جان وار دینا. اور اپنے مالک کے کام کو سربلند رکھنے کی محنت کرنا. ایک اچھے غلام کی صفات ہیں. اور جو غلام ان صفات سے خالی ہو.
کہ مالک کا کھائے مگر اس کی خاطر جان کی قربانی کے وقت بھاگ کھڑا ہو.
اس غلام کو دنیا میں کیا کہتے ہیں؟. سب کو معلوم ہے.
نمک حرام. نکما. وغیرہ وغیرہ.
جب ہم نے اقرار کیا کہ ہم تو بندے ہیں. محض غلام.
تو کیا یہ حکم الگ سے دئیے جانے کی حاجت تھی کہ ہمیں اپنے مالک حقیقی کے نام کی حرمت.
دین کی حرمت. اور شعائر کی حرمت پر مر مٹنے کو بھی تیار رہنا ہوگا؟.
یہ بات تو فطرت کے تقاضے کے طور پر لازم ہو گئی تھی. مگر پھر بھی حکم دیا گیا.
اور ایک بار نہیں اتنی بار دیا گیا کہ آج تک گنتی جاری ہے.
تعداد چھ سو کے لگ بھگ ہو گئی ہے.
جاہدوا. قاتلوا. انفروا.
یوں تو ہر عبادت کی حکمتوں کے کئی پہلو ہیں مگر نماز اور جہاد پر بات ہو تو سمیٹنا مشکل ہو جاتا ہے.
ایک مضمون میں احاطہ مشکل ہی نہیں ناممکن لگتا ہے.
آج اتنی بات کہ ’’جہاد‘‘ بندگی اور غلامی کا فطری تقاضہ ہے. انسان اگر صحیح فطرت پر ہو تو اسے کبھی اعراض کی ہمت نہ ہو. باقی بات انشائ اللہ آئندہ کبھی.
کہ جہاد ایمان کی کسوٹی ہے. ایمان کا امتحان ہے. محبت کا امتحان ہے. نصرت کا امتحان ہے. دین اسلام کے غلبے کا ذریعہ ہے. اسلام کی عزت و سربلندی کا راستہ ہے. شعائرِ اسلام کی حفاظت و حرمت اسی کے دم سے ہے.
اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ رضا ئے مولیٰ کے حصول کا سب سے مختصر راستہ ہے.
usama hammad
About the Author: usama hammad Read More Articles by usama hammad: 22 Articles with 45864 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.