کرپشن کی ماں کب مرے گی۔۔۔؟

65 سال ہو گئے ہیں ہمارے ملک کو معرض وجود میں آئے ہوئے۔ ان 65 سالوں میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا کا موازنہ اگرکیا جائے تو ہمیں پانے سے کہیں زیادہ کھونا ملے گا۔یہاں تک کہ ہم نے اس ملک کا ایک حصہ بھی کھو دیا تھا اور وہ بھی صرف ایک آدمی کی ضد، انا اور اقتدار کی حوس میںجس نے کہا تھا کہ تم اُدھر کے اور ہم اِدھر کے۔۔۔اور اب اُسی شخص کے حواری ایک بار پھر اس ملک پر قابض ہیںاور کوشش کر رہے ہیں کہ اس ملک کے بقیہ حصوں کو بھی بانٹ دیا جائے۔۔۔

کرپٹ ترین حکمران ہر محکمے کو دیمک کی طرح چاٹ کر کھوکھلا کر چکے ہیں۔ کرپشن کی جڑیں اس قدر مضبوط ہیں کہ ان کو اکھاڑنا مشکل ہی نہیں نا ممکن نظر آتا ہے۔ کرپشن کی انتہا شائد ہی اس سے پہلے کبھی دیکھی گئی ہو۔ایک ایشو پر بات ابھی ختم نہیں ہوتی تو دوسرا ایشو سر اُٹھا کر پوری قوم کا مُنہ چڑا رہا ہوتا ہے۔اور بات ذرا آگے بڑھتی ہے تو اس میں بڑے بڑے پارسا اور فرشتہ صفت لوگ بھی ملوث پائے جاتے ہیں۔ صحافی، بیوروکریٹس،سیاست دان، فوج۔۔۔ یعنی حمام میں سب کے سب ننگے ہوتے ہیں اور بہتی گنگا میں ڈبکیاں لگا رہے ہوتے ہیں۔ان سب کی ڈور کسی نہ کسی طاقتور آدمی کے ہاتھ میں ہوتی ہے جو ان سب کو اپنی انگلیوں کے اشاروں پر نچا رہا ہوتا ہے۔جس کسی کی اُس طاقتور آدمی تک پہنچ نہیں ہوتی دل تواُس کا بھی للچا رہا ہوتا ہے مگر زبان کچھ اور بول رہی ہوتی ہے۔مطلب یہ کہ جس کا ہاتھ انگوروں کے گچھے تک پہنچ جائے وہ انگور توڑ لیتا ہے اور جس کا ہاتھ نہیں پہنچتا وہ شور مچانا شروع کر دیتا ہے کہ۔۔ انگور کھٹے ہیں۔۔ انگور کھٹے ہیں۔۔۔

ہر بڑے آدمی کا کسی نہ کسی سکینڈل سے تعلق ضرور ہوتا ہے اگر اُس کا نہیں ہوتا تو کم از کم اُس کی اولاد نے ضرور گل کھلائے ہوتے ہیں۔کبھی حاجیوں کو لوٹنا تو کبھی نشہ آور کیمیکل امپورٹ کرنا،بنکوں سے قرضے معاف کروانا تو کبھی سٹیل مل کو برباد کر دینا،ریلوے اور پی آئی اے کا کباڑہ، این ای سی ایل وغیرہ وغیرہ۔۔ چند ایک کرپشن کی مثالیں ہیں۔اور یہ کرپشن کرنے والے کوئی معمولی انسان نہیں ہیں اور نہ ہی کسی عام آدمی کا یہ کام ہو سکتا ہے کیونکہ بڑی کرپشن کرنے کے لیئے حیثیت بھی بڑی ہونی چاہیئے یعنی کسی بڑے عہدے پر فائز ہونا یا پھر کسی بڑے باپ کا بیٹا ہونا۔۔۔

ڈاکٹر ارسلان افتخار بھی ایک بڑے باپ کا بیٹا ہے اور اگر اُس نے دیگر بڑے باپ کے بیٹوں کی طرح کرپشن سے کچھ ہاتھ رنگ لیئے ہیں تو اس سے کون سی ایسی قیامت ٹوٹ پڑی ہے۔آخر اُس کا بھی کوئی سٹیٹس ہے۔اُس کے بھی بڑے بڑے لوگوں سے رابطے ہیں۔اُسے بھی دولت چاہیئے۔ اُسے بھی عیش و آرام کی زندگی جینے کا حق ہے۔اگر کرپشن کرنا جرم ہے تو وہ سب کے لیئے جرم ہے صرف چیف جسٹس کے بیٹے کے لیئے ہی کیوں جرم ہو!!! رشوت لینے والا اور رشوت دینے دونوں جہنمی ہیں تو پھر صرف رشوت لینے والے کو ہی کیوں تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے؟؟؟۔۔اور اگر رشوت دینے والے نے رشوت دی ہے تو پھر رشوت دینے والے کا مقصد کیوں نہیں پورا ہو سکا؟؟؟۔۔ اس پراپیگنڈے کے پیچھے کون سا اہم مقصد چھپا یہ تو تحقیقات کے بعد ہی پتا چل سکتا ہے۔لیکن ایک بات طے ہے کہ اس ملک میں طاقت ور آدمی اپنی طاقت یعنی دولت کے بل بوتے پر کچھ بھی کر سکتا ہے۔ جس کو چاہے بدنام کر سکتا ہے۔ جس کو چاہے پھنسا سکتا ہے۔ڈاکٹر ارسلان کیس میں بھی کچھ ایسا ہی دکھائی دیتا ہے کہ ڈاکٹر ارسلان کے ذریع سے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو بدنام کیا جا رہا ہے۔اور ہو سکتا ہے ملک ریاض کی ڈور بھی کسی تیسری قوت کے ہاتھ میں ہو جو ملک ریاض سے بھی زیادہ طاقتور ہے اور وہ اپنے کسی خاص مقصد کے لیئے اُس کو استعمال کر رہا ہے۔یعنی کرپشن کی ماں کوئی اور ہے۔یہ کرپشن اُس وقت تک ختم نہیں ہو سکتی جب تک کرپشن کی ماں کو ختم نہ کیا جائے۔کیونکہ جب تک ماں زندہ رہے گی تب تک اُس کے بچے پیدا ہوتے رہیں گے اور اس ملک کا بیڑا غرق کرتے رہیں گے اس لیئے بہتر یہی ہے کہ ایک ایک کر کے بچوں کو مارنے کی بجائے ایک ہی بار کرپشن کی ماں کو ہی مار دیا جائے تاکہ اُس کے بعد مزید کرپٹ بچے پیدا نہ ہو سکیں۔
Ahmad Raza
About the Author: Ahmad Raza Read More Articles by Ahmad Raza: 96 Articles with 100487 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.