سفرمعراج اور اہم مناظر

تحریر: سید محمد بن علوی مالکی علیہ الرحمہ / ترجمہ: مولانا مظہر حسین علیمی،ممبئی ،انڈیا۔

سفر معراج امام الانبیاء حضرت محمدصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے معجزات میں سے ایک اہم معجزہ ہے ۔آپ نے رات کے نہایت مختصر سے حصے میں مسجد حرام سے مسجداقصی تک پھر وہاں سے ساتوں آسمان ،جنت ودوزخ وغیرہ کی سیرفرمائی ۔اسی موقع پرآپ نے اپنے ماتھے کی آنکھوں سے اپنے رب کادیدارکیا۔اس مبار ک سفر میں آپ نے جن اہم مناظر کامشاہدہ کیا،اسے ملاحظہ کریں۔

جنات کافرارہونا
رسولِ رحمت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی مبارک سواری مختلف مقامات ومناظر سے گزرتی ہے۔ جب آپ براق پر سیر کررہے تھے تو آپ نے ایک جنات کو دیکھا جو آپ کو آگ کا ایک شعلہ دکھا رہاتھا جب جب حضور اس کی طرف متوجہ ہوتے جنات آپ کوآگ کاشعلہ دکھاتا۔ حضرت جبرئیل نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کیا میں آپ کو ایسے کلمات نہ بتاؤں کہ جب آپ وہ کلمات پڑھیں تو اس کا شعلہ بجھ جائے اور وہ منہ کے بل گر پڑے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :ضرور بتائیے۔ حضرت جبرئیل نے درج ذیل کلمات سکھائے:
اَعُوْذُ بِوَجْہِ اللّٰہِ الْکَرِیْمِ، وَبِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّآمَّآتِ الَّتِیْ لَاَیُجَاوِزُھُنَّ بَرٌّ وَّلَاَ فَاجِرٌ مِنْ شَرِّ مَا یَنْزِلُ مِنَ السَّمَآءِ وَمِنْ شَرِّمَا یَعْرُجُ فِیْھَا، وَمِنْ شَرِّمَا ذَرَأ فِیْ الْاَرْضِ، وَمِنْ شَرِّمَا یَخْرُجُ مِنْھَا، وَمِنْ فِتَنِ الَّلیْلِ وَالنَّھَارِ، وَمِنْ طَوَارِقِ اللَّیْلِ وَالنَّھَارِ اِلَّا طَارِقًا یَّطْرِقُ بِخَیْرٍ یَارَحْمٰنُ۔
(ترجمہ:میں اللہ کریم کی پناہ میں آتاہوں اور اللہ کے کامل کلمات کی پناہ میں جن سے نہ کوئی نیک تجاوزکرسکتاہے اور نہ فاسق ، اس شر سے جوآسمان سے اترتاہے اور اس شر سے جوآسمان کی طرف بلندہوتاہے ،اس شرسے جوزمین میں پیداہوا،اس شر سے جوزمین سے نکلتاہے اور شب وروزکے فتنوں سے ،اور رات اور دن کے آنے والوںسے،البتہ جورات کوخیر سے آئے۔اے رحمت فرمانے والے۔)
جوں ہی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ کلمات ادا فرمائے جنات منھ کے بل گر کر ہلاک ہوگیا اور اس کا شعلہ بھی بجھ گیا۔

مجاہدین کامقام
چلتے چلتے آپ کا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جو ایک دن فصل بوتی اور دوسرے دن کاٹ لیتی اورجیسے ہی فصل کاٹتی وہ دوبارہ پہلے کی طرف لہلہانے لگتی۔ حضور نے فرمایا: یَا جِبْرَئِیْلُ مَاہٰذَا؟ اے جبرئیل یہ کیا معاملہ ہے؟ جواب دیا کہ یہ اللہ کی راہ میں جہاد ومحنت کرتے تھے ان کی نیکیاں نو سو گنا بڑھا دی گئی ہیں اور جو کچھ انہوں نے خرچ کیا وہ ذخیرہ ہوگیا ہے۔

یہ خوش بو کیسی ہے
پھر آپ نے ایک خوشبو پائی، پوچھا کہ جبرئیل! یہ خوشبو کیسی ہے؟ عرض کیا یہ فرعون کی بیٹی کی مشاطہ (کنگھی کرنے والی )اوراس کے اولاد کی خوشبو ہے۔ ایک دن یہ خادمہ فرعون کی بیٹی کو کنگھی کررہی تھی توکنگھی ہاتھ سے گر گئی، اس نے اٹھاتے ہوئے کہا: بِسْمِ اللّٰہِ تَعْسَ فِرْعَوْنُ ( اللہ کے نام سے فرعون کی بربادی ہو)۔ فرعون کی بیٹی نے کہا کیا میرے والد کے سوا تیرا رب ہے؟ اس نے کہا ہاں! فرعون کو اس بات کی خبر دی گئی اس نے خادمہ کو بلایا اور پوچھا: اَوَلَکِ رَبٌّ غَیْرِیْ؟ (کیا میرے علاوہ تیرا کوئی اور رب ہے؟) خادمہ بولی: رَبِّیْ وَرَبُّکَ اللّٰہُ ( میرا اور تیرا رب اللہ ہے)۔ اس خاتون کے دو بیٹے اور شوہر تھا، ان تک حکم بھیجا اور اپنے دین سے پھر جانے کو کہا۔ ان سب نے انکار کردیا۔ فرعون نے کہا میں تم دونوں کو قتل کردوں گا۔ خادمہ بولی: تو اگرہم سب کو قتل کرکے ایک ہی قبر میں دفن کردے تو تیرا احسان ہوگا( مگر ہم دین نہیں چھوڑیں گے)فرعون بولا ایسا ہی ہوگا اب ہم پر تیرا کوئی حق نہیں رہا۔ فرعون کے حکم پر تانبے کی دیگ بنائی گئی پھر اسے (تیل اور پانی سے) خوب گرم کیا گیا پھر اس کے حکم پر یکے بعد دیگرے انہیں ڈالا گیا جب سب سے چھوٹے بچے کو ڈالا جانے لگا تو اس نے اپنی ماں سے مخاطب ہوکر کہا: یَا اَمَّاہُ قَعِیْ وَلَا تَتَقَاعِسِیْ فَاِنَّکِ عَلیٰ الْحَقِّ،( اے میری ماں!اس میں جلدی آؤ تاخیر نہ کرو کیوں کہ آپ حق پر ہیں)۔

بے نمازی کاانجام
اس کے بعد آپ کا گزر ایسے لوگوں پر ہوا جن کے سر توڑے جارہے تھے جب سر کچل دیے جاتے تو پھر ان کے سر اصلی حالت پر آجاتے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے جبرئیل! یہ کون لوگ ہیں؟ حضرت جبرئیل بولے: یہ وہ لوگ ہیں جن کے سر فرض نمازوں سے بوجھل رہتے تھے۔ (یعنی نماز نہیں پڑھتے تھے)

پھر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا گزر ایسے لوگوں پر ہوا جن کے آگے کے مقام پر بوسیدہ کپڑا تھا اور ان کے پیچھے کے مقام پر بھی بوسیدہ کپڑا تھا۔ (یعنی صرف قبل اور دُبر چھپے ہوئے تھے) وہ اونٹوں اور بکریوں کی طرح چرتے ہیں اور ضَرِیْع (ایک قسم کا کانٹا) تھوہڑ کا درخت اور جہنم کے انگارے اور پتھر کھارہے تھے۔ حضور نے دریافت کیا جبرئیل یہ کون لوگ ہیں؟ حضرت جبرئیل بولے: یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے مالوں کا صدقہ نہیں نکالتے تھے اور اللہ کی شان یہ ہے کہ وہ کسی پر ظلم نہیں کرتا۔

زانی کی سزا
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایسے لوگوں کے پاس سے ہوا جن کے سامنے ہانڈیوں میں حلال وپاکیزہ گوشت تھا اور دوسرا گوشت حرام وخبیث تھا وہ حلال گوشت کو چھوڑ کر حرام وخبیث گوشت کھانے لگے۔ حضور نے دریافت فرمایا: جبرئیل!یہ کیا معاملہ ہے؟حضرت جبرئیل بولے: یہ آپ کی اُمت کا وہ مرد ہے جس کے پاس حلال وپاک بیوی تھی پھر بھی حرام عورت کے ساتھ رات گزارتا تھا اور وہ عورت ہے جس کے پاس حلال وپاک شوہر تھا پھر بھی وہ حرام شخص کے پاس رات گزارتی تھی۔

راہ کاٹنے والے کی سزا
پھر آپ کا گزر ایک ایسی لکڑی کے پاس سے ہوا جس کے قریب سے جو بھی کپڑا یا کوئی اور چیز گزرتی وہ لکڑی اسے پھاڑ ڈالتی۔ حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: جبرئیل! یہ کیا معاملہ ہے؟ حضرت جبرئیل بولے: یہ آپ کی اُمت کے ان لوگوں کی مثال ہے جو راستے پر بیٹھتے ہیں اور راستہ روکتے ہیں۔ پھر آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: وَلَا تَقْعُدُوْا بِکُلِّ صِرَاطٍ تُوْعِدُوْنَ وَتَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ (اعراف: ٨٦)
(ترجمہ:اور ہر راستے پر راہ گیروں کوڈرانے اور اللہ کی راہ سے روکنے کے لیے نہ بیٹھو)

سودخورکاہولناک انجام
آپ نے اس سفر میں ایک ایسے مرد کو دیکھا جو خون کی نہر میں تیر رہا ہے اس کے منہ میں پتھر کا لقمہ ڈالا جاتا ہے۔ حضور نے دریافت فرمایا کہ جبرئیل! یہ کیا معاملہ ہے؟ حضرت جبرئیل بولے یہ سود خور کی مثال ہے۔

خائن کی سزا
پھر آپ ایک شخص کے پاس سے گزرے جو لکڑیوں کا گٹھا جمع کےے ہوئے ہے، وہ اسے اُٹھا نہیں پاتا اور زائد لکڑیاں جمع کرتا رہتا ہے۔ حضور نے پوچھا یہ کیا معاملہ ہے؟ حضرت جبرئیل امین نے عرض کیا یہ آپ کی اُمت کا وہ شخص ہے جس کے پاس لوگوں کی امانتیں ہوتی تھیں وہ ان کی ادائیگی پر قدرت نہیں رکھتا تھا اور اس کی خواہش رہتی تھی کہ اور امانتیں لے۔

فتنہ پرورمقررین کی سزا
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جن کی زبانیں اور ہونٹ لوہے کی قینچیوں سے کاٹے جارہے ہیں،ایک مرتبہ کاٹ دیے جاتے تودوبارہ وہ اپنی اصلی حالت پر ہوجاتے اور اس میں کوئی کمی نہیں کی جاتی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا: مَنْ ہٰؤلَاَءِ یَا جِبْرِیْلُ۔( اے جبرئیل یہ کون لوگ ہیں)؟ حضرت جبرئیل بولے:
ہٰؤُلَآءِ خُطَبَآءُ الْفِتْنَۃِ مِنْ اُمَّتِکَ، یَقُوْلُوْنَ مَا لَاَیَفْعَلُوْنَ۔
( یہ آپ کی اُمت کے فتنہ پرور علما ہیں یہ جو کہتے تھے اس پر عمل نہیں کرتے تھے)۔

غیبت کی سزا
اس کے بعد آپ کا گزر ایسے اشخاص پر ہوا جن کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ لوگ ان سے اپنے چہرے اور سینے نوچ رہے تھے، دریافت فرمایا: جبرئیل امین!یہ کون لوگ ہیں؟ حضرت جبرئیل امین بولے: ہٰؤُلَاَءِ الَّذِیْنَ یَأکُلُوْنَ لُحُوْمَ النَّاسِ وَیَقَعُوْنَ فِیْ اَعْرَاضِھِمْ( یہ وہ ہیں جو لوگوں کا گوشت کھاتے اور ان کی عزتوں کو پامال کرتے تھے)۔

بدگوکی مثال
پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک چھوٹے سوراخ پرپہنچے جس سے ایک بہت بڑا بیل نکلا، اب وہ بیل اس میں دوبارہ داخل ہونے کی کوشش کرنے لگا لیکن داخل نہ ہوسکا۔ حضور نے دریافت کیا:اے جبرئیل! یہ کیا معاملہ ہے؟ جبرئیل علیہ الصلوٰۃ والسلام بولے: یہ آپ کی اُمت کا وہ شخص ہے جس نے کوئی بڑی بات کہہ دی پھر نادم ہوکر اسے واپس لینا چاہتا ہے لیکن واپس نہیں لے سکتا۔
(محمدبن یوسف شامی کی روایت میں اتنااضافہ ہے)

جنت کی نفیس خوش بو
پھر حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم ایک وادی سے گزرے، وہاں مشک کی طرح نفیس وعمدہ خوشبو ملی اور ایک آواز بھی سنی۔ دریافت فرمایا: یہ کیا ہے؟ حضرت جبرئیل نے بتایا کہ جنت کی آواز ہے جو کہہ رہی ہے: اے رب میرے! مجھے وعدے کے مطابق عطا فرما، اس لےے کہ میرے پاس بالاخانے، اِستبرق، ریشم ، سندنس، دیباج،موتی، مونگے، چاندی، سونا، پیالے،پلیٹیں، بڑے پیالے، سواریاں، شہد، پانی، دودھ اور شراب بہت زیادہ ہیں۔ رب العزت جل جلالہ نے ارشاد فرمایا:ہر مسلمان اور ہر مومن مرد وعورت، جو مجھ پر اور میرے رسولوں پر ایمان لائے ، نیک اعمال کیے، میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا، نہ ہی میرے سوا کسی کو اپنا معبود بنایا یہ سب تیرے لےے ہیں۔ جو شخص مجھ سے ڈر گیا وہ مامون ومحفوظ ہوگیا، جس نے مجھ سے مانگا میں نے اسے عطاکیا، جس نے مجھے قرض دیا میں نے اس کا بدلہ دیا، جس نے مجھ پر بھروسہ کیا میں اس کے لےے کافی ہوں۔ میں ہی اللہ ہوں میرے سوا کوئی معبود نہیں، میں وعدہ خلافی نہیں کرتا،اہل ایمان فلاح پاگئے،بزرگ وبرتر ہے اللہ کی ذات سب سے اچھا پیدا فرمانے والا،یہ سن کر جنت بولی: میں اس پر خوش ہوں۔

جہنم کی بدبو
پھر آپ کا گزر ایک اور وادی سے ہوا آپ نے اس کی بری آواز کو سنا اور وہاں بدبو تھی۔ دریافت فرمایا: جبرئیل! یہ کیا ہے؟ حضرت جبرئیل بولے: یہ جہنم کی آواز ہے، وہ کہہ رہی ہے اے میرے رب! مجھے وعدے کے مطابق عطا فرما، اس لےے کہ میری زنجیریں، ہتھکڑیاں، آگ کی لپٹیں، گرمیاں، کانٹے اور عذاب بہت زیادہ ہیں۔ میری گہرائی بہت زیادہ ہے، میری گرمی بہت سخت ہے لہٰذا تو مجھے وعدے کے مطابق عطا فرما۔ رب ذوالجلال نے ارشاد فرمایا: ہر مشرک و کافراورخبیث مرد وعورت اور ہر وہ متکبر تیرے لےے ہے جو روزِ قیامت پر ایمان نہ لایا۔ (یہ سن کر) جہنم نے کہا میں اس پر راضی ہوں۔

انبیااور ملائکہ کی امامت
پھر آپ آگے بڑھے، یہاں تک کہ شہر بیت المقدس جا پہنچے، اس کے بابِ یمانی سے داخل ہوئے، براق سے اُترے اوراسے مسجد کے دروازے کے اُس حلقے سے باندھ دیا جس سے انبیاے کرام اپنی سواریاں باندھا کرتے تھے۔

ایک روایت میں ہے کہ حضرت جبرئیل مقامِ صخرہ پر تشریف لے گئے، آپ نے اپنی انگلی سے اس میں سوراخ کردیا اور اس سے براق کو باندھ دیا اور مسجد کے اُس دروازے سے داخل ہوئے جس میں سورج اور چاند مائل ہوتے ہیں۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت جبرئیل نے دو رکعت نماز پڑھی، تھوڑی ہی دیر میں بہت سے لوگ جمع ہوگئے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام انبیا کو پہچان لیا، کوئی حالت قیام میں کوئی حالت رکوع اور کوئی سجدے میں تھا۔ پھر موذن نے اذان کہی اور جماعت قائم ہوئی، تمام انبیاے کرام صف بستہ امام کے انتظار میں کھڑے ہوگئے، حضرت جبرئیل امین نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا دستِ مبارک پکڑا اور آپ کو آگے کردیا، حضور نے تمام انبیا(علیہم السلام) کو دو رکعت نماز پڑھائی۔
حضرت کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے اذان کہی، آسمان سے فرشتوں کا نزول ہوا، اللہ عزوجل نے تمام انبیا اور رسولوں کو آپ کے لیے جمع فرمایا پھر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرشتوں اور رسولوں کو نماز پڑھائی۔ جب آپ وہاں سے واپس ہوئے، حضرت جبرئیل نے پوچھا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! آپ کو معلوم ہے کہ آپ کے پیچھے نماز پڑھنے والے لوگ کون تھے؟ حضور نے فرمایا: نہیں۔ جبرئیل بولے: کُلُّ نَبِیّ بَعَثَہ، اللّٰہ، تَعالیٰ (سب کے سب نبی تھے اللہ نے انہیں بھیجا تھا)۔

انبیائے کرام کے خطابات
علامہ محمدبن یوسف شامی صاحبِ سبل الہدیٰ والرشاد نے یہ اضافہ کیا ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث میں ہے کہ آپ نے ارواحِ انبیا سے ملاقات کی تو انہوں نے رب عزوجل کی تعریف وثنا بیان کی چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بولے:
تمام خوبیاں اس اللہ کے لیے جس نے مجھے اپنا خلیل بنایا، ملک عظیم عطا فرمایا، اور مجھے اُمت وسط بنایا جس کی پیروی کی جائے مجھے آگ سے بچایا اور اسے میرے لےے ٹھنڈی اور امن وسلامتی کا ذریعہ بنادیا۔پھر حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے رب تبارک وتعالیٰ کی حمد وثنا بیان کی۔

تمام خوبیاں اُس اللہ کے لیے جس نے مجھے شرف ہم کلامی سے نوازا، جس نے فرعون کی ہلاکت اور بنی اسرائیل کی نجات میرے ہاتھوں میں رکھی، اور میری قوم سے ایسے افراد بنائے جو حق کی اتباع کرتے ہیں اور حق کے ساتھ عدل کرتے ہیں۔

پھر حضرت داؤد علیہ السلام نے اپنے رب کی تعریف وتوصیف کرتے ہوئے فرمایا:
تمام تعریفات اس اللہ کے لےے جس نے میرے لےے عظیم الشان سلطنت بنائی، مجھے زبور کی تعلیم فرمائی۔ میرے لےے لوہے کو نرم فرمایا، میرے لےے پہاڑوں کو مسخر کردیا ،پہاڑ اور پرندے میرے ساتھ اللہ کی پاکی بولتے ہیں۔اس نے مجھے حکمت اورقولِ فیصل (علم قضاجوحق وباطل میں تمیزکردے۔مترجم ) عطا فرمایا۔

پھر حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنے رب کی اس انداز میں تعریف وتوصیف بیان کی۔

تمام خوبیاں اُس اللہ کے لیے جس نے ہواؤں کو میرے لےے مسخر فرمایا اور جس نے میرے لیے شیاطین ا وراِنسان کو مسخر فرمایا۔ وہ میرے لیے جومیں چاہتاہوں، اونچے اونچے محل، تصویریں اور بڑے حوضوں کے برابر لگن اور لنگر دار دیگیں بناتے ہیں۔ اور جس نے مجھے پرندوں کی بولی سکھائی اور اپنے فضل سے ہر شئے عطا فرمائی اور میرے لےے شیاطین، انس وجن اور پرندوں کی جماعت کو مسخرفرمادیا اور مجھے اپنے کثیر مومن بندوں پر فضیلت عطا فرمائی اور مجھے ایسی عظیم سلطنت عطا فرمائی کہ ویسی میرے بعد کسی کو نہ ملے گی اور میری سلطنت کوپاکیزہ سلطنت بنایاجس میں کوئی حساب اور سزانہیں۔
پھر حضرت عیسی ابن مریم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے رب کی تعریف کرتے ہوئے کہا:
تمام خوبیاں اُس اللہ کے لیے جس نے مجھے اپنا کلمہ بنایا اور میرا معاملہ حضرت آدم علیہ السلام جیسابنایا، انہیں اللہ نے مٹی سے پیدا فرمایا پھر ان سے'' کُنْ'' فرمایا اور مجھے کتاب وحکمت اور توریت وانجیل کا علم عطا فرمایا۔ مجھے ایسا بنایا کہ میں کوڑھیوں ا ور سفید داغ والوں کو صحیح کرتا ہوں اور حکمِ الٰہی سے مردوں کو زندہ کرتا ہوں، اس نے مجھے آسمان پر اٹھایا، مجھے پاک فرمایا اور مجھے اور میری والدہ کو شیطان مردود سے محفوظ رکھا چناںچہ شیطان مردود کو ہم پر قابو نہیں۔ (یہاں علامہ محمدبن یوسف شامی کے اضافے والی روایت مکمل ہوگئی)

پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آپ سب نے اپنے رب کی تعریف کرلی اور اب میں اپنے رب کی تعریف وتوصیف بیان کرتا ہوں پھر آپ نے حمد شروع فرمائی:
تمام خوبیاں اُس اللہ کے لیے جس نے مجھے رحمۃ للعالمین بنا کر مبعوث فرمایا، ساری انسانیت کے لےے بشیر ونذیر بنایا، مجھ پر قرآن نازل فرمایا جس میں ہر چیز کا روشن بیان موجود ہے اور میری اُمت کو خیرِ اُمت اور اُمتِ وسط بنایا۔ اور اولین وآخرین کو میری اُمت سے بنایا، میرے سینے کو کھول دیا، مجھ سے میرے بوجھ کو دور فرمادیا، میرے ذکر کو بلند فرمایا اور مجھے فاتح وخاتم بنایا۔ یہ سن کر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے (گروہِ انبیا کی طرف مخاطب ہوکر) فرمایا: اِنھیں اَسباب سے اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ سب پر فضیلت عطا فرمائی۔
(علامہ محمدبن یوسف شامی نے اضافہ کیا ہے)

قیامت کاتذکرہ
پھر حضرت انبیائے کرام کے مابین قیامت کا تذکرہ ہوا،سب نے اس معاملے کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف لوٹا دیا۔ آپ نے جواب دیا: لَاَ عِلْمَ لِیْ بِھَا مجھے اس بارے میں علم نہیں۔ پھر انبیا علیہم السلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے رجوع کیا انہوں نے بھی کہا کہ مجھے اس کے وقت کا علم نہیں۔ پھر سب نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف رجوع کیا تو آپ نے فرمایا: وقوعِ قیامت کا علم تو اللہ ہی کے پاس ہے مگر مجھ سے جن باتوں کا عہد لیا گیا ہے ان میں سے یہ بھی ہے کہ دجال قیامت سے پہلے آئے گا اُس وقت میرے ساتھ دو شاخیں ہوں گی جب وہ مجھے دیکھے گا سیسے کی طرح پگھلنا شروع ہوجائے گا۔ جوں ہی وہ مجھے دیکھے گا اللہ تعالیٰ اسے ہلاک کردے گا یہاں تک کہ ہر پتھر پکار کر کہے گا کہ اے مسلمان! فلاں کافر میرے نیچے چھپا ہوا ہے اسے پکڑ کر قتل کردے۔ پھر اللہ تعالیٰ تمام کفار کو ہلاک فرمادے گا پھر لوگ اپنے گھروں اور وطنوں کی طرف لوٹ آئیں گے۔

پھر یاجوج وماجوج نکلیں گے۔وہ شہروں میں داخل ہوجائیں گے جس چیز پر بھی گزریں گے اسے ہلاک وبرباد کردیں گے۔ تمام پانی پی جائیں گے، لوگ میرے پاس شکایت لے کر آئیں گے چناں چہ میں بارگاہ الٰہی میں ان کی ہلاکت کی دعا کروں گا تو اللہ تعالیٰ انہیں ہلاک فرمادے گا یہاں تک کہ زمین ان کی بدبو سے بھر جائے گی پھر رب تعالیٰ بارش نازل فرمائے گا تو بارش ان کے جسموں کو بہا کر سمندر میں پھینک دے گی۔ میرے رب نے مجھ سے یہ عہد بھی لیا ہے کہ جب یہ معاملات رونما ہوجائیں گے تو قیامت اِس طرح قریب آجائے گی جیسے وہ حاملہ جس نے اپنے ایام حمل پورے کرلیے ہوںاور اسے علم نہ ہو کہ ولادت صبح کو ہوجائے گی یا شام کو۔ (شامی کا اضافہ ختم ہوا)

اس موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو شدت کی پیاس محسوس ہوئی، تو حضرت جبرئیل امین ایک برتن میں شراب اور ایک برتن میں دودھ لے کر آئے،لیکن آپ نے دودھ کو اختیار فرمایا۔یہ دیکھ کر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ آپ نے فطرت کو اختیار فرمایا۔
Mazhar HUsain Aleemi
About the Author: Mazhar HUsain Aleemi Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.