پاکستان .... تبدیلی کی شاہراہ پر

اوریا مقبول جان ہمارے ملک کے ممتازدانشور،دیانتدار بیوروکریٹ اورنامور کالم نگار ہیں،اللہ نے ان کو تحریر و تقریر کا ملکہ عطا کیا ہے،یہ پنجاب یونیورسٹی سے سوشل ورک میں ایم اے کرنے کے بعد 1970 میں فاﺅنٹین ہاﺅس لاہور میں ملازم ہوئے پھر اقوامِ متحدہ کے ایک تحقیقی پروجیکٹ میں کام کیا،1980میں بلوچستان یونیورسٹی میں تدریسی فرائض انجام دینا شروع کیا،وہاں کچھ عرصہ گزار کر 1984میں سول سروس کے لیے پاکستان سول سروس اکیڈمی چلے آئے،ٹریننگ کے بعد انہوں نے خود بلوچستان میں ملازمت کو ترجیح دی اور2004تک یہ بلوچستان میں ہی مقیم رہے،دوعشروں سے زیادہ عرصہ بلوچستان کے مختلف محکموں میں بِتاکربعدمیں وہاں سے وہ پنجاب حکومت کے” زیرِ دام “آگئے ،اس کے بعد انہیں ایک بین الاقوامی ادارے میں جاب مل گئی ،چنانچہ وہ اسی لیے ایران جاٹھہرے،اس دوران وہ مستقل اخبارات میں کالم لکھتے رہے،ایران سے پرویز مشرف نے آوازِ حق بلند کرنے کی پاداش میں انہیں پاکستان واپس پلوالیا،یوں وہ وفاقی حکومت کے ماتحت آگئے ،آج کل یہ پنجاب حکومت کے ساتھ اپنے شب و روز گزار رہے ہیں ،ان کو 2002اور2004کے” بہترین کالم نگار“کے قومی ایوارڈزبھی دیئے گئے،انہوں نے ٹی وی کے لیے سیریلزبھی لکھے،ڈرامے تخلیق کیے،کالم نگاری کی،شاعری بھی کہی،کتابیں بھی چھاپیں،ٹی وی میں بطور میزبان ٹاک شوز کیے ،اب بھی بطور مہمان مختلف ٹی وی شوز میں اپنا تجزیہ دیتے ہیں،لیکن ان کے پاس کوئی ذاتی گاڑی تک نہیں ،ان کے استعمال میں اس وقت ان کے بیٹے کی کار ہے،جو اس وقت لندن میں ٹریننگ پر ہے،ان کے گھر میں دو ہی ملازم ہیں،اپنے خانساماں اور اپنے بیٹے کے ڈرائیور کی تنخواہ یہ اپنی جیب سے دیتے ہیں،ان کے گھر میں کوئی چوکیدار تک نہیں،یہ اپنے گھر کا دروازہ خود ہی کھولتے ہیں،ان کی شخصیت میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ اہم ترین حکومتی عہدوں پہ فائز رہنے کے باوجود آج تک ان کا دامن کرپشن کے داغ سے بچا ہوا ہے،یہ بے حد ایماندار ،دیانت دار اور مخلص بیوروکریٹ ہیں،اس مادہ پرستانہ دور میں بھی ان کوایک کھرے اعلیٰ سرکاری آفیسر کے طور پہچانا جاتا ہے، ان کے قلم میں ملت کاغم ،فکراور درر پنہاں ہوتا ہے،ان کے لب و لہجہ میں وطن ِ عزیز کے نوجوانوں کے لیے امید کی کرن ہوتی ہے جو ان کو آگے برھنے پر اُبھارتی اور کچھ کرگزرنے کے لیے مہمیز دیتی ہے اور ان کی تحریروں میں الفاظ عالم ِ اسلام کے المیوں کا روپ دھار کر نوحہ کرتے نظر آتے ہیں،یہ اسلامی دنیا کے مسائل پر گہری بصیرت رکتے ہیں،پاکستان سے والہانہ عقیدت ان کی شخصیت کا جزءلاینفک ہے۔

گزشتہ دنوں ”یوتھ پارلیمینٹ“کے ایک ممبر نے مجھے ایس ایم ایس کیا تھا کہ” اوریا مقبول کراچی آرہے ہیں،کیا ارادہ ہے تمھارا؟“میں جھٹ ملاقات کے لیے تیار ہوگیا،میں نے اوریا سے بات کی،انہوں نے ساری تفصیل سمجھادی،دراصل کراچی آرٹس کونسل میں ا پنے ادارے کی طرف سے ان کے لیکچر کا اہتمام کیا گیا تھا،اسی سلسلے میں ہمیں حاضر ہونا تھا، میں نے اپنے دوستوں کوپروگرام سے آگاہ کیا،اگلے دن اوریا نے اپنے کالم میں بھی اعلان کرکے ہر خاص و عام سے شرکت کی درخواست کی ، 24جون کو میں یوتھ پارلیمینٹ سے منسلک دوستوں کے ساتھ وقت سے پہلے ہی آرٹس کونسل پہنچ گیا،آڈیٹوریم میں داخل ہوئے تو اندھیرا سا چھایا تھا،اسٹیج کی طرف سے نظر پڑی تو وہاں اوریا مقبول،معروف ٹی وی اسکالرانیق احمد اور اپنی سیکریٹری کے ساتھ قرآن ہاتھ میں لیے کوئی آیت ڈھونڈ رہے تھے،میں نے اپنے اپنے دوست کے کان میں سرگوشی کی :”حیرت ہے،خلاف ِ معمول صاحب وقت سے پہلے پہنچ گئے؟“
”تم نہیں جانتے اوریا کو؟یہ اصول ،وقت اور قاعدے کے سخت پابند ہیں....“

میں نے اپنے دوست سے کہا :” مجھے ایسے لوگ بہت پسند ہیں،ابھی چلوملنے ،ورنہ پروگرام کے بعدجمِ غفیر میں ملنا مشکل ہوگا۔“ہم آڈیٹوریم کے اوپری حصے سے نیچے اسٹیج کی طرف اترے،اوریا کی طرف بڑھے ،انہوں نے آگے بڑھ کر گلے لگایا،میں نے کان میں کہا:”سر!آئی ایم زاہر،کل آپ سے فون پہ بات ہوئی تھی....“انہوں نے سینے سے الگ کرتے ہوئے پوچھا:”اچھا!ماشاءاللہ !خوشی ہوئی تم بھی چلے آئے ۔“دراصل میں ایک عرصے سے ان کے پیچھے لگا ہوا تھا کہ مجھے ملاقات کا شرف بخشیں اور آج اس موقع پریہ سعادت بھی حاصل ہوچلی تھی، میرے دوست انیق احمد کے ساتھ مصروف تھے،بعد میں جب لوگ آتے گئے ،تب پتا چلا،یہ ہر فرد کا اسی طرح استقبال کررہے تھے،پہلی ہی لائن میں ہمیں جگہ ملی،پروگرام شروع ہوا،ڈاکٹر سلیم مغل نے کمپئرنگ کی ابتداہی میں یہ کہہ کر لوگوں کو ہنسنے پہ مجبور کردیا کہ آج کا موضوع دیکھ کرتو ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے اگلے وزیراعظم اوریا مقبول جان ہونگے،اس پہ حاضرین ِ محفل کے جاندار قہقہوں کے ساتھ پورا ہال زوردار تالیوں کے شورسے گونج اٹھا،ابتدائی کارروائی کے بعد اوریا اسٹیج میں آئے، قرآن پاک کی ایک آیت سے ابتدا کی اور اس کا ترجمہ کرتے ہوئے کہنے لگے کہ اللہ تعالٰی قرآن پاک میں فرماتے ہیں جو لوگ اللہ کے نازل کردہ احکامات کے مطابق فیصلے نہیں کرتے،وہ فاسق،ظالم اور کافرہیں۔(سورةمائدہ)اس کے بعد انہوں نے عالمی حالات کے تناظر میں دنیا کے مروجہ جمہوری نظام کی حقیقت کا نقشہ کھینچا،اس کو انہوں نے فرعونوں کی حکومت ڈکلیئرکی،بہترین طریقے تاریخی حوالوں کے ساتھ اسلامی نظام ِ حکومت ،نظام عدل اور نظامِ معیشت پہ روشنی ڈالی،سودی نظام کا متبادل سمجھایا،اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ ایک جامع تعلیمی نصاب کی تشکیل کا خاکہ پیش کیا،ہمارے ہاں مروجہ بینکنگ سسٹم کو ببانگِ دہل کفر کا نظام کہا،جمہوری حکومت کی مذمت کی،عدلیہ کےweak pointsپراسے بھی خوب لتاڑا،انہوں نے جنرل ضیا ءالحق کو خراج ِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ملک میں اسلامی نظام کے لیے جنرل ضیا نے جو اسٹرکچر بنا کر دیا تھا،اس سے بڑی بد قسمتی اور نہیں ہوسکتی کہ ہماری بیوروکریسی اس کو منظور کرانے ان ججوں کے پاس گئی جن پہ خودد حدود نافذ ہوتے تھے،جو خود شرعی نکتہ نظر سے خدا کے مجرم تھے،جس کی وجہ سے آج تک اسلامی نظام کے نفاذکے لیے خاطر خواہ کوشش نہیں ہوسکی۔

ان کا لیکچر عروج پر تھا،پورے ہال میں سناٹاچھایا ہوا تھا،میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا ،پیچھے پورا ہال یونیورسٹیز کے طلبہ و طالبات سے کچھا کچھ بھرا ہوا تھا،وہاں کچھ ایسے بھی تھے جن کا حلیہ دیکھ کر نہیں لگتا کہ یہ کسی بھی طرح اسلامی سوچ کے حامل ہوسکتے ہیں،میں سوچ رہا تھا کہ آخر کیاوجہ سے کہ اتنی بڑی تعداد میںاس طبقہ کے نوجوانوں کو یہاں حاضر ہونے کی ضرورت کیا تھی،جن کو پاکستان سے کوئی سروکارہی نہیںلیکن میرا خیال غلط تھا،لیکچر کے بعد جب حاضرین کے سوالات ہونے لگے تو مجھے احساس ہوا ،یہ سارے اپنے دل میں پاکستان ،عالم ِ اسلام اور مسلم امہ کے لیے بے انتہا درد رکھتے ہیں،یہ نوجوان پاکستان سمیت عالم ِ اسلام کو اپنی اصل راہ پہ گامزن ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں،یہ سارے چاہتے ہیں کہ یہ پاکستان کو ایک نیا نظام دیں،جو سودی نظام کو سہارا دینے والانہ ہو،جو مجرموں کو مستثنیٰ قرار دینے والا نہ ہو،جس میں اگر قاضی کا بیٹا بھی مجرم ہو تو اسے بھی اٹک جیل یا اڈیالہ جیل بھجوایا جاسکتا ہو۔

پروگرام ختم ہوا،طلبہ طالبات نے ملاقات کے لیے اوریا کو گھیرلیا،آڈیٹوریم سے باہر نکل چکے لیکن انہوں نے پیچھا نہیںچھوڑا،سوالات کا ایک انبار تھا ،ان کے لہجوں میں درد تھا،غم تھا اور فکر تھی ،ہمارے مسائل کا حل کیا ہے؟نظام کیسے بدلے گا؟ہمیں کرنا چاہیے َ؟یہ سارے پرعزم بھی تھے اورباصلاحیت بھی ،ان کے جذبے کو دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ دن دور نہیں جب اس ملک میں اسلامی نظام ِ حیات پہ مبنی قوانین کے مطابق فیصلے ہونگے۔

میں بڑا خوش تھانوجوانوں میں یہ شعور جاگ اٹھا ہے ،آج کل میں ایسی تقریبات ،سیمینارز اور میٹنگزمیں شریک ہوتا ہوں تو مجھے یہ دیکھ کر بے حد خوش ہوتی ہے کہ ملک میں تبدیلی کی لہر چل پڑی ہے ، نوجوان اپنا فیصلہ کرچکے کہ اب اس ملک کو تبدیلی سے کوئی نہیں روک سکتا،یہ وطن تبدیلی کی شاہراہ پر اپنا سفر شروع کرچکاہے،یہ نوجوان بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں،لیکن ان کے آگے بے شمار رُکاوٹیں ہیں،یہ اس سے بھی نہیں گھبرارہے،ان کا عزم ، حوصلہ اور جذبہ دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ شاید یہی وہ فصلِ گل ہے جسے اندیشہ زوال نہیں،اس لمحہ دل سے دعانکلتی ہے کہ خدا ان نوجوان طلبہ و طالبات کو کامیابی سے ہمکنار کرے اور مصر،ترکی اور ملائیشیا کی طرح عروج و منزلت دیگر اسلامی ممالک کا بھی مقدر بنے۔
Muhammad Zahir Noorul Bashar
About the Author: Muhammad Zahir Noorul Bashar Read More Articles by Muhammad Zahir Noorul Bashar: 27 Articles with 25733 views I'm a Student media science .....
as a Student I write articles on current affairs in various websites and papers.
.. View More