اَحَادِیْثِ لَیْسَ مِنَّا وہ ہم میں سے نہیں

اَحَادِیْثِ لَیْسَ مِنَّا
وہ ہم میںسے نہیں

مرتب و مترجم
مولانا محمد مجاہد حسین حبیبی
ایڈیٹر سہ ماہی تبلیغ سیرت کلکتہ

خوش اِلحانی سے قرآن نہ پڑھنے پر وعید
عَنْ أَبِی سَلْمَۃَ عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ: لَیْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ یَتَغَنَّ بِالْقُرْآنِ ۔
ترجمہ : حضرت ابوسلمہ سے مروی ہے وہ روایت کرتے ہیںحضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’وہ شخص ہم میںسے نہیںجوقرآن خوش الحانی سے نہ پڑھے‘‘۔(بخاری:۷۵۲۷، ابودائود:۱۴۷۱، مسندامام احمدبن حنبل:۱۴۹۳ مصنف ابن ابی شیبہ:۲۹۹۴۲مصنف عبدالرزاق:۴۱۷۰)
یعنی مسلمان کوچاہیے کہ خوش الحانی کے ساتھ قرآن پڑھے۔خوش الحانی کامطلب یہ نہیںکہ قرآن راگ اورگانے کے اندازمیںپڑھاجائے بلکہ خوش الحانی یہ ہے کہ تجویدو قراء ت کی رعایت کرتے ہوئے خوش آوازی سے قرآن پڑھاجائے۔
قَالَ عُبَیْدُ اللّٰہِ ْبنُ أَبِیْ یَزِیْدَ مَرَّ بِنَا أَبُوْلُبَابَۃَ فَاتْبَعْنٰاہُ حَتّٰیدَخَلَ بَیْتَہٗ فَدَخَلْنَا عَلَیْہِ فَإِذَا رَجُلٌ رِثُّ الْبَیْتِ،رِثُّ الْہَیْئَۃِ فَسَمِعْتُہٗ یَقُوْلُ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ َیقُوْلُ لَیْسَ مِنَّا مَنْ لَّمْ یَتَغَنَّ بِالْقُرْآنِ قَالَ فَقُلْتُ لِاِبْنِ أَبِیْ مُلَیْکَۃَ یَا أَبَا مُحَمَّدٍ أَرَأَیْتَ إِنْ لَمْ یَکُنْ حُسْنَ الْصَوْتِ ؟ قَالَ یُحَسِّنُہٗ مَا اسْتَطَاعَ .
ترجمہ : حضرت عبیداللہ بن ابویزیدکہتے ہیںکہ ہمارے پاس سے حضرت ابولبابہ گزرے توہم ان کے پیچھے چل پڑے۔یہاںتک کہ وہ اپنے گھرمیںداخل ہوگئے۔توہم بھی گھرمیںداخل ہوئے میںنے وہاں ایک نہایت ہی کمزورآدمی کودیکھاجو یہ کہہ رہا تھا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سناکہ جوخوش الحانی سے قرآن نہ پڑھے وہ ہم میںسے نہیں۔(ابودائود:۱۴۷۳، شعب الایمان :۲۵۰۶)
راوی کہتے ہیںکہ میںنے ابن ابی ملیکہ سے کہا:اے ابومحمد!آپ اس آدمی کے بارے میںکیاکہتے ہیںجس کی آوازاچھی نہ ہو۔ توانہوںنے کہاجہاںتک ہوسکے اچھی آواز میں پڑھنے کی کوشش کرے۔
یعنی قرآن پڑھنے والا ممکنہ حدتک اچھی آواز میںقرآن پڑھنے کی کوشش کرے۔
عَنْ اِبْنِ أبِیْ مُلَیْکَۃَ عَنْ عَبْدِ الْرَّحْمٰنِ بْنِ السَّاِئبِ قَالَ قَدِمَ عَلَیْنَا سَعَدُ بْنُ أبِیْ وَقَاصٍ وَقَدْ کَفَّ بَصَرُہٗ فَسَلَّمْتُ عَلَیْہِ فَقَالَ مَنْ أنْتَ ؟ فَأخْبَرْتُہٗ، فَقَالَ مَرْحَبَا بِاِبْنِ أخِیْ بَلَغَنِیْ أنَّکَ حُسْنُ الْصَّوْتِ بِالْقُرْآنِ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم یَقُوْلُ إنَّ ہٰذَا الْقُرْآنَ نَزَلَ بِحُزْنٍ فَإِذَا قَرَأتُمُوْہُ فَابْکُوْا فَإِنْ لَمْ تَبْکُوْا فَتَبَاکُوْا وَتَغَنُّوْا بِہٖ فَمَنْ لَّمْ یَتَغَنَّ بِہٖ فَلَیْسَ مِنَّا۔
ترجمہ : حضرت رافع سے مروی ہے وہ کہتے ہیںکہ مجھ سے ابن ابی ملیکہ نے اورانہیں عبدالرحمن بن سائب نے یہ کہاکہ ہمارے پاس حضرت سعدبن وقاص تشریف لائے جب کہ ان کی بینائی رخصت ہوچکی تھی۔ میںنے انہیں سلام کیا۔ آپ نے مجھ سے دریافت فرمایاتم کون ہو؟میںنے اپنے بارے میںبتایا۔اس پرآپ نے فرمایامرحبا! میرے بھتیجے۔مجھے خبرملی ہے کہ تم قرآن بہت ہی خوش الحانی سے پڑھتے ہو۔میںنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا’’ بے شک یہ قرآن حزن وملال کے ساتھ نازل ہواہے جب اسے پڑھوتورویاکرو۔ اگر رو نہ سکوتو رونے جیسی صورت بنالو۔(۳)اوراسے غنا(خوش الحانی )کے ساتھ پڑھو۔ جواسے غناکے ساتھ نہ پڑھے وہ ہم میںسے نہیں۔(سنن ابن ماجہ: ۱۳۳۷،کنزالعمال:۲۷۹۴،شعب الایمان:۱۹۹۱،مسندابویعلی:۶۶۲)
یعنی قرآن کی تلاوت کرتے وقت قرآن پڑھنے والے کوچاہیے کہ خشیت الٰہی کے سبب روئے اوراگررونہ سکے توکم از کم رونے جیسی صورت ہی بنالے۔
سنت سے رُوگردانی پر وعید
حَدّّثَنَاحَمِیْدُنِ الْطَوِیْلُ ، أَنَّہٗ سَمِعَ أَنَسَ بْنِ مَالِکٍ یَقُوْلُ جَآئَ ثَلاَثَۃُ رَہْطٍ إِلَی أَزْوَاجِ النَّبِیْ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم یَسْأَلُوْنَ عَنْ عِبَادَۃِ الْنَّبِیْ صَلَّی اللّٰہُُ عَلَیْہِ وَسَلَّم، فَلَمَّا أُخْبِرُوْا فَکَأَنَّہُمْ تَقَالُّوْہَا ، قَالُوْاأَیْنَ نَحْنُ مِنَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم ؟ قَدْ غَفَرَ اللّٰہُ لَہٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ وَمَا
تَأَخَّرَ قَالَ أَحَدُہُمَا: أَمَا أَنَا فِإِنِّیْ أُصَلِّی الْلَّیْلَ أَبَدًا، وَقَالَ اْلآخَرُ إِنِّی أَصُوْمُ الْدَہْرَ أَبَداً وَلَا أَفْطِرُ ، وَقَالَ الآخَرُأَنَا أَعْتَزِلُ النِّسَائَ فَلاَ أَتَزَوَّجُ أَبَدًا ، فَجَائَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم فَقَالَ أَنْتُمُ الَّذِیْنَ قُلْتُمْ کَذَا وَکَذَا ؟ أَمَا وَاللّٰہِ إِنِّیْ َلأَخْشَاکُمْ لِلّٰہِ ، وَأَتْقَاکُمْ لَہٗ ، لٰکِنِّیْ أَصُوْمُ وَأُفْطِرُ َوأُصَلِّیْ وَأَرْقَدُ وَأَتَزَوَّجُ النِّسَائَ ، فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّی ۔
ترجمہ: حضرت حمید الطویل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیںکہ میںنے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کویہ کہتے ہوئے سناکہ تین آدمی حضورکی ازواج مطہرات کے پاس پہنچے تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کے بارے میںان سے دریافت کریں۔جب انہیںحضورکی عبادت کے بارے میں بتایا گیا تو گویا انہوںنے اسے بہت ہی کم سمجھا۔اورکہاکہاںہم اورکہاںرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ؟ اللہ نے توان کے سبب امتیوں کے اگلے پچھلے گناہوںکومعاف فرمادیاہے۔ پھر ان میںسے ایک نے کہا۔ میں ہمیشہ شب بیداررہ کرعبادت کروں گا۔ دوسرے نے کہامیںہمیشہ روزہ رکھوںگا۔تیسرے نے کہا۔ میں عورتوں سے کنارہ کش رہوںگااورکبھی نکاح نہیں کروں گا۔(٭) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اورآپ نے ارشادفرمایا:تم لوگوںنے ایسا ایسا کہاہے ۔قسم خداکی! میںتم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والاہوں۔لیکن میںروزہ بھی رکھتا ہوںاور کبھی ترک بھی کرتاہوں میںرات کو نماز پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور میں عورتوں سے نکاح بھی کرتاہوںتوجومیری سنت سے اعراض کرے وہ مجھ سے نہیں ۔ (صحیح بخاری:۵۰۶۳،شعب الایمان :۵۲۳۹)
(٭)یعنی ان تینوںنے سمجھاکہ ہمیشہ شب بیداررہ کرعبادت کرنا،روزہ رکھنااور غیر شادی شدہ زندگی گزارناہی سب سے بڑی عبادت ہے۔لیکن حضورسرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیںبتادیاکہ اللہ کے بندوں میں اللہ سے سب سے زیادہ ڈرنے والامیں ہوں اس کے باوجودمیںرات جاگ کرعبادت بھی کرتاہوں اورسوتابھی ہوں۔روزہ بھی رکھتا ہوں اورکبھی روزہ سے نہیںبھی رہتاہوں۔نکاح بھی کرتاہوں۔اس لیے امتی ہونے کے ناطے مسلمانوںپر لازم ہے کہ وہ اپنے نبی کے طریقے سے انحراف نہ کریںاوراچھی طرح سمجھ لیںکہ دنیاسے کنارہ کش ہوکررہبانیت کی زندگی گزارنے کی اسلام میںکوئی گنجائش نہیں ہے۔
یعنی جوحضور علیہ السلام کی سنت اورآپ کے طریقے کوچھوڑ کردوسروں کے طورطریقے اپناتے ہیں حضور ان سے ناراض اوربیزارہیں۔
عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللّٰہُِ صَلَّی اللّٰہُُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ النِّکَاحُ مِنْ سُنَّتِیْ فَمَنْ لَّمْ یَعْمَلْ بِسُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّی وَتَزَوَّجُوا فَإِنِّی مُکَاثِرٌ بِکُمُ الْأُمَمَ وَمَنْ کَانَ ذَا طَوْلٍ فَلْیَنْکِحْ وَمَنْ لَمْ یَجِدْ فَعَلَیْہِ بِالصِّیَامِ فَإِنَّ الصَّوْمَ لَہُ وِجَاء ٌ .
ترجمہ: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے مروی ہے وہ کہتی ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:نکا ح میری سنت ہے جومیری سنت پرعمل نہ کرے اس کامجھ سے کوئی تعلق نہیں۔نکاح کرواس لیے کہ میں تمہاری کثرت کے سبب دوسری امت پرفخرکروں گا ۔ اورجوخوش حال ہواسے چاہیے کہ نکاح کرے اورجونکاح کی استطاعت نہ رکھتا ہو اسے چاہیے کہ روزہ رکھے اس لیے کہ روزہ اس کے لیے بمنزلہ ڈھال کے ہے۔اور روزہ شہوت کو ختم کرتا ہے۔(سنن ابن ماجہ:۱۹۱۹)
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّٰہَ حَرَّمَ عَلَیْکُمْ شُرْبَ الْخَمْرِ وَثَمَنِہَا وَحَرَّمَ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃَ وَثَمَنِہَا وَحَرَّمَ عَلَیْکُمُ الْخَنَازِیْرَ وَأَکْلِہَا وَثَمَنِہَا قَصُّوْا الشَّوَارِبِ وَاعْفُوْا الْلُحٰی وَلَا تَمْشُوْا فِیْ الْاَسْوَاقِ إِلَّا وَعَلَیْکُمُ الْاُزُرْ إِنَّہٗ لَیْسَ مِنَّا مَنْ عَمِلَ سُنَّۃَ غَیْرِنَا.
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیںکہ بیشک اللہ نے شراب اوراس کی قیمت کوحرام فرمادیاہے اورتم پرمرداراوراس کی قیمت اور خنزیرکھانااوراس کی قیمت بھی حرام کردیاہے۔مونچھوںکوپست کرو، داڑھی کوبڑھائواورتم بازارمیںاِزار(تہبند)کے بغیرنہ گھوماپھراکرو۔اس لیے کہ جو میری سنت کے علاوہ کسی اورکے طریقے پرچلے وہ ہم میںسے نہیں۔(کنزالعمال:۱۳۲۰۹،مجمع الزوائد:۶۴۱۷)
قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَصُّوْا الشَّوَارِبَ وَأعْفُوْا اللُّحٰی وَلَا تَمْشُوْا فِی الأَسْوَاقِ إِلَّا وَعَلَیْکُمْ الأُزُرْ إِنَّہٗ لَیْسَ مِنَّا مَنْ عَمِلَ سُنَّۃَ غَیْرِنَا ۔
ترجمہ :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مونچھوںکوپست کرو،داڑھی کوبڑھائواورتم بازاروںمیںبغیرازار(تہبند)کے نہ پھراکرواس لیے کہ جوہمارے غیرکے طریقے کو اپنائے وہ ہم میںسے نہیں۔(معجم الاوسط طبرانی:۱۱۴۸۳)
مسلمانوں کی خیر خواہی نہ کرنے پر وعید
عَنْ أَبِیْ ذَرٍّ قَالَ قَالَ الْنَّبِّیُ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ أَصْبَحَ وَہَمُّہٗ الْدُّنْیَافَلَیْسَ مِنَ اللّٰہِ فِیْ شَیْئٍ وَمَنْ لَّمْ یَہْتَمَّ بِالْمُسْلِمِیْنَ فَلَیْسَ مِنْہُمْ وَمَنْ أَعْطَی الْذِّلَّ مِنْ نَفْسِہٖ طَاِئعًا غَیْرَ مُکْرِہٍ فَلَیْسَ مِنَّا ۔
ترجمہ: حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:جس نے اس حال میںصبح کی کہ اس کی فکرصرف دنیاکی ہو۔اس کے لیے اللہ کے پاس کوئی چیزنہیں۔(۱) اورجومسلمانوںکی خیرخواہی کاارادہ نہ رکھتاہووہ ان میںسے نہیں۔(۲)اورجواپنی خواہش نفس سے بغیرکسی کے مجبورکیے ہوئے خودکوذلت میں ڈالے وہ ہم میںسے نہیں۔(۳)(معجم الاوسط:۴۷۸)
(۱)یعنی مسلمانوںکی ذہنیت یہ ہونی چاہیے کہ صبح وشام ہروقت ان کے قلوب واذہان دوسرے مسلمانوںکی خیرخواہی کے جذبے سے لبریزہوںاورجوصرف دنیاکے لیے فکرمند رہتاہے وہ اللہ اوراس کے رسول کی بارگاہ کاسخت مجرم اورناپسندیدہ بندہ ہے۔
(۲)یعنی جس مسلمان کے دل میںدوسرے مسلمانوںکی خیرخواہی اوربھلائی کاجذبہ نہ ہووہ مسلمانوں میںسے نہیںہے۔
(۳)یعنی مسلمان کوچاہیے کہ اپنی عزتِ نفس کاخیال رکھے۔

عَنْ حُذَیْفَۃَ بْنِ الْیَمَانِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ لَا یَہْتَمَّ بِأَمْرِ الْمُسْلِمِیْنَ فَلَیْسَ مِنْہُمْ،وَمَنْ لَمْ یُصْبِحُ وَیُمْسِیْ نَاصِحاً لِلّٰہٖ وَلِرَسُوْلِہٖ وَلِکِتَابِہٖ وَلِإِمَامِہٖ وَلِعَامَّۃِ الْمُسْلِمِیْنَ فَلَیْسَ مِنَّا۔
ترجمہ: حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جو مسلمانوںکے معاملات میںخیرخواہی کاجذبہ نہ رکھتاہووہ ان میںسے نہیںاورجوصبح وشام اس حال میںنہ کرے کہ اللہ اوراس کے رسول کی رضاکے لیے مسلمانوںکے امام اورعام مسلمانوںکونصیحت نہ کرے وہ ہم میںسے نہیں۔(مجمع الزوائد:۲۹۴)
ظالم حکام کی اِمداد و اِعانت پر وعید
عَنْ حُذَیْفَۃَ عَنِ النَّبِیِّ -صَلَّیاللّٰہُُ عَلَیْہِ وَسَلَّم- قَالَ إِنَّہَا سَتَکُونُ أُمَرَاء ُ یَکْذِبُونَ وَیَظْلِمُونَ فَمَنْ صَدَّقَہُمْ بِکَذِبِہِمْ وَأَعَانَہُمْ عَلَی ظُلْمِہِمْ فَلَیْسَ مِنَّا وَلَسْتُ مِنْہُمْ وَلاَ یَرِدُ عَلَیَّ الْحَوْضَ وَمَنْ لَمْ یُصَدِّقْہُمْ بِکَذِبِہِمْ وَلَمْ یُعِنْہُمْ عَلَی ظُلْمِہِمْ فَہُوَ مِنِّی وَأَنَا مِنْہُ وَسَیَرِدُ عَلَیَّ الْحَوْضَ ۔
ترجمہ: حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:عنقریب ایسے حکام ہوںگے جوجھوٹ بولیںگے ۔ظلم کریںگے توجس نے ان کی جھوٹ کی تصدیق کی اور ظلم پران کی مددکی وہ ہم میںسے نہیں اورنہ میںان میںسے ہوں۔اور نہ قیامت کے دن وہ میرے حوض کوثرپر آئیںگے ۔(۱)اورجس نے ان کی جھوٹ کی تصدیق نہ کی اور ان کے مظالم پران کی مدد نہ کی وہ مجھ سے ہیں اور میںا ن سے ہوںاوروہ میرے پاس حوض کوثرپرآئیںگے۔(۲) (مسنداحمد:۲۳۹۶۱)
(۱)یعنی جھوٹ بولنااورجھوٹے کی تائیدکرنا،ظلم کرنااورظالم کی مدداورحمایت کرنایہ کام اللہ ورسول کونہایت ہی ناپسندہیںاس لیے ایسے گناہوں میں مبتلا لوگوںکوقیامت کے دن حوضِ کوثر سے سیراب ہونے نہیں دیا جائے گا ۔
(۲) یعنی جھوٹ سے بچنااورجھوٹے کی حمایت نہ کرنااللہ اوراس کے رسول کوپسند ہے اسی طرح دوسروںپرظلم کرنے سے خودکوروکنااورکسی ظالم کی مددنہ کرنایہ بھی اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کوبہت ہی پسندہے ۔اس لیے جھوٹ اورظلم کی تائیدنہ کرنے والے کااللہ تعالیٰ قیامت کے دن اعزازفرمائے گااورحضورایسے آدمی کوکوثر کاجام پلائیں گے ۔
عَنْ عَبْدِ الْرَحْمٰنِ بْنِ سَابِطٍ عَنْ جَابِرٍ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ أَنَّ الْنَّبِیَّ صَلَی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلْمَ قَالَ یَا کَعَبَ ْبنِ عُجْرَۃَ ، أُعِیْذُکَ بِاللّٰہِ مِنْ إِمَارَۃِ السُّفَہَآئِ ، إنَِّہَا سَتَکُوْنُ أُمُرَائً مَنْ دَخَلَ عَلَیْہِمْ فَأَعَانَہُمْ عَلَی ظُلْمِہِمْ وَصَدَّقَہُمْ بِکِذْبِہِمْ فَلَیْسَ مِنِّیْ ، وَلَسْتُ مِنْہُ وَلَنْ یَّرِدَ عَلَیَّ الْحَوْضَ وَمَنْ لَّمْ یَدْخُلْ عَلَیْہِمْ وَلَمْ یُعِنْہِمْ عَلَی ظُلْمِہِمْ وَلَمْ یُصَدِّقَہُمْ بِکِذْبِہِمْ فَہُوَ مِنَّیْ وَأَنَا مِنْہُ وَسَیَرِدُ عَلَیَّ الْحَوْضِ ۔
ترجمہ: حضرت عبدالرحمن بن سابط رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ روایت کرتے ہیںحضرت جابربن عبداللہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اے کعب بن عجرہ!میںتیرے لیے اللہ سے بیوقوفوںکی حکومت سے پناہ مانگتاہوں۔عنقریب کچھ حکام ہوںگے۔ جوان کے پاس جائے گااوران کے ظلم میںان کی مددکرے گااوران کے جھوٹ کی تصدیق کرے گاوہ مجھ سے نہیںاورنہ میراان سے کوئی تعلق ہے۔ایسے لوگ میرے حوض کوثرپرنہیںآئیںگے اورجوان کے پاس نہ جائے ان کے ظلم میںمددنہ کرے اورنہ ان کی جھوٹ کی تصدیق کرے۔ تووہ مجھ سے ہے اورمیںان سے ہوں۔عنقریب وہ میرے حوض کوثرپر حاضر ہوںگے۔(صحیح ابن حیان:۱۷۵۱)
عَنْ کَعْبِ بن عُجْرَۃَ، قَالَ قَالَ لِیْ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُِ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أُعِیذُکَ بِاللَّہِ یَا کَعْبُ بن عُجْرَۃَ مِنْ أُمَرَاء ٍ یَکُونُونَ بَعْدِی، فَمَنْ غَشِیَ أَبْوَابَہُمْ، وَصَدَّقَہُمْ فِی کَذِبِہِمْ، وَأَعَانَہُمْ عَلَی جَوْرِہِمْ، فَلَیْسَ مِنِّی، وَلَسْتُ مِنْہُ، وَمَنْ غَشِیَ أَبْوَابَہُمْ أَوْ لَمْ یَغْشَہَا فَلَمْ یُصَدِّقْہُمْ بِکَذِبِہِمْ، وَلَمْ یُعِنْہُمْ عَلَی جَوْرِہِمْ، فَہُوَ مِنِّی، وَأَنَا مِنْہُ، وَسَیَرِدُ عَلَّی الْحَوْضَ۔
ترجمہ: حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اے کعب بن عجرہ !میںتیرے لیے اللہ سے پناہ مانگتاہوںایسے حکام اوراُمراسے جومیرے بعدہوںگے۔جوان کے دروازے پرجائے اوران کے جھوٹ کی تصدیق کرے اوران کے ظلم پران کی امداد و اعانت کرے وہ مجھ سے نہیںہے اورنہ میںان میںسے ہوں۔اورجوان کے دروازے میںجائے یانہ جائے ان کی جھوٹ کی تصدیق نہ کرے اورظلم پران کی مدد نہ کرے وہ مجھ سے ہے اورمیںاس سے ہوں۔عنقریب وہ میرے پاس حوض کوثرپرآئے گا۔(معجم کبیرطبرانی:۱۵۵۶۱)
عَنْ عَبْدِ الْرَحْمٰنِ بْنِ سَمُرَۃ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِِ صَلَّی اللّٰہُِ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَعَاذَکَ اللّٰہُ مِنْ أُمُرَائً یَکُوْنُوْنَ بَعْدِیْ قَالَ وَمَا ہُمْ یَارَسُوْلُ اللّٰہِ ؟ قَالَ مَنْ دَخَلَ عَلَیْہِمْ فَصَدَّقَہُمْ بِکِذْبِہِمْ وَأَعَانَہُمْ عَلَی جَوْرِہِمْ فَلَیْسَ مِنِّیْ وَلَا یَرِدُ عَلَیحَوْضِیْ اِعْلَمْ یَا عَبْدِ الْرَحْمٰنِ أَنَّ الْصِیَامَ جُنَّۃٌ وَالْصَلَاۃُ بُرْہَانٌ یَا عَبْدِ الْرَحْمٰنِ بْنِ سَمُرَۃَ إِنَ اللّٰہَ تَعَالٰی أَبٰی عَلَی أَنْ یَدْخُلَ الْجَنَّۃَ لَحْمٌ نَبَتَ مِنْ سُحْتٍ، اَلنَّارُ أَوْلٰی بِہٖ ۔
ترجمہ: حضرت عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ تمہیںایسے حکام اوراُمرا سے بچائے جومیرے بعدہوںگے۔راوی کہتے ہیںکہ میںنے عرض کیایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ کیسے ہوںگے؟فرمایا:جوان کے پاس جائے اوران کی جھوٹ کوسچ کہے اوران کے ظلم پران کی مددکرے وہ مجھ سے نہیںوہ حوض کوثرپرمیرے پاس نہیں آئے گا۔جان لو!اے عبدالرحمن! بے شک روزہ ڈھال ہے۔ نماز برہان (دلیل) ہے۔اے عبدالرحمن اللہ نے اس آدمی کوجنت میںداخل کرنے سے انکار فرمادیا ہے جوحرام کمائی سے پلابڑھاہو۔جہنم ہی اس کے لیے مناسب ٹھکانہ ہے۔(معجم الاوسط طبرانی:۴۱۸۳)
یہود و نصاری سے مشابہت کرنے پر وعید
عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَیْسَ مِنَّا مَنْ تَشَبَّہَ بِغَیْرِنَا لاَ تَشَبَّہُوْا بِالْیَہُوْدِ وَلاَ بِالنَّصَارَی فَإِنَّ تَسْلِیْمَ الْیَہُوْدِ اَلْإِشَارَۃُ بِالْأَصَابِعِ وَتَسْلِیمَ النَّصَاریٰ اَلْإِشَارَۃُ بِالأَکُفِّ ۔
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن عمرورضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:وہ ہم میںسے نہیںجوغیروںکی مشابہت اختیارکرے۔(۱) تم یہودونصاری کی مشابہت سے بچواس لیے کہ یہودیوں کاسلام انگلیوںکے اشارے سے ہے اورنصاریٰ (عیسائیوں ) کاسلام ہتھیلی کے اشارے سے ہے۔(۲)(ترمذی :۲۹۱۱، کنزالعمال: ۲۵۳۳۳)
(۱) مسلمان کی دینی ومذہبی ذمہ داری تویہ ہے کہ وہ اسلام وایمان کی دولت دوسروںتک پہنچائے خود حضورکی سنت وشریعت پرعمل کریںاوردوسروںکوبھی اس کی ترغیب دیں۔لیکن اگرکوئی اپنے فرائض منصبی کوبھول کردوسرے مذاہب کی تہذیب وطریقے کواپنالے تویہ کم نصیبی کی بات ہے اسی لیے حضوراقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے لوگوںسے براء ت ظاہر فرمائی ہے۔
(۲)سلام کے آداب میںسے یہ ہے کہ سلام کرنے والااتنی بلندآوازمیںسلام کرے کہ جسے وہ سلام کررہاہے وہ سن لے ۔انگلی کے اشارے سے سلام کرنایہودیوں کا طریقہ ہے۔ اورہتھیلی کے اشارے سے سلام کرناعیسائیوںکا طریقہ ہے۔اسی طرح سرکے اشارے سے سلام کرنایہ بھی غیراسلامی طریقہ ہے اس لیے مسلمانوںکوچاہیے کہ اس طرح کی عادتوں سے بچیں۔
عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیہِ عَنْ جَدِّہٖ ، أَظُنُّہٗ مَرْفُوْعًا قَالَ لَیْسَ مِنَّا مَنْ تَشَبَّہَ بِغَیْرِنَا لاَ تَشَبَّہُوْا بِالْیَہُوْدِ وَلَا بِالنَّصَارٰی فَإِنَّ تَسْلِیْمَ الْیَہُوْدِ اَلْإِشَارَۃُ بِالْأَصَابِعَ وَإِنَّ تَسْلِیْمَ الْنَّصَارٰی بِالْاَکُفِّ ، وَلَا تَقُصُّوْا النَّوَاصِیَّ ، وَأحْفُوْا الشَّوَارِبَ ، وَأعْفُوْا اللُّحٰی ، وَلاَ تَمْشُوْا فِیْ الْمَسَاجِدِ وَالْأَسْوَاقِ وَعَلَیْکُمُ الْقُمُصْ إِلَّا وَتَحْتِہَا الأُِزُ ْر۔
ترجمہ : حضرت عمروبن شعیب سے مروی ہے ۔وہ اپنے والدسے روایت کرتے ہیںاوروہ ان کے داداسے روایت کرتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:وہ ہم میںسے نہیںجودوسروںسے مشابہت اختیارکرے ۔تم یہودو نصاری کی مشابہت اختیارنہ کرو۔یہودکے سلام کاطریقہ انگلیوںکے اشارے سے اور نصاری (عیسائیوں)کاسلام ہتھیلی کے اشارے سے ہے اورتم پیشانی کے بال نہ چھوٹا کرو،مونچھوںکوپست کرو ۔داڑھیوں کوبڑھائو۔ (۱) مسجد اوربازاروں میں صرف قمیص میںنہ جایاکروبلکہ اس کے نیچے ازار (تہبند)بھی ہو۔(لمعجم الاوسط طبرانی:۷۵۹۳)
(۱)سنت یہ ہے کہ مونچھیںپست کی جائیں۔داڑھی ایک مشت تک رکھنا واجب ہے۔ دین سے دُوری کانتیجہ ہے کہ مسلمان مونچھیںبڑی کررہے ہیں جب کہ داڑھیاں صاف کی جارہی ہیں۔العیاذ باللہ منہ
عورت اور مرد کا ایک دوسرے سے مشابہت کرنے پر وعید
عَنْ رَجُلٍ مِّنْ ہُذَیْلٍ قَالَ رَأَیْتُ عَبْدَ اللّٰہِ بْنِ عَمْرو بنِ الْعَاصِ وَمَنْزِلُہٗ فِی الْحِلِّ وَمَسْجِدُہٗ فِی الْحَرَمِ، قَالَ فَبَیْنَا أنَا عِنْدَہٗ رَاَی أُمَّ سَعِیْدٍ اِبْنَۃَ أبِیْ جَہْلٍ مَُتَقَلِّدَۃً قَوْساً، وَہِیَ تَمْشِیْ مَشْیَۃِ الْرِّجَالِ، فَقَالَ عَبْدُ اللّٰہِ مَنْ ہٰذِہٖٖ؟ فَقُلْتُ ہٰذِہٖ أُمُّ سَعِیْدٍ بِنْتِ أبِیْ جَہْلٍ فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْل:"
لَیْسَ مِنَّا مَنْ تَشَبَّہَ بِالْرِّجَالِ مِنَ النِّسَائِ وَلَا مَنْ تَشَبَّہَ بِالنِّسَائِ مَنِ الْرِّجَالِ۔
ترجمہ : قبیلۂ ہذیل کے ایک آدمی سے مروی ہے وہ کہتے ہیںکہ میںنے حضرت عبداللہ بن عمروبن عاص کودیکھاجن کاگھراورمسجد،حرم مکہ میںہے۔ راوی کہتے ہیںکہ میںحضرت عبداللہ کے پاس تھا کہ انہوںنے ام سعیدبنت ابوجہل کو دیکھاجوکمان کاندھے پررکھے ہوئے تھی اورمردوںکی چال چل رہی تھی۔ حضرت عبداللہ نے دریافت کیایہ کون ہے؟قبیلۂ ہذیل کے اس شخص نے جواب دیاکہ یہ ابوجہل کی بیٹی اُمِّ سعیدہے۔اس پر حضرت عبداللہ بن عمروبن عاص نے کہاکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوئے سنا’’وہ ہم میںسے نہیںجوعورت ہوکر مردوںسے مشابہت کرے اورنہ وہ ہم میںسے ہے جومردہوکرعورتوںسے مشابہت اختیار کرے‘‘۔ (مسنداحمد:۷۰۵۴)
یعنی عورتوںکے لیے ناجائزہے کہ وہ مردوںسے مشابہت اختیارکریں یہ مشابہت کئی طرح سے ہو سکتی ہے ۔مثلا چلنے پھرنے ،پہننے اوڑھنے،رہنے سہنے اورگفتگوکے معاملے میں۔ اسی طرح مردوںپربھی ناجائز ہے کہ رہنے سہنے،پہننے اوڑھنے،چلنے پھرنے اوردیگرمعاملات میں عورتوںسے مشابہت اختیار کریں۔

عَنْ أبِیْ ہُرَیْرَۃَ لَعَنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُخَنَّثَی الْرِّجَالِ اَلَّذِیْنَ یَتَشَبَّہُوْنِ بِالنِّسَائِ ، وَالْمُتَرَجَّلَاتِ مِنَ النِّسَائِ اَلْمُتَشَبَّہَاتِ بِالْرِجَالِ، وَرَاکِبِ الْفُلَاۃِ وَحْدَہٗ.
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مردوںپرلعنت فرمائی ہے جو مخنث(ہجڑا)بنتے ہیں تاکہ عورتوںسے مشابہت اختیارکریں۔اورمردبننے والی عورتوں پر بھی لعنت فرمائی جومردوںسے مشابہت اختیار کرتی ہیں۔(مجمع الزوائدومنبع الفوائد:۱۳۱۹۹)
مسلمانوں کو دھوکہ دینے پر وعید
عَــنْ أبِیْ ہُرَیْرَۃَ أنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِرَجُلٍ یَبِیْعُ طَعَاماً ، فَقَالَ کَیْفَ تَبِیْعُ ؟ فَأخْبَرَہٗ ، فَأوحٰی إِلَیْہِ أنْ أُدْخُلْ یَدَکَ فِیْہِ ، فَأدْخَلَ فَإِذَا ہُوَ مَبْلُوْلٌ ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لَیْسَ مِنَّا مَنْ غَشَّنَا ۔
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسے آدمی کے پاس سے گزرے جوغلہ بیچ رہاتھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا :کیسے بیچتے ہو؟اس نے بتایاکہ وہ کیسے بیچ رہاہے (یعنی قیمت بتائی)اللہ تعالیٰ نے آپ پروحی فرمائی کہ آپ اس میںہاتھ ڈال کر دیکھیں آپ نے دیکھاکہ غلہ اندرسے بھیگاہواہے اس پرآپ نے فرمایا:وہ ہم میںسے نہیںجودھوکہ دے۔(شعب الایمان بیہقی:۵۰۷۳)
یعنی سامان تجارت مثلاًاناج،کپڑایادیگرچیزوںمیںکوئی خرابی ہوتوبیچنے والے پرضروری ہے کہ خریدار پراس کی خرابی کوظاہرکردے۔اور کسی چیز کا وزن بڑھانے کے لیے اسے پانی سے تر کرنا بھی جائز نہیں ہے۔
عَنْ اِبْنِ عُمَرَ قَالَ مَرَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِطَعَامٍ وَقَدْ حَسَّنَہٗ صَاحِبُہٗ فَأدْخَلَ یَدَہٗ فِیْہِ فَإِذَا طَعَامٌ رَدِیٌّفَقَالَ بِعْ ہَذٰا عَلَی حِدَۃٍ وَہٰذَا عَلَی حِدَۃٍ فَمَنْ غَشَّنَا فَلَیْسَ مِنَّا۔ (۲)
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اناج کے ایک ایسے ڈھیرکے پاس سے گذرے کہ بیچنے والااسے اچھابتارہاتھا۔حضورنے غلہ کے ڈھیرکے اندرہاتھ ڈالا۔آپ نے دیکھاکہ اندرخراب قسم کاغلہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اچھے کوالگ اورخراب کوالگ کرکے بیچو۔اس لیے کہ جوہمیںدھوکہ دے وہ ہم میںسے نہیں۔( مجمع الزوائد:۶۳۳۸)
یعنی بیچنے والے کے پاس اگراچھی چیزہواور گھٹیااور ردی چیزبھی ہوتو دکان دار کو چاہیے کہ اچھی چیز کو گھٹیااورردی چیزوںسے الگ کرکے بیچے تاکہ خریداروںکودھوکہ نہ ہو۔
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہ صَلَی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ غَشَّنَا فَلَیْسَ مِنَّا وَالْمَکْرُ وَالْخِدَاعُ فِی النَّار۔
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:جوہمیںدھوکہ دے وہ ہم میںسے نہیںاورمکروفریب جہنم سے ہے۔(معجم کبیرطبرانی:۱۰۰۸۶،مجمع الزوائد:۶۳۴۱)
یعنی مکراورفریب اللہ ورسول کونہایت ہی ناپسندہے۔اس لیے مسلمانوں کولین دین اوردیگرمعاملات میںان بری عادتوںسے بچناچاہیے ورنہ انجام کارجہنم میںجانا پڑے گا۔
عَنْ قَیْسِ بْنِ أبِیْ غَرْزَۃْ قَالَ مَرَّ النَّبِیُّ صَلَی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِرَجُلٍ یَبِیْعُ طَعَاماً فَقَالَ یَا صَاحِبَ الْطَّعَامِ أسْفَلُ ہٰذَا مِثْلَ أعْلَاہَ؟فَقَالَ نَعَمْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ!فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ غَشَّ الْمُسْلِمِیْنَ فَلَیْسَ مِنْہُمْ ۔
ترجمہ : حضرت قیس بن ابی غرزہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسے آدمی کے پاس سے گزرے جوغلہ بیچ رہاتھا۔آپ نے اس غلہ بیچنے والے سے دریافت فرمایا۔اے غلہ بیچنے والے !کیااس غلہ کانچلہ حصہ ویساہی ہے جیسا اوپر کا غلہ ہے۔غلہ بیچنے والے نے عرض کیا۔جی ہاںنیچے کاغلہ اوپرہی کی طرح ہے اس پرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جومسلمانوںکودھوکہ دے وہ مسلمانوں میںسے نہیں۔(معجم کبیرطبرانی، مجمع الزوائد:۶۳۴۴)
عَنْ أنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ خَرَجَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَی السُّوْقِ فَـــــرَأَی طَعَاماً مُصْبِراً (مجموعاً کالکومۃ)فَأدْخَلَ یَدَہٗ فِیْہِ فَأصَابَ طَعَاماً رَطَباً قَدْ أصَابَتْہُ السَّمَائُ فَقَالَ لِصَاحِبِہٖ مَا حَمَلَکَ عَلَی ہَذٰا؟ قاَلَ وَالَّذِیْ بَعَثَکَ بِالْحَقِ إِنَّہٗ لَطَعَامٌ وَّاحِدٌ قَالَ "أفَلَا عَزَلْتَ الرَّطَبَ عَلَی حِدَۃٍوَالْیَابِسْ عَلَی حِدَۃ فَیَبْتَاعُوْنَ مَا یَعْرِفُوْنَ؟ مَنْ غَشَّنَا فَلَیْسَ مِنَّا۔
ترجمہ : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بازارکی طرف نکلے آپ نے غلہ کاایک ڈھیردیکھا۔ اس میںاپناہاتھ ڈالاتوآپ نے دیکھاکہ غلہ بارش کی وجہ سے بھیگاہواہے۔اس پرآپ نے غلہ بیچنے والے سے فرمایا:تمہیںکس چیزنے ایساکرنے پرآمادہ کیا؟غلہ بیچنے والے نے عرض کیا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کوحق کے ساتھ بھیجاہے یہ ایک ہی قسم کاغلہ ہے۔آپ نے فرمایا:تونے بھیگے ہوئے غلہ کوالگ اورسوکھے ہوئے کوالگ الگ کیوں نہیںکردیاکہ لوگ دیکھ کرخریدیں جودھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں۔(معجم اوسط طبرانی،مجمع الزوائد:۶۳۴۹)
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ ، قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ غَشَّنَا فَلَیْسَ مِنَّا ، وَالْمَکْرُ وَالْخِدَاعُ فِی النَّارِ ۔
ترجمہ : حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوہمیںدھوکہ دے وہ ہم میںسے نہیں۔فریب اوردھوکہ جہنم سے ہے۔(صحیح ابن حبان:۵۶۵۰)
عَنْ أبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ جَائَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ إلَی السُّوْقِ فَرَأیَ حِنْطَۃً مُصْبِرَۃً فَأدْخَلَ یَدَہٗ فِیْہَا فَوَجَدَ بَلَلًا فَقَالَ ألَا مَنْ غَشَّنَا فَلَیْسَ مِنَّا ۔
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بازارتشریف لے گئے توآپ نے گیہوںکاایک ڈھیردیکھا اس میں اپنا دست مبارک داخل فرمایاتودیکھاکہ تر(بھیگا)ہے۔اس پرآپ نے فرمایا:اچھی طرح سمجھ لوجودھوکہ دے وہ ہم میںسے نہیں۔( مستدرک :۲۱۵۴)

بڑوں کا ادب و اِحترام اور چھوٹوں پر رحم نہ کرنے پر وعید

حَدَّثَنَا زَرَبِیْ قَالَ سَمِعْتُ أنَسَ بْنَ مَالِکٍ قَالَ جَائَ شَیْخٌ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ حَاجَتِہٖ فَأبْطَئُوْا عَنِ الشَّیْخِ أَنْ یُّوَسِّعُوْا لَہٗ ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَیْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ یَرْحَمْ صَغِیْرَنَا ، وَیُوَقِّرْ کبَِیْرَنَا ۔
ترجمہ : حضرت زربی کہتے ہیںکہ میںنے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کویہ کہتے ہوئے سناکہ ایک بوڑھاآدمی حضورکی بارگاہ میںاپنی کسی ضرورت کو لے کرحاضرہوا ۔ صحابہ نے اس بوڑھے آدمی کے لیے جگہ کشادہ کرنے میںتاخیر کردی اس پرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاوہ ہم میںسے نہیںجوہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اوربڑوںکی تعظیم وتکریم نہ کرے۔( ترمذی:۲۰۴۳۔ مسندابویعلی موصلی:۴۱۳۲)
یعنی محفل میںبزرگ شخص کے آنے پر لوگوں کو چاہیے کہ اس کے لیے جگہ کشادہ کردیں ۔ ایسانہ کرنے والے سے حضورنے ناراضگی اور بیزاری ظاہرفرمائی ہے۔

عَنْ عُبَادَۃَبْنِ الصَّامِتَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ"لَیْسَ مِنْ أمَّتِیْ مَنْ لَّمْ یُجِلَّ کَبِیْرَنَا وَیَرْحَمْ صَغِیْرَنَا وَیَعْرِفْ لِعَالِمِنَا حَقَّہٗ ۔
ترجمہ : حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:وہ میری امت سے نہیںجوہمارے بڑے کی عزت نہ کرے ،ہمارے چھوٹے پررحم نہ کرے اورہمارے عالم کے حق کونہ پہچانے۔(مسند احمد:۲۳۴۲۵۔مجمع الزوائد:۵۳۲۔کنزالعمال:۵۹۸۰)
یعنی علما دین کے محافظ اور پاسبان ہیں۔ حضور سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے نائب بھی ہیں ۔اس لیے مسلمانوں پر لازم ہے کہ علما کی قدرکریں۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:لَیْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ یَرْحَمْ صَغِیرَنَا، وَیُوَقِّرْ کَبِیرَنَا، وَیَعْرِفْ لَنَا حَقَّنَا ۔
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے وہ کہتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ ہم میںسے نہیںجوچھوٹوںپررحم نہ کرے ،بڑوںکی عزت نہ کرے اورہمارے حق کونہ پہچانے‘‘۔(معجم کبیرطبرانی:۱۲۱۱۰)
عَنْ أَبِی أُمَامَۃَ، قَال بَیْنَا رَسُوْلُ اللّٰہِِ صَلَّی اللّٰہِ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَمَعَہُ أَبُوْ بَکْرٍ، وَعُمَرُ، وَأَبُو عُبَیْدَۃَ بْنِ الْجَرَّاحِ رَضِیَ اللَّہُ تَعَالَی عَنْہُمْ فِی نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِہِ إِذْ أُتِیَ بِقَدَحٍ فِیہِ شَرَابٌ، فَنَاوَلَہُ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَبَا عُبَیْدَۃَ، فَقَالَ أَبُو عُبَیْدَۃَ: أَنْتَ أَوْلَی بِہٖ یَا نَبِیَّ اللّٰہِِ، قَالَ:"خُذْ"، فَأَخَذَ أَبُوْ عُبَیْدَۃَ الْقَدَحَ، ثُمَّ قَالَ لَہُ قَبْلَ أَنْ یَشْرَبَ خُذْ یَا نَبِیَّ اللّٰہِ، قَالَ نَبِیُّ اللّٰہِِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:"اِشْرَبْ، فَإِنَّ الْبَرَکَۃَ فِی أَکَابِرِنَا، فَمَنْ لَمْ یَرْحَمْ صَغِیْرَنَا، وَیُجِلَّ کَبِیرَنَا فَلَیْسَ مِنَّا۔
ترجمہ : حضرت ابواُمامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیںکہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اورآپ کے ساتھ حضرت ابوبکر،حضرت عمر،حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہم صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ موجود تھے۔اتنے میںحضورکے پاس ایک پیالہ لایاگیا جس میںپینے کی کوئی چیزتھی۔اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کوپیش کیا۔حضرت ابوعبیدہ نے عرض کیا۔اے اللہ کے نبی !آپ کوزیادہ حق بنتاہے کہ آپ اسے نوش فرمائیں۔ حضورنے انہیںپیالہ لینے کا حکم فرمایا۔حضرت ابوعبیدہ نے پیالہ پکڑلیا۔ پیالے سے پینے سے پہلے انہوںنے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ اسے لے لیں۔ اس پرنبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اسے پئیں اس لیے کہ برکت ہمارے بڑوںکے ساتھ ہے(۱)۔جوچھوٹوںپررحم نہ کرے اوربڑوںکی عزت نہ کرے وہ ہم میںسے نہیں۔ (معجم کبیرطبرانی:۷۸۱۸)
(۱)یعنی محفل میںکھانے پینے کی کوئی چیزآئے توپہلے بڑوںکو پیش کرناچاہیے۔

عَنْ عَلِیٍّ ، أنَّ النَّبِیْ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ مَنْ لَمْ یَرْحَمْ صَغِیْرَنَا وَلَمْ یَعْرِفْ حَقَّ کَبِیْرِنَا فَلَیْسَ مِنَّا ، وَلَا یَکُوْنُ الْمُؤْمِنُ مُؤْمِناً حَتَّی یُحِبَّ لِلْمُؤْمِنِ مَا یُحِبُّ لِنَفْسِہٖ۔
ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جوچھوٹوں پررحم نہ کرے اورہمارے بڑوںکے حق کونہ پہچانے وہ ہم میںسے نہیںاورمومن اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ مسلمانوںکے لیے اسی چیزکوپسندنہ کرے جواپنے لیے پسندکرتاہو۔ (شعب الایمان بیہقی:۱۰۵۴۷)
سَمِعْتُ أنَسَ بْنِ مَالِکٍ ، یَقُوْلُ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم لَیْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ یُوقِّرْ کَبِیْرَنَا ، وَیَرْحَمْ صَغِیْرَنَا ، وَیُؤَاخِیْ فِیْنَا وَیَزُوُرُ۔
ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:وہ ہم میںسے نہیںجوہمارے بڑے کی عزت نہ کرے اورہمارے چھوٹوںپررحم نہ کرے اورہم سے بھائی چارہ نہ کرے اور ملاقات وزیارت کے لیے نہ آئے۔(معجم اوسط طبرانی:۴۹۶۸)
یعنی مسلمانوںکوچاہیے کہ ایک دوسرے سے کلمہ اورمذہب کی بنیادپربھائی چارہ قائم کریں۔وقتاًفوقتاً آپس میںملاقات کرتے رہیں۔اس سے آپس میںمحبت بڑھے گی اور رشتہ مضبوط سے مضبوط ترہوگا۔

عَنْ جَابِرقَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَیْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ یُوَقِّرْ کَبِیْرَنَا وَیَعْرِفْ حَقَّ صَغِیْرِنَا وَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَی اللّٰہُ عَلَیِْہ وَسَلَّمَ:إِنَّ مِنْ إِجْلاَلِ اللّٰہِ إِکْرَامُ ذِیْ الشَّیْبَۃِ الْمُسْلِمِ۔
ترجمہ:حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:وہ ہم میں سے نہیںجوہمارے بڑوں کی عزت نہ کرے اورہمارے چھوٹوں کے حق کو نہ پہچانے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ اللہ کی تعظیم سے یہ بھی ہے کہ سفیدبال والے مسلمان کااکرام کیاجائے۔(شعب الایمان بیہقی:۱۰۵۴۸)
یعنی بوڑھے آدمی کی تعظیم بجالانااللہ کی تعظیم بجالاناہے۔

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر نہ کرنے پر وعید

عَنْ عِکْرَمَۃَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ِصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم : لَیْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ یَرْحَمْ صَغِیْرَنَا وَیُوَقِّرْ کَبِیْرَنَا وَیَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَ عَنِ الْمُنْکَر ۔
ترجمہ : حضرت عکرمہ سے مروی ہے وہ روایت کرتے ہیںحضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’وہ ہم میںسے نہیںجوہمارے چھوٹوںپررحم نہ کرے ہمارے بڑوںکی عزت نہ کرے اوربھلائی کاحکم نہ دے اورنہ ہی کسی کوبرائی سے روکے‘‘۔(ترمذی :۲۰۴۶،مسند احمد :۲۳۷۱)
حضورکی سچی غلامی کاتقاضاہے کہ مسلمان جہاں چھوٹے بچوںکے ساتھ رحم دلی اورشفقت کامعاملہ کریں وہیںاپنے بڑوںکی تعظیم وتکریم بجالائیں ساتھ ہی لوگوں کونیکی کی دعوت دینااوربرائی سے روکنابھی حضورکے سچے عاشق اورغلاموںکی ذمہ داری ہے۔ان چیزوں سے غفلت برتناگویاحضورکی ناراضگی مول لیناہے۔
عَنْ اِبْنِ عَبَّاسٍ رَفَعَہٗ إِلٰی النَّبِیْ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَیْسَ مِنَّا مَنْ لَّمْ یُوَقِّرِ الْکَبِیْرَوَیَرْحَمِّ الْصَّغِیْرَ وَیَأمُرْ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَ عَنِ الْمُنْکَرِ
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہماسے روایت ہے وہ کہتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:وہ ہم میںسے نہیںجوبڑے کی عزت نہ کرے ، چھوٹے پرشفقت نہ کرے اورنہ ہی اچھائی کا حکم دے اورنہ برائی سے روکے۔(مسند احمد بن حنبل :۲۳۲۹۔صحیح ابن جبان:۲۱۱۔۴۵۸)

غم کے وقت چہرہ نوچنے اورکپڑا پھاڑنے پر وعید
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَیْسَ مِنَّا مَنْ لَطَمَ الْخُدُودَ ، وَشَقَّ الْجُیُوبَ وَدَعَا بِدَعْوَی الْجَاہِلِیَّۃِ ۔
ترجمہ : حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:وہ ہم میںسے نہیںجو(غم کی وجہ سے)اپنے رخسار پر تھپڑ مارے، گریبان پھاڑے اورزمانہ ء جاہلیت کی طرح آوازبلندکرے۔ (بخاری:۱۲۹۴۔سنن نسائی:۱۸۷۱۔سنن ابن ماجہ :۱۶۵۱)
یعنی غم اورمصیبت کے وقت رخسارپیٹنا،کپڑے پھاڑنا، مرنے والے کی خوبیاںبیان کرکرکے بلند آوازمیںرونا یہ سب ناجائزاورناپسندیدہ کام ہیںزمانہ جاہلیت میںیہ باتیںعام تھیں۔لیکن مذہب اسلام نے ان باتوںپرروک لگادی کہ مصیبت کے وقت آہ وواویلامچانے کی بجائے صبروشکرسے کام لیاجائے۔
عَنْ إِبْرَاہِیمَ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَال قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَیْسَ مِنَّا مَنْ ضَرَبَ الْوُجُوہَ وَشَقَّ الْجُیُوبَ وَدَعَا بِدَعْوَی الْجَاہِلِیَّۃِ ۔
ترجمہ : حضرت ابراہیم سے مروی ہے وہ روایت کرتے ہیںحضرت مسروق سے اوروہ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:وہ ہم میںسے نہیںجوغم کے وقت اپنے چہرے پرمارے گریبان چاک کرے اور زمانہء جاہلیت کی طرح آوازبلندکرے۔ (مسندبزار:۱۹۳۴)

حَدَّ ثَنِیْ اَبُوْ بُرْدَۃَ بْنِ أَبِیْ مُوْسٰی قَالَ وَجَعَ أَبُوْ مُوْسٰی وَجَعَلَ یُغْمِی عَلَیْہِ وَرَأسُہٗ فِیْ حُجْرِ اِمْرَأَۃٍ مِّنْ أَہْلِہٖ فَصَاحَتْ اِمْرَأَۃٌ فَلَمْ یَسْتَطِعْ أَنْ یُّرَدَّ عَلَیْہَا شَیْئًا فَلَمَّا أَفَاقَ قَالَ أَنَا بَرِیٌّ مِّمَّنْ بَرِئَ مِنْہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَإِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَرِئَ مِنَ الْحَالِقَۃِ وَالْسَّالِقَۃِ وَالْشَّاقَّۃ ۔
ترجمہ : حضرت ابوبردہ بن ابوموسیٰ سے روایت ہے وہ کہتے ہیںکہ جب حضرت ابوموسیٰ بیمارہوئے اور ان پرغشی طاری ہوئی اس وقت ان کاسر ان کی بیوی کی گود میں تھا۔ (شدت غم کے سبب) وہ چیخ پڑیں۔اس وقت حضرت ابوموسیٰ انہیںاس فعل سے نہ روک سکے لیکن جب افاقہ ہواتوانہوںنے کہاکہ میںہراس چیزسے بری ہوںجس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے برا ء ت کااظہارکیاہے۔ بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مصیبت اورغم کے سبب سرمونڈنے والی عورت سے۔ زورزورسے رونے پیٹنے والی۔ اورکپڑے پھاڑنے والی عورت سے براء ت ظاہرفرمائی ہے۔ (صحیح ابن حبان۔حدیث نمبر:۴۲۳)
عَنْ یَزِیْدَ ْبنِ أَوْسٍ قَالَ لَمَّا مَرَضَ أَبُْوْ مُوْسٰی بَکَتْ عَلَیْہِ اِمْرَأَتُہٗ فَقَالَ لَہَا أَمَا سَمِعْتَ مَا قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ َسلَّمَ فَقَالَتْ بَلَی فَلَمَّا مَاتَ قَالَ یَزِیْدُ لَقِیْتُ الْمَرْأَۃَ فَقُلْتُ لَہَا مَا قَالَ أَبُوْ مُوْسٰی لَکِ أَمَا سَمِعْتِ مَا قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ فَقُلْتُ بَلَی فَقَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ َسلَّمَ لَیْسَ مِنَّا مَنْ سَلَقَ وَحَلَقَ وَمَنْ خَرِقَ ۔
ترجمہ : حضرت یزیدبن اوس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیںکہ جب حضرت ابوموسیٰ مرض وصال میںمبتلاہوئے توان کی بیوی روپڑیں۔اس پرحضرت ابوموسیٰ نے اپنی اہلیہ سے کہاکیاتم نے وہ نہیںسناجورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے ؟بیوی نے کہا۔ہاںمیںنے سناہے ۔ پھرجب حضرت ابوموسی کاانتقال ہوگیا تویزیدکہتے ہیںکہ میں نے حضرت ابوموسی کی بیوی سے ملاقات کی اوران سے دریافت کیاکہ وہ کون سی بات ہے جس کے بارے میںحضرت ابوموسیٰ نے آپ سے کہاتھاکہ تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناہے۔ اس پرانہوں نے کہاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے کہ وہ ہم میںسے نہیںجومصیبت کے وقت زورزورسے روئے ،سرمونڈوائے اورکپڑے پھاڑے۔(مسنداسحاق ابن راہویہ:۲۳۱۸)
غم یا مصیبت کے وقت سرکے بال مونڈوانا ناجائزاورگناہ کاکام ہے بلکہ یہ ہندوئوں کی رسم ہے۔

عصبیت پر وعید
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہُ قَالَ مَنْ خَرَجَ مِنَ الطَّاعَۃِ وَفَارَقَ الْجَمَاعَۃَ فَمَاتَ مَاتَ مِیْتَۃً جَاہِلِیَّۃً وَمَنْ قَاتَلَ تَحْتَ رَایَۃٍ عُمِّیَّۃٍ یَغْضَبُ لِعَصَبَۃٍ أَوْ یَدْعُو إِلَی عَصَبَۃٍ أَوْ یَنْصُرُ عَصَبَۃً فَقُتِلَ فَقِتْلَۃٌ جَاہِلِیَّۃٌ وَمَنْ خَرَجَ عَلَی أُمَّتِی یَضْرِبُ بَرَّہَا وَفَاجِرَہَا وَلاَ یَتَحَاشٰی مِنْ مُؤْمِنِہَا وَلاَ یَفِی لِذِی عَہْدٍ عَہْدَہُ فَلَیْسَ مِنِّیْ وَلَسْتُ مِنْہُ
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجو ہماری اطاعت وفرماںبرداری سے نکل گیااورمسلمانوںکی جماعت سے علیحدگی اختیارکرلی تووہ جاہلیت کی موت مرا(۱)۔ اورجوعصبیت کے سبب غصہ کرے یاعصبیت کی طرف دعوت دے یاعصبیت کی خاطر مددکرے۔یاقتل کیاجائے تووہ جاہلیت کی موت مرا(۲)۔ اور جو میری امت پرخروج کرے بلاتفریق نیک وبد،مومن اورمعاہدسب کومارتاہو وہ مجھ سے نہیںاورنہ میںاس سے ہوں۔(صحیح مسلم:۴۸۹۲،سنن نسائی:۴۱۳۱)
(۱) یعنی مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک انتہائی نا پسندیدہ کام ہے۔
(۲)یعنی سچ اور جھوٹ،جائز وناجائزکی تمیز کے بغیراللہ و رسول کی خوشنودی حاصل کرنے کے بجائے محض علاقائیت کی بنیادپر یا لسانی یا مشربی یا کسی اور وجہ سے کسی پر غصہ ہونایا عصبیت پر لوگوں کو ابھارنایا غلطی کے باوجود محض عصبیت کے سبب کسی کی مدد کرنا ،جھگڑا کرنا اور قتل ہوجانا ایسے تمام لوگوں سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ا ور بے زار ہیں۔

عَنْ جُبَیْرِ بْنِ مُطْعَمٍ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہُ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم قَالَ لَیْسَ مِنَّا مَنْ دَعَا إِلَی عَصَبِیَّۃٍ وَلَیْسَ مِنَّا مَنْ قَاتَلَ عَلَی عَصَبِیَّۃٍ وَلَیْسَ مِنَّا مَنْ مَاتَ عَلَی عَصَبِیَّۃٍ.
ترجمہ : حضرت جبیربن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاوہ ہم میںسے نہیںجولوگوںکوعصبیت کی دعوت دے ۔نہ وہ ہم میںسے ہے جوعصبیت کے سبب جنگ کرے۔ اورنہ وہ ہم میںسے ہے جو عصبیت پرمرے۔ (ابودائود:۵۱۲۳۔:۵۱۲۱۔کنزالعمال :۷۶۵۷)
عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ خَرَجَ مِنَ الطَّاعَۃِ وَفَارَقَ الْجَمَاعَۃَ فَمَاتَ عَلَی ذٰلِکَ فَہِیَ مِیْتَۃُ الْجَاہِلِیَّۃِ وَمَنْ خَرَجَ مِنْ أُمَّتِیْ بِظُلْمِ بَرَّہَا وَفَاجِرِہَا لَا یَحْتَشِمُ أَوْ قَالَ لَا یَتَحَاشٰیمِنْ مُّؤْمِنِہَا وَلَا یَفِیُ لِذِیْ عَہْدِہَا فَلَیْسَ مِنِّیْ َومَنْ قَتَلَ تَحْتَ رَایَۃٍ عَمِیَّۃٍ یَغْضُبُ لِلْعَصْبِیَّۃِ وَیَنْصُرُ لِلْعَصْبِیَّۃِ وَیَدْعُوْ لِلْعَصْبِیَّۃِ فَقِتْلَۃٌ جَاہِلِیَّۃٌ أَوْ قَالَ مِیْتَۃٌ جَاہِلِیَّۃٌ شَکَّأَبُوْ مُحَمَّدْ۔
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے حضو راقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوہماری اطاعت و فرماںبرداری سے نکل گیااورمسلمانوںکی جماعت سے علحدگی اختیارکرلی اوراسی حال میںمرگیاتووہ جاہلیت کی موت مرا۔اورجومیری امت پرخروج کرے نیک اوربدسب پرظلم کرے۔ مومن اورمعاہد کسی کی پروانہ کرے۔اس کامجھ سے کوئی تعلق نہیں۔اورجوعصبیت کے جھنڈے کے نیچے جنگ کرے۔عصبیت کے سبب غصہ کرے ۔ عصبیت کی دعوت دے۔تووہ جاہلیت پر قتل کیا گیا یا جاہلیت کی موت مرا۔(شعب الایمان بیہقی:۷۲۳۷)

عورت کو شوہرکے خلاف بھڑکانے پر وعید
عَنْ مَعْمَرٍ قَالَ أَخْبَرَنِیْ مَنْ سَمِعَ عِکْرَمَۃَ یَقُوْلُ قَالَ النَّبِیُ صَلَی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ لَیْسَ مِنَّا مَنْ خَبَّبَ اِمْرَأَۃً عَلَی زَوْجِہَا وَلَیْسَ مِنَّا مَنْ خَبَّبَ عَبْدًا عَلَی سَیِّدِہٖ ۔
ترجمہ : حضرت معمرسے مروی ہے وہ کہتے ہیںکہ مجھے ایک ایسے آدمی نے خبردی جس نے حضرت عکرمہ کویہ کہتے ہوئے سناکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:وہ ہم میںسے نہیںجوعورت کواس کے شوہرکے خلاف بھڑکائے اورنہ وہ ہم میںسے ہے جوکسی کے غلام کواس کے مالک کے خلاف کرے۔( مصنف عبدالرزاق:۲۰۹۹۴)
یعنی بیوی کوشوہرکے خلاف یاشوہرکوبیوی کے خلاف ورغلانا۔یاغلام کومالک کے خلاف بھڑکانا سخت ناجائز اورگناہ کاکام ہے۔جواس طرح کی مذموم حرکت کرتا ہے اسے اس حدیث سے عبرت حاصل لینی چاہیے۔
عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ خَبَّبَ خَادِمًا عَلَی أَہْلِہَا فَلَیْسَ مِنَّا، وَمَنْ أَفْسَدَ اِمْرَأَۃً عَلَی زَوْجِہَا فَلَیْسَ مِنَّا ۔
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جوخادم یاغلام کواس کے اہل خانہ کے خلاف کرے وہ ہم میںسے نہیںاور جو عورت کو اس کے شوہر کے خلاف ورغلائے وہ بھی ہم میں سے نہیں۔(مسنداسحاق ابن راہویہ:۱۳۴،شعب الایمان بیہقی:۵۱۹۶)

ڈاکہ ڈالنے پر وعید
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہُ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ النُّہْبَۃِ وَقَالَ مَنِ انْتَہَبَ فَلَیْسَ مِنَّا ۔ (۲)
ترجمہ : حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ڈاکہ ڈالنے سے منع فرمایااورفرمایاکہ جوڈاکہ ڈالے وہ ہم میںسے نہیں۔(مصنف ابن ابی شیبہ :۲۲۳۲۲)
یعنی ڈاکہ ڈالناسخت ناجائزوحرام اورکبیرہ گناہ ہے۔حضورایسے بدبخت لوگوںسے سخت ناراض و بیزار ہیں جو ڈاکہ ڈالنے ،لوٹ پاٹ مچانے اور رہزنی کے کام کرتے ہیں۔
عَنْ جَابِرٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنِ انْتَہَبَ نُہْبَۃً فَلَیْسَ مِنَّا۔
ترجمہ:حضرت جابررضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جوڈاکہ ڈالے وہ ہم میںسے نہیں۔(مسنداحمدبن حنبل:۱۵۲۸۹)

عَنْ قَابُوْسِ بْنِ أَبِیْ ظَبْیَان عَنْ أَبِیْہِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ لَیْسَ مِنَّا مَنِ انْتَہَبَ أَوْ سَلَبَ أَوْ أَشَارَ بِالْسَّلْبِ۔
ترجمہ:حضرت قابوس بن ظبیان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ اپنے والد سے اور وہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ آدمی ہم میں سے نہیں جو ڈاکہ ڈالے یا کسی کا سامان چھین لے یا کسی کے ساز و سامان چھیننے کے لیے کسی کو اشارہ کرے۔(مستدرک حاکم:۲۶۰۵)
عَن اِبْنِ عَبَّاسٍ لَیْسَ ِمنَّا مَنْ یَّنْتَہِبُ وَلَا شِغَارَ فِیْ الِإسْلاَمِ وَالْشِّغَارُ أَنْ تَنْکِحَ الْمَرْأَتَانِ إِحْدَاہُمَا بِالأُخْرٰی بِغَیْرِ صُدَاقٍ
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاوہ ہم میںسے نہیںجوڈاکہ ڈالے اوراسلام میں شغار نہیں ہے۔(مسندالفردوس دیلمی:۵۲۶۹)

دنیا داری پر وعید
عَنْ أَنَسٍ بْنِ مَالِکٍ لَسْتُ مِنَ الْدُنَّیَا وَلَیْسَتْ مِنِّیْ۔
ترجمہ : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میںدنیاسے نہیںاورنہ دنیامجھ سے ہے۔ (مسندالفردوس۔ حدیث نمبر:۵۲۸۲)
غور کریںجب اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیاداری سے بے زاری ظاہرفرما دی ہے تومسلمانوںکو کہاں زیب دیتا ہے کہ بلاوجہ دنیاوی معاملات میں پڑیںاور اسی کو اپنی زندگی اور موت کا مقصد بنالیں۔
غیر ضروری کھیل کود پر وعید
عَنْ جَابِرٍلَسْتُ مِنْ دَدٍ وَلَا دَدٌ مِّنِّی ۔
ترجمہ : حضرت جابررضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میںکھیل کودسے نہیں اور نہ کھیل کودمجھ سے ہے۔ (مسندالفردوس:۵۲۸۳)
یعنی لایعنی کھیل کودکو مذہب میںکوئی جگہ حاصل نہیںہے اورنہ باطل چیزوںکے لیے دین میںکوئی گنجائش ہے اس لیے مسلمانوںکوچاہیے کہ غیرضروری کھیل کودسے مکمل پرہیز کریں۔ہاںوہ کھیل کودجن سے جسمانی اورذہنی چستی پھرتی بنی رہے ایسے کھیل کی اسلام میںاجازت ہے مثلاًگھوڑ سواری، تیراندازی ،تیراکی وغیرہ جن کھیلوںمیں کھلاڑی ستر کھولے رہتے ہیںانہیںدیکھنا گناہ ہے ۔یہ حکم مردوںکے کھیل دیکھنے کاہے اورجن کھیلوں میں عورتیںیالڑکیاںکم لباس میںرہتی ہیںانہیں کھیلنا اوردیکھنادونوںہی ناجائز اور حرام ہے۔ مثلاًعورتوںکی تیراکی، بیڈمنٹن،ہاکی وغیرہ۔

نسب بدلنے پر وعید
عَنْ أَبِیْ ذَرٍّ أَنَّہُ سَمِعَ رَسُوْلَ اللّٰہِ -صَلَّیاللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ- یَقُوْلُ لَیْسَ مِنْ رَجُلٍ اِدَّعَی لِغَیْرِ أَبِیہِ وَہُوَ یَعْلَمُہُ إِلاَّ کَفَرَ وَمَنِ ادَّعَی مَا لَیْسَ لَہُ فَلَیْسَ مِنَّا وَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ وَمَنْ دَعَا رَجُلاً بِالْکُفْرِ أَوْ قَالَ عَدُوَّاللّٰہِ وَلَیْسَ کَذَلِکَ إِلاَّ حَارَ عَلَیْہِ ۔
ترجمہ : حضرت ابوذررضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیںکہ میںنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوئے سنا جوکوئی خودکواپنے باپ کے علاوہ کسی اورکی طرف منسوب کرتاہے حالانکہ وہ جانتاہے کہ جس کی طرف وہ خودکومنسوب کررہاہے وہ اس کاباپ نہیںہے ۔تواس نے کفرکیا۔(۱)اورجوکسی ایسی چیزکادعوی کرے جواس کی نہ ہوتووہ ہم میںسے نہیںاس نے اپناٹھکاناجہنم میںبنالیا۔(۲) اور جو کسی کوکفرکی طرف بلائے یاکہے۔ اے اللہ کے دشمن! حالانکہ وہ ایسانہ ہوتویہ بات کہنے والے کی طرف لوٹ آئے گی۔(۳) (صحیح مسلم:۲۲۶)
(۱)یعنی کسی کویہ زیب نہیںدیتاکہ وہ جان بوجھ کرخودکواپنے باپ کے علاوہ کسی اورکی طرف منسوب کرے۔ حضورسرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عمل کوکفر سے تشبیہ دی ہے۔یہ حدیث اوراس کی وعیدیںان لوگوںکے لیے لمحہ فکریہ ہیں۔جوشیخ،خان،ملابرادری سے تعلق رکھنے کے باوجود سید بنے پھرتے ہیں، انہیںاس حدیث رسول سے بطورِ خاص عبرت ونصیحت حاصل کرنی چاہیے۔
(۲)یعنی جوکوئی کسی کی دکان ،مکان اورجائدادپرناحق دعوی کرے وہ جہنم میںداخل کیاجائے گا۔جب محض غیرکی چیزوںپرناحق دعوی کرنے کی بنیادپرجہنم میںداخلہ دیاجانے والاہے توآپ خوداندازہ لگاسکتے ہیںکہ باقاعدہ کسی کی زمین،دکان،مکان اورجائدادپر قبضہ کرنے والے کاانجام کیاہے!۔
(۳)یعنی کسی مسلمان کو کافر یااللہ کادشمن نہیںکہناچاہیے اگر فی الواقع وہ ویسا نہیں ہے تو اس طرح کاجملہ خودکہنے والاپرلوٹ آئے گا۔

ناحق کسی کی چیز پر دعوی کرنے پر وعید
عَنْ أَبِیْ ذَرٍّ أَنَّہٗ سَمِعَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ یَقُوْلُ مَنِ ادَّعیٰ ماَ َلیْسَ لَہٗ فَلَیْسَ مِنَّا وَلْیَتَبَوَّأَ َمقْعَدَہٗ ِمنَ الناَّرِ۔ (۱)

ترجمہ: حضرت ابوذررضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوںنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوئے سنا کہ جوکسی ایسی چیزکادعوی کرے جواس کی نہ ہوتووہ ہم میںسے نہیںوہ اپناٹھکانہ جہنم میںبنالے۔(ابن ماجہ:۲۳۱۹،۲۴۰۸)
اس حدیث سے ان لوگوںکوعبرت حاصل کرنی چاہیے جواپنی دولت وجائدادمیں اِضافہ کرنے کے لیے ناحق دوسروںکی چیزوںپرقبضہ کرلیتے ہیں۔پھرغورکرنے کی بات یہ ہے کہ حضورنے حدیث شریف میںان لوگوںکی مذمت فرمائی ہے جودوسروںکی چیزوں پرناحق دعوی کریںکہ یہ میراہے۔صرف دعوی کرنے پر وعیدہے کہ وہ ہم میںسے نہیںاوراس کاٹھکانہ جہنم ہے توجوناحق کسی کی چیزپرقبضہ کرلے اسے خوداندازہ لگالیناچاہیے کہ اس کا ٹھکانہ کہاںہوسکتاہے!۔

بدفالی،کہانت اور جادو ٹونا پر وعید
عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ ، قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ لَیْسَ مِنَّا مَنْ تَطَیَّرَ ، أَوْ تُطِیَّرَ لَہُ أَوْ تَکَہَّنَ ، أَوْ تُکِہِّنَ لَہُ أَوْ سَحَرَ ، أَوْ سُحِرَ لَہُ وَمَنْ عَقَدَ عُقْدَۃً أَوْ قَالَ مَنْ عَقَدَ عُقْدَۃً ، وَمَنْ أَتَی کَاہِنًا فَصَدَّقَہُ بِمَا یَقُوْلُ فَقَدْ کَفَرَ بِمَا أُنْزِلَ عَلَی مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ۔
ترجمہ : حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:وہ ہم میںسے نہیںجوبدفالی لے یاجس کے لیے بدفالی لی جائے۔ اورنہ وہ ہم میںسے ہے جوکہانت کرے یاجس کے لیے کہانت کی جائے ۔اورنہ وہ ہم میںسے ہے جوجادوکرے یاجس کے لیے جادوکیا جائے۔ اورجو کاہن کے پاس جائے اوراس کی باتوںکوسچاسمجھے توگویااس نے محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر جوکچھ اللہ نے نازل کیاہے اس سے کفرکردیا۔(مسندبزار:۳۵۷۸)
یعنی بدفالی،کہانت،جادوٹونااورکاہنوںکے پاس جانایہ سب سخت ناجائزکام ہیں۔ مسلمانوںکوان سے بچنا چاہیے۔
بدفالی:یہ ہے کہ راستہ میںآتے جاتے ہوئے کالی بلی نے راستہ کاٹ دیاتویہ سمجھناکہ اب آگے کوئی مصیبت ہے۔اس لیے آگے نہ جانا یاصبح سویرے کسی ناپسندیدہ آدمی پرنظر پڑنے کی وجہ سے یہ گمان کرناکہ آج کادن صحیح نہیںرہے گا۔وغیرہ وغیرہ۔
کہانت:زائچہ اورہتھیلی دیکھ کرمستقبل کے حالات بتاناجیساکہ جوتشی اورکاہن کر تے ہیں۔ خود کہانت کرنایا کسی کاہن کے پاس جانااورمستقبل کے بارے میںاس سے پوچھنایہ دونوںہی نا جائز اور حرام ہے۔
اسی طرح کسی کی خوشحالی،اچھی صحت،شہرت،عزت وغیرہ دیکھ کراس کے خلاف جادوئی کاروائی کرنایہ بھی ناجائزوحرام ہے۔
کاہن کی باتوںکوسچاسمجھنااوراس کی باتوںپربھروسہ کرنایہ ایمان واسلام کے منافی ہے۔اس لیے مسلمانوںکومذکورہ بالاتمام باتوںسے بچناچاہیے۔
عَنْ عِکْرَمَۃَ عَنْ ِابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِیَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَیْسَ مِنَّا مَنْ تَسَحَّرَ أَوْ تُسِحِّرَ لَہٗ ، أَوْ تَکَہَّنَ أَوْ تُکِہِّنَ لَہٗ أَوْ تَطَیَّرَ أَوْ تُطِیِّرَ لَہٗ ۔
ترجمہ : حضرت عکرمہ سے مروی ہے وہ روایت کرتے ہیںحضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’وہ ہم میںسے نہیںجوجادوکرے یاجس کے لیے جادوکیا جائے۔یاکہانت کرے یا جس کے لیے کہانت کی جائے۔یابدفالی لے یاجس کے لیے بدفالی لی جائے‘‘۔(معجم اوسط طبرانی:۴۴۱۳)

مسلمانوں پر ہتھیاراٹھانے کی ممانعت
عَنْ نَافِعٍ عَنِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ الْنَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ َسَلَّمَ قَالَ مَنْ
حَمَلَ عَلَیْنَا الْسِّلَاحَ فَلَیْسَ مِنَّا۔
ترجمہ : حضرت نافع سے مروی ہے وہ روایت کرتے ہیںحضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوہم پرہتھیاراٹھائے وہ ہم میںسے نہیں (صحیح بخاری:۶۸۷۴۔مصنف عبدالرزاق:۱۸۶۸۰۔مصنف ابن ابی شیبہ:۲۸۹۲۷۔ مسندطیالسی:۱۸۲۸صحیح ابن حبان:۴۶۷۳)
حَدَّثَنَا إِیَاسُ بْنُ سَلَمَۃَ بْنَ الأَکْوَعِ، قَالَ سَمِعْتُ أَبِی، یَقُولُ سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ مَنْ سَلَّ السَّیْفَ عَلَیْنَا فَلَیْسَ مِنَّا۔
ترجمہ : حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیںکہ میںنے اپنے والدکویہ کہتے ہوئے سناکہ میںنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوئے سناجوہم پرتلواراٹھائے وہ ہم میںسے نہیں۔(صحیح مسلم:۲۹۲المعجم الکبیرللطبرانی:۶۱۲۶،مصنف ابن ابی شیبہ:۲۸۹۳۰مسندطیالسی: ۱۰۲۶)
یعنی مسلمان کوچاہئے کہ کسی دوسرے مسلمان کے خلاف تیروتلوار،رائفل وبندوق اور دوسرے آلات حرب وضرب نہ اٹھائے نہ ان چیزوںسے کسی مسلمان کی طرف اشارہ کرے۔ مباداتھوڑی سی چونک ہوجانے کی صورت میںکسی کی جان جاسکتی ہے۔
عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ مَنْ حَمَلَ عَلَیْنَا الْسِّلَاحَ فَلَیْسَ مِنَّا وَلَا رَاصِدٌ بِطَرِیْقٍ
ترجمہ : حضرت عمروبن شعیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جوہم پرہتھیاراٹھائے وہ ہم میں سے نہیں اور وہ بھی ہم میں سے نہیںہے جورہزنی کرے ۔ـــ(ـمصنف عبدالرزاق:۱۸۶۸۲)
یعنی جیب کترنااوررہزنی کے کام کرنایہ سخت ناجائزاورگناہ کے کام ہیں مسلمانوں کوان سے بچنا چاہیے۔

اچھی اور بری تقدیر پر ایمان نہ لانے پر وعید
عَنِ الشُّعَبِیْ أَنَّ عَلِیْاً خَطَبَ فَقَالَ لَیْسَ مِنَّا مَنْ لَّمْ یُؤْمِنْ بِاْلقَدْرِ خَیْرِہٖ وَشَرِّہٖ ۔
ترجمہ: حضرت شعبی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خطاب فرمایا اور کہا کہ وہ ہم میں سے نہیں جو اچھی اور بری تقدیر پر ایمان نہ لائے۔(کنز العمال :۱۵۵۴)
یعنی اچھی اور بری تقدیرپر ایمان لاناہر مسلمان پر ضروری ہے۔ تقدیر یہ ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کو پیدا کرنے سے پہلے ہی یہ تحریر فرمادیا تھا کہ بندہ کیا کرنے والا ہے۔یہ غلط فہمی نہ ہوکہ بندہ مجبور محض ہے کہ اللہ تعالی نے جو لکھ دیا ہے وہی بندہ کررہا ہے یا کرنا ہوگا۔ بات ایسی نہیں ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے علم ا ور قدرت سے ہزاروں سال پہلے ہی یہ جان لیا تھاکہ بندہ کیا کرنے والا ہے چنانچہ وہ تحریر کردیا ۔

علم سے کنارہ کشی پر وعید
عَنْ اِبْنِ عُمَرَلَیْسَ مِنِّیْ إِلاَّ عَالِمٌ أوْ مُتَعَلِّمٌ ۔
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے مروی وہ کہتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھ سے نہیںہیں مگرعالم اورطالب عالم۔(مسندالفردوس:۵۲۷۹ا)
یعنی علم اِسلام کی زندگی اوردین کاستون ہے۔اس لیے کہ علم کے ذریعہ دین ومذہب ،عقائدواعمال،حلال وحرام، اچھے ،برے کاموںکی تمیزممکن ہے۔مسلمانوںکوکسی بھی حالمیںعلم سے کورا نہیں رہنا چاہیے۔ خودحضورسرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :بُعِثْتُ مُعَلِّماًیعنی میںمعلم بناکربھیجاگیاہوں۔ جب نبی کی شان یہ ہے کہ وہ معلم بناکر بھیجے گئے توامت کوہرگزیہ زیب نہیںدیتاکہ وہ جہالت میںڈوب کرزندگی گزارے۔اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عالم اور طالب علم کے علاوہ بقیہ تمام لوگوں سے براء ت ظاہر فرمائی ہے۔
وتر نہ پڑھنے پر وعید
عَنْ مَعْمَرٍ عَنِ الْحَسَنِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہ صَلَی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللّٰہَ وِتْرٌ یُحِبُّ الْوِتْرَ فَمَنْ لَمْ یُوْتَرْ فَلَیْسَ مِنَّا۔
ترجمہ : حضرت معمربن حسن رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایابیشک اللہ وتر(یعنی بے جوڑ)ہے اوروترکوپسند فرماتا ہے ۔جووترنہ پڑھے وہ ہم میںسے نہیں۔(مصنف عبدالرزاق:۴۵۷۹)
عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ لَمْ یُوتَرْ فَلَیْسَ مِنَّا ۔
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجووترنہ پڑھے وہ ہم میںسے نہیں۔(مصنف ابن ابی شیبہ :۶۸۶۱)
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ بَرِیْدَۃَ عَنْ أَبِیْہِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ اَلْوِتْرُ حَقٌّ فَمَنْ لَمْ یُوتَرْ فَلَیْسَ مِنَّا۔
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ روایت کرتے ہیںاپنے والدسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاوترحق ہے ۔ جو وترنہ پڑھے وہ ہم میںسے نہیں۔(مصنف ابن ابی شیبہ :۶۸۶۳)
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ بُرَیْدَۃَ عَنْ أَبِیْہِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ اَلْوِتْرُ حَقٌّ فَمَنْ لَمْ یُوتَرْ فَلَیْسَ مِنَّا الْوِتْرُ حَقٌّ فَمَنْ لَمْ یُوتَرْ فَلَیْسَ مِنَّا الْوِتْرُ حَقٌّ فَمَنْ لَمْ یُوتَرْ فَلَیْسَ مِنَّا ۔
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ روایت کرتے ہیںاپنے والدسے انہوںنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوئے سناکہ وترحق ہے جووترنہ پڑھے وہ ہم میںسے نہیں۔وترحق ہے جووترنہ پڑھے وہ ہم میںسے نہیں۔وترحق ہے جووترنہ پڑھے وہ ہم میںسے نہیں۔(سنن ابوداود:۱۴۲۱)
عشاء کی ۱۷؍رکعتوںمیںتین رکعت وترکی ہے جوہرمسلمان عاقل و بالغ ،مرد وعورت پرواجب ہے۔اس کی بڑی تاکیدآئی ہے جیساکہ مذکورہ حدیثوںسے ظاہرہے۔

جنازہ کے آگے چلنے پر وعید

عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ َوسَلَّمَ اَلْجَنَازَۃُ مَتْبُوْعَۃٌ وَلَا تَتْبَعُ لَیْسَ مِنَّا مَنْ تَقَدَّمَہَا ۔
ترجمہ:حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جنازہ کی اتباع کی جاتی ہے نہ کہ جنازہ (تابع )پیچھے رہے۔وہ ہم میں سے نہیں جو جنازہ کے آگے چلے۔(مسند امام احمد بن حنبل:۳۹۳۹)
جنازے کے ساتھ چلنے کے آداب یہ ہیں کہ آدمی جنازے کے پیچھے چلے۔جنازے کے آگے آگے چلنا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت ناپسند ہے اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنازے کے آگے چلنے والے سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے۔

سانپ کو قتل نہ کرنے پر وعید
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ َوسَلَّم مَنْ تَرَکَ الْحَیَّاتِ مَخَافَۃَ طَلَبِہِنَّ فَلَیْسَ مِنَّا مَا سَالَمْنَاہُنَّ مُنْذُ حَارَبْنَاہُنَّ ۔
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوسانپ کواس ڈرسے چھوڑدے کہ وہ کاٹ لے گاتووہ ہم میںسے نہیں۔(۱) جب سے ہم نے ان سے لڑائی کی ہے کبھی ان سے مصالحت نہیںکی۔(۲) (سنن ابوداؤد:۵۲۵۲)
(۱)یعنی یہ مانناکہ اگرمیںسانپ کومارتاہوں تواس کانراوراگریہ نرہے تواس کی مادہ مجھ سے بدلہ لے گی یہ توہم پرستانہ نظریہ ہے۔اس سے بچناہرمسلمان پرضروری ہے۔
(۲)یعنی سانپ اورانسان میںکبھی ددستی نہیںہوئی شروع ہی سے دشمنی رہی ہے۔ جب بھی سانپ کوموقع ملتاہے وہ آدمی کوکاٹنے سے نہیںچوکتا۔لہذا آدمی کو بھی چاہیے کہ جب موقع ملے سانپ کو ماردے۔
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنْ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہُ أَمَرَ بِقَتْلِ الْحَیَّاتِ وَقَالَ مَنْ خَافَ ثَأْرَہُنَّ فَلَیْسَ مِنَّا۔(۲)
ترجمہ : حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سانپ کوقتل کرنے کاحکم فرمایااورفرمایاجوان کے بدلہ لینے کاخوف کرے وہ ہم میںسے نہیں ۔ ( سنن نسائی :۳۲۰۶)
عَنِ اِبْنِ مَسْعُودٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ َوسَلَّم مَنْ قَتَلَ حَیَّۃً فَلَہُ سَبْعُ حَسَنَاتٍ وَمَنْ قَتَلَ وَزَغاً فَلَہُ حَسَنَۃٌ وَمَنْ تَرَکَ حَیَّۃً مَخَافَۃَ عَاقِبَتِہَا فَلَیْسَ مِنَّا ۔
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاجس نے سانپ کوقتل کیااس کے لیے سات نیکیاںہیں اورجس نے گرگٹ کوقتل کیااس کے لیے ایک نیکی ہے اورجو سانپ کو بدلہ لینے کے ڈرسے چھوڑدے وہ ہم میںسے نہیں۔ (مسنداحمد :۴۰۶۴ )

عَنْ جَرِیْرٍ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ اُقْتُلُوْا الْحَیَّاتِ کُلَّہَا ، مَنْ تَرَکَہَا خَشْیَۃَ ثَأْرِہَا فَلَیْسَ مِنَّا ۔
ترجمہ : حضرت جریررضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہرطرح کے سانپ کوقتل کرو۔جواس کے کاٹ لینے کے خوف سے اسے چھوڑدے وہ ہم میںسے نہیں۔(معجم کبیرطبرانی :۲۳۴۴)
غیر کی حاملہ سے وطی کرنے پر وعید

عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ أَبِیْ قُلاَبَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُِ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَیْسَ مِنَّا مَنْ وَطِیئَ حُبْلٰی.
ترجمہ : حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے وہ روایت کرتے ہیںحضرت ابوقلابہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:وہ ہم میںسے نہیںجوغیرکی حاملہ سے وطی کرے۔ ( مسند احمد بن حنبل :۲۳۱۸،مصنف ابن ابی شیبہ::۱۷۴۵۸)
یعنیبیوہ یا مطلقہ عورت کے پیٹ میںاگربچہ پل رہاہوتواس سے نکاح کرناحرام ہے۔لیکن اگرکسی نے نکاح کرلیاتو نکاح ہوگیا۔البتہ جب تک کہ پیٹ میںپلنے والابچہ پیدانہ ہو جائے اس وقت تک حاملہ عورت سے صحبت کرناجائزنہیں۔تاکہ بچے کا نسب درست رہے اور اس کے باپ کے علاوہ کوئی دوسرا اس میں شامل نہ ہو۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ:لَیْسَ مِنَّا مَنْ وَطِیئَ حُبْلٰی .
ترجمہ:حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:وہ ہم میںسے نہیںجو(غیرکی)حاملہ سے وطی کرے۔ (معجم کبیرطبرانی:۱۱۹۲۲)
حسد، چغلی اور کہانت کرنے پر وعید
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ بُسْرٍ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَیْسَ مِنِّیْ ذُوْ حَسَدٍ، وَلَا نَمِیْمَۃٍ، وَلَا کَہَانَۃٍ، وَلَا أَنَا مِنْہُ ۔
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن بسررضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:حسدکرنے والا،چغلی کرنے والااورکہانت کرنے والامجھ سے نہیںاورنہ میںان سے ہوں۔ ( مجمع الزوائد:۱۳۱۲۶)
عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ لَیْسَ مِنِّیْ ذُوْ حَسَدٍ وَلَا نَمِیْمَۃٍ وَلَا کَہَانَۃٍ وَلَا أَنَا مِنْہُ ۔
ترجمہ : حضرت معاذبن جبل رضی اللہ تعا لیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:حسدکرنے والا،غیبت کرنے والااورکہانت کرنے والامجھ سے نہیںہے اورنہ میںان میںسے ہو۔(مسندالفردوس:۵۲۸۰)
حسد: یعنی یہ آرزو کرناکہ جونعمت فلاں آدمی کے پاس ہے وہ بعینہ مجھے مل جائے۔ بعینہٖ وہی چیزاسے اسی وقت مل سکتی جب کہ وہ نعمت دوسرے سے چھن جائے۔اس طرح کی ذہنیت نہایت ہی تباہ کن ہے۔ حدیثوں میںہے کہ حضورسرکاردو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حسدایمان کواس طرح کھالیتاہے جس طرح آگ لکڑی کوکھالیتی ہے۔(ابودائود)
حسدکی وجہ سے بہت سے گھرتباہ و بربادہوجاتے ہیںقتل اور دوسرے بڑے جرائم انجام پاتے ہیں۔اس لیے حضورنے اس بدترین خصلت سے سخت بیزاری ظاہرفرمائی ہے۔
اسی طرح چغلی کرنابھی بہت بری عادت ہے بعض حدیثوںمیںآیاہے کہ چغل خور جنت میںنہیںجائے گا۔ لوگوںکے درمیان بہت سی لڑائیاںاوررنجشیں چغل خوری ہی کی وجہ سے رونماہوتی ہیں۔ لہٰذااس بری عادت سے بھی مسلمانوںکوپرہیزکرنی چاہیے۔
کہانت: یہ ہے کہ زمانہ مستقبل کے بارے میںپیشین گوئی کی جائے اورکہانت کرنے والایعنی جوتشی وکاہن غیب کی ڈھکی چھپی باتوںکے جاننے کادعویٰ کرے۔کہانت سرا سر اسلام کے منافی عمل ہے اورکاہنوں جوتشیوںکی باتوںپراعتبارکرنا،بھروسہ کرنادین اسلام اورحضورسرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کوجھٹلاناہے۔ اس لیے مسلمانوںکو چاہیے کہ مذکورہ اعمال سے بچیں۔

ریشمی لباس پہننے اور چاندی کے برتن میں پینے پر وعید
عَنْ اِبْنِ عُمَرَ قَال َ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم مَنْ لَبِسَ الْحَرِیْرَ وَشَرِبَ فِیْ الْفِضَّۃِ فَلَیْسَ مِنَّا وَمَنْ خَبَّبَ اِمْرَأَۃً عَلَی زَوْجِہَا أَوْ عَبْدًا عَلَی مَوَالِیْہِ فَلَیْسَ مِنَّا۔
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:جوریشمی کپڑاپہنے اورچاندی کے برتن میں پیے وہ ہم میںسے نہیں۔(۱) اورجوعورت کواس کے شوہرکے خلاف ورغلائے یاغلام کواس کے مالکوںکے خلاف بھڑکائے وہ ہم میںسے نہیں۔(معجم اوسط طبرانی:۴۹۹۳)
(۱) مردوںکے لیے ریشمی لباس حرام ہے۔البتہ عورتوںکے لیے ریشمی لباس پہنناجائزہے وہ پہن سکتی ہیں۔سونے چاندی کے برتن میں کھاناپینامردوعورت دونوں کے لیے ناجائزوممنوع اور گناہ کا کام ہے۔
خصی ہونے یا کرنے پر وعید
عَنْ مُجَاہِدٍ وَعَطَائٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَال شَکا رَجُلٌ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہ ِ وَسَلَّمَ الْعَزُوْبَۃَ فَقَالَ أَلا أَخْتَصِیْ؟ فَقَالَ:لاَ، لَیْسَ مِنَّا مَنْ خَصَی أَواخْتَصَی ۔
ترجمہ:حضرت مجاہداورعطاسے مروی ہے وہ دونوںحضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماسے روایت کرتے ہیںکہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تنہائی کی شکایت کی اوردریافت کیاکہ کیامیںخصی ہوجائوں؟توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:وہ ہم میں سے نہیںجوخصی ہویاکسی کوخصی کرے۔(معجم کبیرطبرانی:۱۱۱۴۱)
یعنی اِسلام میں یہ جائز نہیں کہ کوئی اپنی صنف بدلے۔یعنی لڑکے کو لڑکی بننے کی اورلڑکی کو لڑکا بننے کی اجازت نہیں ہے۔زمانہ قدیم میں لوگ اپنی مفلسی اور غربت کی وجہ سے خصی ہوا کرتے تھے تاکہ شادی وغیرہ کی ضرورت باقی نہ رہے۔جسے حضور نے ناجائز قرار دیا ۔ جب کہ آج کل لڑکے لذّات اور حصو ل زر کے لیے اپنی صنف تبدیل کر رہے ہیں یہ تو اور بھی سخت ناجائز اور حرام ہے۔

امانت کی قسم کھانے پر وعید
عَنْ اِبْنِ بُرِیْدَۃَ عَنْ أَبِیْہِ قَال قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُِ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ حَلَفَ بِالأَمَانَۃِ فَلَیْسَ مِنَّاوَمَنْ خَبَّبَ زَوْجَۃَ اِمْرَئٍ أَوْ مَمْلُوْکِہٖ فَلَیْسَ مِنَّا ۔
ترجمہ : حضرت ابن بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ روایت کرتے ہیںاپنے والدسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جوامانت کی قسم کھائے وہ ہم میںسے نہیں(۱)۔اورجوکسی کی بیوی کواس کے شوہرکے خلاف بھڑکائے وہ ہم میںسے نہیں۔ اورجوکسی کے غلام کواس کے مالک کے خلاف کرے وہ ہم میںسے نہیں۔(شعب الایمان بیہقی:۱۰۶۷۲)
لہٰذا مسلمان کوچاہیے کہ حسب ضرورت ومصلحت صرف اللہ کے نام کی قسم کھائے۔ امانت یاکسی دوسری چیزکے نام پہ قسم کھانا درست نہیں۔

قدرت کے با وجود نکاح نہ کرنے پر وعید
عَنْ أَبِی نَجِیحٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم مَنْ قَدَرَ عَلَی أَنْ یَنْکِحَ فَلَمْ یَنْکِحْ فَلَیْسَ مِنَّا ۔
ترجمہ : حضرت ابونجیح سے مروی ہے وہ کہتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جونکاح کرنے پرقادرہواس کے باوجودنکاح نہ کرے وہ ہم میںسے نہیں۔(سنن دارمی۲۲۱۹)
یعنی اللہ تعالیٰ نے جن لوگوںکوجسمانی اورمالی اعتبارسے فراخی اور کشادگی عطافرمائی ہے انہیں چاہیے کہ نکاح کرنے میں ٹال مٹول سے کام نہ لیں۔نکاح کرلینے کی صورت میں آدمی کاآدھادین محفوظ ہوجاتاہے۔گناہ کادروازہ بہت حدتک بندہوجاتاہے ۔اس لیے قدرت کے باوجودنکاح کرنے میںتاخیرنہیںکرنی چاہیے۔

وسعت کے باوجود اہل خانہ پرتنگی کرنے پروعید
عَنْ جُبَیْرِ بْنِ مُطْعَمٍ۔لَیْسَ مِنَّا مَنْ وَسَّعَ اللّٰہُ عَلَیْہِ ثُمَّ قَتَرَ عَلَی عَیَالِہٖ
ترجمہ : حضرت جبیربن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:وہ ہم میںسے نہیںجسے اللہ نے مال ودولت کے ذریعہ کشادگی دی ہولیکن وہ اپنے اہل وعیال پرتنگی کرے۔(کنزالعمال:۴۴۹۵۰)
یعنی جب اللہ نے مال ودولت سے نوازاہے تویہ سخت ناشکری کی بات ہے کہ آدمی اپنے اہل خانہ کے کھانے پینے،پہننے اوڑھنے اوردیگرمعاملات میںکنجوسی اوربخیلی کا مظاہرہ کرے۔بعض حدیثوں میں ہے کہ سب سے افضل صدقہ وہ ہے جوآدمی اپنی بیوی بچے اور دیگراہل خانہ پرخرچ کرتاہے۔
عَنْ عَائِشَۃَ لَیْسَ مِنَّا مَنْ وَسَّعَ اللّٰہُ عَلَیْہِ ثُمَّ قَتَرَ عَلَی عَیَالِہٖ
ترجمہ : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے مروی ہے وہ کہتی ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:وہ ہم میںسے نہیںجسے اللہ نے روزی میںکشادگی دی پھربھی وہ اپنے اہل وعیال پرخرچ کرنے میںتنگی کرے۔(مسند الفردوس :۵۲۷۱)

بغیر دین مہر نکاح کرنے اور زکوٰۃ کی وصولی
میں لوگوں کو دقت میں ڈالنے پر وعید
عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لاَ جَلَبَ وَلاَ جَنَبَ وَلاَ شِغَارَ فِی الإِسْلاَمِ وَمَنِ انْتَہَبَ نُہْبَۃً فَلَیْسَ مِنَّا۔
ترجمہ : حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اسلام میںجَلَب(۱) جَنَب(۲)ْاورشغار(۳) نہیںہے اورجوکوئی ڈاکہ ڈالے وہ ہم میںسے نہیں۔(جامع ترمذی:۱۱۴۹سنن نسائی :۳۳۴۸)
(۱) جلب : یہ ہے کہ جب زکوۃ وصول کرنے والا عامل کسی شہر یا بستی میں جائے توشہر کے باہر ہی ٹھہر جائے اور بستی کے لوگو ں کوخبر بھیج دے کہ وہ یہاں آکر زکوۃ ادا کردیں۔ اس سے عامل کو منع کیا گیا ہے کہ اس میں خواہ مخواہ لوگوں کو پریشانی ہو گی۔عامل کے لیے حکم یہ ہے کہ وہ خود بستی میں جائے اور لوگوں سے زکوۃ وصول کرے۔
(۲) جنب : یہ ہے کہ جب عامل کسی بستی یا شہر میں پہنچے تو وہاں کے لوگ اپنی بستی یا شہر سے کہیں اور چلے جائیں تاکہ زکوۃ دینے سے بچ جائیںیا کم از کم عامل کو پریشانی میں ڈال دیں۔اس طرح کی حرکت سے بستی والوں کو منع کیا گیا ہے۔
(۳) شغار: یہ ہے کہ کوئی آد می اس شرط پر اپنی بیٹی یا بہن کا نکاح کسی دوسرے آدمی سے کردے کہ وہ بھی اپنی بیٹی یا بہن کا نکاح اس کے ساتھ کر دے گا اور یہی ان دونوں کا مہر قرار پائے۔ اسلام میں اس طرح کے نکاح کو ناجائز قرار دیا گیا ہے کہ اس میں لڑکی کی حق تلفی ہے۔
عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ أَخَذَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی الْنِّسَائِ حَیْثُ بَایَعْہُنَّ أَنْ لَا یَنْحِنَ، فَقُلْنَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ إِنَّ نِسَاء أَسْعَدِننَا فِیْ الْجَاہِلِیَّۃِ ، فَنَسعَدُ ہُنَّ فِیْ الْإِسْلَامِ ؟ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا إِسْعَاَدَ ِفْی الْإِسْلَامِ وَلاَ شِغَارَ فِیْ اْلإِسْلاَمِ ، وَلَا عَقَرَ فِیْ الْإِسْلَامِ ، وَلاَ جَلَبَ وَلَا جَنَبَ وَمَنِ انَّتَہَبَ فَلَیْسَ مِنَّا۔
ترجمہ:حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب عورتوںسے بیعت لی توآپ نے ان سے یہ عہدلیاکہ وہ نوحہ نہیںکریں گی۔ ان لوگوںنے عرض کیا۔یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم وہ عورتیں ہیں جوزمانہ جاہلیت میںمیت پہ نوحہ کرنے میںایک دوسرے کی مدد کیاکرتی تھیں۔ توکیااسلام میں ہمیںنوحہ کی اجازت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسلام میں اسعاد نہیںہے۔(۱)اورنہ اسلام میںشغارہے اورنہ اسلام میں کسی کی قبر پہ جانورذبح کرنے کی اجازت ہے(۲) اورنہ جلب اور جنب (۳)کی اجازت ہے اورجوڈاکہ ڈالے وہ ہم میںسے نہیں۔(صحیح ابن حبان:۳۲۱۳)
(۱) اسعاد : یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت میں میت پر رونے اور اس کی خوبیاں بیان کر کے نوحہ کر نے کے لیے عورتیں ایک دوسرے کی مدد کیا کرتے تھے۔ اسلام میں نوحہ کرنے اور چیخ پکار کر رونے دھونے کی اجازت نہیں۔
(۲) زمانہ جاہلیت کی ایک رسم یہ بھی تھی کہ لوگ مرنے والے سخی آدمی کی قبر پر جانور ذبح کیا کرتے تھے اس طرح کی حرکت کے ذریعہ وہ اس بات کا اعلان کرتے تھے کہ جس طرح یہ مہمان نوازی کیا کرتا تھا اسی طرح ہم بھی فیاضی اور سخاوت کرتے رہیں گے۔ اسلام میں فیاضی نہ صرف یہ کہ جائز بلکہ ثواب کا کام ہے۔لیکن کسی کی قبر پر جانور ذبح کرنا جائز نہیں۔
(۳) جلب اور جنب کی تشریح گزشتہ صفحے میں کی جا چکی ہے۔

تفریق کرنے پر وعید
حَدَّثَنَا أَسَدُ بْنِ مُوْسَیٰ، حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنِ طَرِیْفٍ، عَنْ سُلَیْمَانَ التَّیْمِیِّ، حَدَّثَنِی طَلِیقٌ، عَنْ أَبِیہِ، عَنْ مَعْقِلِ بن یَسَارٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُِ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:"مَنْ فَرَّقَ فَلَیْسَ مِنَّا"قَالَ أَسَدٌ:"یُفَرِّقُ بَیْنَ الْوَلَدِ وَأُمِّہِ وَبَیْنَ الإِخْوَۃِ ۔
ترجمہ: حضرت معقل بن یساررضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جوتفریق ڈالے وہ ہم میںسے نہیں۔ حضرت اسد کہتے ہیںکہ تفریق کا مطلب ماں اور اس کے بچوں کے درمیان تفریق ڈالنا یا بھائی بھائی کے درمیان تفریق ڈالنا ہے۔(معجم کبیرطبرانی:۱۶۹۲۵)
زمانۂ جاہلیت میںلوگ باندی یاکنیزخریدتے وقت ماںاوراس کے بچوںمیںجدائی ڈال دیتے تھے۔ یعنی ایک شخص صرف کنیزخریدلیتااوراس کے بچوںکونہ خریدتااس طرح ماں اوربچوںمیںجدائی واقع ہوتی تھی۔جس کے سبب عورت ہمیشہ غمگین اورصدمے میںرہتی اوربچے بھی ماںسے جداہونے کے بعدہمیشہ صدمے سے دوچاررہتے اس لیے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ماںاوراس کے بچوںکے درمیان تفریق ڈالنے والے آدمی کوسخت ناپسندفرمایاہے۔
اِس حدیث سے وہ لوگ بھی سبق لیںجوبلاوجہ بیوی کوطلاق دے کرچھوڑدیتے ہیں اور زبردستی اس سے اس کے چھوٹے بچوںکو چھین لیتے ہیں۔عورت بے چاری ایک توطلاق کی وجہ سے صدمے میںہوتی ہے اوپرسے بچے کی جدائی کاغم اسے راتوںجگاتااور تڑپاتا رہتاہے۔

عَنْ أَبِی نَجِیحٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ کَانَ مُوْسِرًا فَلَمْ یَنْکِحْ فَلَیْسَ مِنِّیْ ۔

ترجمہ: حضرت ابونجیح رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس کے پاس مال ودولت کی فراوانی ہواس کے باوجودوہ نکاح نہ کرے تووہ ہم میںسے نہیں۔(شعب الایمان بیہقی:۵۲۴۲)

مونچھ کو پست نہ کرنے پر وعید

عَنْ زَیْدِ بْنِ أَرْقَمَ ، قَال قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم لَیْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ یَأْخُذْ مِنْ شَارِبِہِ۔
ترجمہ : حضرت زیدابن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:وہ ہم میںسے نہیںجواپنی مونچھوں کوپست نہ کرے۔(مصنف ابن ابی شیبہ:۲۵۴۹۳:المعجم الکبیرللطبرانی:۴۸۹۴۔سنن نسائی:۵۰۶۴)

یعنی مونچھ ہمیشہ چھوٹی رکھنی چاہیے۔ بالکل صاف نہیںکرنی چاہیے بلکہ کترکر چھوٹی کرنی چاہیے۔ مونچھ کواتنی بڑی نہ کی جائے کہ لبوں پرچلی آئے اورپانی پیتے وقت پانی میںڈوب جائے۔
زیر ناف کے بال نہ مونڈنے پر وعید

حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ عَمْرٍو الْمَعَافِرِیُّ عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِی غِفَارٍ أَنَّ رَسُوْلَ اللَّہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم قَالَ مَنْ لَمْ یَحْلِقْ عَانَتَہُ وَیُقَلِّمْ أَظْفَارَہُ وَیَجُزَّ شَارِبَہُ فَلَیْسَ مِنَّا۔
ترجمہ: حضرت یزیدبن عمرومعافری سے مروی ہے وہ قبیلہ غفارکے ایک آدمی سے روایت کرتے ہیںکہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جوزیرناف کے بال نہ مونڈے اوراپنے ناخنوںکونہ تراشے اورمونچھ نہ تراشے وہ ہم میں سے نہیں۔(مسنداحمد:۲۴۱۹۵)
ہرہفتے زیرناف کے بالوںکی صفائی کرنی چاہیے۔اگرکسی وجہ سے صفائی نہ کرسکاتودس پندرہ دنوںکے اندرورنہ چالیس دنوںسے زائدانہیںرکھ چھوڑنا سخت ناپسندیدہ ہے۔اسی طرح ہرہفتے ناخن تراشنا چاہیے۔مونچھوںکوبھی ہفتے میںکاٹ لیناچاہیے۔ مونچھوں کوبڑاکرنا مجوسیوںاورہندئوںکاطریقہ ہے۔

غسل کے بعد وضو کرنے پر وعید

عَنْ عِکْرَمَۃَ ، عَنْ اِبْنِ عِبَّاسٍ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ تَوَضَّأَ بَعْدَ الْغُسْلِ فَلَیْسَ مِنَّا ۔
ترجمہ : حضرت عکرمہ سے مروی ہے وہ روایت کرتے ہیںحضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جوغسل کرنے کے بعدوضوکرے وہ ہم میںسے نہیں۔(معجم کبیرطبرانی:۱۱۸۵۱ مسند الفردوس:۵۲۷۸)
غسل کرنے کے بعدوضوکی ضرورت نہیںرہتی کیونکہ غسل کرتے وقت پہلے ہی آدمی وضو کر چکا ہوتا ہے۔پھر غسل میںان تمام اعضا کودھولیاجا تا ہے جن کا دھونا وضو میں ضروری ہے۔ اس لیے غسل کرنے کے بعدوضوکی کوئی ضرورت نہیں اورجوایساکرے گویاوہ ایک لغوکام کرتاہے۔

ہوا خارج ہونے کے سبب استنجا کرنے پر وعید
عَنْ أَنَسٍ لَیْسَ مِنَّا مَنِ اسْتَنْجٰی مِنَ الْرِّیْحِ ۔
ترجمہ : حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:وہ ہم میںسے نہیںجوریح خارج ہونے کی وجہ سے استنجاکرے۔(مسند الفردوس:۵۲۷۷)
یعنی جوآدمی ہواخارج ہونے کی وجہ سے آب دست لے شرمگاہ کی جگہ کوپانی سے دھوئے۔حضوراس سے بیزاراور ناراض ہیںکیوںکہ یہ عبث اور بلاوجہ کاکام ہے۔

گھوڑ دوڑ کے دن گھوڑ ے کو بھڑکانے پر وعید
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَال قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:مَنْ جَلَبَ عَلَی الْخَیْلِ یَوْمَ الرِّہَانِ فَلَیْسَ مِنَّا۔
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو گھوڑ دوڑ کے دن گھوڑے کو بھڑکائے وہ ہم میںسے نہیں۔(معجم کبیرطبرانی:۱۱۳۹۲)
گھوڑدوڑکے دن کچھ لوگ اپنے آدمی اس کام پرمقررکرتے تھے جودوسروںکے گھوڑے کوبھڑکاتے تھے تاکہ جنہوںنے انہیںدوسروںکے گھوڑے بھڑکانے پرمتعین کیاہے وہ ریس جیت جائیں۔حضورنے گھوڑدوڑکے دن گھوڑے کوبھڑکانے اوربھڑکانے والے دونوںکوناپسندفرمایاہے۔اس لیے مسلمانوںکو ایسی خسیس حرکتوںسے بچناچاہیے۔ فی زمانہ بھی کہیں گھوڑ دوڑ ہو تو اس میں بھی گھوڑے کو بھڑکانے کا یہی حکم ہے۔

تیر اندازی سیکھ کر اسے چھوڑنے پر وعید
عَنِ الْحَارِثِ بْنِ یَعْقُوْبَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ شَمَاسَۃَ أَنَّ فُقَیْمًا اللَّخْمِیَّ قَالَ لِعُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ تَخْتَلِفُ بَیْنَ ہٰذَیْنِ الْغَرَضَیْنِ وَأَنْتَ کَبِیْرٌ یَشُقُّ عَلَیْکَ. قَالَ عُقْبَۃُ لَوْلاَ کَلاَمٌ سَمِعْتُہُ مِنْ رَسُوْل اللّٰہِ -صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ أُعَانِہٖ قَالَ الْحَارِثُ فَقُلْتُ لِِاِبْنِ شُمَاسَۃَ وَمَا ذَاکَ قَالَ إِنَّہُ قَالَ مَنْ عَلِمَ الرَّمْیَ ثُمَّ تَرَکَہُ فَلَیْسَ مِنَّا أَوْ قَدْ عَصَی .
ترجمہ : حضرت حارث بن یعقوب سے مروی ہے وہ ر وایت کرتے ہیں حضرت عبدالرحمن بن شماسہ سے وہ کہتے ہیںکہ فقیم لخمی نے عقبہ بن عامرسے کہاتم ان دونشانوںکے درمیان نشانہ نہیںلگاپاتے ہوحالانکہ تم بڑے ہواورتم پریہ کام بڑا شاق ہوتاہے۔اس پرعقبہ نے کہااگرمیںنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوئے نہ سناہوتاتومیںاس کی تائیدنہ کرتا۔حارث کہتے ہیں میں نے ابن شماسہ سے پوچھاوہ کون سی بات ہے جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناہے۔ابن شماسہ نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس نے تیراندازی سیکھاپھراسے چھوڑ دیا تووہ ہم میںسے نہیںیااس نے نافرمانی کی۔ (صحیح مسلم:۵۰۵۸)
عَنِ الْمُغِیْرَۃَ بْنِ نُہَیْکٍ أَنَّہٗ سَمِعَ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرِ الْجُہْنِی یَقُوْل سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ یَقُوْلُ مَنْ یَّعْلَمَ الرَّمْیَ ثُمَّ تَرَکَہٗ فَقَدْ عَصَانِی ۔ (۲)
ترجمہ: حضرت مغیرہ بن نھیک سے مروی ہے انہوںنے حضرت عقبہ بن عامرجہنی سے سناکہ میںنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناجوتیراندازی جانتا ہوپھراسے چھوڑدے تواس نے میری نافرمانی کی۔(ابن ماجہ:۲۸۱۴)
مذکور حدیثوں سے معلوم ہوا کہ تیر اندازی سیکھ کر اسے بھلاناگناہ ہے اس لیے اسکی مشاقی جاری رکھنی چاہیے تاکہ کفار و مشرکین کی جانب سے حملے کی صورت میں اپنا دفاع کیا جا سکے ۔ حضور کی تاکید و تنبیہ کا منشا یہ ہے کہ مسلمان فن حرب و ضرب میں کمال پیداکریں۔ لیکن آج کا زمانہ تیر و تلوار کا نہیں بلکہ جدید ٹیکنالوجی اور ہتھیار کا ہے اس لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ اس کی بھی ٹریننگ حاصل کریں ۔

رات کے وقت تیر اندازی کرنے پر وعید
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:مَنْ غَشَّنَا فَلَیْسَ مِنَّا، وَمَنْ رَمَانَا بِاللَّیْلِ فَلَیْسَ مِنَّا.
ترجمہ: حضرت عکرمہ سے مروی ہے وہ روایت کرتے ہیںحضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جودھوکہ دے وہ ہم میںسے نہیںاورجورات کے وقت ہماری طرف تیرچلائے وہ ہم میںسے نہیں۔(معجم کبیرطبرانی:۱۱۳۸۸)

عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ ، قالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ رَمَانَا بِاللَّیْلِ فَلَیْسَ مِنَّا.
ترجمہ:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جورات کے وقت ہماری طرف تیرچلائے وہ ہم میںسے نہیں۔(معجم اوسط:۱۱۳۹۶،صحیح ابن حبان:۵۶۹۸،الادب المفرد :۱۲۷۹)

تین اچھے اَوصاف نہ اپنانے پر وعید
عَنِ الْحُسَیْنِ بْنِ عَلِیٍّ عَنْ عَلِیٍّ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم ثَلاَثٌ مَّنْ لَّمْ یَکُنْ فِیْہِ فَلَیْسَ مِنِّی وَلَا مِنَ اللّٰہِ قِیْلَ مَا ہُنَّ ؟ قَالَ حِلْمٌ یُرَدُّ جَہْلَ الْجَاہِل أوْ حُسْنُ خُلُقٍ یَعِیْشُ بِہٖ فِی الْنَّاسِ أوْ وَرَعٌ یُحْجِزُہٗ عَنِ مَعَاصِی اللّٰہِ ۔
ترجمہ: حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما سے مروی ہے وہ روایت کرتے ہیںحضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس آدمی میںتین باتیںنہ ہوںوہ مجھ سے نہیں اورنہ اللہ سے اس کاکوئی تعلق ہے۔پوچھا گیا۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ کو ن سی چیزیںہیں۔ فرمایا:(۱)ایساحلم جس کے ذریعہ جاہل کی جہالت کو دُور کیا جا سکے۔ (۲)ایساحسن اخلاق جس کے ذریعہ لوگوںکے ساتھ بہتر سلوک کیا جاسکے۔(۳)ایسا ورع جس کے ذریعہ اللہ کی نافرمانیوںسے بچاسکے۔(معجم اوسط طبرانی:۵۰۰۵)
دعاہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ اپنے حبیب پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صدقہ وطفیل میں ہمیں اِن قیمتی باتوں پر عمل کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے،نیز جن سے پیارے آقا رحمت سراپا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے روکا ہے اُن سے رک جانے، اور جن کو کرنے کی ترغیب دی ہے انھیں کر گزرنے کا حوصلہ عطا فرمائے۔ مولا! ہم میں سے ہر کسی کو اِحساسِ ذمہ داری کا درددے، ہمیں اَمر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فرائض اَدا کرنے کی ہمت و توفیق بخش، اور عوام وخواص ہر ایک کو دین کی برکتوں سے مالامال فرمادے۔آمین۔
٭٭٭٭٭
Muhammad Saqib Raza Qadri
About the Author: Muhammad Saqib Raza Qadri Read More Articles by Muhammad Saqib Raza Qadri: 147 Articles with 410016 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.