راجیش کھنہ کی موت پر میڈیا کا ماتم

بے شک راجیش کھنہ ایک بہت بڑا ادا کار تھا صرف انڈیا میں ہی نہیں پاکستان میں بھی اس کی فلمیں دیکھنے والے اور پسند کرنے والے کم نہیں ہیں۔راجیش کھنہ نے 163 فلموں میں کام کیا۔ کئی فلموں میں یادگار کردار ادا کیئے۔ 1967 میں فلم آخری خط سے فلمی دنیا میں قدم رکھنے والا یہ لیجینڈادا کار 1942 میں پاکستان کے شہر بورے والا میں ایم سی سکول کے ایک ہیڈ ماسٹر لالہ ھیرا نند کھنہ کے گھر میں پیدا ہو ا جو کہ قیام پاکستان کے بعد ہجر ت کر کے ہندوستان چلے گئے۔ادا کاری کے ذریعے اپنے مداحوں کو محظوظ کرنے والا یہ بے مثال ادا کار کانگرس کے پلیٹ فارم پر الیکشن لڑ کر رکن پارلیمنٹ بھی منتخب ہوا۔۔۔ ہمارا میڈیا یہ خبریں ہر خبر نامے کے ساتھ بڑی تفصیل سے بیان کر رہا ہے۔صرف یہی نہیں پوری پوری رپورٹس دکھائی جا رہی ہیں راجیش کھنہ کے پیدا ہونے سے لے کر اُس کے دنیا سے چلے جانے تک ایک ایک پہلو پر روشنی ڈالی جا رہی ہے۔ مرنے کے بعد اس کی چتا کو جلائے جانے کے مناظر جیسی خبروں اور رپورٹس کو بھی بار بار دوہرایا گیا۔اور ابھی تک دوہرایا جا رہا ہے۔۔۔ ایسی خبریں دیکھ کر تو یوں لگتا ہے کہ ہم پاکستان میں نہیں شائد انڈیا میں رہ رہے ہیں۔راجیش کھنہ کی موت کے علاوہ انڈیا کی ہر نئی فلم کا اشتہار،ہر فنکار کی زندگی کے مختلف پہلو ﺅں پر نظر ، کسی کی شادی ،کسی کی منگنی یا کسی کی برتھ ڈے ہر کسی کو فوکس کیا ہے ہمارے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے میڈیا نے ۔ ہمارا میڈیا ہمیں یہ اہم خبر بھی دیتا ہے کہ کترینہ 28 سال کی ہو گئی ہے۔ میڈیا کے پاس ایسی خبروں کے لیئے بہت وقت ہے ۔۔۔ ہمارے میڈیا کو اگر وقت نہیں ملا تو اس بات کا کہ اس واقعے کی خبر بھی دے دی جائے کہ افغانستان میں امریکی فوجیوں نے قرآن مجید جلا ڈالے۔ کشمیر میں بھارتی درندے آئے دن بے گناہ مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ تے رہتے ہیں ۔ہر جگہ مسلمانوں پر وحشت اور دہشت کے عذاب برپا کیئے جا رہے ہیں اور اُلٹا مسلمانوں کو ہی دہشت گرد گردانا جا رہا ہے ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ نہ تو حکومت کا کوئی مذمتی بیان آتا ہے اور نہ ہی میڈیا پر اس کی کوئی خبر!!!۔۔۔

ابھی تازہ ترین مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم میں سے ایک بہت ہی گھناونا ظلم سامنے آیا ہے جو کہ برما کے مسلمانوں پر ڈھایا جا رہا ہے اور جس کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے جس کی ایک جھلک بھی میڈیا نے دکھانے کی کوشش نہیں کی اور دکھانے کی غلطی کر بھی کیسے سکتا ہے ؟؟؟ شائد میڈیا پر بھی اُنہیں لوگوں کا قبضہ جن کا ہماری حکومت کے اعوانوں پر۔۔۔

برما کے مسلمانوں پر کیئے جانے والے مظالم پر ابھی تک حکومت کی طرف سے کوئی بیان نہیں آیا اور نہ ہی کسی ٹی وی چینل نے کوئی اہمیت دی کیوں کہ ایک ٹی وی چینل کے لیئے راجیش کھنہ کی موت برما کے ہزاروں مسلمانوں کی شہادت سے کہیں زیادہ اہم ہے۔برما کے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کی بات کریں تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔فوج اور بدھ مت دونوں مل کر مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ رہے ہیں۔ پہلے 11 مسلم مبلغین کو بس سے اُتار کو شہید کر دیا گیا اور اُس کے بعد قتل و غارت کایہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے جس میں 20 سے 22 ہزارمسلمانوں کوشہید اور لاکھوں لوگوں کو بے گھر کر دیا گیا ۔ مسلمانوں کی بستیاں کی بستیاں جلا کر راکھ کر دی گئیں۔ جو مسلمان زندہ بچ گئے ہیںاُن کو بھی طرح طرح کی اذیتیں دی جا رہی ہیں۔ مسلمانوں کے موبائل فون استعمال کرنے پر بھی پابندی عائید کر دی گئی ہے۔ مسجدوں کو شہید کر دیا گیا ہے۔ اذان دینا اور اونچی آواز میں قرآن مجید کی تلاوت کرنا بھی جرم قرار دے دیا گیا ہے ۔ مظلوم مسلمانوں کا تعلق دہشت گرد تنظیموںکے ساتھ بھی جوڑا جا رہا ہے ۔لیکن مسلمانوں پر کیا جانے والا یہ ظلم اور یہ دہشتگردی نہ تو اقوام متحدہ کو نظر آ رہی ہے اور نہ ہی او آئی سی کو۔اور پاکستانی میڈیا تو حسب توفیق فلمی دنیا کی خبروں میں مصروف ہے۔اور ایک راجیش کھنہ کی موت پر ابھی تک اس میڈیا کا ماتم جاری ہے۔۔۔ اور نہ جانے ایسے ماتم کب تک ہوتے رہیں گے جس سے ہماری اپنی پہچان کھو جائے ۔
Ahmad Raza
About the Author: Ahmad Raza Read More Articles by Ahmad Raza: 96 Articles with 100482 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.