مالی..... جہاں منظر نامہ بدل رہا ہے

مالی .... بے آب و گیاہ صحراؤں ا ور خشک پہاڑوں کی سر زمین .... جہاں نہ پھول کھلتے نظر آتے ہیں.... نہ غنچے چٹختے نظر آتے ہیں.... سیاحتی دلچسپیوں سے خالی اس ملک میں غربت و افلاس بھی اپنا بھیانک جبڑا کھولے نظر آتا ہے۔ لیکن یہی مالی باوجود اپنے کمزور معاشی و سیاسی پس منظر کے مغربی میڈیا کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔اس کی ایک بڑی وجہ یہاں ’جماعت انصار الدین کی موجودگی ہے جو عصر رواں کی عالمی اسلامی مزاحمتی تحریکوں کی ایک منظم شاخ ہے یہکس پس منظر و عزائمہے ؟ اور یہ مالی میں کب اورکیسے اُبھرے؟آئیے جانتے ھیں۔۔

1990ءکی دہائی میں الجزائری فوج نے جب اسلام پسند جماعت ”جبھة الانقاذ“ کی یقینی جےت کو روکنے کے لئے انتخابات منسوخ کئے تو نتیجتاً مسلح جدو جہد کا آغاز ہوا انہی مسلح اسلامی گروپوں سے ”تنظیم القاعدہ برائے بلاد مغرب اسلامی، نے جنم لیا نعمان بن عثمان ایک سابقہ جہادی، جنہوں نے شیخ اسامہ بن لادن کے ساتھ ایک طویل عرصہ گزارا جواب لندن کی کویلیم فاؤنڈیشن (Quillium Foundation) میں تجزیہ نگار ہیں ان کا کہنا تھا کہ سن 2003ءمیں ان اسلامیت پسند مسلح افراد نے ایک قاصد کو القاعدہ کے مصالحت کار سے ملنے کے لئے عراق بھیجا اس ملاقات کا نتیجہ تین سال بعد ان مسلح گروپوں کی ”تنظیم القاعدہ“ میں باقاعدہ شمولیت کے اعلان کی صورت میں سامنے آیا، القاعدہ کے اہم لیڈر ڈاکٹر ایمن الظواہری نے اس اتحاد کو ایک ”مبارک اتحاد“ قرار دیا۔

2003ءمیں ہی اس جماعت نے 32 غیر ملکیوں کو اغواءکیا جن میں زیادہ تر جرمن سیاح تھے اور انہیں جنوبی جزائر سے مالی منتقل کر دیا۔ یہ ان کا مالی میں پہلا قدم تھا .... مالی کی پارلیمان کے ایک رکن، جویر غمالیوں کی رہائی کے لئے ہونے والے مذاکرات میں شریک تھے، ان کا کہنا تھا کہ اس واقعے کے بعد مالی حکومت نے ان سے ایک معاہدہ کیا جو ایک لمبے عرصے تک قائم رہا اس معاہدے کا لب لباب یہ تھا ” تم ہمیں کچھ نہ کہو ہم تمہیں کچھ نہ کہیں گے“ مالی حکومت نے اس معاہدے کی تردید کی لیکن ہمسایہ ملک موریطانیہ کے صدر محمد ولد عبدالعزیز نے اپنے امریکی ہم منصب کو 2009ءمیں یہ بتایا کہ مالی نے اپنی حدود میں حملوں سے بچنے کے لئے تنظیم القاعدہ سے صلح کر رکھی ہے۔ دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق یہی وہ عرصہ تھاکہ جس کے دوران تنظیم القاعدہ برائے بلاد مغرب اسلامی نے اپنی جڑیں مضبوط کی اور مالی میں اپنا انڈر گراؤنڈ نیٹ ورک قائم کیا۔ جو اب ”جماعت انصار الدین“ کے نام سے منظر عام پر ہے۔

سوکولو .... مالی کا وہ شہر ہے جہاں پر آج سے تقریباً 20 ماہ قبل جماعت انصار الدین کے ارکان منظر عام پر نمودار ہوئے۔ اور یوں مالی کے حکومتی ذمہ دار حلقوں کا یہ دعوی درست ثابت ہوا کہ تنظیم القاعدہ برائے بلاد مغرب اسلامی نے سوکولو کے شمال میں واقع جنگل میں اپنے مراکز بنا رکھے ہیں اور جملوں کی منصوبہ بندی کر رہے ہیںسوکولو کا جنوبی حصہ زرعی اراضی پر مشتمل ہے جہاں مقامی لوگ چاول کاشت کرتے ہیں اور شمال میں پھوٹے قد اور مضبوط درختوں پر مشتمل ”واگادو“ نامی جنگل ہے جو 80 میل کے علاقہ پر پھیلا ہوا ہے۔ مقامی لوگ یہاں مویشی پال کر اپنا گزر بسر کرتے ہیں۔مقامی باشندوں کا کہنا تھا کہ ”جب ہم نے پہلی بار آٹو میٹک ہتھیاروں سے مسلح افراد کو دیکھا تو ہم خوفزدہ ہو گئے لیکن انہوں نے شائستگی سے سلام کیا اور کنویں سے پانی لینے کی اجازت مانگی۔ واپس جانے سے پہلے انہوں نے اپنی پک اپ کے شیشوں کو نیچے کیا اور گاؤں کے بچوں کو قریب بلا کر مٹھائی تقسیم کی۔

ایک 45 سالہ چرواہے امادو مائیگا کا کہنا تھا کہ وہ عموماً لمبے جبے اور پگڑیاں پہنے ہوئے ہوتے تھے۔ اس کے بعد وہ ہر چار پانچ روز کے بعد اپنے کندھوں پر کلاشنکوفیں تانے، لینڈ کروزرز میں آنا شروع ہو گئے لیکن شروع شروع میں وہ 15، 20منٹ سے زیادہ نہ ٹھہرتے تھے۔ ہر مرتبہ مختلف راستے استعمال کرتے تھے اور طویل دعا سلام کے بعد اجازت طلب کر کے واپس جایا کرتے تھے۔ وہ ہمیشہ شائستگی سے پیش آتے تھے۔چرواہوں کا کہنا تھا کہ ان جنگجوؤں نے کبھی بھی اپنے نظریات کو ہم پر زبردستی مسلط کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ وہ انتظار کرتے تھے جب وہ دیکھتے کہ کوئی شخص ان کی طرف مائل ہو رہا ہے تو اسے تبلیغ و وعظ کرتے لیکن اگر کوئی صاف انکار کر دیتا تھا تو اسے اس کے حال پر چھوڑ دیتے۔ 20 سالہ چرواہے بابا ولد مومو کا کہنا تھا کہ مجھے تیسری ملاقات کے بعد انہوں نے دعوت دی کہ میں بھی ان میں شامل ہو جاؤں اور انہوں نے مجھے کہا کہ وہ جو بھی کام کرتے ہیں اللہ کی رضا کے لئے کرتے ہیں رفتہ رفتہ ”جماعت انصار الدین“ نے مقامی باشندوں پر اپنا القاعدہ سے تعلق بھی ظاہر کرنا شروع کر دیا۔ سیسے نامی مقامی شکاری نے بتایا میں ایک دن کنویں سے پانی لے رہا تھا جو کہ بستی کے کنارے پر تھا تو ٹھیک اس وقت طیارہ شکن توپوں سے لیس دو ٹرکوں میں میں جنگجو آئے اور انہوں نے نماز کی تیاری شروع کر دی۔ ان میں سے ایک نے میرے سے پوچھا کیا وہ اسامہ بن لادن کو جانتا ہے؟ پھر اس نے انہی انگلیوں کو ایک زنجیر کی مانند آپس میں پھنسایا اور کہن ے لگا ہم اسامہ کے بھائی ہیں، ہم القاعدہ ہیں“

نعمان ابن عثمان کا کہنا تھا کہ مالی کا غیر معمولی جغرافیہ، غربت اور مرکزی حکومت کی کمزوری وہ بنیادی عوامل تھے جن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جماعت النصار الدین نے دل موہ لینے والی حکمت عملی کو اختیار کرتے ہوئے اپنے اثر و نفوذ کو بڑھایا، سیکورٹی ماہرین کے مطابق القاعدہ میں توریگ صحرا نشینوں کی ایک بڑی تعداد شامل ہیں۔ یہ زیتونی مائل رنگت والے صحرائی قبائل ہیں جو سخت جنگو اور اسلام پر سختی سے عمل کرنے والے ہیں۔ ان کا مسکن ”صحراءالکبری“ ہے، ”اماڈو“ ایک مقامی باشندے کا کہنا تھا کہ وہ باہر سے نہیں ہے وہ ہم میں سے ہی ہیں۔ جبکہ ایسے سیاہ مائل افریقی کارکن بھی دیکھے گئے جو مالی، جینیا اور نائجیریا کی زبانیں بول رہے تھے۔ اچھائی کے ساتھ دعوت دینے ہی نے جماعت انصار الدین کی حمایت میں اضافہ کیا 51 سالہ فویسینی ڈیا کیتیہ جو پمپ ٹیکنیشن ہیں ان کا کہنا تھا کہ اکثر جماعت کے کارکن مرہم پٹی اور دیگر طبی سازو سامان کے ساتھ دیہاتوں کا چکر لگاتے تھے اور پتہ لگانے کی کوشش کرتے تھے کہ کہیں کوئی بیمار تو نہیں۔

وہ اکثر دیہاتیوں میں سازو سامان اور امدادی رقوم بھی تقسیم کرتے ر ہے، گاؤں میں کوئی بچہ پیدا ہو تو یہ اسے تحفتاً کپڑے دیتے ہیں اور کوئی بیمار ہو تو تو اسے کھانا بھی لاکر دیتے ہیں نوجوان چرواہے ”ماہگا“ کا کہنا تھا کہ وہ ہر گز کوئی چیز مفت نہیں لیتے بلکہ اس کی اچھی سے اچھی قیمت دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ محسوس ہوتا ہے کہ انہیں وقت سے پہلے ہی ساری قیمتوں کا علم ہوتا ہے۔ مثلاً ایک دفعہ ایک باریش سفید فام کارکن نے ایک دنبے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ میں اسے 30,000 فرینکس میں خریدوں گا اور پھر اسے با اصرار رقم بھی ادا کی۔ یہ کسی دنبے کی اچھی سے اچھی قیمت ہے جو کوئی چرواہا امید کر سکتا ہے۔

دوسری طرف افریقہ میں امریکی کاروائیوں کے ذمہ دار جنرل کارٹر ہام (Gen Grter Ham) نے گذشتہ سال کہا تھا کہ اب تنظیم القاعدہ برائے بلاد مغرب اسلامی امریکہ کے لئے ایک بڑا اور سنجیدہ خطرہ بنتی جاری ہے۔ مغربی سیکورٹی ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ گردہ جو سن 2006ءمیں 100 کے قریب جنگجوؤں پر مشتمل تھا۔ آج کئی گنا بڑھ چکا ہے اسی طرح اس کا دائرہ جو کبھی الجزائر تک محدود تھا اب صحراءالکبری کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک مغرب میں موریطانیہ سے لے کر مشرق میں مالی تک پھیل چکا ہے اور نائجیریا سے بڑھتے ہوئے سوڈان کے راستے سے صومالیہ کی اسلامی مزاحمتی تحریک سے جا ملا ہے۔ اسلام فوبیا میں مبتلا مغربی تجزیہ کاروں کا مزید کہنا تھا۔ ”افغانستان ا ور پاکستان کی نسبت یورپ کا ساحل مالی کے قریب ہے۔ القاعدہ میں شامل ہونے کے خواہشمند یورپ کے افراد یہاں آسانی سے آ سکتے ہیں۔

ایک عرصہ تک اپنی موجودگی کا احسا سںد لانے کے بعد ”جماعت انصار الدین“ نے منظم قدم بڑھایا اور یہ وہ وقت تھا کہ جب ہمسایہ ملک میں معمر قذافی کی موت کے بعد شمالی مالی کے وہ لوگ جنہوں نے اس کی حمایت میں جنگ کی تھی، واپس آئے اور انہوں نے نیشنل موومنٹ فار لبریشن آف اوزاد (NMLA) کے نام سے ایک جماعت قائم کی اور مملکت اوزاد کے نام سے مالی سے آزادی کا اعلان کر دیا ”اوزاد“ مملکت مالی کے 60 فیصد شمالی حصے پرمشتمل ہے۔ اس میں ٹمبکٹو، کدال، گاؤ اور موہٹی کا کچھ حصہ شامل ہے۔ رقبتاً یہ علاقہ فرانس اور ٹیکساس سے بھی بڑھا ہوا ہے۔ جنوری 2012ءکو مالی میں فوجی بغاوت ہوئی اس بغاوت کے بعد NMLA نے مالی آزادی کا اعلان کیا لیکن اس کے مقابل ”جماعت النصار الدین“ اس خطے میں موجود تھی۔ شروع میں ا نکے مابین معاہدے ہوئے لیکن کامیاب نہ ہو پائے۔ جماعت انصار الدین نے NMLA کے آزادی کے اعلان کو مسترد کر دیا تھا۔ یہ یار رہے کہ NMLA سیکولر ذہن رکھتی ہے، جبکہ النصار الدین کا کہنا تھا کہ وہ مالی کو ”امارت اسلامی“ بنانے کے لئے جھاد کر رہے ہیں۔ یکم اپریل 2012ءکو ا نصار الدین نے مالی کے ایک بڑے شہر ”گاؤ“ پر حملہ کیا اس پر قبضے کے بعد اگلے چند دنوں میں ہی وہ کدال اور ٹمبکٹو نامی بڑے شہر پر بھی قابض ہو گئے۔ النصار الدین نے اپنی اس مسلح کاروائی کی باقاعدہ ویڈیو فوٹیج بھی ”فتح ازواد“ کے نام سے مختلف ویب سائٹس اور فورمز پر جاری کی۔ رائٹرز نیوز ایجنسی کے مطابق انہوں نے سرکاری افواج کو مار بھگایا اور گورنر ہاؤس،ملٹر ی کیمپ اور دیگر سرکاری عمارتوں پر کلمہ طیبہ والے کالے جھنڈے لہرائے۔ ان فتوحات کے بعد الانصار الدین کے کمانڈر عمر ولد خمایا کا کہنا تھا۔ ہماری جنگ اسلامی اصولوں کے مطابق لڑی جائے گی۔ ہم بغاوت اور علیحدگی کی تحریکوں کے مخالف ہیں، ہم ”اوزاد“ نہیں بلکہ ”اسلام“ چاہتے ہیں۔ ہم کسی کالے کو مانتے ہیں نہ گورے کو صرف اور صرف اللہ کو۔

مالی میں صورتحال پل پل بدل رہی ہے اور یہ یقیناً اسلام فوبیا میں مبتلا مغربی ممالک کے لئے تشویش ناک صورتحال ہے۔ گارڈین کے مطابق نوجوان تیزی سے اسلامیت پسندوں میں شامل ہو رہے ہیں اور وہ انکی خوراک، عسکری اور نظریاتی تربیت غرض یہ کہ ہر چیز ا اہتمام کر رہے ہیں۔ القاعدہ فی بلاد المغرب کے امیر مختار بھی اپنے بیٹے کے ہمراہ مقیم ہیں۔ انکی گرفت مضبوط ہے اور لیبیا سے انہیں وافر اسلحہ ملا ہوا ہے۔ گاؤ اور دیگر ائیرپورٹس انکے قبضے میں ہیں اگر انہوں نے فضائیہ تشکیل دے دی تونہ صرف بیرونی حملے کا دفاع کریں گے بلکہ یورپ پر بھی حملہ آور ہو سکیں گے۔

چند ہفتے قبل عالمی جماعت تبلیغ سے منسلک 16 علماءکرام جن میں آٹھ موریطانیہ اور آٹھ مالی کے تھے۔ موریطانی سرحد کے قریب سیجونا می علاقے میں مالی فوج نے ایک چیک پوسٹ پر شہید کر دئیے۔ اس واقعے پر جماعت انصار الدین نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا۔ ٹمبکٹو میں الانصار الدین کی قائم کردہ اسلامی عدالتی کونسل کا کہنا تھا کہ ان غیر مسلح، بے ضرر علماءکو وحشیانہ طریقے سے شہید کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ اس واقعے کے بعد مالی حکومت کا کوئی مستقبل نہیں۔ ہم دارالحکومت باما کو کی طرف ، پیش قدمی جاری رہیں گے۔

کونسل کے ممبر عبدالعزیز بن محمد الحسن نے کہا کہ ہماری یادداشت بہت وسیع ہے۔ ہم انہیں بھولیں گے نہیں بلکہ مناسب وقت اور مناسب جگہ پر اس کا بدلہ ضرور لیا جائے گا۔ جبکہ مالی کی کٹھ پتلی حکومت غیر ملکی دستوں کی دارالحکومت میں تعیناتی کے مخالف ہے۔ اور اس کا کہنا ہے کہ یہ صرف شمالی مالی میں ہونے چاہئے۔ مالی کے چیف آف آرمی سٹاف کا تو یہاں تک کہنا تھا کہ مالی کی جنگ کوئی نہیں لڑے گا دوسرے ہمیں صرف فضائی اور لاجسٹک سپورٹ دیں۔
ماخذ
۱۔ ممبران اکنامک کمیونٹی آف ویسٹ افریقن سٹیٹس (ECO WAS)
۲۔ گارڈین رپورٹس
۳۔ الشرق الاوسط
۴۔ خصوصی رپورٹ مائہن فوگل ورو کمینی کولیماشی (ایسوسی ایٹڈ پر یس ٹیم)
۵۔ العربیہ سکائی نیوز ٹی وی۔
۶۔ انٹرنیٹ فورمز رپورٹس۔
Abdul Salam Mansoor
About the Author: Abdul Salam Mansoor Read More Articles by Abdul Salam Mansoor: 9 Articles with 8672 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.