اقبال کے خوابوں کا پاکستان

جنگ آزادی میں ناکامی کے بعد برصغیر کے مسلمان انگریز وں کے زیر اعتاب تھے اس ناکامی کے بعد تو ،مسلمانوں کی مالا ہی ٹوٹ گئی دن بُرے آگئے ،مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ،انکا مسلسل معاشی تعلیمی سماجی استحصال ہو رہا تھا ،مگر خدا کی قدرت دیکھیں ، کہ علامہ اقبال جیسی ہستی 1857 کی اس نکامی کے صرف 20سال کے بعد پیدا ہوئی ،انکی پیدائش دراصل خطہ پر بلکہ تمام عالم اسلام پر باعث رحمت تھی دوسرے لفظوں میں مسلماناں برصغیر کی آزادی کی اصل بنیادبھی یہ ہی ہے ،کیونکہ اگر خدانخواستہ اقبال جیسی ہستی پیدا نہ ہوتی تو غالب گمان ہے ہم آج بھی ایک الگ وطن سے محروم ہوتے ، علامہ اقبال صاحب نے جس طرح مسلمانوں کی غیرت جھنجوڑا ،اور ایک مختصر وقت میں سوئی ہوئی قوم کو بیدار کیا ، یہ اپنی جگہ ایک مثال ہے ، میں جب یہ سوچتا ہوں کہ جنگ آزادی کی ناکامی کے صرف بیس سال بعد ہی علامہ صاحب کی صورت میں برصغیر کے مسلمانوں کو ایک ایسا عالی شان دماغ ملا جو شائد صدیوں بعد پیدا ہوتا ہے، تو رشک آتا ہے ان لوگوں پر جنہوں نے علامہ صاحب کی محفلوں سے اپنے سینے منور کیے ، اور آج کے مسلمانوں کے مقدر پر رونا آتا ہے ، کہ آخر ہم اتنی پستی میں چلے گے کہ آج ایک اقبال جیسی شخصیت کے قابل بھی نہیں ، گو کہ علامہ صاحب کی زندگی میں کچھ بدبخت بھی تھے جو علامہ صاحب کے خلاف کفر کے فتوے دیتے تھے ، اور تو اور ، علامہ اقبال لاہور سے الیکشن بھی نہ جیت سکے ، جو آج تاریخ کا حصہ ہے ، اگر نہیں کوئی حصہ تو وہ علمائے دین ، مگر یہ سب واقعات اب بے معنی ہیں ، کیونکہ آج علمائے دین انکے شعر سے خطبہ شروع کرنا ایک سعادت سمجھتے ہیں ، ایک بات نہایت غور طلب ہے کہ آخر ہم سے پہلے مسلمانوں اور ہم میں کیا فرق ہے ، آخر وہ مقدر کے اتنے دھنی کیوں تھے ، کہ علامہ صاحب جیسی شخصیت اس دور میں پیدا ہوئیں ،اور ہم آج ایک لیڈر کو ترس رہے ہیں ، شائد ہم سے پہلے کا معاشرہ ، اتنی منافقت سے بھرپور نہ تھا جس قدر ہم آج ہیں ، اقبال کا پاکستان ان اللے تللوں نے امریکہ کی کالونی بنا کر رکھ دیا ہے ، قوم کی بیٹی عافیہ بندوق اٹھانے پر 86 سال سزا بھگت رہی ہے ، اور ریمنڈڈیوس جیسے غنڈے ، تین افراد کو دن دیہاڑے مار کرججوں جرنیلوں اور سیاست دانواں کی ملی بھگت سے بغیر پاسپورٹ لئے خصوصی طیارے میں چلے جاتا ہے ، اور غالب امکان ہے ایک دن ہم صبح کو سو کر آٹھیں گے تو ہمھیں پتہ چلے گا کہ ابیٹ آباد حملے کا مرکزی ملزم شکیل آفریدی بھی جا چکا، کم از کم ماضی کو دیکھ کر تو ہم اسکی امید رکھنی چاہیے -

مگر افسوس بحثیت قوم ہم ابھی تک کوئی سبق سیکھنے کو تیار نہیں ، اگر ہم نے ایک قوم ہونے کے ناطے اب بھی سبق حاصل نہ کیا تو آنے والی نسلیں بھی ہماری کرتوں کو بھگتیں گی ، کیوں نہ ہم ایک کوشش کریں کہ تاریخ تو ہمیں کچھ نہ کچھ اچھے لفظوں میں یاد رکھے ، کچھ تو عزت رہ جائے ، آخر ہم اقبال کہ پاکستان کو کہاں لیکر جا رہے ہیں کیوں انکے خوابوں کے پاکستان کو تباہ و برباد کرنے پر تلے بیٹھے ،سچ تو یہ کہ ہم نے اقبال کے پاکستان کو دنیامیں تماشہ بنا کر رکھ دیا ہے اور ہم اپنی حرکتوں سے باز آنے کا نام نہیں لے رہے ، جسکی ایک مثال توآزادی سے صرف پندرہ سال بعد ہی اسکو غیروں کہ آگے جھکنے پر مجبور کردیا ، اور یہ ہی نہیں بلکہ اسکو دولخت بھی کروا بیٹھے ، اور دوسری مثال کرپٹ غیرسنجیدہ اور خاندانوں سمیت پاکستان کو لوٹنے والوں کے سپرد ہم نے اقبال کے خوابوں کا پاکستان کر رکھا ہے اور ان سیاسی خاندانوں نے اقبال کے خوابوں کا پاکستان آج قتل گاہ بنا کر رکھ دیا ہے ، ہر شہر میں آگ ہے کہ بجنے کا نام نہیں لے رہی ،پچھلے 65 سالوں میں ہم ملک میں ایک نظام تعلیم متعارف نہ کروا سکے ، قومی زبان کو ردی کی ٹوکری کی نظر کر بیٹھے ، معاشی سماجی اور بچھے کچھے معاشرتی نظام کو کو تباہ کرنے پئے تلے بیٹھے ہیں ، اقبال اگر ہم میں ہوتے پنے خوابوں کے پاکستان کا ایک مرثیہ لکھتے ، اور اپنے خدا سے شکوہ کرتے کہ یہ لوگ تھے جنکے لیے تو نے پاکستان بنوایا تھا ، ہوسکتا ہے ہم اس شکوے کے جواب میں اور ڈھیٹ ہو جاتے ، کیونکہ عادتیں بدلنے کا رواج ہم میں پنپ نہیں سکا ، صدی کے سب سے بڑے شعر میں اقبال نے کہا ، ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے ۔ بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

اقبال کے چمن کو ہم نے اجھاڑ ڈالاہے ، جو تھوڑا بہت ہے اسکے اجھاڑنے کے در پے ہیں ، اور دیدہ ور کا دود دود تک کوئی نام نشان نظر نہیں آتا -
Naveed Rasheed
About the Author: Naveed Rasheed Read More Articles by Naveed Rasheed: 25 Articles with 22522 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.