اتنی لاپرواہی ۔۔۔۔۔ذمہ دار کون؟

شروع اﷲ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے

موجودہ حالات میں سب کو جلدی جلدی اپنی منزل پر جانے کی پڑی ہوتی ہے۔کسی کے پاس اتنا ٹائم نہیں کہ وہ سست رفتاری سے موٹر سائیکل یا گاڑی چلائے۔اسی تیزی کی وجہ سے ناجانے روزانہ کتنے ٹریفک حادثات ہوتے ہیں اور ہم صرف یہی کہتے ہیں کہ اﷲ کو جو منظور ہونا تھا ہو گیا، ہم یہ نہیں سوچتے کہ ہماری کتنی اور کیا غلطی تھی؟گنجائش سے زیادہ سواریاں لوڈ کرنا، گاڑی کے اوپر چھت اور سائیڈ پر بھی سواریاں لٹکی ہونا اور پھر گاڑیوں کو بغیر کسی خطرہ کے سڑکوں پر دوڑانا بہت بڑا قانونی جرم اور خطرناک کھیل ہے۔سواریوں کا گاڑیوں کی سائیڈوں پر لٹک کر سفر کرنا ایک جان لیوا عمل ہے نہ جانے کب کراسنگ کرتے ہوئے کسی کی جان چلی جائے۔لیکن عوام اور گاڑیوں کے ڈرائیور حضرات اپنی اور دوسرے لوگوں کی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے خود کو جلد از جلد ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچنے کو ترجیح دیتے ہیں۔اسی وجہ سے ڈرائیوروں اور گاڑی مالکان کی بے حسی روزانہ سینکڑوں حادثات کا موجب بنتے ہیں ۔طالبعلموں کو اوور لوڈ کرنا ایک ایسا خطرناک فعل ہے جس کی جتنی سزا دی جائے کم ہوگی۔چند روپوں کی خاطر بچوں گاڑیوں کی چھتوں اور سائیڈوں پر لٹکا دیا جاتا ہے۔گاڑیوں میں اوور لوڈنگ سے مسافروں میں گھٹن، موڑ کاٹتے ہوئے مسافروں اور سامان کے گرنے کے واقعات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔گاڑی اگر تباہ بھی ہو جائے تو دوبارہ اصلی حالت میں لائی جا سکتی ہے لیکن ذرا سوچیں جو زندگی ایک دفعہ ملتی ہے وہ دوبارہ مل سکتی ہے۔زندگی اﷲ کی بہت بڑی نعمت ہے۔بہت سارے ڈرائیور حضرات وقت پر موجود ٹریفک پولیس اہلکاروں کو چکما دیتے ہوئے دوسرے راستوں سے نکل جاتے ہیں۔ بہت کے تو چالان اور جرمانے کئے جاتے ہیں لیکن یہ سمجھتے ہیں کہ پولیس کو دھوکہ دے کر اچھا کام کررہے ہیں تو یہ ان کی بہت بڑی غلط فہمی ہے۔وہ جو کہاوت مشہور ہے کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے، جتنے چالان، جرمانے کرو ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ اس کے علاوہ سکولوں اور کالجوں کی گاڑیوں میں گنجائش سے زیادہ طالبعلموں کو سوار کیا ہوتا ہے جو کہ سراسر جرم ہے۔ اس معاملہ پر طالبعلموں کے والدین کو غور و فکر کرنی چاہیے کہ وہ پیسے دے کر بھی اپنے بچوں کی زندگیاں داﺅ پر لگا رہے ہیں۔والدین کو چاہیے کہ وہ جس گاڑی والے کے ساتھ اپنے بچوں کی ڈیوٹی لگا رہے ہیں کیا وہ ڈرائیو ر جسمانی طور پر مکمل فٹ ہے۔گاڑی کی مکمل فٹنس جیسے مسائل کو بھی مدنظر رکھیں کیونکہ زندگی اﷲ کی بہت بڑی نعمت ہے اور جن تاروں نے ملک کے لئے آگے روشن مستقبل بننا ہے ان کی حفاظت کے لئے کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا جانا چاہیے۔تیزرفتاری سے ڈرائیونگ کرنا خود اپنے اور دوسروں کی جانوں کے لئے خطرہ بن سکتا ہے۔ہمارے ہاں سگنل پر ذمہ داری کا مظاہرہ کم ہی ملتا ہے۔ایک دوسرے سے جلدی نکلنا، اشاروں کے بند ہونے سے پہلے ہی جلدی سے سگنل کراس کرنا کہ کہیں اشارہ بند نہ ہو جائے اور سب سے بڑی بات قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا اور قانون کی خلاف ورزی کرنا ملک کے لئے ایک المیہ ہے۔گاڑیوں کی مکمل فٹنس، ٹوکن پاس اور متعلقہ محکموں سے باقاعدہ گاڑی کی جانچ ہونے کے بعد ہی روڈ پر لانی چاہیے۔ہر لحاظ سے ٹریفک پولیس سے ہدایت لینی چاہیے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ شکایت دنوں طرف سے ہوتی ہیں۔کہ پولیس والے اس کی گاڑی کو کیوں نہیں روکتے فلاں شخص کے موٹر سائیکل کی نمبر پلیٹ نہیں وغیرہ۔لہذا اس سلسلہ میں اگر وہ سختی کرتے بھی ہیں تو وہ ہمارے مستقبل اور جانوں کی حفاظت کے لئے ایک سبق ہوتا ہے۔اس کے علاوہ پولیس اہلکاروں کو سی این جی گیس سلنڈروں پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے۔یہ ہمارے معاشرہ میں چلتے پھرتے ایٹم بم ہیں ۔غیر معیاری گیس سلنڈروں کی بھر مار جو کہ لوکل مارکیٹوں میں تیار ہورہے ہیں۔ کسی بھی وقت جانوں کے ضائع کا اندیشہ لگا رہتا ہے۔اس کے علاوہ اپنے اردگرد کے ماحول کو صاف ستھرا رکھنا چاہیے۔اور طالبعلموں اور نوجوانوں کو اپنے اردگرد کے ماحول پر توجہ دینی چاہیے کسی بھی شبہ ہونے پر نزدیک موجود پولیس چوکی یا تھانہ میں انفارمیشن دینی چاہیے۔
Habib Ullah
About the Author: Habib Ullah Read More Articles by Habib Ullah: 56 Articles with 90597 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.