پاکستانی صنعتوں کو لاحق خطرات اور ٹیکس خسارہ

پاکستانی صنعتوں کوخطرات لاحق ہیں۔پاکستان میں بننے والی اشیائ کو بیرونی تاجروں، سرمایہ کاروں، اور جعلی بننے والی اشیائ سے خطرات لاحق ہیں۔اسی طرح پاکستان میں قائم اسٹیشنری کی صنعت بھی بڑی اہمیت کی حامل ہے۔بائیس ستمبر 2008 کے پشتو اخبار وحدت میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق ظاہر شاہ نامی شخص کو مقامی سطح پر اسٹیشنری بنانے والوں نے رنگے ہاتھوں گرفتار کروایا یہ خبر ملک کے دیگر بڑے اخبارات میں بھی شائع ہوئی جس کو ہم نے خود بھی پڑھا تھا۔ اسٹیشنری کی بڑھتی ہوئی اسمگلنگ نے حکومت کو بھی اربوں روپے کے ٹیکس سے محروم کردیا ہے۔ جگہ جگہ ٹھیلوں، فٹ پاتھوں اور دکانوں پر غیر قانونی طور پر تیار کی جانے والی غیر معیاری اسٹیشنری کی فروخت ملک بھر میں جاری ہے۔ اس غیر معیاری اسٹیشنری کی قیمت اصل کی قیمت سےغیر معمولی فرق رکھتی ہے جبکہ اس کی فروخت میں بے حد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جو کہ بغیر ٹیکس ادا کئے اسمگل ہو کر بیرون ملک سے یہاں آتی ہے۔غیر قانونی طور پر تیار کی جانے والی اسٹیشنری میں ڈالر انڈسٹری کے ایس پی ٹین، پوائنٹر اور مارکر ز کی فروخت کھلے عام جاری ہے۔ جس سےمقامی صنعت کو اربوں روپے کا سالانہ نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے اور جو لوگ اصل اور نقل میں پہچان نہیں رکھتے وہ اشیائ کے غیر معیاری ہونے کی شکایت بھی کرتے ہیں۔روزنامہ ایکسپریس میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق غیرمعیاری اسٹیشنری پڑوسی ملک چین سے اسمگل ہو کر آتی ہیں جن کے ملکی مارکیٹ میں فروخت ہونے سے حکومت اربوں روپوں کے ٹیکس سے محروم ہوجاتی ہے۔ خبر میں یہ بھی کہا گیا کہ فائونٹین پین کی فرسٹ سیکنڈ اور تھرڈ کاپی تک مارکیٹ میں فروخت ہورہی ہے۔ جو پرسنل بیگج کے ذریعے سے بھی یہاں آتی ہیں۔ مقامی کمپنی سے ملنے والی معلومات کے مطابق انہوں نے مقامی سطح پر فروخت ہونے والی جعلی اسٹیشنری کے خلاف قانونی کارروائی بھی کی جس میں جعلی اشیائ کی برآمدگی ، چھاپے اور گرفتاریاں بھی کروائی گئیں۔ اس بات کا ثبوت انہوں نے اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں اور تصاویر کی شکل میں پیش کیا۔ اور انہوں نے اس بات کی بھی امید ظاہر کی کہ حکومتی سطح پر غیر رجسٹرڈ اسٹیشنری کی فروخت کے خلاف اقدامات بھی ہونے چاہئیں جو وقت کی ضرورت ہے۔ انک پین سے متعلق شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ انک پین کی ماہانہ کھپت پچاس لاکھ پینزہے جس کا بڑا حصہ اسمگل ہو کر پاکستان پہنچتا ہے جس کی وجہ سے مقامی سطح پر تیار کی جانے والی اشیائ کی فروخت پر اثر پڑتا ہے۔ سونے پر سہاگہ کراچی ایکسپو سینٹر میں ہونے والی انڈین کمپنیوں کی ہونے والی نما ئش ہے جس سے یقیننا ملکی سطح پر تیار کی جانے والی اشیائ کی تجارت پر اثرپڑے گا۔غیر قانونی طور پر غیر معیا ری اسٹیشنری فروخت کرنے والوں کے خلاف مقامی کمپنیوں نے عدالتی کارروائی بھی کی تاہم خاطر خواہ نتائج عمل میں نہیں آسکے ہیں۔نقلی اور غیر معیاری اشیائ کراچی، لاہو ر، راوالپنڈی اور دیگر بڑے شہروںفروخت کی جاتی ہے جس کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے بلکہ ذیادہ تر صارفین کو تو اس بات کا سرے سے علم ہی نہیں ہے کہ آیا یہ اصل ہے یا نقل۔ رپورٹ میں مذید کہا گیا کہ چین میں تیار کی جانے والی پنسلوں کا ملک بھر میں بھر مار ہے۔ چالیس فٹ کے کنٹینر میں چار ٹن پنسل ظاہر کی جاتی ہے جبکہ اس کی گنجائش تیس تا چالیس ٹن فی کنٹینر ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ اس کی جانچ کے عمل پر توجہ دینا کسٹمز حکام کی توجہ سے ہی ممکن ہے۔ ان تمام حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ اسٹیشنری کی صنعت سراسر خسارے میں جارہی ہے جس سے حکومت بھی اربوں روپے کے ٹیکس سے محروم ہے اور تقریبا غیر قانونی اشیائ چین سے ہی اسمگل ہو کر پاکستانی مارکیٹوں میں فروخت ہورہی ہیں۔ حکام اسمگلنگ اور غیر قانونی طور پر آنے والی اسٹیشنری کی روک تھام پر بھر پور توجہ دیں تاکہ ملک کو ٹیکس کی مد میں ہونے والے نقصان سے بچا جاسکے۔
Iftikhar Alam Ghori
About the Author: Iftikhar Alam Ghori Read More Articles by Iftikhar Alam Ghori: 5 Articles with 4847 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.