حوا کی بیٹی کی صدا۔۔ ذرا غور سے سنو

ہم صحافیوں کا یہ المیہ ہے کہ اگر کوئی سیاستدان اچھا کام کرے تو اس کی توصیف میں کچھ لکھ دیں تو لوگ ہمیں برا سمجھتے ہیں ،اور اگر کسی کی مخالفت میں لکھ دیا جائے تو بھی لوگ برے الفاظ میں یاد کرتے ہوئے نہایت غلط الفاظ استعمال کرتے ہیں ،لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو ہماری حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں ،اور کچھ تو ایسے ہوتے ہیں جو ہمیں اپنا مسیحا جان کر اپنے مسائل اس امید کے ساتھ ہم سے شیئر کرتے ہیں کہ ہم ان کے مسائل چٹکیوں میں حل کر دیں گے ،ایک ایسا ہی ایک خط مجھے گزشتہ دنوں موصول ہوا،جس نے مجھے ہلا کر رکھ دیا اور سوچنے پر مجبور کر دیا کہ دنیا ترقی کے مدارج طے کرتے ہوئے کہاں تک جا پہنچی ہے لیکن ہماری سوچ کا محور ابھی تک وہیں ہے اور دور جہالت کی طرح ہماری سوچ بھی محدود ہو چکی ہے تفصیل میں جانے سے قبل میں وہ خط من و عن قارئین سے شیئر کرنا چاہوں گا۔

’میرانام ”حیا “ہے میرا تعلق ایک متوسط گھرانے سے ہے بڑی مشکلوں سے میں نے بی۔کام تک تعلیم حاصل کی ،حالات ایسے نہیں تھے کہ میں تعلیم کا سلسلہ جاری رکھ پاتی ،اس لئے جاب کی تلاش شروع کر دی ،مختلف کمپنیز میں درخواستیں دیں جہاں بھی انٹرویو دینے کے لئے جاتی ،انٹرویو سے قبل مرد حضرات نظروں ہی نظروں میں میرا ایکسرے کچھ اس انداز سے کرتے جیسے قربانی سے پہلے قصاب کسی جانور کو دیکھتا ہے جس سے شرمندگی سے میرا سر جھک جاتااور سوچتی کہ کیا ہم حوا کی بیٹیاں مردوں کی جذباتی تسکین کے لئے ہی پیدا ہوئی ہیں ؟کیا ہمارا حق کے لئے جدوجہد کرنا ٹھیک نہیں ہے؟کیا ہم گھر کی چار دیواری میں بیٹھ کر بھوک سے ایڑیاں رگڑ کر مر جائیں؟میرا سب سے بڑا قصور میری غربت تھی،دوسرا قصور میرا یہ تھا کہ میں حوا کی بیٹی تھی،سنا تھا کہ بیٹیاں اللہ کی رحمت ہوتی ہیں اور یہ بھی سنا تھا کہ وجودِ زن سے ہے کائنات میں رنگ۔لیکن در در کی ٹھوکریں کھانے کے بعد معلوم ہوا کہ ہم آج بھی دور جہالت میں جی رہے ہیں اور آسماں ہماری کسمپرسی دیکھ کر بھی نہیں گرتا ،زمیں ہم پر ہونے والے سلوک پر بھی نہیں کانپتی،آدم کے بیٹے بھیڑیوں کے روپ میں ہمیں نوچنے کے لئے بے تاب ہیں کیا ہم عصمتوں کی حفاظت کے لئے کسی کنویں میں کود کر جان دے دیں یا پھر شرافت کا لبادہ اوڑھے ان مردوں کے ہاتھوں کا کھلونا بن کر اپنا استحصال کرواتے رہیںمجھے بتائیں میں کیا کروں؟؟؟

تلخ حقائق اور تجربوں پر مبنی یہ خط پڑھ کر سوچنے لگا کہ آخر کیا وجہ ہوئی کہ ہم پست ہو گئے ہماری ذہنیت مفلوج ہو کر حرص وہوس میں مصروف ہوگئی،ہم بھول گئے کہ اسلام میں عورت کا کیا مقام ہے ؟وہ تو دور جاہلیت تھا جس میں بچی کو زندہ درگور کر دیا جاتا تھالیکن آج یہ خط پڑھتے ہوئے یہ شعر باربار ذہن میں گردش کر رہا تھا
ہم کیسے دور جہالت میں جی رہے ہیںجہاں میں
آدم کا بیٹا خوش ہوتا ہے بنت حوا کو بے نقاب دیکھ کر

عورت جس میں محبت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے کبھی عورت ماں کے عظیم روپ میں نظر آتی ہے،تو کبھی بیوی جیسے خوبصورت رشتے میں محبت کی تصویر بنی نظر آتی ہے اور کبھی یہ بہن جیسے خوبصورت رشتے میں محبت کی مالا دکھائی دیتی ہے اللہ تعالیٰ نے اک عورت کے اندر اپنی محبت میں سے کچھ محبت ڈال دی ہے جس کی وجہ سے یہ محبت کا عظیم پیکر دکھائی دیتی ہے ،عورت جو خودداری اور حیا کا مجسمہ تھی آج کے دور جدید میں بس اک کھلونا بن کر رہ گئی ہے جسے اپنی مرضی اور تسکین کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے ،عورت جوکہ اک گھنا سایہ دار درخت کی مانند ہوتی ہے آج خود کو بھوکی نگاہوں سے بچاتی نظر آتی ہے،عورت جو کہ ایک خوبصورت چمن کی طرح رشتوں میں خوشبو بکھیرتی ہے آج وہی عورت ہوس ناک نگاہوں کے طواف سے خود کو محفوظ رکھنے کی تگ و دو میں لگی ہوئی ہے۔

حقوق نسواں کے لئے کام کرنے والے اداروں اور این ۔جی۔اوز کو عورت کے حقوق کے لئے خصوصی حکمت عملی ترتیب دے کر عملی اقدام کرنے ہوں گے تاکہ حوّا کی بیٹی کو اپنا کھویا ہوا وقار واپس مل سکے اوروہ عزت سے جی سکے کیونکہ اسلام نے عورت کو ایک مقام دیا ہے اگر مسلم خواتین کو اپنا وقار و مرتبہ لینا ہے تو اسلام کے احکامات پر عمل پیرا ہوں تاکہ دنیا میں بھی عزت سے زندگی بسر کر سکیں اور آخرت میں بھی سرخرو ہو سکیں۔
AbdulMajid Malik
About the Author: AbdulMajid Malik Read More Articles by AbdulMajid Malik: 171 Articles with 189272 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.