جندول کا غریب طالب علم

ماں نے اپنے سترہ سالہ بیٹے کا ماتھا چوم لیا اور اس کے کمزور اور زرد چہرے پر ہاتھ پھیر کر سفید کپڑے سے اس کا سر باندھ لیا اس کی چھوٹی بہنوں نے اپنے بھائی کی موت کا یقین ہوتے ہی بین کرنا شروع کردیا گذشتہ ایک سال سے ان کا بھائی تو ویسے بھی کوما میں تھا لیکن پھر بھی دل میں ایک آس تھی کہ شائد ان کا بھائی اٹھ جائے اور معجزہ ہو جائے اور یہ معجزہ بھی ہو جاتا لیکن اگر انہیں اپنے بھائی کے علاج کیلئے اخراجات مل جاتی لیکن کسی کو یہ ہمت نہ ہوئی کہ ان کے کوما میں پڑے بھائی کیلئے اخراجات دیتا-

یہ کوئی کہانی نہیں بلکہ یہ سترہ سالہ اس طالب علم پر بیت جانیوالی سچ بیتی ہے جو گذشتہ دنوں ایک مقامی اخبار میں چھپی جس میں بتایا گیا کہ جندول میں خودکش حملے میں زخمی ہو کر کوما میں چلا جانیوالانویں کلاس کا طالب علم زندگی کی بازی ہار گیا ہم سب کیلئے یہ ایک معمولی خبر ہے لیکن ان کیلئے قیامت ہے جن کا یہ بیٹا تھا جن کا یہ بھائی تھا اور جن کا یہ آسرا تھا- تقریبا ایک سال قبل نویں کلاس کے طالب علم جو اپنے رشتہ دار کے جنازے میں اپنے والد کیساتھ شریک ہوا تھا میں خودکش حملہ ہوا جس میں اس کے والد زخمی ہونے کیساتھ ساتھ بہرے بھی ہوگئے جبکہ یہ طالب علم زخمی ہوکر کوما میں چلا گیا ابتداء میں اسے ایک مقامی سرکاری ہسپتال میں داخل کردیا گیا جہاں پر اس کی ظاہری علاج تو کیا گیا لیکن کوما میں جانے کے بعد ڈاکٹروں نے اسے ہسپتال سے باہر نکال دیا کیونکہ یہ طالب علم اس ملک کے کمی کمینوں کے اولاد میں سے تھا جن کی اوقات نہیں ہوتی-کوما میں پڑے جندول سے تعلق رکھنے والے اس طالب علم پر روزانہ ساڑھے تین ہزار روپے کا خرچہ آتا تھا اور ڈاکٹروں کے مطابق اس طالب علم کے علاج پر آٹھ سے دس لاکھ روپے اخراجات آتے تھے جو اس غریب خاندان کے بس سے باہر تھے پختون خوار میں اپنی زمین پر اپنی بدمعاشی کا دعوی کرنے والے حکمرانوں نے حاتم طائی کے خزانے پر لات مار کر ایک لاکھ روپے احسان کرکے اس غریب خاندان کو دے دئیے اور پھر حکمران اس معصوم طالب علم سمیت اس کے زخمی اور دھماکے کے باعث بہرے ہونے والے والد کو بھول گئے سترہ سال طالب علم کے بھائی نے حکمرانوں کو یاد دہانی کیلئے کئی جگہوں اور کئی مقامات پر پختون خوار کے وزراء سے رابطے بھی کئے درخواستیں بھی دئیے لیکن معصوم طالب علم کے علاج کیلئے سرکار کی طرف سے نہ تو کچھ ملنا تھا اور نہ ہی مل سکا اور گذشتہ روز ایک سال کا عرصہ خوار ہونے کے بعد وہ طالب علم زندگی کی بازی ہار گیا میڈیا میں دو کالم خبر چھپ گئی اور سب کچھ ختم کیونکہ یہ کمی کمینوں کی قسمت ہے-

جس دن جندول سے تعلق رکھنے والے اس غریب طالب علم کا جنازہ تھا اسی دن شام کو جم ہوریت کی آڑ میں اسلامی فلاحی عوامی ملک میں میں کمی کمینوں کو لوٹنے والوں کا ڈرامہ گڑھی خدا بخش میں جاری تھا اور اس ڈرامے میں اگر باپ اپنے آپ کو سیر بتا رہا تھا تو بیٹا اپنے آپ کو سوا سیر بتا رہا تھا خاندانی پارٹی سے تعلق رکھنے رہنماء اپنے آپ اپنے باپ ماں اور نانا کی شان میں کیا سے کیا قصیدے کہہ رہا تھا رٹے رٹائے بیانات میں یہاں تک کہہ دیا گیا کہ غریبوں کیلئے ایک ہزار روپے ماہانہ سپورٹ پروگرام شروع کیا گیا اور وہاں پر بیٹھے کرائے کے کمی کمینوں نے زندہ باد کے وہ نعرے لگائے جس سے اندازہ ہوگیا کہ اس پروگرام کیلئے شائد انہیں کرایہ زیادہ دیا گیا تھا کسی نے اٹھ کر یہ سوال نہیں کیا کہ ایک ہزار روپے ماہانہ سپورٹ پروگرام میں سے کیا ہوتا ہے خود کروڑوں روپے کی گاڑیوں میں گھومنے والے ان نام نہاد لی ڈروں کو اندازہ بھی نہیں کہ سات سو روپے پر بیس کلو آٹے کا تھیلہ آتا ہے جو کہ ایک اوسط گھرانا ایک ہفتہ کیلئے استعمال کرتا ہے مہینے کے تین ہفتے غریب آدمی کیا کرے اگر یہ سوال وہاں پر بیٹھے کچھ مخصوص صح آفی بھی پوچھ لیتے تو شائد"دودھ اور شہد " کی نہریں تقریروں میں بہانے والے لی ڈروں کو کچھ عقل ہی آجاتی لیکن جس طرح حکمرانوں نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں اور انہیں صرف اپنا آپ اور خاندان ہی نظر آتا ہے اسی طرح مخصوص صح آفیوں کو بھی سرکار کے جلسوں میں "چمچہ گیری" پر خرچہ پانی بھی ملتا ہے اس لئے خرچے پانی کی وجہ سے ان کی آنکھیں بند ہوتی ہیں اور یہ بھی کمی کمینوں کی طرح ہر طرف واہ واہ اور زندہ باد کرتے دکھائی دیتے ہیں-

جندول کے نویں کلاس کے طالب علم کی موت کی ذمہ دار کون ہے یہ وہ سوال ہے جسے ہم سب کو اپنے آپ سے کرنے کی ضرورت ہے ٹھیک ہے کہ وہ دہشت گردی کا نشانہ بن گیا لیکن کن کی وجہ سے یہ دہشت گردی ہوئی یہ وہ ابتدائی سوال ہے جسے ہر ایک شخص کو پوچھنا چاہئیے اپنے آپ سے اور ان سے جو اپنے آپ کومعتبر سمجھتے ہوئے عوامی نمائندہ کہلوانے میں فخر محسوس کرتے ہیں اور اگر دہشت گردی کا واقعہ پیش آیا تو پھر نویں کلاس کے طالب علم کی صحت کی ذمہ داری کیا ریاست کی نہیں روٹی کپڑا اور مکان کے دعوے کرنے والے کیا اپنے آپ کو صحت کی بنیادی سہولیات بھی فراہم نہیں کرسکتے کہنے کو تو ہمارے ٹھیکیدار جنہیں اللہ کی مہربانی سے صحت کا شعبہ ملا ہے کی صحت کے شعبے میں کئے جانیوالے کارناموں کے حوالے سے سے بڑی بڑی باتیں چھپتی ہیں لیکن حقیقت میں کیا ہورہا ہے اس کا اندازہ نویں کلاس کے طالب علم کیساتھ ہسپتال میں روا رکھے جانیوالے روئیے اور اسے علاج کیلئے رقم نہ دینے کی صورتحال سے بخوبی کیا جاسکتا ہے جس کی وجہ سے ایک سال بعد کوما کا شکار طالب علم زندگی کی بازی ہار گیا-

کہنے کو تو غریب غرباء کیلئے بیت المال اور زکواة کی رقم بھی ادویات کی مد میں دی جاتی ہیں لیکن اس کیلئے کسی بڑے" گناہ گار" کی سفارش کا لانا ضروری ہے جس کے بعد اس ملک میں جانوروں سے بدتر زندگی گزارنے والے غریبوں کو زکواة کی مد میں رقم مل جاتی ہیں لیکن قربان جائیے اپنی زمین پر اپنی بدمعاشی کا دعوے کرنے والے حکمرانوں کے جن کے دور میں زکواة کی رقم سیلاب زدگان کے نام پرنکال لی گئی اور بعدازاں قسطوں میں جی آلوں اور اپنی زمین پر اپنی بدمعاشی کیساتھ نعرے بازی کرنے والوں کو مل گئی اب ان حالات میںمعصوم طالب علم کا کون پوچھے-
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 590 Articles with 431411 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More