من کی مُراد ۔۔۔ مگر کِس قیمت پر؟

کراچی میں نیٹی جیٹی کا پل ایک زمانے سے اُن لوگوں کا پسندیدہ مقام ہے جو من کی مُرادیں پوری کرنے کے خواہش مند ہیں۔ شہر بھر سے اور باہر سے بھی لوگ نیٹی جیٹی کے پل پر کھڑے ہوکر آٹے کی گولیاں سمندر میں ڈالتے ہیں تاکہ مچھلیاں کھائیں اور اُن کے حق میں دعا کریں! لوگ صرف اپنے من کی مراد پانے کے لیے آٹے کی گولیاں پانی میں ڈالتے ہیں۔ سب کو اپنا ذاتی مفاد عزیز ہے، کوئی شہر کی سلامتی کو اپنے من کی مُراد نہیں بناتا۔ اگر ایسا ہوا کرتا تو معصوم مچھلیوں کی دُعا سے شہر کے حالات کچھ تو بدلے ہوتے، بہتر ہوئے ہوتے!
 

image

خیر، یہ بھی کیا کم ہے کہ دل کے بہلانے کو ایک ایسا پُل بھی شہر میں موجود ہے جو من کی مُراد اور اُس کے حصول کے درمیان پُل کا کردار ادا کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔ اگر اتنا آسرا بھی نہ ہو تو ہم کیا کرلیں گے؟ کراچی کے باشندے خوش نصیب ہیں کہ آٹے کی گولیاں سمندر میں ڈال کر دل کو تھوڑا بہت سُکون پہنچانے کا سامان تو کرلیتے ہیں۔ مگر صاحب! یہ کہاں کی دانش مندی ہے کہ من کی مُرادیں پانے کے لیے جسم و جاں ہی کو داؤ پر لگادیا جائے؟ نیٹی جیٹی پر کھڑے ہونے والوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر انتظامیہ نے ٹن کی چادریں لگادی ہیں۔ آپ چاہیں تو اوپر سے بھی آٹے کی گولیاں پانی میں ڈال سکتے ہیں مگر کچھ لوگ دل کی تسلی کے لیے ایک قدم آگے جاکر ریلنگ کے دوسری جانب کھڑی ہوکر معصوم مچھلیوں کو آٹا اور اناج کے دانے کھلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہاں تک بھی بات ٹھیک ہے، مگر ایسی بھی کیا بے تابی کہ اس کام کے لیے بچوں کو داؤ پر لگایا جائے؟ اگر کوئی بچہ بے دھیانی میں یا جذبات سے مغلوب ہوکر آگے بڑھ بھی رہا ہو تو روک دینا بڑوں کا فرض ہے۔

نیٹی جیٹی کا پُل انتہائی حساس مقام پر ہے۔ ملک بھر سے درآمدی سامان اِس پُل کے ذریعے جہازوں تک پہنچتا اور برآمدی سامان اِس کے ذریعے ملک کے مختلف حصوں کو بھیجا جاتا ہے۔ اِس کی سیکیورٹی تو مثالی ہونی چاہیے۔ اب سوال یہ ہے کہ جب کوئی پُل کی ریلنگ پار کرکے حساس اور خطرناک حصوں تک پہنچتا ہے تو متعلقہ سیکیورٹی اہلکار کیا کر رہے ہوتے ہیں؟ ایسی حالت میں تو کوئی بھی پُل کے حساس اور خطرناک حصوں تک آسانی سے پہنچ سکتا ہے! بندر گاہ سے متصل پُل پر تو ہر وقت نظر رکھی جانی چاہیے۔

نیٹی جیل پُل سے کود کر خود کشی کرنے کا رجحان بھی زور پکڑتا جارہا تھا۔ ہوسکتا ہے کہ اِس رجحان کی حوصلہ شکنی ہی کے لیے ٹن کی چادروں پر مبنی دیواریں بنائی گئی ہوں۔ مگر خیر، کِسی کو خود کشی سے روکنے اور خود کشی کی اجازت دینے میں کوئی خاص فرق نظر نہیں آ رہا۔ بچوں اور نوجوانوں کا پُل کے حساس اور خطرناک حصوں تک پہنچنا موت کو دعوت دینے ہی کے مترادف ہے۔ بہت سے بچے یہاں سے کود کر نہاتے ہیں۔ اِس حوالے سے بھی انتظامیہ کو اپنی ذمہ داری محسوس کرنی چاہیے۔

من کی مراد پانے کے لیے معصوم مچھلیوں کو خوراک ڈالنا اور بات ہے مگر خوراک ڈالنے کے نام پر خود کو سمندر کی خوراک بنانا کہاں کی دانش مندی ہے؟ تفریحی مقام کو تفریحی ہی رہنا چاہیے۔ ہوا خوری کے لیے آنے والے ہوا خوری تک محدود رہیں تو اچھا۔ سمندر کی ٹھنڈی اور فرحت بخش ہوا کے ساتھ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنا کسی بھی طور کوئی پسندیدہ عمل نہیں۔
(فوٹو گرافی : سید رضوان علی)
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 490234 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More