تعلیمی نسل کشی کا نیا بل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ایچ ای سی ترمیمی بل ایک انتقامی فیصلہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

کہتے ہیں تعلیم ترقی کی شاہ کلید ہے اور علم قوموں کی ترقی کی بنیاد و اساس ہوا کرتا ہے،یہ حقیقت ہے کہ قوموں کے عروج و زوال میں تعلیم کا کردار ہمیشہ سے غیر معمولی اہمیت کا حامل رہا ہے،دنیا میں وہی قومیں اور ممالک باوقار مقام کے حامل ٹھہرے جنھوں نے اِس گوہر کمیاب کے حصول کیلئے حکمت عملی وضع کی،لیکن اِس کے برعکس جن قوموں نے تساہل سے کام لیا اور لاپروائی برتی وہ قومیں جغرافیائی آزادی کے باوجود ذہنی غلامی سے نہ نکل سکیں،یہ قومی ترقی کے پرکھنے کا رائج الوقت پیمانہ ہے،اِس اصول کی روشنی میں وطن عزیز کا جائزہ یہ ثابت کرتا ہے کہ ہمارے یہاں تعلیم کی اہمیت اور ضرورت کے مطابق مطلوبہ حکمت عملی کبھی وضع ہی نہیں کی جاسکی،نتیجتاً ہمارا شمار اُن قوموں میں ہونے لگا جن کا وجود ہی سوالیہ نشان ہے،سردست اِس تشویشناک صورتحال،اسباب ومحرکات اور پس پردہ عوامل کاجائزہ ہمارا مقصود نظر نہیں،لیکن ایک بات طے ہے کہ نصف صدی سے زیادہ سفر طے کرنے کے با وجود اگر ہم تعلیمی میدان میں کوئی قابل قدر ترقی نہ کرسکے تو اِس کی سب سے بڑی وجہ ارباب اقتدار کی عدم دلچسپی اور شعبہ سے پہلو تہی ہے،حالانکہ ایک وقت وہ بھی تھا جب تعلیمی ترقی کی وجہ سے مسلمان دنیا کی امامت کے مرتبے پر فائز تھے،یہ وہ دور تھا جب مغرب اپنے تاریک ترین دور سے گزر رہا تھا،مگر قرطبہ کی جامعات دنیا بھر میں علم وفن کی روشنی پھیلارہی تھیں، لیکن جب تعلیم و تعلّم اور شمشیر و سناں کی جگہ طاؤس و رباب نے لے لی تو ہماری تنزلی کا دور شروع ہو گیا،تعلیمی ترقی نہ ہونے کی وجہ سے وہ جو کبھی اقوام عالم کے سردار تھے،اغیار کے غلام اور محکوم ہوگئے،آج حال یہ ہے کہ دنیا کے بہترین تعلیمی ادارے اغیار کے پاس ہیں اور پوری دنیا سے اعلیٰ تعلیم کے حصول کےلئے لوگ اُن کی طرف رخ کرتے ہیں،دوسری طرف ہماری تعلیمی ترقی کا حال یہ ہے کہ دنیا کی بڑی جامعات کی فہرست میں دور دور تک ہماری کسی یونیورسٹی کا نام نظر نہیں آتا۔

ہمارے ملک میں تعلیم کا شعبہ روز اوّل سے ہی عدم توجہی کا شکار رہا ہے،ہر حکومت نے تعلیمی کمیشن تشکیل دیئے،نت نئی تعلیمی پالیسیاں بنائیں،تعلیمی فروغ کیلئے کاغذی ادارے قائم کئے،مگر ہمارا نظام تعلیم جوں کا توں ہی رہا،جبکہ دنیا کا دستور یہ ہے کہ قومیں اپنی ترقی اور کامیابی کیلئے ادارے تعمیر کرتی ہیں،اُن کی مسلسل پرورش کرتی ہیں،پروان چڑھاتی ہیں اور انہیں بہتر سے بہتر بناتی رہتی ہیں،تب جاکر کہیں برسوں بعد نتائج حاصل ہوتے ہیں،وہ اِس حقیقت سے واقف ہیں کہ ادارے ہی قوموں کا اثاثہ اور میراث ہوتے ہیں جو ثمربار اور گھنے درختوں کی مانند آنے والی نسلوں کو نہ صرف سایہ فراہم کرتے ہیں بلکہ ترقی و خوشحالی کا پھل بھی مہیا کرتے ہیں،مگر اِس کے برعکس ہم نے اپنی 65 سالہ تاریخ میں سب سے زیادہ توجہ ادارے بنانے کی بجائے انہیں کمزور کرنے اور توڑ نے پر صرف کی ،جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہر شعبے میں ہم پیچھے رہ گئے، بد قسمتی سے ہمارے حکمرانوں کا یہ شغل آج بھی جاری ہے،اگر اتفاق سے کسی دور حکومت میں کوئی ادارہ وجود میں آ بھی گیا تو اِس کے درپے ہونا،آنے والے حکمرانوں نے اپنا فرض منصبی سمجھا، خوش قسمتی سے سابقہ دور آمریت میں ادارہ سازی کے میدان ایک قابل تعریف کام سرزد ہوا،جو ہائر ایجوکیشن کمیشن کا قیام تھا،لیکن موجودہ حکومت برسراقتدار آنے کے بعد سے مسلسل اِس کوشش میں مصروف رہی کہ کسی طرح اِس ادارے کو اپنے قابو میں لایا جائے،اِس مقصد کیلئے اُس نے مختلف حربے استعمال کئے،مگر ہر بار ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا،اب ایک بار پھر اِس ادارے کی خودمختاری کے خاتمے اور چیئرمین کے عہدے کی معیاد کم کرنے کیلئے حکومتی جماعت کے چند ارکان نے” پرائیویٹ ممبرز ہائیر ایجوکیشن کمیشن ترمیمی بل“ پیش کیا،جسے 23جنوری کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے منظور کرلیا۔

اِس بل کا ایک پس پردہ مقصد یہ بھی ہے کہ اُن 393 ارکان پارلیمنٹ کومتوقع نااہلی سے بچایا جائے،جن کی ڈگریوں کی تصدیق 2010 میں سپریم کورٹ کی دی گئی ہدایات کے باوجود حکومت کے عدم تعاون کی وجہ سے اب تک نہیں ہوسکی اور اِن ارکان پارلیمنٹ کی اسناد کو مشکوک یا جعلی سمجھا جارہا ہے اورجب تک اِن ارکان پارلیمنٹ کی ڈگریوں کی تصدیق نہیں ہوجاتی اِن افرادکو اگلا الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں ملے گی،اَمر واقعہ یہ ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن ملک کا ایک موقر ادارہ ہے،جس نے اعلیٰ تعلیم کے فروغ کیلئے بہت کم وقت میں نمایاں خدمات انجام دی ہیں،اعلیٰ تعلیم کی پالیسی، معیار کی نگرانی، اُس پر عمل درآمد کو یقینی بنانا،اسناد کی توثیق،نئے اعلیٰ تعلیمی اداروں کا قیام اور پہلے سے موجود اداروں میں تعلیم و تدریس کے انتظامات کی بہتری،اِس ادارے کے فرائض میں شامل ہے، یہ کمیشن 2002 میں جنرل مشرف کے دور حکومت میں معرض وجود میں آیا،ڈاکٹر عطاالرحمن 2002 سے2008 تک اِس ادارے کے سربراہ رہے،جنھوں نے ملک میں اعلیٰ تعلیم کے فروغ اور اِس کے معیار کو بہتر بنانے کیلئے قابل ستائش انقلابی اقدامات کیے، کئی ہزار اساتذہ کو ڈاکٹریٹ کیلئے دنیا کے ممتاز تعلیمی اداروں میں بھیجا،ملک کے اندر اعلیٰ تعلیمی اداروں میں اساتذہ کیلئے اہلیت کے معیار کو بلند کیا، ملک کی جامعات میں متعدد تحقیقی منصوبے شروع کیے اور اِن مقاصد کے حصول کیلئے تعلیمی بجٹ میں حتی الامکان اضافہ کروایا۔

مگرموجودہ حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعدیہ شعبہ بری طرح نظر انداز کیا گیا،جس کے نتیجے میں ملک کی جامعات شدید مالی مسائل کا شکار ہوئیں ، بیرون ملک سرکاری وظائف پر پی ایچ ڈی کیلئے جانے والے ہزاروں افراد کے وظائف بھی بند ہوگئے،تاہم مشکلات کے باوجود ہائر ایجوکیشن کمیشن کے موجودہ سربراہ ڈاکٹر جاوید لغاری نے اپنی ذمے داریاں احسن طریقے سے ادا کیں،چونکہ 2008کے الیکشن میں ارکان پارلیمنٹ کیلئے گریجویشن کی شرط لازمی تھی،اِس لیے انتخابات کے بعد بعض ارکان کی ڈگریوں کو عدالت میں چیلنج کیا گیا،جن میں سے متعدد ڈگریاں جعلی نکلیں تو عدالت نے ہائر ایجوکیشن کمیشن سے تمام ارکان پارلیمنٹ کی ڈگریوں کی توثیق ضروری قرار دی،جس کے بعد سے کمیشن اور اُس کے سربراہ کیلئے آزمائشوں کا دور شروع ہوگیا،قومی روزنامے کی رپورٹ کے مطابق جب کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر جاوید لغاری نے جعلی ڈگریوں کو اصلی قرار دلوانے یا اِس کام میں زیادہ سے زیادہ تاخیر کرنے کے حکومتی مطالبے کو ماننے سے انکار کیا تو اُن پر مستعفی ہونے کیلئے دباؤ ڈالا گیا،جب وہ جھکنے کو تیار نہیں ہوئے تو اُن کے بھائی کو یکے بعد دیگر مقدمات میں ملوث کیا گیا،اُن کے آبائی فارم ہاؤس پر چھاپہ مار کر وہاں کام کرنے والے کسانوں کو گرفتار کیا گیا، لیکن کمیشن کے چیئرمین اِن تمام ہتھکنڈوں کے باوجوداپنے جائز موقف پر ڈٹے رہے تو 18ترمیم کے ذریعے_ ہائر ایجو کیشن کمیشن کو تحلیل کرنے کی کوشش کی گئی،مگرسپریم کورٹ کی مداخلت کے باعث یہ حربہ بھی ناکام ہوگیا،جس کے بعد حکومت نے کمیشن کے فنڈز میں چالیس فی صد کمی کردی،جب فیکلٹی ارکان،عملے،طلبہ اوردیگرملازمین نے ملک گیرہڑتال کی تواُسے 20 فیصدفنڈز فراہم کردئیے گئے۔

بعدازاں ایچ ای سی کا انتظامی اورمالی کنٹرول وزارت تعلیم کے ماتحت کرنے کی کوشش کی گئی،مگر اِس نوٹیفکیشن کو سندھ ہائی کورٹ نے منسوخ کردیا،جس پرحکومت نے ایچ ای سی کو اپنے ہاتھ میں لینے کیلئے ایک اورقدم اٹھایااور ایگزیکٹیو ڈائریکٹرکی پوزیشن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وزیراعظم نے سیکرٹری تعلیم کو ہدایت کی کہ وہ قائم مقام ایگزیکٹیو ڈائریکٹرکا عہدہ سنبھال لیں،حالانکہ اِس اسامی جس کی تقرری کمیشن کا اختیار ہے ،ایچ ای سی پہلے ہی اشتہاردے چکی تھی،چنانچہ چیئرمین ایچ ای سی نے اِس صورتحال کو قبول کرنے سے انکارکردیا،جس کے بعدایچ ای سی اورحکومت کے درمیان ایک نئی جنگ چھڑگئی جو ایک بار پھر سپریم کورٹ جاپہنچی،عدالت عظمیٰ نے حکومت کا حکم معطل کرتے ہوئے ایچ ای سی کو ایگزیکٹیوڈائریکٹرکی تقرری کا حکم دیا،اِس طرح ایک اور شکست حکومت کے حصے میں آئی اور وہ ایک بار پھر اِس ادارے کے سربراہ کو زیر نہ کرسکی،چنانچہ حکومت نے کمیشن کو بے دست وپا بنانے کیلئے ہائرایجوکیشن کمیشن کے قانون میں ترمیم کا اعلان کردیا،جس کا مقصد کمیشن کی خودمختاری کے خاتمے اور چیئرمین کے عہدے کی میعاد کو کم کرنا ہے تاکہ موجودہ سربراہ سے نجات حاصل کرکے کسی ایسے شخص کو کمیشن کا چیئرمین بنایا جاسکے جو حکومت کے ناجائزمطالبات کو پورا کرنے میں لیت و لعل سے کام نہ لے اور اُن 393 ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اور سینیٹ کواِس بل کی منظوری کے ذریعے نااہلی کی تلوار سے بچایاجاسکے۔

اَمر واقعہ یہ ہے کہ ابھی یہ بل قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے منظور کیا ہے،اگر یہ بل اگلے مراحل طے کرکے باقاعدہ قانون بن جاتا ہے تو اِس سے نہ صرف جعلی ڈگری ہولڈرز جعلسازوں کی حکمرانی کی راہ ہموار ہوجائے گی بلکہ پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کا مستقبل تاریک اور بیرون دنیا میں ہمارے تعلیمی معیار کی رہی سہی ساکھ بھی ختم ہوکر رہ جائے گی،تعلیمی تباہی و بربادی کایہ منظر نامہ نقش دیوار ہے، یہ کتنی عجیب بات ہے کہ ایچ ای سی کی کارکردگی سے متاثر ہوکر ترکی،سری لنکا اوربنگلہ دیش سمیت متعددممالک اِس طرز کا ادارہ قائم کرنے کیلئے کوشاں ہیں،جبکہ بھارت اِس سے ایک قدم آگے سپرایچ ای سی قائم کرنے جارہا ہے تاکہ تعلیمی میدان میں بلاشرکت غیرے قیادت کا تاج اپنے سر سجا سکے،دوسری جانب ورلڈاکنامک فورم کے اعداد وشمار اعلیٰ تعلیم وتربیت ، ٹیکنالوجی اورجدت کے حوالے سے پاکستان میں گزشتہ تین سال کے دوران دیگر ممالک کے مقابلے میں بہتری دکھارہے ہیں،جواِس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اعلیٰ تعلیم میں اصلاحات کے فوائد حاصل ہورہے ہیں،مگر افسوس ہماری حکومت ایک قابل قدر ادارے کو اپنی ذاتی عناد اور انتقام کا نشانہ بناکر تباہ وبرباد کرنے پر تلی ہوئی ہے،یہی وجہ ہے کہ ملک بھرکی جامعات کے وائس چانسلرزاورماہرین تعلیم کی بڑی تعدادنے اِس مجوزہ ترمیمی بل پر اپنے شدیدتحفظات کااظہار کیا ہے ۔

اُن ماہرین کا موقف ہے کہ ایچ ای سی کا قیام 2001 میں قائم کردہ اسٹیئرنگ کمیٹی اور ٹاسک فورس کے 18ماہ پرمحیط مشاورت سے عمل میں لایاگیاتھا ،لیکن مجوزہ ترمیمی بل میں کسی بھی اسٹیک ہولڈرسے کوئی مشاورت نہیں کی گئی،نہ ہی حکومت نے ملک کی 140یونیورسٹیوں اور ایک لاکھ سے زائد فیکلٹی سمیت کسی فرد یا ادارے سے مشورے کو اہم جانا،چنانچہ اِس تناظر میں اِس بل کی منظوری سے اعلیٰ تعلیم کے شعبے کوشدیدخطرات لاحق ہوگئے ہیں،یقیناملک بھر کے ماہرین تعلیم اور جامعات کے وائس چانسلرز کے خدشات بجا ہیں،حکومت393جعلی ڈگری ہولڈر کو بچانااور کمیشن کو اپنے کنڑول میں لاکر ایک ایسے ادارے کو عضو معطل بنانا چاہتی ہے جس کی کارکردگی کا اعتراف اندرون اور بیرون ملک بھی کیا جارہا ہے،قارئین محترم ! ہائرایجوکیشن کمیشن پر پے درپے حکومتی حملوں سے اُس کے عزائم واضح ہیں،آج ایک بار پھر ایچ ای سی پر خطرات کے گہرے اور مہیب سائے منڈلارہے ہیں،یہ خطرات ہمہ پہلو سنگین اور علم دوست طبقات کیلئے باعث تشویش ہیں،جن سے مقابلے کیلئے مشترکہ اور منظم جدوجہد وقت کی اہم ضرورت ہے،لہٰذا تمام سیاسی جماعتوں،سماجی حلقوں اور سول سوسائٹی کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ وہ حکومت کی اِس تعلیم دشمن پالیسی اور فیصلے کے خلاف متحد ہوکر واضح لائحہ عمل اختیار کریںاور اِس ادارے کی آزادی و خودمختاری کو قائم رکھنے اور اپنی نسلوں کو فکری و نظریاتی بربادی سے بچانے کیلئے آگے آئیں،ساتھ ہی ہماری سپریم کورٹ سے بھی گزارش ہے کہ وہ حکومت کے اِس تعلیم کش پالیسی بل کے خلاف ازخود نوٹس لے کر وطن عزیز کے نوجوانوں کے مستقبل کو تاریک اورجہالت کے اندھے گڑھوں میں گرنے سے بچائے ۔
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 316 Articles with 314237 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More