دو۔۔۔۔گل

اس موسم میں عرب ممالک میں کافی ٹھنڈ پڑھتی ہے خاص کر کھلے ریگستانوں میں چونکہ وہاں سمندر کی تیز ہواؤں کیساتھ ساتھ رات کے وقت جلد ہی صحرہ کی ریت ٹھنڈی ہو کر سردی میں اضافے کا باعث بنتی ہے ۔موسم سرما کی ایک یخ بستہ رات کے آخری پہر میں جب دیس میں لوگ خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہوتے ہیں تب کسی کو زرہ بھی خبر نہیں ہوتی کے انکے وہ پیارے جو دیار غیر میں ہیں جنکی بدولت سب ٹھاٹھ باٹھ ہیں وہ کیا کر رہے ہونگے جاگ کر راتیں گزارتے ہیں یا انہیں بھی راحت نصیب ہوتی ہے گل خان آج معمول سے زرہ پہلے بستر سے اٹھا منہ ہاتھ دھوئے ڈیوٹی یونیفارم زیب تن کیا ۔کمرے میں اسکی ان غیر معمولی سرگرمیوں کے باعث باقی ماندہ لوگ بھی تقریباً جاگ اٹھے اور انہوں نے بھی اپنے معمولات کو سرانجام دیا ۔پردیس کی زندگی کے شب وروز کو وہی سمجھ پاتے ہیں جو خود اس عذاب سے گزرے ہوں ۔تقریباً ساڑھے تین بجے کا وقت تھا ہاتھ میں تقریباً آدھ کلو نسوار لئے گل خان اپنی گاڑی کا آئیل پانی چیک کرنے کے بعد سٹارٹ کیااتنے میں گل ظہیر بھی آکر فرنٹ سیٹ پر بیٹھ چکا تھا۔یہ جمیعہ الظفرہ التعاونیہ کا پنتالیس فٹ طویل ٹریلر تھا جس پر تیس ٹن کی ایک کرین لوڈ تھی ۔جمعیہ الظفرہ التعاونیہ ابو ظبیی آئل فیلڈ میں کام کرنیوالی بڑی کمپنی ہے جسکا بیس کیمپ بدع زائد کے قریب حبشاں میں واقع ہے ۔اور الظفرہ کے ہی ملازم گل خان اور گل ظہیر اس ٹریلر پر لوڈ کرین کو جبل علی انٹر نیشنل آوکشن میں لیجا نے نکلے تھے۔حبشاں سے ابو ظبیی ۱۷۰ کلو میٹر جبکہ مصفع ابو ظبیی سے جبل علی فری زون ایک سو کلو میٹر کے قریب ہے ۔گل خان کا ٹریلر طلوع آفتاب سے پہلے ہی مصفع ابوظبیی عبور کر گیا ۔مصفع سے تھوڑا پہلے ایک بڑا انٹر چینج ہے جہاں سے دائیں طرف نکلنے والی شاہرہ جو العین اور دبئی کو جاتی ہے کو ٹرک روڈ کہتے ہیں جو صرف بھاری ٹریفک کیلئے ہے جبکہ سیدھا آگے دبئی و العین کیلئے ہلکی گاڑیوں کا راستہ ہے جبکہ بائیں جانب جانیوالی شاہرہ ابو ظبیی شہر کو جاتی ہے ۔مصفع سے چالیس کلو میٹر کے فاصلہ پر پرایؤیٹ کمپنیوں کے رہائشی کیمپ ہیں جسے الفیےا کہتے ہیں ۔ ٹریلر ابھی الفیےا ہی پہنچا تھا کہ دھند کے اثار نظر آنے لگے جو آہستہ آہستہ سورج کی روشنی پر قابض ہو گئے اور گاڑیوں نے اپنی رفتار کم کر لی۔ابھی ٹریلر نے الفیےا عبور ہی کیا تھا کہ گل خان نے محسوس کیا کہ اسکی گاڑی پہ جیسے وزن بڑھ گیا ہے اور وہ بھاری ہو گئی ہے ۔یہ بڑی مصروف شاہرہ ہے جہاں دن رات گاڑیوں کی قطار یں لگی رہتی ہیں ۔گل خان الفیےا سے مذید چالیس کلو میٹر ہی آگے پہنچا ہو گا کہ دائیں طرف بیٹھے گل ظہیر نے ایک عجیب نظارہ دیکھا اسنے دیکھا کہ آگ کا ایک بڑا ہیولہ ان کا پیچھا کر رہا ہے جبکہ اسکا انکے کیبن سے تھوڑا ہی فاصلہ باقی ہے۔وہ بوکھلاہٹ میں چلایا اور کہا کہ گل خان ٹریلر کو سائیڈ پر روکو ،،،،پیچھے آگ لگی ہے۔گل خان نے حیرانگی اور پریشانی کے عالم میں گاڑی کو سائیڈ پر روکا اور فوراً دونوں نیچے اترے ۔انکے لئے یہ صورتحال بہت اچانک تھی ۔انہوں نے فائر سلینڈر نکالے اور جلد بازی میں ادھر ادھر مارنے لگے انہیں کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کیا کریں ۔سلینڈر ختم ہوئے تو ریت اور مٹی لا لا کر پھینکتے رہے مگر آگ اتنی زیادہ تھی کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہی تھی ۔کافی دیر بعد پولیس اور فائر برگیڈ کو بھی اطلاع دی گئی ۔انہوں نے ایک بار یہ بھی کوشش کی کے ٹریلر سے کرین کو اتارہ جائے لیکن کرین کو ٹریلر سے مضبوط باندھا گیا تھا اور اس سارے علاقے کو آگ نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔کرین نہ اتر سکی تو انہوں نے کمال پھرتی سے ایک دوسری گاڑی سے باندھ کر ٹریلر سے اسکا کیبن الگ کر کے اسے جلنے سے بچا لیااس اثناء میں شاہرہ مکمل طور پر بند ہو گئی اور حد نظر گاڑیوں کی لائن لگ گئی اور لوگوں کا ایک بڑا ہجوم دور کھڑا یہ نظارہ دیکھ رہا تھا۔بالآخر وہ تھک ہار کر دور جاکر لوگوں کے ساتھ کھڑے ہو کر ٹریلر اور کرین کو جلتا دیکھتے رہے جو چند ہی لمحوں میں جل کر خاکتسر ہوگئے۔

ٹریلر پنتیس فٹ لمبا ہوتا ہے جبکہ اسکا کیبن ملا کر اسکی کل لمبائی پنتالیس فٹ بنتی ہے اب یہ گاڑی جب الفیےا سے گزری تو اسکی رفتار کم ہو گئی جسکا مطلب یہ بنتا ہیکہ گاڑی کے پچھلے ٹائرز جو کہ ٹریلر کے کارنر پر ہوتے ہیں شائدانکی بریک جام ہو گئی ہو گی اور پہلے اس ٹائر نے آگ پکڑی جو پھیلتی ہوئی گاڑی کے پنتیس فٹ تک جا پہنچی ۔اب سوال یہ ہیکہ الفیےا سے گزرتے اس گاڑی کے ٹائر جام ہوئے پہلے دھواں نکلتا رہا ہو گا پھر آگ بڑھکی ہو گی پھر وہ آگ ایک ٹائر سے دوسرے پھر تیسرے پھر چوتھے اور اس طرح وہ پچھلے بارہ ٹائر جلاتے ہوئے ہائیڈرولک پائپزکو جلاتے ہوئے اوپر بلند ہوئی ہو گی اور اسنے کرین کے ٹائروں کو اور پھروہاں سے ہوتے ہوئے وہ آہستہ آہستہ آگے بڑھتے بڑھتے کیبن تک پہنچی ہو گی ہر دو صورتوں میں اس سارے عمل کو تیس سے چالیس منٹ وقت لگا ہوگا ۔لیکن اس مصروف ترین شاہرہ پر سینکڑوں گاڑیوں نے اسے اوورٹیک کیا ہوگا کچھ پیچھے بھی رہی ہونگی اور اس دوطرفہ شاہرہ پر سینکڑوں گاڑیاں سامنے سے بھی آئی ہونگی لیکن کسی ایک بھی انسان نے اس بد قسمت گاڑی کی آگ کو دیکھ کر گل خان یا گل ظہیر کو انفارم کرنے کی زرہ برابر زحمت گوارہ نہ کی جو کہ ایک بھیانک المیہ ہے ۔کہ کیا انسانیت اسقدر مفلوج ہو کر رہ گئی ؟کیا ایک انسان اپنی زات میں اتنا مگن ہو گیا ؟کیا بے حسی کی یہ شکل انتہائی شکل ہے؟اخر ہم لوگ کس جانب چل پڑھے ہیں اور انسانی بے حسی کی یہ کون سی شکل ہے اور اسکا انجام کیا ہو سکتا ہے۔
Niaz Kashmiri
About the Author: Niaz Kashmiri Read More Articles by Niaz Kashmiri: 98 Articles with 75323 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.