خانہ آبادی یا خانہ بربادی

شادی انسانی معاشرے کی ایک بنیادہے ، کرۂ ارض پر گھروں کی آبادی کی ضامن شادی ہی ہے، عہد جاہلیت میں اس کی شکلیں متعدد اور متنوع تھیں ، دیگر ادیان اور تہذیبوں میں ان شادیوں کی جھلک آج بھی موجود ہے، اسلام نے بنی نوع بشری کی اس ضرورت اور بنیاد کومنضبط اور نہایت مستحکم اندازمیں پیش کیا ، اسلام کی حقیقی روح کی ساتھ اگر شادی کے اس عمل کو انجام دیاجائے تو صحیح معنوں میں یہ خانہ آبادی ہے،اور اگر ان اصولوں کو پامال کر کے انجام دہی کی کوشش کی جائے تو یہی خانہ آبادی خانہ بربادی میں بدل جاتی ہے۔

دوگواہوں کے سامنے ایجاب وقبول اور مناسب مہر یہ اس کی لازمی شرطیں ہیں ،خطبۂ نکاح ،ولیمہ ،بقدر کفایت جہیز اور دف وغیرہ کے ذریعے اس کی تشھیر یہ اس کے مختصر سنن وآداب ہیں ،ازواج مطہرات ،بنات النبی صلی اﷲ علیہ وسلم بطور خاص نکاح سیدہ فاطمہؓاور صحابہ کرام کے باہمی بند ھنیں ،اس کی لازوال مثالیں ہیں ،صرف حضرت زینب سے عقد نکاح کے موقع پر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے ایک بکری کا ولیمہ روایات میں ملتاہے،بقیہ نکاحوں میں اس سے کم کی روایتیں ہیں ،سیدۃالکائنات حضرت فاطمہ کا جہیز ایک دو جوڑے لباس ایک چکی ،ایک مشکیزہ ،اور مہر صرف چاندی کے پانچ سو درھم ہیں ۔جانبین میں انتخاب کیلئے سب سے زیادہ جس بات پر شریعت نے زور دیاہے وہ دین داری ہے،مال داری ،حسب ونسب اور حسن وجمال اس انتخاب میں اسلام کی نظر میں ثانوی حیثیت رکھتے ہیں ۔

ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ان سیدھے سادھے ھدایات کے ساتھ اپنی طرف سے فخر وتفاخر کیلئے ایسے اضافے کر دیتے ہیں ، جن سے یہ معاشرتی ادارہ فساد کی طرف مائل اورتباہی وبربادی کی راہوں پر گامزن ہوجاتاہے،بسااوقات یہ ادارہ طلاق کی صورت میں انہدام سے دو چار ہوجاتاہے،بلکہ بے جاشروط،رسومات اور اضافوں کی بناء پر اس ادارے کا قیام مشکل بھی ہوجاتاہے،جس کی سزا والدین کے ساتھ قابل زواج بچیوں اور بچوں کو مجرد زندگی گذارنے کی صورت میں بھگتنی پڑتی ہے۔

آپ عصر حاضر میں سر مایہ دارانہ نظام کے بدولت امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتے دیکھ رہے ہیں ،مالیاتی بحرانوں نے بڑے بڑے ملکوں اور اتحادوں کو ہلاکر رکھ دیاہے ،ایسے میں پاکستان اور دیگر اسلامی ملکوں جیسے تر قی پذیر یاغریب ممالک کی حالت زار ہر خاص وعام کے مشاھدے میں ہے، غربت ،بے روز گاری، کساد بازاری ،امن وامان کی ابتری ،مقامی کر نسیوں کا روزافزوں تنزل کسی دلیل وبرھان کے محتاج نہیں ۔

ان حالات میں شادی جیسے ایک بنیادی ضرورت میں ہم سب افراط وتفریط کے شکار ہیں ،کہیں کثرت جہیز کی لعنت ہے،کہیں بہتات مہر کا اژدھاہے،تو کہیں ولیمے اور دیگر رسومات کا آتش فشاں ہے،شہری علاقوں میں جہیز اور مہندی کے رواجوں کے ساتھ ساتھ ولیمے کیلئے مفاخر انہ شادی ہالوں کی بکنگ ایک عقدۂ لاینحل بنتاجارہاہے،ادھر دیہاتی علاقوں میں مہریں لاکھوں سے متجاوز ہو کر ملینوں تک جاپہنچی ہے، سر داروں کی صاحبزدیاں غلوفی المہر کے سبب رشتۂ ازدواج کی اس رحمت و برکت سے اگر محروم ہیں ، تو ارب پتی ولکھ پتی شہری تاجروں کی اولادیں جہیز کمانے میں تھکا ن ہورہی ہیں ۔

ان رسومات کا زیادہ تر اثرتو شروع میں ان ہی لوگوں پر پڑتاہے،جو اسے حرزِ جاں بنائے ہوئے ہیں ،مگر انفعالی طور پر اس کے اثرات زہر قاتل کی طرح پورے معاشرے میں سرایت کر جاتے ہیں ،اپنا بھرم رکھنے کیلئے لوگ بنکوں سے لون اور رشتے داروں سے قرضے لیتے ہیں ،ان مضر اور موذی معاملات کی پر چھائیاں دولہا دلہن پر جب پڑتی ہیں ،تو بات طعن وتشنیع سے بڑھ کر علیحدگی پر منتج ہو جاتی ہے،طلاق یافتہ مرد وخواتیں کی تعدادمیں آئے دن زیادتی اسی کے باعث ہے،ان کی آگے چل کر مشکلات کیاہوتی ہیں وہ ایک الگ داستاں ہے۔

خدارا انسانی معاشر ے کو بچائے ،اپنی اپنی چادروں تک پیر پھیلائیں ،امیر قارون نہ بنیں اور غریب گداگر نہ بنیں ،بے جارسومات ورواجات اپناکر امراء غلط رخ نہ دیں ،اور فقراء جہیزمیں مقابلہ آرائی کر کے اپنے جگر گوشوں کی زندگیاں داؤ پرنہ لگائیں ،یہ بچے اور بچیاں مظلوم ہیں ،یہ ظالم اور برق رفتار دور کے فتنوں کی زد میں ہیں ،یادرکھئیے مظلوموں کی آہیں بارگاہِ قہار وجبار میں بلاروک ٹوک بار یابی حاصل کر تی ہیں ،اگر ان سب مظلوم بچوں اور بچیوں نے آہیں نکالیں تو نہ امیر کی ٹیپ ٹاپ رہیگی اور نہ ہی فقیر کی سکون کی نیند ہو گی ۔
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 826646 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More