دین میں کوئی جبر نہیں - چند باتیں

ہمارے ایک محترم بھائی کی تحریر پڑھی جس میں “ دین میں کوئی جبر نہیں “ سے متعلق کچھ خیالات کا اظہار کیا گیا اور اس کے پیش نظر بڑے بڑے علما کے مقالات و تفاسیر پیش کرنے کی گئیں۔

ایک بات تو واضع ہے کہ اگر ہماری کسی معاملے و مسئلے پر ایک ہو، چاہے قرآنی آیات کے متعلق ہی تو کیا اس کے جواب میں یہ خود ساختہ مفتیوں کو یہ فتویٰ دینا مناسب ہو گا کہ کہ آج کل معاشرے میں ہر فرد بزعم خود مفتی و مولانا بن جاتا ہے اگر ایسا ہے تو بھائی لوگوں کا یہ فتویٰ دوسروں کے لیے دینا کیا معنی رکھتا ہے

دوسرے یہ بھائی اگر میں کوئی دینی حکم پر عمل نہیں کر رہا تو کیا جبراً کسی کو یہ حق حاصل ہے کہ میں بالفرض اگر نماز نہیں پڑھ رہا تو مجھے نماز پڑھا سکے یا مجھے جبراً حج کرواسکے یا مجھے جبراً داڑھی رکھواسکے یا میرے پائنچے ٹخنوں سے اونچے رکھوا سکے۔ نہیں میرے بھائی ایسا کرنا (میری ناقص رائے و معلومات و کم علمی جو بھی آپ کو مناسب معلوم ہو کہہ لیں) یا یہ کہنا دین اسلام میں نا تو مقصود ہے اور نا مقبول جب ہر شخص کو اچھے اور برے راستے کا بتا دیا گیا ہے تو ہر شخص اپنے کیے کا خود ذمہ دار ہے اور اس کا جواب آخرت میں اسے دینا پڑے گا دنیا میں کوئی ایسا فورم اور کوئی ایسا پلیٹ فارم یا کوئی ایسی عدالت نہیں جو یہ فیصلہ اور حکم نافذ کرسکے کہ فلاں نے نماز نہیں پڑھی تو اس کی یہ سزا ہے اور اس نے حج نہیں کیا تو اس کی یہ سزا ہے (دل پر ہاتھ رکھ کر اور حق کی بات کہیں کیا ایسا ممکن اور مقصود ہے دین اسلام میں)

تفسیر ابن کثیر کا، مولانا مودوودی صاحب کا اور امام احمد رضا خان بریلوی صاحب کا زکر کیا گیا اور “دین میں کوئی جبر نہیں کی “ تشریح پیش کرنے کی کوشش کی گئی جو میری ناقص رائے میں (جو ہوسکتا ہے غلط بھی ہو) اس اہم ترین بات “یعنی دین میں کوئی جبر نہیں “ کو اتنے معمولی انداز سے ان مفسرین نے بیان نہیں فرمایا ہوگا (کہ ایک لائن یا دو لائنوں میں مفہوم پیش کر دیا گیا ہو) بلکہ اس پر کئی کئی لائنیں اور ہو سکتا ہے کئی پیراگراف پیش کئے ہوں اور ان میں سے اپنے مطلب کی چند لائنیں اٹھا لینا کسی کے لیے بھی بڑا آسان ہے میں محترم شخصیات کے رائے و تفسیر پر کچھ کہنے سے پہلے ان شخصیات کے بیانات کا مطالعہ کرنا پسند کروں گا اور پھر کوئی مناسب نقطہ نظر اختیار کرنا میرے لیے حق ہوگا۔

اور روشن خیالی کے ناطے ہمیں دنیاوی مثالیں دیں گئیں (ظاہر ہے دنیا کی زیادہ سمجھ ہے ہمیں اسلیے روشن خیال ہونے کے ناطے مثالیں بھی دنیاوی ہی دینی پڑتیں ہیں کیونکہ سمجھنے اور سمجھانے والے دونوں کو اسی میں آسانی محسوس ہوتی ہے)۔

بھائی فرماتے ہیں ۔۔۔اسی طرح اللہ کا قانون ہے اگر کوئی فرد مسلمان ہے تو اس پر دین کے احکامات کی پابندی کرنا لازم ہوگی۔اگر وہ اسلامی احکامات کی پابندی نہیں کرتا اور کوئی اسلامی حکومت (کونسی اسلامی حکومت مثلاً )ہو تو وہ ا س فرد کو سزا بھی دے گی۔ اچھا فرض کریں دنیا میں فی الوقت سعودی عربیہ میں اسلامی حکومت ہے (اگر کوئی مانے تو) تو وہاں اگر کوئی شخص نماز نہیں پڑھتا تو میرے بھائی زرا میری معلومات میں اضافہ تو کریں کہ کیا اسلامی سزا ہے اس بارے میں یا اسلام خاموش ہے اس بارے میں
فرض کریں
اچھا اگر کوئی مسلمان نماز نا پڑھے تو دنیا میں کیا اسلامی سزا نافذ ہونی چاہیے اس مسلمان پر ۔
اچھا اگر کوئی مسلمان زکوات نہیں دیتا تو دنیا میں کیا اسلامی سزا نافذ ہونی چاہیے اس مسلمان پر
اچھا اگر کوئی مسلمان روزہ نہیں رکھتا تو دنیا میں کیا اسلامی سزا نافذ ہونی چاہیے اس مسلمان پر
(پاکستان میں روزہ خوری کرنا اور وہ بھی پبلک مقامات پر اس کی سزا ہے تعزیرات میں غالباً)
اچھا اگر کوئی مسلمان حج نہیں کرتا تو دنیا میں کیا اسلامی سزا نافذ ہونی چاہیے اس مسلمان پر ۔
اچھا کوئی مسلمان جھوٹ بولتا ہے، سود کھاتا ہے، سود کھلاتا ہے، یتیم کا مال ناحق کھاجاتا ہے، مکر کرتا ہے فریب کرتا ہے، دھوکہ دیتا ہے غرض اس طرح کے کئی ایسے کام کرتا ہے جس سے اللہ نے اور رسول اللہ نے منع فرمایا ہے تو میرے بھائی زرا مجھے تو دنیا میں کیا اسلامی سزائیں نافذ ہونی چاہیے اس مسلمان پر (حاکم وقت کی طرف سے جو کہ اگر فرض کرلیں اسلامی بھی ہو) زرا بیان کردیں۔

حق کہا کہ منکرین زکٰوت کا معاملہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانے میں پیش آیا اور جیسے کہ آپ نے کہا ویسا ہی معاملہ ہوا مگر اس سے کیا یہ بات شریعت بن گئی ہے کہ اب اگر کوئی زکوۃ نا دے تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ والا عمل کیا جانا چاہیے یا کیا جائے گا اور اگر ایسا ہے تو اس کو ثابت کریں۔ پھر اس سے حضرت عمر رضٰی للہ تعالی عنہ والے معاملے میں ان کے کرتے کے کپڑے زیادہ ہوجانے والے واقعہ کو بھی تو نظر میں رکھتے ہوئے موجود دنیا بھر کے تمام مسلمان حکمرانوں کے لیے کچھ تجویز کردیں۔ اور پھر کئی مثالیں اور بھی ہیں۔

بھائی نے کہا اسلام کہتا ہے (میری ناقص رائے میں حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا تھا) کہ سات سال کی عمر سے بچے کو نماز پڑھنے کی ترغیب دو اور دس سال کے بعد بھی اگر بچہ نماز نہ پڑھے تو اس پر سختی کرو اور اسکی پٹائی کر کے بھی اس کو نماز کا پابند بناؤ۔ بھائی زرا روشن خیالوں کو ایک طرف رکھ کر غور فرمائیں کہ اس طرح کی سختی و تربیت سات سال اور پھر دس سال تک کے لیے ہی کیوں بیان کی گئی تھی (اللہ میری کم علمی کو معاف فرمائے) یہ کب کہا گیا کہ جب وہ بالغ اور باشعور ہو جائے تو اس کو ڈنڈے اور درے لگاؤ یا فلاں فلاں سختی یا سزا دو نماز نا پڑھنے پر، اس سے کیا ثابت ہوا کیا یہ نہیں کہ جب تک انسان باشعور نا ہوجائے اس وقت تک اس کو تربیت دو مگر باشعور اور ہوشمند ہونے کے بعد سختی نا شریعت میں مقصود ہے نا مقبول کیونکہ باشعور اور ہوشمند ہونے کے بعد تو انسان کا امتحان اور اس کی آزمائشیں شروع ہو جاتی ہیں۔

پھر روشن خیالی کی پہلے تردید و مذمت کرنے والے روشن خیال ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے دنیاوی مثالیں اپنی مرضی کی خوب ڈھونڈ ڈھانڈ کر نکال لیتے ہیں کہ اسکول جانے والا بچہ اور پسند کی شادی کرنے والے وغیرہ وغرہ۔

معذرت اور ادب کے ساتھ پیش خدمت ہے کہ شرع میں اس بات اجازت ہے کہ ولی کی اجازت بھی لازمی نہیں ہے۔ اگر لڑکا لڑکی باشعور ہوشمند اور بالغ ہوں تو بغیر کسی خطبہ نکاح کے بغیر گواہوں اور بغیر ولی کی رضامندی و موجودگی کے بھی صرف ایجاب و قبول کی بنیاد پر بھی مسلمان مرد اور مسلمان عورت نکاح کے پاک بندھن میں بندھ جاتے ہیں (لیکن اس سے یہ مطلب نہیں کہ ایسا ہی کرنا چاہیے اور یہی مقبول و معقول و مقصود و معروف ہو بلکہ یہ ایک تمثیل ہے کہ کتنی وسعت ہے ہمارے مذہب میں جو ہو سکتا ہے ہمارے تنگ نظر و خیالات رکھنے والوں کو روشن خیالی لگے مگر حقیقت تو یہی ہے (اللہ میری کمی و بیشی و کم علمی معاف فرمائے اور مجھے علم و عمل کا نور عطا فرمائے آمین) آپ چاہیں تو کسی روشن خیال عالم سے اس بات کی تصدیق کرلیں مگر یاد رکھیں کسی روشن خیال سے ہی کیجیے گا وگرنہ کسی سکہ بند سے کرلی تو وہ شاید نا مانے کیونکہ وہ اسلام کو مقید رکھتا ہے صدیوں پہلے والے حالات و واقعات میں (حالانکہ سواری کے لیے سنت طریقے گھوڑا، اونٹ، خچر، گدھا چھوڑ کر سائیکل٬ موٹر سائیکل٬ کار اور دوسری سواریوں کو بھی مقید نہیں رکھتا بلکہ اس معاملے میں روشن خیال اور زمانے کے ساتھ ہم رکاب ہے اسی طرح لڑنے کے لیے روائتی اور سنت ہتھیار جیسے تلوار، نیزے، تیر کمان وغیرہ چھوڑ کر روشن خیالی کے گھوڑے پر سوار دنیاوی جدید اسلحہ کو استعمال کرنے کا مکمل حامی ہے اسی طرح روپے پیسہ کے لین دین میں پرانے طریقے چھوڑ چھاڑ کر پاکستانی روپے، ریال، ڈالر اور پاؤنڈ کی بات کرتا ہے) یہ سب سکہ بند مولوی کی بات کی ہے میں نے وگرنہ علمائے حق و رشد ہمارے سر آنکھوں پر اور وہ حق کی روشنی لیے ہوئے روشن خیال بھی ہیں ضروری نہیں جو مشرف نے روشن خیال کہا وہی روشن خیالی کی تعبیر و تفسیر آپ لیے بیٹھے رہیں۔

اللہ مجھے حق بات کہنے حق بات سمجھنے اور حق بات پر عمل کرنے والا بنائے آمین یا رب العالمین

اپنی مرضی سے کسی چیز کی حمایت و مخالفت سراسر گمراہی ہے اس میں اگر میں بھی مبتلا ہوں تو میں اللہ سے معافی چاہتا ہوں اور وہ معاف کرنے والا غفور و رحیم ہے وگرنہ اگر معافی دنیا کے تنگ نظر و روشن خیال لوگوں کی صوابدید پر چھوڑ دی جاتی تو پتہ نہیں کیا حشر کرتے اس دنیا کا۔
M. Furqan Hanif
About the Author: M. Furqan Hanif Read More Articles by M. Furqan Hanif: 448 Articles with 501370 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.