وجود زن

کسی نے کہا وجود زن سے ہے رنگ کائنات، وجود زن سے ہے رونق کائنات، وجود زن سے وجود حیات، وجود زن سے ہے تحریک حیات اور یہ کہا جائے کہ اے کہ آمدنت باعث آبادی مااور اسی طرح کے بے شمار کلمات قابل احترام اور مونس و ہمدم کے بارے کہے جاسکتے ہیں۔ مرد تخلیق میں سینیئر ضرور ہے مگر جنت کی عظیم نعمتیں بے مزہ کیوں اور پریشان کیوں؟ انسان کے خالق نے بت خاکی میں نہ جانے کیا کچھ خاصیتیں ودیعت فرمائیں ،وہ خود ہی جانتا ہے لیکن یہ بات تو واضح ہوگئی کہ انسان فطرتا تنہائی پسند نہیں۔ اللہ تعالٰی نے قرآن پاک کی سورة النساءکی ابتدائی آیات میں وضاحت فرمادی کہ انسان کی تخلیق ایک جان سے ہے اور اسی جان سے اسکی زوجہ کو پیدا فرماکر بے شمار مرد عورتیں پیدا فرمادیں ۔ جب حضرت آدم علیہ السلام کے وجود پاک سے پسلی نکال کر اس منحنی ہڈی کو عورت کا روپ دیدیا تو معلوم ہوا کہ اللہ جو چاہے کرسکتا ہے۔ مٹی کا پتلا تیار کرکے یا ہڈی سے، مرد و عورت کے ذریعہ یا صرف عورت سے انسان کو وجود دے اسے یہ سب کچھ سزاوار ہے کیونکہ وہ قدیر ہے۔ مرد اصل ہے اور عورت فرع ہے لیکن ایسی فرع کہ انسانی معاشرہ اور رنگ کائنات اسکے عدم وجود کی متحمل نہیں۔ کتاب اللہ میں مرد کو عورت پر قوی فرمایا گیاتو متعدد مقامات پر مردکی تخلیق میں عورت کی مشقت اور تکالیف کو اللہ تعالی نے اس قدر واضح فرمایا کہ مرد وجود عورت کا محتاج عیاں ہوتا ہے۔ تیس ماہ کا انتہائی صبر آزما دور ہے۔ ایک مرتبہ تو زندگی اور موت کی جنگ ہوتی ہے تو باقی عرصہ ایثار کا ہے۔ اس عظیم ہستی کو اللہ تعالٰی نے کئی روپ دے کر مرد کے لیئے قابل احترام بنادیا۔اس سے بڑھ کر اور کیا مقام ہوسکتا ہے کہ سوة بنی اسرائیل میں اللہ نے اپنی عبادت کے بعد صرف والدین کی خدمت کا حکم دیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ دل سے احترام کرنے اور انکی ہرحال میں خدمت اور ڈانٹ ڈپٹ سے بھی منع فرمادیا۔ انسان کے کردار کی جانچ کے لیئے وجود ابلیس بھی ہے۔ ابلیس ہی احترام کی دھجیاں اڑاتا ہے۔ اپنی قسم پوری کرنے کے لیئے انسان کے ساتھ لگا رہتا ہے۔ اللہ تعالی نے مردوں کو حکم فرمایا کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں تو عورتوں کو بھی فرمایا کہ نگاہیں نیچی رکھیں۔ حکم فرمایا کہ غیرمحرم کے ساتھ گفتگومیں نسوانی لہجہ یعنی نرم گفتگو سے منع فرمایا۔ گھروں میں رہنے کی تاکید فرمائی۔ باہر نکلیں تو چہروں کو ڈھانپیںتاکہ معزز خواتین معلوم ہوں۔ اور ان کااحترام کیا جائے۔تبرج (میک اپ)یعنی حسن و جمال کی زیبائش کے ساتھ غیر محرموں کے سامنے نمائش سے منع فرمایا گیا۔ اور اسے جاہلیت کے معاشرتی اطوار سے تعبیر کیا گیا۔ قارئین کرام ایک طرف تو یہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ کی ہدایات ہیں تو دوسری طرف ہماری موجودہ معاشرتی صورت حال ہے جو سراسر ضابطہ قرآنی کے خلاف ہے۔ یہ سب کچھ اس خبیث کی کارستانی ہے جس نے اپنی انا کی خاطر اولاد آدم سے جہنم بھرنے کی قسم کھائی تھی۔وجود زن سے تعمیر قوم و ملت ہوتی ہے۔ عورت ہی وہ افراد پیدا کرتی ہے جو ملت کی تقدیر کے حامل ہوتے ہیں۔ دنیا میں جتنی نامور شخصیات ہیں یا گذری ہیں انکی تعلیم و تربیت میں ماں کا کردار نمایاں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انسان کی پہلی درسگاہ یا مکتب ماں کی گود ہے۔ یہی سچ ہے۔ ماں بچے کے بولنے پر بڑی خوش ہوتی ہے تو اس وقت اسے وہ کچھ بولنا سکھاتی ہے جو اسے محبوب ہوتا ہے۔ توحیدو رسالت کا پہلا سبق بچہ ماں سے پڑھنا سیکھتا ہے جو عمر بھر اسے یاد رہتا ہے۔ ماں کی نمازیں،تلاوت قرآن پاک، شرم و حیا، اسکی محنت ، اسکا چکی پیسنا ، بچوں کو قرآن پاک کی تعلیم دینا، غرضیکہ اپنے اپنے حالات کے مطابق بچے بچیاں اپنی ماںکی اتباع کرتے ہیں۔اکثر صاحب علم مائیں بچوں کو بزرگوں کے واقعات اور اسلامی کہانیاں سناتی ہیں جن سے بچوں کی ذہنی تربیت ہوتی ہے۔یہیں سے بچوں کی کردار سازی کی ابتداءہوتی ہے۔

ماں کی نصیحت تھی کہ بیٹا جان چلی جائے مگر سچ بولنا جھوٹ نہ بولنا تو وہ بیٹا دنیا میں سیدالاولیاءہوا، غوث اعظم مشہور ہوئے اور پہلے سچ پر ہی ڈاکوﺅں کے سردار سمیت چالیس ڈاکوﺅں کو مسلمان کردیا۔ طرابلس کی جنگ میں فاطمہ بنت عبداللہ کم عمر لڑکی جذبہ جہا د سے سرشار شہید ہوئی تو ماں کی تربیت اور گھر کا ماحول اس کا استاد تھا۔ کربلا میں جو شہید ہوئے ماﺅں کی تربیت کا نتیجہ تھا۔ خاتون جنت سلام اللہ علیہا کے لخت جگر نے سیدالشہداءبننا پسند فرمایا تو بہن نے اپنے لعل عون و محمد کو خود جنگی ہتھیاروں سے لیس کر کے مقتل گاہ کی طرف روانہ فرمایا ۔اپنی آنکھوں سے لخت جگر خون آلود دیکھے آہ نہ کی بلکہ سجدہ شکر بجا لائیں۔ تو کہا گیا کہ حقا کہ بنائے لا الہ ہست حسین۔ وہ قربانی خلافت کے لیئے تھی تو بی اماں نے تحریک خلافت کے بانی مولانامحمد علی جوہر اور شوکت علی جوہر سے فرمایا کہ بیٹا خلافت پر جان دیدینا خوف طوالت سے مختصر کرتا ہوں کہ کبھی عورت کا کردار کتنا عظیم تھا ۔ اور آج عورت کو ٹی وی چینلوں کی زینت بنادیا گیا، میزبان آتی ہیں، شرمناک لباس، عریانی کا مظہر، سرننگے، اللہ کا دیا ہوا حسن وجمال اس پر رنگ روغن کی سجاوٹ، مذہبی اور قومی امور پر گفتگو۔ دیکھتا ہوں کہ بڑے جید علما کرام بھی انکی محفل میں موجودہوتے ہیں لیکن کوئی بھی یہ کہنے کی جرات نہیں کرتا کہ محترمہ کیا آرائش زیبائش کے بغیرسرپردوپٹہ لیکر اور کم از کم چہرے پر نقاب ڈالکر سوالات کریں ۔ میرے خیال میں اگر خواتین ،خواتین کے لباس میں نقاب کرکے پروگرام کریں تو اس میں انکی عظمت میں اضافہ ہوگا۔ مصنوعات کی تشہیر کے لیئے خوبصورت عورتوں کا انتخاب ہی کیوں؟ پروڈکٹ کی تشہیر کم عورت کے حسن وجمال کی تشہیر زیادہ ہوتی ہے۔ کیا مرد جو ان پروگراموں کو ترتیب دیتے ہیں انہیں خیال نہیں کہ انکے گھر میں بھی ایسی ہی عورتیں لڑکیا ں ہیں ۔ مصنوعات کی تشہیر کے اور بھی کئی انداز ہیں۔ تشہیر میں کام کرنے والیوں کے والدین اور بھائی بھی ہونگے کیا وہ بھی مغرب کی تقلید میں اپنی عزت کو سر بازار نیلام کرنے لگے ہیں۔ان فحش کاموں سے جو دولت حاصل کیجاتی ہے وہ تو حرام مطلق ہے۔ میں تو یہی کہوں گا کہ اللہ کا خوف کرو۔دولتمند بے ایمان مرنے سے غریب ایماندار مرنا زیادہ نفع بخش ہے۔ اگر اللہ توفیق دے۔
AKBAR HUSAIN HASHMI
About the Author: AKBAR HUSAIN HASHMI Read More Articles by AKBAR HUSAIN HASHMI: 146 Articles with 128444 views BELONG TO HASHMI FAMILY.. View More