اپنی شرمندگی چھپانے کا آسان طریقہ

یہ اس وقت کی بات ہے جب ہم پرائمری سکول میں پڑھنے جایا کرتے تھے۔ تفریح کے وقت بچے کھیل رہے تھے کہ پانچویں کلاس کے دو بچوں نے نرسری کے پانچ بچوں کوبلا یا اور ان سے کہا کہ تمہارے درمیان دوڑنے کا مقابلہ کراتے ہیں تم میں سے جو جیت جائے گا اس کو پانچ روپے انعام دیا جائے گا۔ سب بچے مقابلہ کیلئے تیار ہوگئے۔ ہر بچہ یہی کہہ رہا تھا کہ وہ ہی یہ مقابلہ جیت جائے گا۔ سب بچوں کو ایک پوائنٹ پر کھڑا کر دیا گیا اور ان کو ٹارگٹ بھی بتا دیا گیا وہ جو شیشم کا درخت نظر آرہا ہے اس کو ہاتھ لگا کر جو سب سے پہلے آئے گا وہ انعام کا مستحق قرارپائے گا۔ اب سب بچے تیار کھڑے ہیں اشارہ ملنے کے منتظر ہیں کہ اشارہ ملے اور وہ دوڑلگا دیں۔ ان کو اشارہ کر دیا گیا بچے دوڑ پڑے ۔ ہر بچے نے اپنے طورپر بہت کوشش کی کہ وہ ہی اس درخت کو ہاتھ لگا کر سب سے پہلے واپس آجائے۔ ان میں سے ایک بچہ سب سے پہلے اس درخت کو ہاتھ لگا کر واپس آگیا ۔ کچھ ہی لمحوں کے بعد اور بچے بھی آگئے۔ جس نے ان کے درمیان دوڑ کا مقابلہ کرایا تھا وہ جیت جانے والے بچے کو پانچ روپے دینے لگا تو جو بچے ہار گئے تھے ان میں سے ایک بچے نے کہا کہ اس نے دوڑ نہیں جیتی۔ ہم اس کی جیت کو نہیں مانتے ۔ دوڑ کا مقابلہ کرانے والے نے کہا کہ وہ سب سے پہلے اس شیشم کے درخت کو ہاتھ لگا کر واپس آگیا ہے اس لیے وہ ہی انعام کا حق دار ہے۔ ہارنے والے بچے کہنے لگے کہ ہم نے اشارہ ملنے کے بعد دوڑنا شروع کیا جب کہ یہ اشارہ سے پہلے ہی دوڑ پڑا تھا۔ اس نے جلدبازی کی ہے اس لیے ہم اس کی جیت نہیں مانتے۔ دوڑ پھر سے کرائی جائے۔ مقابلہ کرانے والے بار بار ان بچوں کو سمجھاتے رہے کہ انعام اسی کا حق ہے ۔ وہ کہتے نہیں جو چالاکی سے مقابلہ جیتے ۔ اس کو انعام نہیں ملنا چاہیے۔ انہوں نے پھر ان بچوں کے درمیان دوڑ کا مقابلہ کرایا ۔ اس بار ایک اور بچے نے مقابلہ جیت لیا جب انعام دینے کا مرحلہ آیا تو ہارنے والے بچوں نے پھر شور مچا دیا ۔ نہیں اس کو انعام نہ دو اس نے ایسا نہ کیا ہوتا تو یہ پیچھے رہ جاتا ۔ ہم میں سے کوئی ایک یہ مقابلہ جیت جاتا۔ مقابلہ کرانے والوں نے جیتنے والے دونوں بچوں کو پانچ پانچ روپے دیے۔ اور جو ہار گئے تھے ان کو بھی پانچ پانچ روپے دے دیے تب جاکر معاملہ ختم ہوا۔ یہ بچے کسی غیر ملک سے نہیں آئے تھے۔ اسی پاکستان کے ہی تھے۔ پرائمری سکول میں جو بچے پڑھنے جایا کرتے ہیں وہ بھی دور سے نہیں آتے۔ ایک ہی علاقہ سے آتے ہیں۔ اکثر ان میں سے آپس میں رشتہ دار بھی ہوتے ہیں۔ گھر سے سکول تک گروہ کی شکل میں اکٹھے ہو کر آتے ہیں ۔ پھر سکول سے چھٹی ہوجانے کے بعدگھر واپس بھی اکٹھے ہوکر جاتے ہیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ ہنسی مذاق بھی کرتے جاتے ہیں۔ اب تو گاڑیوں پر بھی بچوں کو سکول چھوڑاجاتا ہے اور سکول سے لینے کیلئے بھی گاڑیوں پر آتے ہیں۔ جب ایسا نہیں ہو تا تھا بچے پیدل ہی سکول جایا کرتے تھے۔ جب مقابلہ کاوقت آیا تو ان بچوں نے آپس کی دوستی، ہنسی مذاق سب بھلا دیا۔ اب تو وہ دوڑ کا رزلٹ بھی ماننے کو تیا ر نہ تھے کہ جس نے دوڑ جیت لی ہے اس کو انعام لینے دیا جائے۔ ہارنے والوں نے تو جیتنے والوں کے خلاف شکایا ت کے انبار لگا دیے۔ یہ بات صرف ان بچوں ن تک ہی محدود نہیں ہے۔ ہم میں سے کوئی بھی اپنی شکست اور ناکامی ماننے کو تیار نہیں ہوتا۔ دنیاکا کوئی بھی میدان ہو چاہے ہمیں اچھی طرح علم ہوکہ ہم اس مقابلہ میں ہار جائیں گے۔ ہم مقابلہ میں ضرور حصہ لیتے ہیں۔ جب ہم ہار جائیں۔ اور ہم سے کوئی کہہ دے کہ بھائی جب جیت نہیں سکتے تھے تو مقابلہ میں حصہ کیوں لیا تھا ۔ تو ہم بڑے فخر سے اس کو جواب دیتے ہیں کہ یہ تو ہم پہلے سے ہی جانتے تھے کہ ہم اس مقابلہ میں جیت نہیں سکیں گے۔ بات صرف اتنی ہے کہ ہم مدمقابل کیلئے میدان خالی نہیں چھوڑنا چاہتے تھے۔ ہم اس کا مقابلہ نہ کرتے تو وہ مقابلہ کے بغیر ہی جیت جاتا۔ پھر اس کو یہ کہنے کا موقع بھی مل جاتا دیکھ لی ہماری طاقت کہ ہمارے مقابلے کیلئے بھی کوئی نہ آیا۔ ہمارا مقابلہ کرنے اور ہمارا سامنا کرنے کی کسی میں جرات نہیں ہے۔ ہم نے اس کا مقابلہ کیا ہے اب وہ کسی سے نہیں کہہ سکتا کہ اس کا مقابلہ کسی نے نہیں کیا۔ یہ ہمارا کلچر ہے۔ یہ ہماری وراثت ہے۔ یہ ہماری پہچان ہے یا کوئی اور بات ہے کہ دنیا کے کسی بھی میدان میں ہم اپنی شکست ماننے پر تیار ہی نہیں ہوتے۔ امتحان میں کوئی طالب علم فیل ہوجائے تو وہ یہ نہیں کہتا کہ اس نے محنت نہیں کی تھی۔ اس نے امتحان میں پوچھے گئے سوالات کا درست جواب نہیں دیا تھا۔ سوال کوئی اور پوچھا گیا اس نے جواب کوئی اورلکھ دیا۔ اس نے دس سوالات میں سے تین سوالوں کے جواب لکھے تھے۔ وہ سکول میں پڑھائی پر توجہ نہیں دیا کرتا تھا ۔ جس وقت استاد صاحب پڑھا رہے ہوتے تو وہ کھیل میں مشغول ہوتا تھا ۔ وہ کہتا ہے کہ اس نے تو تمام پیپر اچھے کیے ہیں۔ اس نے سب سوالوں کے جواب لکھے ہیں۔میرے نمبر تو ساٹھ فیصد آنے چاہییں تھے۔ مجھے تو پاس مارکس بھی نہیں ملے۔ میرے پیپروں کی چیکنگ درست نہیں ہوئی۔ اگر وہ سٹوڈنٹ ایسی بات نہ کر سکے۔ یا اس سے اس بات کا ثبوت مانگ لیا جائے تو پھر وہ کہتا ہے کہ امتحانی پیپر میں جو سوال پوچھے گئے تھے وہ تو ہمیں استاد صاحب نے پڑھائے ہی نہیں تھے۔ ہم نے جو سوالات یادکیے ہوئے تھے ان میں سے تو ایک سوال بھی امتحانی پیپر میں نہیں آیا۔ اسی طرح وہ ایک دو نہیں درجنوں ایسے جواز بنا لیتا ہے کہ امتحان کی ناکامی میں اس کا کوئی قصور نہیں۔ کرکٹ کے میدان کی بات کریں تو وہاں بھی ایسی صورتحال دکھائی دیتی ہے۔ کرکٹ کے کھیل میں دو یا اس سے زیادہ ٹیموں کے درمیان مقابلے ہوتے رہتے ہیں۔ یہ مقابلے مقامی سطح پر بھی ہوتے ہیں۔ قومی سطح پر بھی اور بین الاقوامی سطح پر بھی۔ جتنی بھی ٹیمیں میچز میں حصہ لیتی ہیں ان میں سے کچھ جیت جاتی ہیں جب کچھ کو شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گلی محلہ کی سطح سے بین الاقوامی سطح تک اگر ہماری ٹیم جیت جائے تو ہم اس کو کاندھوں پر اٹھا لیتے ہیں۔اس کی تعریف میں نہ جانے کیا کچھ کہہ جاتے ہیں۔ اس کی کامیابی کی داستانیں سناتے نہیں تھکتے۔ کہتے پھرتے ہیں کہ فلاں کھلاڑی نے بہت اچھا کھیلا ہے۔ اس نے اچھی کارکردگی کا مظاہر ہ کیا ہے۔ ہم جشن منا رہے ہوتے ہیں ڈھول کی تھاپ پرناچ رہے ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس ہماری ٹیم ہار جائے۔ تو ہمارا رویہ الٹا ہو جاتا ہے۔ ہم پھر کہتے ہیں کہ ٹیم نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ فلاں کھلاڑی نے تو بہت ہی بر اکھیلا ہے۔ہم کہہ رہے ہوتے ہیں کہ یہ میچ فکس تھا۔ یہ پہلے سے ہی طے تھا کہ وہ ٹیم ہی جیتے گی۔ جو جیت گئی ہے۔ فلاں کھلاڑی نے جان بوجھ کر دو کیچ چھوڑ دیے تھے۔ فلاں کھلاڑی نے تین چوکے مس کیے ہیں۔ ہمارے شہر میں ابھی انجمن تاجران کے الیکشن ہوئے ہیں۔ اس میں دو گروپوں کے درمیان مقابلہ تھا۔ دونوں نے بھر پور انداز میں اپنی انتخابی مہم چلائی۔ انتخابات ہوئے تو ایک گروپ جیت گیا۔ جیتنے والا گروپ اپنی جیت کا جشن منا راہا تھا کہ ہارنے والے گروپ نے اپنی شکست تسلیم کرنے سے انکار کردیا او رکہا کہ انتخابات درست نہیں ہوئے۔ جتنے والے گروپ نے جعلی ووٹ کاسٹ کرائے ہیں۔ ووٹوں کی گنتی پھر سے کرائی جائے۔ انجمن تاجران کے ووٹوں کی گنتی دوابرہ ہوئی تو جو گروپ جیت چکا تھا اس کے ووٹ پھر اہرنے والے گروپ سے ز یادہ نکل آئے۔ ہارنے والے گروپ نے پھر بھی نتائج تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ اسی طرح چار مرتبہ ووٹوں کی گنتی ہوئی ہارنے والا گروپ پھر بھی اپنی ہار تسلیم نہیں کرتا۔ الیکشن کمیٹی نے جیتنے والے گروپ کی جیت کا نوٹیفیکیشن جاری کردیا۔ جب تعلیمی اداروں میں طالب علموں سے امتحان لیا جاتا ہے تو نقل روکنے کیلئے سخت سے سخت اقدامات کیے جاتے ہیں۔ کوئی بھی طالب علم نقل سے پیپر نہ کر سکے اس لیے ہر کمرہ امتحان میں دو سے زیادہ نگران بھی تعینات کیے جاتے ہیں۔ جو طالب علم نقل کرتا ہو اپکڑا جائے۔ تواس کے خلاف سخت کاروائی کی جاتی ہے۔ اسی طرح کرکٹ کے میچز میں بھی اس طرح کی صورت حال پر قابو پانے کیلئے ضابطہ اخلاق موجود ہے۔ اسی طرح کسی بھی تنظیم کے الیکشن ہوتے ہیں یا عام انتخابات کرائے جاتے ہیں ۔ اس میں شامل امیدواروں کی طرف سے ہر پولنگ اسٹیشن پر پولنگ ایجنٹ مقرر کیے جاتے ہیں۔ پولنگ کا عمل شرو ع کرنے سے پہلے تمام پولنگ ایجنٹوں سے دستخط لیے جاتے ہیں کہ پولنگ کے تمام انتظامات اچھے ہیں۔ ان میں کوئی خرابی یا نقص نہیں ہے۔اس کے بعد جب پولنگ کا عمل مکمل ہو جاتا ہے تو ان پولنگ ایجنٹوں سے پھر دستخط لیے جاتے ہیں کہ پولنگ کا عمل شفاف ہوا ہے اس میں کوئی شکایت نہیں آئی۔ یہ عمل صاف اور شفاف ہی ہوا ہے۔ اس کے بعد ووٹوں کی گنتی کی جاتی ہے ۔ گنتی کے بعد بھی تمام پولنگ ایجنٹوں سے دستخط لیے جاتے ہیں کہ گنتی درست ہوئی ہے۔ جیتنے والینے اتنے ووٹ لیے ہیں اور ہارنے والوں نے اتنے اتنے ووٹ لیے ہیں۔ گنتی مکمل ہونے تک اور جیتنے والے کا اعلان ہونے تک کسی کو اعتراض نہیں ہوتا کہ کس جگہ کیا خرابی ہوئی ہے جب مجموعی طور پر رزلٹ سامنے آتا ہے تو پھر شور مچا دیتے ہیں کہ انتخابات کے قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔ ووٹرلسٹوں میں اتنے جعلی ووٹ تھے۔ یہ خرابی ہے انتخابات کے انعقاد میں وہ خرابی ہے۔ ملک بھرمیں عام انتخابات کا عمل مکمل ہوچکا ہے۔ ہارنے والے اب احتجاج کررہے ہیں کہ انتخابات درست نہیں ہوئے۔ کوئی کہتا ہے کہ میں اس کا مینڈیٹ تسلیم نہیں کرتا۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ فلاں فلاں حلقہ میں پولنگ پھر کرائی جائے۔ دھرنے دیے جارہے ہیں۔ اب ہارنے کے بعد سب کو انتخابات کے انعقاد کے سلسلہ میں نقص نظر آنے لگ گئے ہیں۔ انتخابات کے انعقاد کے سلسلہ میں سب سے پہلا مرحلہ صاف اور شفاف ووٹر لسٹوں کی تیاری ہوتا ہے ۔ الیکشن کمیشن نے اس عمل پر بہت وقت صرف کیا ہے۔ چار کروڑ جعلی ووٹ نکالے ہیں۔ ووٹر لسٹوں کی بار بار جانچ پڑتال ہوئی ہے۔ اس کے بعد کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کا مرحلہ آیا۔ تو اس میں بھی الیکشن کمیشن نے پوری کوشش کی کہ اہل سیاستدان ہی انتخابات میں حصہ لے سکیں۔ انتخابات کا اعلان ہونے کے بعد ملک بھر میں بیوروکریسی کے تبادلے کر دیے گئے۔ اعلی افسران سے پٹواریوں تک سب کے تبادلے کئے گئے۔ پنجاب میں ایسے افسران کے تبادلے بھی کیے گئے جن کو اپنی پوسٹ کا چارج سنبھالے ہوئے ابھی ایک ماہ بھی نہیں ہوا تھا۔ ہر شخص چاہے وہ کتنا ہی نیوٹرل کیوں نہ بنا رہے ا س کا تعلق کسی نہ کسی سیاسی جماعت سے ضرور ہو ا کرتا ہے۔ کچھ آئینی مجبوریاں بھی ہوتی ہیں کہ کوئی اپنی سیاسی وابستگی نہیں بتا سکتا۔ اب چیف الیکشن کمیشن کی سیاسی وابستگی کون سی سیاسی پارٹی سے ہے یہ بھی سب جانتے ہیں ۔ اگر وہ انتخابات میں ایسا ویسا کوئی کام کراتے تو وہ اپنی پارٹی کے امیدواروں کو کامیاب کراتے ۔ جس پارٹی سے ان کی وابستگی ہے۔ اس نے کتنی سیٹیں جیتی ہیں۔ یہ بات بھی سب کے علم میں ہے۔ہم یہ نہیں کہتے کہ خرابی کہیں بھی نہیں ہوئی۔ ایک رپورٹ کے مطابق ایک سو چھتیس پولنگ اسٹیشنوں پر پولنگ سوفیصد سے بھی زیادہ ہوئی ہے۔دوسرے لفظوں میں ان پولنگ اسٹیشنوں پر جعلی ووٹ کاسٹ کیے گئے ہیں۔ دیکھا جائے تو یہ ایک حلقہ بھی نہیں بنتا۔ ہارنے والے امیدوارکو اگر شک ہے کہ انتخابات میں کہیں گڑبڑ ہوئی ہے تو وہ اپنی تسلی کیلئے قانونی راستہ اختیار کرسکتا ہے۔ تاہم یہ بات بھی درست نہیں ہے کہ بضد ہوجائے اور اپنی شکست کسی بھی صورت میں تسلیم کرنے پر تیار نہ ہو ۔ یورپی مبصر مشن نے رپورٹ دی ہے کہ بعض جماعتیں آزادنہ طور پر انتخابی مہم نہیں چلا سکی ہیں۔ 90فیصد انتخابی عمل شفاف رہا سندھ میں بے قاعدگیاں نظر آئیں۔ الیکشن کمیشن نے دھاندلی کی شکایات کا نوٹس لیتے ہوئے کچھ پولنگ اسٹیشنوں پر دوبارہ پولنگ کرانے کا اعلان کیا ہے۔ کچھ سیاسی جماعتوں کو الیکشن کمیشن کا یہ فیصلہ بھی قبول نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پورے حلقہ میں پھر انتخابات کرائے جائیں۔ مقابلہ چاہے کسی بھی میدان میں ہو اس میں جتنے بھی امیدوار حصہ لیں ان میں سے کسی ایک کی جیت ہوتی ہے اور باقیوں کی شکست۔ یہ بھی ہم کہتے ہیں کہ ہار جیت مقابلہ کا حصہ ہے۔ تو پھر ہم آسانی سے اپنی شکست کیوں تسلیم نہیں کرتے۔ ہم شورکیوں مچا دیتے ہیں کہ اس عمل میں فلاں خرابی ہے فلاں خرابی ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہار تسلیم کرلینا کوئی آسان کام نہیں ہے ہمارے اندر وہ حوصلہ ہی نہیں ہوتا کہ ہم اپنی شکست تسلیم کر سکیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہم خود کو ناقابل شکست سمجھتے ہیں۔ یہ ہمارے گمان میں ہوتا ہے کہ ہمیں کوئی بھی شکست نہیں دے سکتا۔ پھر جب ہم ہار جاتے ہیں تو ہمیں شدید جھٹکا لگتا ہے ہم شور مچانا شروع کر دیتے ہیں۔ جس طرح جیت جانا اعزاز کی بات ہے اسی طرح ہار بے عزتی ہے۔ ہم اپنی بے عزتی برداشت نہیں کرتے ہم اپنی شکست تسلیم کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ اس لیے نتائج تسلیم کرنے سے انکا ر کر دیا کرتے ہیں۔ شکست ایک شرمندگی بھی ہے کہ کہا جائے گا دیکھو مقابلہ میں حصہ لیا اور ہار گیا۔ اپنی شرمندگی چھپانے کیلئے شور مچا دیتے ہیں کہ دھاندلی ہوئی ہے۔ ہمارے معاشرے مین اپنی شرمندگی چھپانے کا یہی آسان طریقہ ہے۔ موجودہ انتخابات میں اس طرح کی شکایات کیلئے تحقیقات ہونی چاہییں تاکہ انتخابات کی شفافیت میں شکوک شبہات کم کیے جا سکیں۔

Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 394 Articles with 302430 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.