دہلی کی رومانی مثنویاں

چپے چپے میں ہیں یاں گوہر یکتا تہ خاک
دفن ہوگا نہ کہیں اتنا خزانہ ہر گز
(حالیؔ)

حالانکہ ’’مثنوی‘‘ عربی کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں ’’ دو کرنا ‘‘ لیکن بطور صنف مثنوی ایرانیوں کی ایجاد ہے عربی شاعری میں رجز کو اس کے مما ثل تو قراردیا جا سکتاہے لیکن اس صنف کی ایجاد کا سہرہ ایرانی شعرا کے سر ہی باندھا جائے گا حالانکہ علامہ شبلی نعمانی نے بھی یہ قیاس کیا ہے کہ مثنوی ایجاد کرنے والے ایرانیوں کے سامنے رجز کا نمونہ شعوری طور پر رہا ہے ۔ بہر حال بطور صنف مثنوی ایک ایسی نظم مسلسل کا نام ہے جس میں ہر شعرکاقافیہ الگ ہوتا ہے ۔ پوری نظم ایک بحر میں ہوتی ہے لیکن اشعار کی تعداد مقرر نہیں۔ یوں تو اس ہیت میں کی گئی صدہا صفحات پر محیط شاعری اردو میں موجود ہیں لیکن فنی حیثیت سے جب مثنوی پر بات کی جاتی ہے تو اس کے دائرہ کار میں وہی نظمیں آتی ہیں جن میں کوئی قصہ بیان کیا جائے۔

موضوع کے متعلق اگر بات کریں تو میدان کا ر زار سے لے کر فلسفہ و تصوف ، تاریخ، دین واخلاق کے علاوہ ہجوو شہر آشوب بھی اس کے موضوعات رہے ہیں لیکن اردو شاعری میں اسے عشقیہ موضوعات راس آئی ہیں او ر شعرائے اردو نے اس موضوغ میں قابل ذکر کا ر نامے انجام دیئے ہیں۔

مُلاّ وجہی کی مثنوی قطب مشتری، سراج اورنگ آبادی کی مثنوی بوستان خیال، میر تقی میر کی مثنوی دریائے عشق اور شعلۂ عشق میرحسن کی مثنوی سحرالبیان، میراثر کی مثنوی خواب و خیال دیا شنکر نسیم کی مثنوی گلزار نسیم نواب مرزا شوق کی مثنوی زہر عشق اور داغ دہلوی کی مثنوی فریاد داغ مشہورمثنویاں ہیں اور یہ سب عشقیہ ہیں۔

چونکہ میرا موضوع ’’ دہلی کی مثنویاں ہیں ‘‘ ہے اس لیے میں اب یہیں سے اپنی تمام توجہ کو دہلی پر مرکوز کرتاہوں۔

بات مثنوی کی چل رہی ہے اوریہ بات بھی واضح ہوگئی ہے کہ اس صنف مثنوی کا بنیادی موضوع عشق بازی ہی رہا ہے ایسے میں دہلی سے زیادہ اس کے لیے زرخیز زمین لکھنو کی ہونی چاہئے کیونکہ دہلی کی یہ خصوصیات اظہر من الشمس ہیں کہ یہاں ایہام گوئی پروان نہ چڑھ سکی،خارجی مضامین خصوصاً عورتوں کے سراپا، زیور اور ملبوسات کا نقشہ دہلی کی شاعری میں صاف صاف نظر نہیں آسکتا ابتذال کا تعلق دہلی کی سرزمین سے کبھی نہ تھا اور عشقیہ مضامین باندھنے میں ان سب کی ضرورت اشدہے ۔لیکن دہلی کے شعرانے اور اپنے اقدار کی پاسداری کرتے ہوئے متانت کا دامن بھی نہ چھوڑا سلاست و روانی سے رو گرداں بھی نہ ہوئے۔ شگفتگی کو اپنا طرۃ امتیاز بھی بنا یا اور سادگی سے اپنے دل کی بات کہہ دی اور تاریخ اردو اس بات کی شاہد ہے کہ دہلوی شعراء نے اس صنف کا بھی بھر پور حق ادا کیا۔ خاص طور پر میر حسن اور مصحفی تک دبستان دہلی کی مثنویوں میں وہ تمام خوبیاں موجود ہیں جوانہیں خاص طور پر د بستان لکھنؤ سے ممتاز کر تی ہیں لیکن اس کے بعد خدا کا کرنا کچھ ایسا ہوا کہ دہلی کے اکثر و بیشتر شعرا کو لکھنؤ ہجرت کرنا پڑا۔ جس سے دہلی کی مثنویوں کی وہ خاص صفات متاثر ہوئیں لیکن پھر بھی داغ دہلوی تک آتے آتے مثنوی پھر دہلوی رنگ میں گلنار نظر آئی ۔

دہلی میں مثنوی نگاری کی ابتدا کا سہرا جعفرز ٹلی کو ہے جس کا زمانہ۱۷۱۳ء ۱۷۷۰ء تھا حالانکہ جعفرز ٹلی کی جائے پیدائش دہلی نہیں لیکن مقیم شعرا میں اسے ضرور شامل کیا جا ئے گا ۔ جعفرز ٹلی کی کلیات میں کئی اردو مثنو یاں ہیں جن میں ظفر نا مۂ اور نگ زیب اور طوطی نا مہ قابل ذ کر ہیں ۔ پہلی مثنوی میں اور نگ زیب کی مہم دکن کا بیان ہے اور آخرالذکر میں روح کو طوطی مان کر جسم کے فا نی ہونے پر توجہ کیا ہے ۔ حالانکہ جعفرز ٹلی ایک بدنام شاعر ہیں اور انکا اکثر کلام فحش ہے لیکن ایسے فحش کلام زیادہ تر فارسی یا فارسی تر اکیب میں ہیں جو اشعار خالص اردو میں ہیں ان کی صفائی زبان کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے ؂

بڑی ہے دور منزل وقت تھوڑا
نہ تو شہ راہ کا اورلنگ گھوڑا
(طوطی نامہ)

نواب صدرالدین فائز کے دیوان مرتبہ ۱۷۱۴ ء میں بھی بہت سی مختصر مثنویاں ہیں جن سے ان کی آزاد منشی اور حسن پرستی ظاہر ہوتی ہے ۔ جعفرعلی خاں ذکی نے محمد شاہ کی فرمائش پر حقہ سے متعلق مثنوی کے دوشعر کہے شاہ حاتم نے یہ مثنوی مکمل کی ۔ذکی نے ایک لڑکے راجہ رام پر عاشق ہو کر اپنے عشق کی شرح میں ایک مثنوی لکھی وہ مثنوی تو نا پید ہے لیکن اس کے ۱۵۲ اشعار گلزار ابراہیم قلمی میں محفوظ ہیں اسی مثنوی کے اقتباس کو تذکرہ گلشن گفتار میں غلطی سے حاتم کے ساتھ منسوب کر دیا گیاہے ۔ فضائل علی خاں نے بھی اسی زمانے میں اپنے عشق کی داستان نظم کی تذکرہ میر حسن گلزار ابراہیم قلمی اور تذکرۂ مسرت افزا مصنفہ ابوالحسن میں اس مثنوی کے ۱۷۶ اشعار موجود ہیں اس مثنوی کی اہمیت اس لیے ہے کہ اسے مثنوی میر حسن کا راہ نما کہا جاتا ہے ۔ اس میں چند اشعار ایسے بھی ہیں
جو یقینا میر حسن کے بیان کا نقش اول ہے۔

شاہ حاتم کے دیوان زاویے میں پانچ مثنویاں ہیں مثنوی سروپا (۲) ساقی نامہ (۳) وصف قہوا (۴) وصف تمباکو وحقہ (۵) مثنوی بہار یہ مسمیٰ بہ بزم عشرت آخری مثنوی میں ۳۸۵ اشعار ہیں اس کا جوش ، نشاط، بہاریہ فضا وسر مستی بڑی خوش آیند ہیں اسی دور میں آبرو کی مثنوی مو عظمت آرائش معشوق میں لڑکوں کو بننے اور سنورنے اور محبوبیت کی تعلیم دی ہے ۔ اس دور کا مذاق اس موضوع کا متحمل تھا۔ اسی زمانے میں مرزا مظہر کے شاگرد محمد فقیہ درد مند نے ایک ساقی نامہ لکھا جس کا تذکرہ میر نے بھی کیا ہے ۔
یہ دور دہلی میں مثنوی کے بچپن کا دور تھا لیکن مندرجہ بالا شعر انے جو مضبوط بنیاد یں فراہم کیں ان پرآگے آنے والے شعر ا میں سودا ،میر، اثر اور حسن نے جو قلعے تعمیر کیے اس کی شان آج تک باقی ہے ۔
سودا نے ۲۱ مثنویاں لکھیں ان میں وہ ۱۹الحاقی مثنویاں شامل ہیں جو ان کے کلیات میں شامل ہو گئی ہیں ان کی پانچ ہجویہ مثنویاں نہایت دلچسپ ہیں۔ ان میں دو میں محض اشخاص کی ہجو نہیں بلکہ اس دور کی معاشی بدحالی اور انتظامی افراتفری کا نقشہ تفصیل سے کھینچا گیاہے ۔ استاد محترم مرحوم امیر عارفی صاحب نے اپنی کتاب ’’ شہر آشوب ایک تجزیہ‘‘ میں اس پر مفصل گفتگو کی ہے اور اسے شہر آشوبیہ مثنوی قرار دیا ہے ۔

میر سوز نے بھی ایک مختصر مثنوی لکھی ہے جس میں ۱۲۷ اشعار ہیں جن میں انہوں نے پہلے دل عشق پیشہ سے خطاب کیا ہے اور آخر میں عشق حقیقی کی تر غیب دی ہے۔یہ غیر مطبوعہ مثنوی ہے جس کی زبان سا دہ لطیف اور میٹھی ہے ۔

میر کے قدیم کلیات میں ۳۲ مثنو یاں تھیں عبد الباری آسی نے دونئی مثنویاں شامل کر کے ان کی تعداد ۳۴ تک پہنچا دیں ان میں سے ہجو شخصے، ہیچ مداں کو کہ دعوئے ہمہ دانی داشت دیوان میر کے قدیم ترین نسخۂ مملوکہ ادارہ ادبیات اردو حیدر آباد میں بھی اور رام پور کے دو مخطوطوں میں بھی اس کا دوسرا نام دم الفضول ‘‘ ہے آسی کی دوسری دریافت ’’جنگ نامہ‘‘ ہے یہ بھی نسخوں میں ملتی ہے جنگ نامہ کے خاتمہ میں ایک غزل ہے جو آسیؔ کے نسخے میں نہ تھی اس لیے مطبوعہ کلیات میں موجود نہیں ۔ رام پور کے نسخہ کلیات میرؔ میں یہ غزل موجود ہے ۔ اس کے علاوہ بھی میر کی مزید تین مثنویاں ہیں۔

جعفر علی حسرت نے تین مثنویاں لکھیں (۱) طوطی نامہ (۲) ساقی نامہ (۳) ہجو حکیم طوطی نامہ کا ذکر اسپر نگر نے بھی کیا ہے اس میں تقریباً ۱۶۰ صفحات ہیں اور تاریخ کتابت ۱۲۱۶ ہے طوطی نامہ مشہور کہانی طوطا کہانی نہیں بلکہ کسی طوطا رام اور شکر پارہ کے عشق کی داستان ہے ۔ ساقی نامہ میں ۲۰۹ اشعار ہیں ہجو حکیم سودا کی ہجو حکیم غوث کی نقل معلوم ہوتی ہے ۔

میر حسن کے کلیات میں ۱۱ مثنویاں ہیں جن میں تین مختصر حکایتیں ہیں ان حکایتوں میں سے سے دوشر مناک حد تک فحش ہیں بقیہ مثنویوں میں مثنوی شادی،رموزالعارفین، گلزار ارم، مدح جواہر خاں و تہنیت عید، قصرجواہر، ہجو حویلی میر حسن ، خوان نعت اور سحرالبیان ۔

رموزالعارفین ۱۱۸۸ ء کی تصنیف ہے اس میں عارفانہ اور اخلاقی حکایات ہیں گلزار ارم ۱۱۹۲ ھ میں لکھی گئی جس میں دہلی سے لکھنؤ اور فیض آباد آنے کا ماجرہ بیان کیا گیا ہے ۔ یعنی یہ مثنوی سفر کے تیس پینتیس سال بعد لکھی گئی۔ اس میں حسن کی عاشق مزاجی کا اظہار بھی ہے ۔ سحر البیان کے بارے میں تذکرہ خوش معرکۂ زیبا میں بڑا دلچسپ انکشاف ہے کہ یہ مثنوی بہ پاس خاطر معشوقہ لکھی گئی۔ میر حسن فیض آباد میں بھی ایک معاشقہ رچا چکے تھے جس کا ذکر گلزار ارم میں ہے۔

قائم چاندپوری کی ۲۵ مثنویوں میں دو کے سوا سب مختصر ہیں ان کی سات مثنویاں غلطی سے کلیات سودا میں شامل کر لی گئی ہیں۔ ان ہی دو مثنویوں میں سے ایک کا نا م درویش و عروس ہے جس میں ۱۳۵۹ا شعار ہیں بعد میں راسخ نے اسی قصہ کو اعجازعشق کے نام سے لکھا ۔ اس کے علاوہ میر کے بھانجے محمد حسن تجلی نے مثنوی لیلیٰ مجنوں لکھی۔ جس کی تاریخ ۱۲۰۷ ھ ہے ۔ ہدایت شاگر د میر درد نے ایک مثنوی شہر بنارس کی مدح میں لکھی ۔ میر شیر علی افسوس جو دہلی سے گیارہ برس کی عمرمیں لکھنؤ چلے گئے تھے ان کے کلیات میں مثنوی بہار سخن ہے ۔ جس کی ادبی حیثیت بہت بلند ہے ۔ مرزا کاظم علی جوان نے ۱۸۰۳ء میں بارہ ماسہ لکھا جو ۱۸۱۲ ء میں کلکتہ سے شائع ہوا اس میں تقریباً سولہ سواشعار تھے حیدر بخش حیدری نے ہفت پیکر کے نام سے قصہ بہرام گور لکھا اس میں سات ہزار سے زیادہ شعر تھے جو اب ناپید ہیں ۔مصحفی کی اٹھارہ مثنویاں ملتی ہیں ۔ دوا ور کاتذکرہ بھی لوگ کر تے ہیں اس طرح بھی وہ زیادہ سے زیادہ ۲۰ مثنویوں کے مضنف ہیں لیکن ان میں چارعشقیہ مثنویاں ہی اہم ہیں (۱) جذیہ عشق (۲) شعلہ عشق (۳) گلزار شہادت (۴) بحرالمحبت یہ چاروں مثنویاں میر کی پیروی میں لکھی گئی ہیں بحرالمحبت جو سب سے طویل مثنوی ہے اس میں میر کی دریائے عشق کے قصے کو دوبارہ نظم کیا گیا ہے ۔
کلیات جرات کے مختلف مخطوطوں میں کل ۳۱ مثنویاں ہیں حسن لکھتے ہیں کہ جرات نے مثنوی کھٹمل نامہ بھی لکھی اس طرح مجموعی تعداد مثنویوں کی ۳۲ ہوگئیں ان کی چار مثنویاں کم وبیش عشقیہ قصے پر مشتمل ہیں اور بقیہ مثنویوں سے زیادہ طویل ہیں جرات مثنوی کے فن میں طاق ہیں۔ انشااﷲ خاں کے مطبوعہ کلیات انشاء میں ۹ مثنویاں ہیں جن میں ایک کے علاوہ مختصر ہیں ۔ ,, مثنوی فیل طویل ،، طویل ہے جس میں ایک ہاتھی اور ہتھنی کے مجامعت کا بیان ہے۔ انشاء کی دوغیر مطبوعہ مثنویوں کو قاضی عبدالودود نے دریافت کیا جس میں۱ ,, مثنوی در ہجواردو خدا بخش خاں لائبریری پٹنہ کے ایک مخطوطہ کلیات انشاء میں تھی ۔ رانی کیتکی کی کہانی کی طرح اس میں التزام ہے کہ عربی فارسی اور ٹھیٹ سنسکرت لفظ نہ آ نے پائے اس میں ۱۵۱ شعار ہیں ۔ دوسری مثنوی سحر ملال درزبان ریختہ ہے اس میں ۵۰شعر ہیں کراچی کے رسالہ تخلیق میں نومبر ۵۶ء میں شائع ہوچکی ہے ۔ ڈاکٹر عندلیب شادانی کے مملوکہ نسخۂ کلیات انشاء میں موجود ہے اس میں اول توصیف عشق ہے اور اس کے بعد مختصر ساقی نامہ ہے ۔ سعادت یارخاں رنگین نے ۴۲ مثنویاں لکھیں جن میں سے صرف ۹ شائع ہو ئیں ان میں مثنوی دل پذیرہی قابل قدر ہے اس مطالعے سے اندادزہ ہوتا ہے کہ سحرالبیان اور گلزار نسیم کے بعد اردو کی بہترین داستانی مثنوی ہے۔

نظیر اکبر آبادی بھی دہلی میں ہی پیدا ہوئے لیکن ۲۲ ۔۲۳ سال کی عمر میں اکبر آباد جاکر وہیں کے ہور ہے ۔ ان کی کلیات میں تین مثنویاں ہیں سیر دریامیں ۱۱۰۱ اشعار ہیں دوسری مثنوی میں ۱۳۲۶ اشعارہیں اور تیسری مثنوی میں ۱۱۹۷ اشعار تیسری مثنوی میں انسان اور پری کی کہانی ہے اس کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ نظیر نے عوامی رنگ خاص طور پر شاعر ی میں برتا ہے ورنہ اس مثنوی میں عوامیت کا دور دور تک پتہ نہیں صاف ستھری اور نکھری ستھری زبان ہے۔ ان کی تینوں مثنویوں کی فضارنگ و بو اور نوروسرور سے مرکب ہے ان میں محض حسن و کیف بھر ا ہوا ہے ۔

قدرت اﷲ قاسمؔ نے دو مذہبی مثنویاں لکھیں (۱) زبدۃالاخبار۱۲۱۴ھ معراج کا بیان ۳۲۰۰ سو سے زیادہ اشعار ہیں (۲) کرامات پیران پیر ۱۲۱۷ھ اس میں ۲۵۰۰ سو اشعار ہیں۔ یہ شیخ عبدالقادر جیلانی کے حالات و کرامات پر مشتمل ہے ۔

کلیات مومن میں چھوٹی بڑی بارہ مثنویاں ہیں ابتدائی چھ کے نام یہ ہیں شکایت ستم قصۂ غم ، قول غمیں، تف آتشیں، جنیں، مغموم، آہ وزاری مظلوم۔ آب حیات میں ذوق کی دو مثنویوں کا ذکر ہے اب یہ دونوں نا پید ہیں (۱) بہادر شاہ کی ولی عہدی کے زمانہ میں یعنی ۱۸۳۷ ء سے پہلے ایک مثنوی مرزا تسلیم کی شادی کی تہنیت میں لکھی اس کے دو شعر آب حیات میں منقول ہیں۔ (۲) نامہ سوز نواب حامد علی خاں نے اسے ایک عاشقانہ خط لکھنے کی فرمائش کی پانچ سو شعر سے زیادہ لکھ کر نامہ ادھورا چھوڑ دیا۔

دلّی کے آخری مثنوی نگار داغؔ ہیں انہوں نے رامپورمیں ۱۸۸۳ ء میں فریاد داغ لکھی جو ۱۸۸۵ء میں شائع ہوئی اس میں اپنے اور کلکتہ کی طوایف منی بائی حجاب کے عشق کی سچی داستان نظم ہے ۔

دلّی میں مثنوی نگاری کا خاتمہ اسی وقت ہو گیا تھا جب یہاں سے مصحفی جرأت ، انشاء وغیرہ لکھنؤ سدھار گئے تھے بعد میں مومنؔ اور داغؔ نے مثنویاں لکھیں لیکن ان کی کوششوں سے بھی دلّی میں مثنوی کا احیانہ ہو سکا پنڈت کیفیؔ کی مثنوی جگ بیتی ۱۳۵۵ھ دلّی کی آخری مثنوی ہے ۔
جن کے یہاں محبت کفر و ایمان کی قید سے معرا تھی۔
Dr. Mohammad Yahya Saba
About the Author: Dr. Mohammad Yahya Saba Read More Articles by Dr. Mohammad Yahya Saba: 40 Articles with 120983 views I have Good academic record with a Ph.D. Degree in Urdu “Specialization A critical study of Delhi comprising of romantic verse, earned Master’s Degree.. View More