نوجوان نسل اور مسائل

اﷲ کے نام سے شروع جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے

ویسے تو دنیا میں ہر کسی کے مسائل ہیں لیکن جو مسائل دنیا بھر کو لاحق ہیں وہ کسی بھی ملک کی سالمیت کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں جو کہ بہت ہیں لیکن چند ایک کا آج میں تذکرہ کروںگا۔

تعلیم:۔
تعلیم جو کہ ہر مرد اور عورت کے لئے ضروری ہے۔ اس پر ہمارے پیارے نبی نے بھی فرمایا کہ علم حاصل کرو چاہے اس کے لئے تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے۔بدقسمتی سے ہمارے ملک میں تعلیمی نظام درہم برہم ہے،غریب اور امیر کے لئے مختلف تعلیمی نصاب ہے۔ ہم نے اپنی نوجوان نسل کو بنیادی طور پر دو طبقوںمیں تبدیل کر دیاہے۔یہاں پر غریب کا بچہ گورنمنٹ کے سکول تک پڑھ سکتا ہے اور وہ بھی مشکل ہے کیونکہ غریب گھر کا سربراہ مشکل سے ہی آٹھ یا دس تک ہی اپنے بچہ کو تعلیم دلواسکتا ہے جبکہ امیر کا بچہ شروع ہی سے آئش و آرام،اعلی پرائیوٹ سکولوں میں پڑھتا ہے۔اس کا رہن سہن بھی مختلف ہوتاہے وہ گھر،سکول میں انگریزی کے علاوہ بولتا بھی نہیں۔ جبکہ غریب کے بچے کو ٹھیک طور پر اپنی اُردو زبان ہی نہیںآتی ۔غریب کابچہ خود کو تعلیمی میدان میں ہر وقت احساس کمتری کا شکار رہتا ہے۔غریب بچے کے پاس اگر ذہین ہے تو وہ آگے نہیں پڑھ سکتا کیونکہ اپنے گھر کے حالات کو دیکھ کر اس کو آگے پڑھنے کا شوق ہی ختم ہو جاتا ہے۔ داخلہ فیس،ٹیوشن فیس، یونیفارم ، کتابوں وغیرہ کا خرچا کیسے پورا ہو۔جبکہ اس کے مدمقابل امیر طبقہ کا بچہ کو اس چیز کا علم ہی نہیں ہوتا۔ ہمارے حکمرانوں کو چاہے کہ ملک میںایک نصاب پڑھایا جائے جو ہر درجہ،طبقہ کے نوجوانوں کے لئے یکساں ہو ،تاکہ علم جو ہم شروع سے ہی اپنی یوتھ میں دو طرح کا ڈیٹا فیڈکر رہے ہیں وہ ختم ہو ، تاکہ مستقبل میںدو طرح کے سوچنے والے گروہ پیدا نہ ہوں۔احساسِ کمتری ختم ہو۔ جو لوگوں اپنے بچوں کو پڑھانے کے لئے باہر کے ممالک بھجتے ہیں ان کا قصور بھی نہیں کیونکہ ملک میں ایسے تعلیمی اداروں کی کمی ہے، حکمرانوں کو چاہیے کہ ایسے تعلیمی اداروں کا قیام عمل میں لایا جائے جو کہ باہر کے تعلیمی نصاب کا مقابلہ کرے ۔حکمرانوں کو چاہیے کہ تعلیمی نظام میں بہتری لائی جائے تاکہ غریب کا بچہ بھی آسانی سے اعلی تعلیم حاصل کر سکے۔ ہماری ترقی کا راز بھی علم ہے کیونکہ علم کی بنیاد پر ہم ہر چیز سر کر سکتے ہیں۔حکمرانوں کو چاہیے کہ ملک میں ہر جگہ ایک نصاب لاگو کریں جو کہ ہر سکول و کالج تک ہو اور نئے سکول ،کالج اور یونی ورسٹی بنانے کی بجائے ایسا پلیٹ فارم بنایا جائے تا کہ جو کورسز باہر کے ممالک سے ہوتے ہیں ان کے لئے یہاں پر کام کیا جائے۔ریسرچ کو ترجیح دی جائے۔جب تک تعلیم عام نہیں ہو گی ہم ہر میدان میں پیچھے رہیں گے۔ علم بانٹنے سے بڑھتا ہے اور اس کے لئے بہتر طور پر کونسلنگ، ورکشاپ وغیرہ کا انتظام کیا جائے جو کہ گورنمنٹ لیول کے سطح پر ہو۔

چھوٹے بچوں کی مزدوری:۔
ہمارے ملک کی بدقسمتی ہے کہ یہاں جو امیر ہے وہ امیر تر ہوتا جا رہا ہے اور جو غریب ہے وہ غریب تر ہو تا جا رہا ہے۔ جس عمر میں ہمارے بچوں کو تعلیم حاصل کرنے جانا چاہیے وہ بچپن میں ہی مزدوری کرتے ہیں اور وجہ صرف غربت ہے اور اسکی بنیادی وجہ روزگار کے مواقع نہ ہونا، تعلیم نہ ہونا کیونکہ ایک غریب آدمی اپنے بچوں کا پیٹ پالے یا ان کو تعلیم دلوائے۔مفت تعلیم ہونے کے باوجود بھی کوئی شخص مڈل تک بھی تعلیم نہیں دلواسکتا اس لئے غربت سے بچنے کے لئے وہ اپنے بچوں کو چھوٹی عمر میں ہی مزدوری پر لگا دیتے ہیں۔ لیکن اس سے ملک پر جو اثر پڑتا ہے وہ بہت خطرناک ہوتا ہے۔ہمارا ملک تعلیمی لحاظ سے آگے کی بجائے پیچھے جا رہا ہے،بچوں میں مزدوری کے خاتمے کے لئے بہتر حکمت عملی اپنانا ہو گی۔اس کے لئے والدین کو چاہیے کہ وہ خود اپنے بچوں کو کم از کم میٹرک تک تعلیم دلوائیں چھوٹی عمر سے ہی مزدوری بچوں کو احساس کمتری میںمبتلا کر دیتی ہے، ان کی اپنی سوچ دفن ہو جاتی ہے اور اس کے علاوہ اس مسئلہ کے لئے ملکی حکمرانوں کو بہتر طور پر وضع حکمت عملی بنانا چاہیے۔

منشیات کا استعمال:۔
دنیا بھر میں منشیات کا استعمال اپنے عروج پر ہے ملک پاکستان میں بھی اسکا استعمال رواں دواں ہے۔ روز سیکڑوں افراد پکڑے جاتے ہیں۔ نوجوان نسل میں اس کا بے دریع استعمال پایا جاتا ہے۔کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں اسکا استعمال عام طور پر دیکھ جا سکتا ہے۔ خود کو نئے اسٹائل اور ماڈرن طور پر پیش کرنے کے لئے نوجوان مختلف طریقوں سے منشیات کا استعمال کرتے ہیںجو ان کے لئے نہ صرف بلکہ گھر والوں کے لئے اور تعلیمی ماحول کے لئے بھی سراسر وبال جان اور پریشانی کا باعث بن جاتا ہے۔حکومت کو چاہیے کہ سکولوں،کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں سختی سے منع کیا جائے اور ایک قانون بنایا جائے تاکہ نوجوان اس کا استعمال نہ کریں اور اس کے لئے جرمانہ اور قید کی بھی سزا ہو۔ نوجوان نسل میں منشیات کے استعمال میں برُی صحبت، فیشن اور ذہینی پریشانی بھی ایک اہم جزو ہے۔حکومت کو چاہیے کہ لیٹ نائیٹ نوجوانوں کی پارٹی کو محدود کریں اور ہوٹلوں میں کھولے عام اور پبلک جگہوں پر منشیات کی روک تھام کے لئے وارننگ بورڈ لگائے اور واضح قانون بنائیں اور خلاف ورزی کرنے والوں کو باقاعدہ سزا دی جائے۔ کیونکہ جس ملک کے نوجوان ذہینی طور پر بیمار ہونے لگ جاہیں تو وہ ملک اور قوم کچھ نہیں سوچ سکتے ۔

خود کشی:۔
خود کشی اسلام میں حرام ہے۔ نوجوان نسل میں خودکشی کا عمل زیادہ ہے اور اسکی اہم وجوہات میں سے بے روزگاری، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کا فقدان، گھریلو حالات، نا اتفاقی،معاشی حالات وغیرہ ہیں۔ جب تک انسان خود خوشحال نہیں ہو گا وہ کو ئی بھی کام ٹھیک طور پر سر انجام نہیں دے سکے گا نوجوان نسل نے خود کو آج کل غیر ضروری کاموں میں الجھا رکھا ہے، ملکی صورت حال، تعلیم کا باقاعدہ حصول نہ ہونا بھی اہم وجہ ہیں۔ گھر والوں سے باتیں چھپانا، ذہین کو غلط سوچ میں الجھائے رکھنا، برداشت میں کمی بھی ہماری نوجوان نسل کو ایسے اقدامات کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ بطور مسلمان ہم کو اﷲ پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔ غربت اور ذہینی پستی، نا اتفاقی کے واقعات نوجوانوں کے لئے اس اقدام کا باعث بنتے ہیں۔

بے روزگاری:۔
بے روزگاری بھی ہماری نوجوان نسل کی مشکلات میں سے ایک اہم وجہ ہے کیونکہ جب والدین اپنے بچوں کو بڑی مشکلات سے پڑھاتے ہیں تو ان کا خواب ہوتا کہ ہمارا بچہ یا بچی کو ملازمت ملے گی۔ لیکن دربدر کی ٹھوکروں کے علاوہ کوئی اور چیزیں نہیں ملتی۔تعلیمی ڈگریاں ہاتھوں میں لئے لڑکے، لڑکیاںدھکے کھا رہے ہیں۔ ذہینوں کو زنگ لگتا جا رہاہے،گھر والوں کی علیحدہ پریشانی نے ذہین کو اور بھی تنگ کر دیا۔اسی وجہ سے ملک میں چوری، ڈکیتی، قتل وغارت اور آسان طریقوں سے رقم کا حصول عام ہوتا جا رہا ہے جو کہ ملک و قوم کے لئے خطرناک ہے۔ اور بے روزگاری اور نوکریوں کا مستقل نہ ملنا۔ دس سال سے اوپر تک کے لوگ بطور ڈیلی ویجر مختلف گورنمنٹ کے اداروں میں کام کر رہے ہیں جو کہ ان کے ساتھ سراسر زیادتی ہے۔ اس کے بارے میں اداروں کے سربراہوں اور حکومت کو سوچنا چاہیے کہ کیا مستقبل ہے ان کا اس طرح کی نوکری میں؟ کب نوکری سے فارغ کر دیں کوئی پتہ نہیں۔حکومت کو چاہیے کہ جس طرح ملک میں تعلیم عام ہو رہی ہے اور جس طرح نوجوان اوورایج ہو رہے ہیں اس کے لئے مدتِ ملازمت کو کم کریں تا کہ جب کوئی لڑکا، لڑکی پڑھ رہا ہو اس وقت تک جو آدمی جاب کر رہا ہو اس کی مدت ملازمت ختم ہونے کو تا کہ جس وقت تعلیم کا مرحلہ ختم ہو اسی وقت نوکری مل جائے جس سے ملک میںکچھ حدتک بے روزگاری ختم کی جا سکتی ہے۔

موبائل اور انٹرنیٹ کا استعمال:۔
آجکل ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ کسی بھی ملک کی ترقی میں اس کا آجکل بہت اہم رول ہے۔ لیکن بدقسمت سے ہمارے ہاں یہ غلط طور پر استعمال ہورہاہے۔ریسرچ کے لئے کم اور غلط مقاصد بہت ہیں۔ ہماری نوجوان نسل اخلاقی طور پر گرتی جا رہی ہے۔ موبائل فون پر دوستی، رات لیٹ نائیٹ پیکیج، گپ شپ وغیرہ نے فحاشی کو فروغ دیا۔ معاشی طور پرتباہ کر دیا ہے۔ نت نئے ٹی وی اشتہاروں نے نوجوان نسل کو اخلاقی طور پر کمزور کر دیا ہے۔ اس معاملہ پر ٹی وی والوں کو چاہیے کہ وہ اشتہارات کو اخلاقی اور فحاشی سے پاک بناہیں۔ موبائل اور انٹرنیٹ کا منفی استعمال عام ہو گیا ہے۔ اس کے لئے سکولوں اور کالجوں میں خاص کر استعمال پر پابندی لگائی جائے۔ اور واضح قانون بنایا جائے اور سزا کو لاگو کیا جائے۔ کیونکہ کہ جب تک ہم اپنی نوجوان نسل کو اخلاقی اور فحاشی طور پر پاک نہیں کر سکتے ہم کو ئی بھی کام نہیں سرانجام دے سکتے۔

میڈیا کے اثرات:۔
میڈیا نے نوجوان نسل پر اچھے اور برُے دونوں اثرات چھوڑے۔ بعض پروگرام نوجوان نسل کے لئے اچھے ہوتے ہیں اور بعض پروگرام نوجوان نسل کی عمروںکے لحاظ سے اچھے نہیں ہوتے جو باتیں ان کو دس سال بعد پتہ لگانا چاہیے وہ اس کو ایک ہی دن میں پتہ لگ جاتی ہے۔ اس معاملہ پر والدین کا بھی حق ہے کہ وہ اپنے بچوں پر نظر رکھیں اور وہ پروگرام لگائیں جو ان کی عمروں کے مطابق ہوں۔ میڈیا کو چاہیے کہ اشتہاروں پر سخت پالیسی بنائے اور فحاشی کے عمل کو روکے۔ٹی وی پر کھیلوں، تعلیمی اور یوتھ پروگراموں کا انعقاد زیادہ سے زیادہ کیا جائے۔

اس کے علاوہ بھی بے حد مسائل ہیں اور ہوں گے لیکن اگر نوجوان نسل نے خود کو اچھا شہری اور آنے والے کل کے لئے اچھا لیڈر بنانا ہے تو اپنی سوچ کو مثبت رکھیں۔ نماز کو اپنائیں، اچھے لوگوں کی محفل میں جائیں ´ بزرگوں کا حکم مانیں ، اپنے آپ میں برداشت پیدا کریں اور اپنے گھر والوں کو اچھا دوست بنائیں ۔

Habib Ullah
About the Author: Habib Ullah Read More Articles by Habib Ullah: 56 Articles with 90036 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.