ہم عوام ۔۔۔

 شروع اﷲ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

ہم پاکستانی سب سے جلد اور آسان کام کسی پر تنقید کرنا جانتے ہیں۔چاہے اگلے بندہ نے سالوں لگا دیا ہوں کام کو مکمل کرنے میں اور ہم بڑی آسانی سے اس میں یہ خرابی ہے وہ خرابی ہے کہہ کر اپنا فرض نبھا لیتے ہیں۔جبکہ اس کے برعکس جو تنقیدہم کر رہے ہوتے ہیں اُس کام کو ٹھیک کرنے کی صلاحیت ہم نہیں رکھتے جو کہ دوسرے کے کام پر کررہے ہوتے ہیں ۔اس لئے جو بھی پاکستانی حکومت آتی ہے ہم سب عوام حکومت پر باتیں تو بہت کرتے ہیں کہ یہ نہیں کر رہے وہ نہیں کر رہے جبکہ ہم نے کبھی اپنے کئے گئے کاموں پر نظر ثانی کی ہے کہ ہم کتنے پانی میں ہیں؟ نہیں نہ تو ذرا ادھر توجہ دیجئے کہ ہم کہاں ہیں اور ہر وقت صرف حکومتی ارکان کو ہی ملزم قرار کیوں دیتے ہیں۔ بجلی و گیس کی لوڈشیڈنگ کیوں ہو رہی ہے؟ کیونکہ ہم عوام خود واپڈا اور گیس کے ملازمین سے مل کر بجلی و گیس کی چوری کرتے ہیں۔بجلی ، گیس اور ٹیلی فونز کے بلز تو ہم دیتے نہیں تو اس لیے ہم سب سے پہلے بجلی، گیس اور فون بلز نہ ادا کرنے اور چوری کرنے پر خود بڑے چور ہوئے۔پھر ہم سارا لوڈشیڈنگ کا معاملہ حکومت پر بڑی آسانی سے ڈال دیتے کہ یہ صرف حکومتی چالیں ہیں فلاں ہیں۔گاڑیوں میں غیر معیاری گیس سلنڈروں کی بھر مار حکومت نے تو نہیں کروائی کہ ناقص میٹریل کے گیس سلنڈر استعمال کرو، اورننھے ننھے معصوم طالبعلموں کی جانوں سے ٹرانسپورٹرز حضرات کھیلیں۔جب گجرات جیسا واقعہ رونما ہوتا ہے تو سب میڈیا کے لوگ اور عوام حکومت پر تنقید کرتے کہ یہ سب حکومت کی ناقص حکمت عملی سے ہو رہا جبکہ ہم خود یہ سوچنا اور جاننا بھول جاتے کہ جب ہم اپنے بچوں کو گھر سے سکول لے جانے کے لئے کسی گاڑی، رکشہ وغیرہ کا بندوبست کرتے تو کبھی گاڑی کی مکمل فٹنس سرٹیفیکٹ چیک کیا؟کبھی ڈرائیور کی فٹنس پر توجہ دی؟نہیں نہ تو ہم بڑی آسانی سے حکومت کو ملزم قرار دیتے ہیں۔ہم بڑی آسا نی سے تنقید کر دیتے کہ حکومت تعلیم پر توجہ نہیں دے رہی اور سکولز و کالجز کے ٹیچرز ہمارے بچوں کو پڑھاتے نہیں۔تو اس معاملہ میں بھی ہم قصور وار ہیں کیونکہ ہم خود ہی بچوں پر ہزاروں روپےلگا کر اکیڈمز پڑھانے کے لئے اُنہی اساتذہ کے پاس بھیجتے ہیں جبکہ ہم عوام نے کبھی بھی اس بارے پرنسپل ، استادوں اور تعلیمی اداروں کے سربراہاں سے شکایت نہیں کہ کیا وجہ ہے کہ ہمارا بچہ سکول ٹائم میں پڑھائی پر پوری توجہ نہیں دے سکتا جبکہ وہی استاد اس کو ٹیوشن پڑھنے کو کہتا ہے۔اب ٹیوشن سنٹرز تو باقاعدہ ایک کاروبار کی شکل اختیار کر گئے ہیں جہاں اساتذہ لاکھوں کما رہے ہیں۔ اب تو سکول وکالجز میں طالبعلم صرف ٹائم پاس کرنے کے لئے جاتے یہ کہنا درست ہو گا کیونکہ ان کو پتہ ہوتا کہ وہی ٹیچر ان کو ٹیوشن میں سب کچھ خود ہی حل کروادے گا اور ہم امتحان میں آسانی سے پاس ہو جائیں گے۔تو حکومت کو ملزم قرار دینے کی بجائے اپنے بچوں پر توجہ دینی چاہیے کہ کیا وجہ ہے کہ سکول و کالجز ٹائمنگ میں بچہ تعلیم پر توجہ نہیں دے رہا۔اس معاملہ میں بھی ہم عوام ہی قصوروار ہیں۔ہم حکومت کے ساتھ ساتھ اپنے علاقہ کے سیاسی ارکان پر بھی تنقید کرتے کہ ہمارے دیے ہوئے ووٹوں سے فلاں شخص قومی و صوبائی اسمبلی میں آج بیٹھا ہے اور وہ ہمارے علاقہ کی مین سڑک کو ٹھیک نہیں کروا سکتا کیونکہ وہ سڑک جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے وغیرہ وغیرہ۔ تو اس معاملہ میں بھی ہم عوام قصور وار ہیں کیونکہ جب سڑک بن رہی تھی تو سب کو پتہ تھا کہ ناقص میٹریل استعمال ہوا ہے جو کہ بمشکل سال، دو یا پانچ سال ہی تک کارآمد ہو سکے گا تو اس وقت ہم نے کیوں نہیں کوئی قانونی چارہ گوئی نہ کی۔پھر اس سڑک پر ہم خود ہی پبلک ٹرانسپورٹ چلاتے ہیں اور اوورلوڈنگ بھی خود کرتے جبکہ حکومت کا مال گاڑی کی لوڈنگ میں بقاعدہ پیمانہ بنا ہوا کہ اتنا سامان یا مقدار لوڈ ہوگی تو گاڑی سڑک پر چل سکتی وگرنہ نہیں تو کیا ہم اس پیمانہ پر عمل پیرا ہیں؟ہم کیوں جگہ جگہ پولیس والوں کو رشوت دیتے کہ ہماری گاڑی کو آسانی سے پار لگانے دیا جائے کیونکہ ہم خود ہی چور ہوتے ہیں کہ ہماری گاڑی اوورلوڈ ہوتی ہیں۔تو پھر مین سڑکوں نے تو لازمی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونا ہوتا ہے تو اس معاملہ میں بھی حکومت کو الزام دینے کی بجائے اپنے آپ کو ملزم قرار دینا ہو گا۔اس کے علاوہ سواریوں کی اوورلوڈنگ سے آئے روز ٹریفک حادثات رونما ہوتے رہتے ہیں۔تو کس نے کہا تھا کہ گاڑی میں جگہ نہ ہو تو چھت پر یا لٹک کر سفر کرو؟جب کوئی ٹریفک حادثات ہوتا ہے تو قدرت کو یہی منظور تھا کے ساتھ ساتھ حکومت پر بھی تنقید کرتے کہ ٹریفک پولیس والے حرام کی کھا رہے ہیں اگر وقت پر چیک کرتے تو یہ حادثہ نہ ہواہوتا۔تو دوسروں کو تنقید بنانے سے پہلے خود کو بھی تنقید کا نشانہ بنانا چاہیے۔اس کے علاوہ ہم کہتے کہ حکومت ہمیں پانی نہیں دیتی یا پانی کا بندوبست نہیں کرتی،تو ہم نے کبھی سوچا کہ ہم عوام روزانہ کتنا پانی کا ضیاع کرتے ہیں؟اس پانی کی ضیاع کی وجہ سے آج ملک پاکستان کے بہت سے علاقے بنجر ہو گئے ہیں جہاں عوام اور جانور پانی کی ایک ایک بوند کو ترس رہے ہیں۔تو ہم کو سوچنا چاہیے کہ پانی کے ضیاع کو روکنا چاہیے کیونکہ مستقبل میں پانی کے حصول پر ہی جنگیں ہوں گی۔تو حکومت پر تنقید کرنے کی بجائے خود اپنے آپ پر بھی نظرثانی کرنی ہوگی۔اس کے علاوہ جوائ، شراب اور سود جیسے کاروبار پر بھی ہم حکومت کو الزام دیتے کہ یہ حکومتی لوگ ہم سے ماہانہ بھتہ لیتے ہیں۔تو یہاں سوچنے کی بات ہے کہ ہم وہ کام کیوں کریں جس سے انسانی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہو؟جب غلط کام کریں گے تو اس کے حل کی تلاش میں ہم حکومتی اہلکاروں کو بھی ساتھ چلانا پڑے گا تو یہاں پر بھی ہمارا گناہ ہے کہ ہم خود یہ کاروبار شروع کرتے ہیں اور پھر حکومت کو برا بھلا کرتے۔جوائ، شراب ، سود اور ہیروین کی وجہ سے نہ جانے کتنے لوگ مر گئے، کتنوں کی بیٹیاں بِک گئی، کتنوں کے جوان بچے مر گئے، کتنوں نے اپنے پورے خوشحال گھروں کو برباد کر دیا ہے۔تو خداراہ اس معاملہ حکومت کا ساتھ دینا چاہیے اور ایسے مجرمانہ کاروبار کرنے والوں کا ساتھ نہیں دینا چاہیے۔حکومت اور سیاسی ارکان پر تنقید کرتے کہ یہ ٹیکس چور ہیں اور سرکاری خزانہ کو اربوں روپے کا سالانہ چونا لگا جاتے ہیں ۔جبکہ ہم نے خود کتنا سالانہ ٹیکس دیا اور کتنا اصل بنتا تھا؟حرام چیزوں کا کاروبار ہم خود کرتے ہیں۔بے گناہ لوگوں کا خون ہم خود کرتے ہیں،بچوں سے ان کے والدین کا سایہ ہم خود چھین لیتے ہیں،ناانصافی، بدمعاشی، چوری چکاری، قتل وغارت، لوٹ مار،بھتہ خوری، دہشت گردی،فحاشی کے اڈے،طاقت کا غلط استعمال،ہڑتالیں کرکے سرکاری و غیر سرکاری گاڑیوں، املاک اور لوگوں کو تباہ ،غذائی اجناس کی ذخیرہ اندوزی،سرکاری و غیر سرکاری مشینری کا غلط استعمال،شریف اوربے قصور لوگو ں کے خلاف جعلی پراپرگنڈے کرنا اور نہ جانے کیا کیا ہم عوام ہی خود کرتے اور تنقید اور مجرم حکومت اور حکومت ارکان کو ہی دیتے ہیں۔کیا حکومت نے کہا کہ بجلی و گیس کی چوری کرو؟کیا حکومت نے کہا کہ تھانیداروں کو رشوت دو؟کیا حکومت نے کہا کہ سرکاری دفاتر میں اپنی فائلوں کو کلیئر کروانے کے لئے رشوت دو؟کیا حکومت نے کہا کہ سکول ، کالجز،یونی ورسٹیوں اور سرکاری و غیر سرکاری املاک میں ناقص میٹریل استعمال کرو؟کیا حکومت نے کہا کہ چھوٹے چھوٹے لڑائی جھگڑو ں پر قتل کرنا شروع کر دو؟کیا حکومت نے کہ سڑکوں پر گاڑیوں میں مال کی اوور لوڈنگ شروع کر دو؟ کیا حکومت نے کہا کہ گاڑیوں میں گنجائش نہ ہو تو سفر کیا کرو؟ تو یہ وہ چیزیں ہیں جن کی شروعات ہی ہم عوام کرتے اور آخر میں تنقید حکومت اور حکومتی اداروں پر کرتے۔لہذا اگر ہمیں ملک پاکستان کو ٹھیک اور مستحکم چلانا ہے تو ہم سب جو یہ کام کرتے ان کو بند کرنا ہوگا اور حکومت کا ساتھ دینا ہوگا۔

Habib Ullah
About the Author: Habib Ullah Read More Articles by Habib Ullah: 56 Articles with 90003 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.