ایک شام خلیل بلیدی کے نام

یہاں اسلام آباد میں پچھلے ہفتےشہریار سنٹر کے ایک ھال میں شعروسخن سے وابستہ کچھ حضرات نے تربت کے تحصیل بلیدہ سے حضرت مولانا خلیل بلیدی صاحب کے اعزازو تکریم میں (ایک شام خلیل بلیدی کے نام)سے موسوم ایک عظیم الشان تقریب کا انعقاد کیا،ان کی طبع شدہ شعری مجموعہ’’دیوان ِخاطر‘‘اور غیر مطبوعہ’’تسوید ِخاطر‘‘پر تبصرےاور ان کی دواوین کے کچھ منتخبات خوش الحانی کے ساتھ پیش کیے گئے ،مشہور نعت خواں حافظ وقارالامین نے جس حسن ادائیگی کے ساتھ دیوان خاطر کے مختلف ابواب :حمدباری تعالیٰ ،نعت سرور کونینﷺ،عزم جواں،گل ِسرخ،طنزو مزاح،کنول اور وصیت نامہ کی چیدہ چیدہ نظمیں پڑھیں اس سے حاضرین نہایت محظوظ ہوے،اس کے بعد بلیدی صاحب سے بالاتفاق استدعا کی گئی، کہ وہ بنفس نفیس ’’تسوید خاطر‘‘ میں سے کچھ کلام اپنے مخصوص انداز میں سنائے ،چنانچہ ان کے خود کے پڑھنے سے ہمنشینان ِمحفل کو بارہا رلا بھی دیا اور ہنسا بھی دیا۔ آگےبلیدی صاحب کے مختصر سے تعارف کے بعد ہم یہاں اپنے روز نامہ ’’اسلام‘‘ کے قاریئن کے ’’تفریح خاطر ‘‘کیلئےان کے اشعار میں سے (مشتے از خروارے) ہدیہ کرینگے۔

بلیدی صاحب کا دادھیال بلوچ اور نانھیال پختونوں کے سدوزئی درانی شاخ سے ہے،ان کے والد گرامی،دادا نانا اور کئی ماموں دارالعلوم دیوبند ،تعلیم الدین ڈابھیل اور مظاہر العلوم سہارنپور کے فضلاء ہیں ،نابغہ ہندعلامہ انورشاہ کشمیری ،شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی، محدث العصر حضرت علامہ محمد یوسف بنوری،حضرت مولانا بدر عالم میرٹھی ، حضرت مولانا عبدالرحمٰن امروہی اور شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمہم اللہ تعالی اجمیعاً سے ان دونوں خاندانوں نے مختلف اوقات و مقامات میں کسب فیض کیا ہے،بلیدی صاحب نے اپنی تعلیم کی ابتدا ء تعلیم الدین ڈابھیل سے کی ہے،۱۹۷۱ء کے جنگ کے بعد یہ خاندان بغرض وطن واپسی امرتسر تک آیا، مگر راستوں کے مسدود ہونے کے باعث واپس ہوا،۷۳ء میں جب ان کی عمر صرف پانچ سال کی تھی والد ماجد حضرت مولانا محمودالحسن صاحب کا سایہ شفقت بھی ۴۵ سال کی عمر میں اٹھ گیا، اس کے دو چار سالوں کے بعد خدا خدا کر کے انہیں وطن واپسی کے اسباب ان کے نانا جان حضرت ابوالخیر عبدالصمد سدوزئی درانی ثم الایرانی خلیفہ مجاز حضرت مولانا بدر عالم میرٹھی کے طفیل میسر ہوے۔

۱۹۸۷میں ہم نے جب شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب مد ظلہم العالی کی باغ و بہار شخصیت کے زیر سایہ جامعہ فاروقیہ کراچی میں داخلہ لیا اور دورہ حدیث کی کلاس میں نشستیں متعین ہو گئیں، تو اتفاق سے محبوب الاساتذہ والطلبہ حضرت مولانا خلیل احمد بلیدی صاحب اور ہمارے درمیان ایک ہی ساتھی مولانا مفتاح اللہ عبد الباقی پروفیسر بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد حائل تھے۔

بلیدی صاحب کی شخصیت میں متانت، سنجیدگی،حاضردماغی ،امور طلبہ میں قیادت اور خوش لباسی کی وجہ سے بلا کی کشِش تھی ،مولانا سمیع الحق سواتی اور مولانا خلیل بلیدی دونوں ہی ہماری کلاس کے جھومر تھے،فراغت کے بعد ہم مادر علمی ہی میں مشغول ہوگئے، بلیدی صاحب نے بلیدہ میں ایک عظیم الشان ادارہ مدرسہ خیرالعلوم محمودیہ قائم کیا اور حال ہی میں ایک ملک گیر قسم کی ’’مجلس دارالقضاءوالافتاء‘‘ قائم فرمائی،درس وتدریس کے ساتھ جے یو آئی کی مرکزی مجلس شوریٰ کی رکنیت تک رسائی، شعروشاعری، صنعت و تجارت،ہاوسنگ و تعمیرات اورمتنوع معاشرتی و رفاہی خدمات میں وہ ایک معزز نام کما چکے ہیں ، ہندوستان میں پیدائش اور ابتدائی تعلیم نے بلیدی صاحب کو اردو ادب کا ذوق دیا ہے ،راغب مرادآبادی، سحرانصاری ،عبرعین عبرداور دیگر شعراءنے ان کے کلام کو سراہا ہے،موسم کے متعلق وہ کہتے ہیں:
موسم بڑا حسیں ہے، نظارہ حسین ہے
محبوبہ مہ جبیں ہے، زمانہ حسین ہے
ساحل پہ تندو تیز ہواوں کا شور ہے
دل میں صدف کے لو لو و مرجان مکین ہے
صحرا کےبیل بوٹوں میں پھولوں میں جوش ہے
جس کو بھی ہم نے دیکھا وہ خندہ جبین ہے
ہر شخص کہہ رہا ہے، صدا دے رہا ہے آج
خاطر بھی شعر کہنے میں کتنا ذھین ہے اج

’’خاطر‘‘ بلیدی صاحب کا قلمی تخلص ہے۔ زلفوں کے حوالے سے وہ لکھتے ہیں ۔
بادلوں کی اوٹ سے ظاہر ہے کچھ کرنیں تیری
زلف کے بازو میں ہیں لٹکی ہوئی قرنیں تیری
گرِد تیری روشنی کے ،رات بھر پھرتا رہا
دیکھ لی ہیں اس شب تاریک میں دھرنیں تیری
سر پھرا خاطر نظر رکھتا ہے تیری چال پر
چل پڑا ہوں کو بہ کو میں داستاں پڑھنے تیری
انتظار کے متعلق وہ لکھتے ہیں
تیرے ہی انتظار میں بیٹھے ہوے ہوئے ہیں ہم
نظر یں ہیں منتظر کہ تاکے ہوئے ہیں ہم
ہر سمت جھانک جھانک کے ہم دیکھتے رہے
سینے میں درد ،عشق کا پالے ہوئے ہیں ہم
جگنو کے بارے میں
جگنو لئے چراغ پھرتا ہے رات بھر
محبوب در پہ ،اور بھٹکتا ہے رات بھر
یہ کیا ہوا کہ آج بھی آنے میں دیر کی
سورج ڈھلا ہوا ہے کہ ڈھلتا ہے رات بھر
جو آپ نے لکھا تھا وہ میں نے پڑھ لیا
خاطر کو کیا ہوا کہ روتا ہے رات بھر

زندگی میں سکون و چین کے حصول کے بعد کی کیفیت کا اظہار کرتے ہوے لکھتے ہیں۔
بے چینیاں بڑھتی گئیں جب چین کی منزل ملی
بے قراری تھی چار سو جب سےقرار آنے لگا
دولتِ دنیا ہمہ گر بردرت انداختن
مفلسی بڑھتی گئی جب فخر کی منزل ملی
روشنائی سے لکھا اور اق کالے ہو گئے
تاریکی چھانے لگی جب نور کی منزل ملی
بزدلی بڑھتی گئی جب سے تناور ہو گئے
جب خاطری قلب و جگر کو فہم کی منزل ملی
فصل و وصل
فصل اسکا مجھے اک بہانہ لگا
وصلِ محبوب میں اک زمانہ لگا
زیر لب وہ جوں ہی مسکرانے لگے
ان کا ہنسنا مجھے دوستانہ لگا
میں نے دیکھا تو اک سر سراہٹ ہوئی
پیشگی عشق کا یہ بیعانہ لگا
پتہ یاد نہیں
وہ یہیں پر کہیں رہتے ہیں پتہ یاد نہیں
اسی اطراف میں بستے ہیں پتہ یاد نہیں
میرے چو کھٹ سے پرے روز گزرتے تھے کبھی
یہ خطاکیسی ہوئی مجھ کو پتہ یاد نہیں
وہ پتہ دے کے گئے عشق کا جو مجھ سے کیا
جب لگا اس کا پتہ گھر کا پتہ یاد نہیں
زیر عنوان ،چارو لاچار، میں گویا ہیں
نام لے لے کے تیرے نام کی تمرین ہوئی
ہم بہر حال تیرے نام کے عامل تو ہوئے
سنگ پہ سنگ بھی برسائیں کوئی بات نہیں
سنگ ہاتھوں میں لئے ،مجھ پہ وہ رامل تو ہوئے
میں جو عاشق تیرا کہلایابڑا اعزاز ہے یہ
حسن کی تعریف میں ہم تیرے قابل تو ہوئے
نقاب کے متعلق وہ یوں رقمطراز ہیں۔
چہرہ نظر نہ آیا کہ بند تھا نقاب میں
انداز کہہ رہا تھا کہ گل تھا شباب میں
وہ جارہے تھے دفعتاً میری نظر پڑی
نظروں میں عکسِ یار تھا دل تھا عذاب میں
خاطر کو تھام لو کہ تڑپتا ہے رات بھر
یہ بھی شباب میں ہے ،اور وہ بھی شباب میں
اور
آنکھ سے آنکھ ملا ئی ذرا دل تو ملا دے خاطر
ہاتھ تو اس نے بڑھایا ذراسینہ ملا دے خاطر

اوررخصتی کے موقع پر:
وہ رخصت ہوئے مرحبا کہتے کہتے
مڑا میں انہیں بے وفا کہتے کہتے
میرے دل کے گوشوں میں مسکن تھا ان کا
اچانک اٹھے وہ برا کہتے کہتے
نچھاور تھا شبنم میری دوستی کا
بچھڑتے گئے یا خدا کہتے کہتے
محبت کا نشتر چلا دے تو خاطر
کہ لوٹے یہاں ، آگیا کہتے کہتے

خالص قدیم اردو کی آمیزش کا ایک نمونہ ان کے ان اشعار میں ملاحظہ فرمائیں:
تن تنکوں کے مکےا بن کر من پر سجتا جائے
مکلے دل پہ آہنگ بن کر روز سلجھتا جائے
کا ہے کا آنگن ،کاہے کے کنگن، کا ہے کو کرتی نخرے
من رت کے وہ دیپ جلائے گیت وہ گاتا جائے
نینا آئی صبح سویرے صبح کے نغمے گاتی
جھاڑوں کی جھرمٹ میں میرا پھول مہکتا جائے
خاطر کے انگ انگ کے شرارےکس دھن میں گِھر آئے
سمے کے لَے سے نکتہ ٹپکے روپ نکھرتا جائے

اور اخیر میں وصیت کرتے ہوئے:
خدا کے دین پر سر دھڑ کی بازی تم لگا لینا
نہ پیچھے تم کبھی ہٹنا میری سن لو وصیت کو
مبلغ یا معلم یا مئولف یا مجاہد بن
خدا کے دین کو ایسے ہی سمجھا دو رعیت کو
مجھے امید واثق ہے دعائوں میں نہ بھولو گے
اگر یہ ہو سکے کچھ پڑھ کے بخشو میری میت کو
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 815194 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More