عشرت جہاں کیس:آئی بی کا افسر گھیرے میں

عشرت جہاں قتل کیس میں آئی بی کے ایک اعلا افسر مسٹرراجندر کمار بھی شک کے گھیرے میں آگئے ہیں۔ اس واردات کے وقت و ہ احمدآبادمیں سی بی آئی کے اسپیشل ڈائرکٹر تھے ۔ سی بی آئی کے ڈائرکٹررنجیت سنہا کے مطابق ایجنسی کے پاس عشرت جہاں اور تین دیگر افراد کے فرضی انکاﺅنٹر میں مسٹر کمار کے رول کے کافی ثبوت موجود ہیں۔مسٹر کمار سے سی بی آئی نے دوبارپوچھ تاچھ کی ہے مگر رپورٹ یہ ہے کہ انہوں نے کسی سوال کا تشفی بخش جواب نہیں دیا اور باتوں کو گھماتے پھراتے رہے۔ ان پر صرف اتنا ہی الزام نہیںکہ یہ بے بنیاد ’ الرٹ‘ان کے ہی دفتر سے چلا تھا کہ ایل ای ٹی کے چار افراد مسٹر مودی کے قتل کے ارادے سے آرہے ہیں، جس کوبنیاد پر ان کو فرضی انکاﺅنٹر میں ہلاک کردیا گیا۔ رپورٹوں سے گمان ہوتا ہے کہ یہ فرضی الرٹ گجرات پولیس کی ایماءپر جاری کیا گیا تھا تاکہ فرضی انکاﺅنٹر کرکے مودی کے حق میں ماحول سازی کی جائے۔

مسٹرکمار پرزیادہ سنگین الزام یہ ہے کہ وہ خود سازش میں شریک تھے اورگجرات پولیس کی غیر قانونی حراست میںعشرت جہاں اور اس کے ساتھ مارے گئے تین دیگر افراد سے پوچھ تاچھ میں بھی شریک تھے۔ اگر یہ اطلاعات درست ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ انکاﺅنٹر کافرضی ہونا ان کے علم میں تھا اور انہوں نے قانون کی مدد کرنے کے بجائے جرم کو چھپایا۔یہ شک ہے کہ مقتولین کے قبضے سے جو اسلحہ برامد ہوا تھا وہ بھی مسٹرکمار کا فراہم کیا ہوا تھا۔

اسی منگل کو (16جون)گاندھی نگر میں ان سے دوسرے دور کی پوچھ تاچھ میں ان سے اس ’اے کے -56‘ مارکہ اسالٹ رائفل کے بارے میں بھی پوچھ کچھ ہوئی ہوگی جس کو دیگر اسلحہ کے ساتھ گجرات پولیس نے مقتولین کے قبضہ سے برامد دکھایا تھا۔ اس نوعیت کی رائفل پولیس کے پاس نہیں ہوسکتی۔ اطلاع یہ ہے کہ یہ رائفل بھی مسٹر کمار کے توسل ہی گجرات پولیس کے پاس پہنچی۔ مسٹر کمار سے ان فون کالس کے بارے میں بھی پوچھ تاچھ ہوئی جو انکاﺅنٹر سے چندروز قبل اور اس کے دوران ان کے دفتر کے پولیس کو کئے گئے۔ یہ فون لینڈ لائن سے بھی ہوئے اور موبائل فون سے بھی۔ لیکن خبر یہ ہے کہ انہوں نے جانچ میںتعاون نہیں کیا۔

سی بی آئی کو شک ہے کہ گجرات پولیس کے ایڈیشنل ڈی جی پی ، انچارج سی آئی ڈی (کرائم) نے مسٹر کمار سے ساز باز کی تھی جس کے نتیجہ میں مودی نواز مسٹر کمار نے اپنے دفتر سے بغیر کسی حقیقی سراغ مذکورہ جھوٹی ’اطلاع ‘پولیس کو فراہم کرائی ۔ مسٹر پانڈے اس کیس کے فرار ملزم ہیں۔ سی بی آئی کے حوالے سے ایک رپورٹ یہ ہے کہ مسٹر کمار نے پہلے اس وقت گجرات کے ڈی جی پی کے آر کوشک کے ساتھ ساز باز کی،اس کے بعد جائنٹ کمشنر پی پی پانڈے کے ساتھ مل کر پوری سازش تیار کرائی۔ سی بی آئی کے حوالے سے یہ خبر بھی ہے کہ اس گناہ میں شریک گجرات پولیس کے ایک آئی پی ایس افسر جی پی سنگھل سے تفتیش کے دوران اس انکاﺅنٹر میںمسٹر کمارکے رول کا سراغ ملا تھا۔یہ وضاحت اہم ہے کہ یہ بات زیادہ اہم نہیں کہ جو اطلاع فراہم کی گئی وہ درست تھی یا نہیں، اہم بات یہ ہے کہ اس فرضی انکاﺅنٹر میں مسٹر کمار کا کیا رول تھا؟

اس کیس میں جب سی بی آئی نے مسٹر کمارکو طلب کیا تو بھاجپا بلبلا اٹھی۔ سی بی آئی کی خودمختاری کی وکالت کرنے کے باوجود اس نے مطالبہ کیا کہ سرکار اس قتل معاملے میں آئی بی افسر کو ملوّث کرنے سے سی بی آئی کو بازرکھے۔ اس نے اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ ( اگر آئی بی کا افسر ملوث پایا گیا تو) اس سے ’قومی تحفظ‘ کے لئے خطرہ پیدا ہوجائیگا۔بھاجپا کے اس اضطراب سے ظاہر ہوتا ہے کہ دال میںکچھ کالا ضرور ہے۔ وہ اس معاملے میں بھی جھوٹ کو سچ اورسچ کو جھوٹ بتاکر سیاست کررہی ہے۔راجیہ سبھا میں پارٹی کے قائد مسٹر ارون جیٹلی نے ’پارٹی کی ویب سائٹ پراپنے بلاگ میں لکھا ہے، ڈی جی ونزارا سے تفتیش کے پس پشت دراصل مرکز کو’ پاگل پن کے حد تک مودی کا خوف‘ (مودی فوبیا) ہے۔‘ حیرت کی بات یہ ہے انہوں نے یہ بیان گووا کانفرنس کے بعد دیا جس کے بعد یہ صاف ہوگیا ہے کہ مودی سے اب یو پی اے کے خوفزدہ ہونے کا کوئی قرینہ باقی نہیں رہا ہے ، اب اگر ان سے کوئی خوفزدہ ہے تو وہ پارٹی کے اندر کے ہی لوگ ہیں۔

مسٹر جیٹلی سے قبل بھاجپا کی خاتون ترجمان نرملا سیتا رمن نے الزام لگایا تھا کہ یو پی اے سرکار آئی بی کا استعمال اپنے سیاسی مفاد کے لئے کررہی ہے۔اس جرم کے ایک کلیدی ملزم ڈی جی ونزارا کو بھی سی بی آئی نے اسی دوران اس کیس میں گرفتار کیا اور پوچھ تاچھ کی۔ خیال کیا جاتا ہے کہ مسٹر ونزارا کو مودی کی سرپرستی حاصل تھی۔ چنانچہ مودی بھی بلبلا اٹھے ہیں۔ انہوں نے اپنے ٹوئیٹ پر لکھا ہے کہ’ بدقسمتی کی بات ہے کہ اپنے سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے کے لئے مرکز خفیہ نظام کو تباہ کررہا ہے اور سی بی آئی اب آئی بی افسران سے پوچھ تاچھ کررہی ہے۔‘

مرکزی وزیر مالیات پی چدمبرم نے، جو اس سے پہلے وزیرداخلہ تھے، بھاجپا کے ان بیانات کو ’سی بی آئی کی تفتیش میں انتہائی مذموم مداخلت ‘قراردیا ہے۔ انہوں نے یہ واضح کیا ہے کہ یہ جانچ سپریم کورٹ کی ہدایت پر اسی کی نگرانی میں چل رہی ہے۔ مرکز کا اس میں کوئی رول نہیں۔گجرات کے بعض پولیس افسران اور آئی بی کے سابق افسر سے پوچھ تاچھ سی بی آئی کا فیصلہ ہے۔ اس کے لئے یوپی اے سرکار کو کیوں کوسا جارہا ہے؟‘ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ آئی بی پر یہ الزام لگتا رہا ہے کہ وہ دہشت گردی کے معاملات میںجانچ کو ایک خاص رخ دینے کی کوشش کرتی ہے جس سے سنگھ پریوار کے مقاصد کی تکمیل ہوتی ہے اور اقلیتی فرقہ پر داغ آتا ہے۔

اعتراض آئی بی نے بھی کیا ہے اور وہی پرانی دلیل دی ہے کہ اس کے ایک افسر کے خلاف تفتیش سے آئی بی افسران میں بددلی پیدا ہوگی اور ان کی حوصلہ شکنی ہوگی۔ بی جے پی اور آئی بی دونوں کی شکایتوں کا عندیہ یہی معلوم ہوتا ہے قانون کے تقاضے پورے کئے بغیر اس معاملہ کو یہیں دفنادیا جائے ۔آئی بی کے ڈائرکٹر آصف ابراہیم نے مسٹر کمار کے معاملے میں پی ایم او آفس سے باظابطہ شکایت کی، جس کے بعد داخلہ سیکریٹری مسٹر آر کے سنگھ نے مسٹر آصف ابراہیم اور سی بی آئی کے ڈائرکٹر رنجیت سنہا کو اپنے دفتر میں طلب کیا۔ مسٹر سنہا کا اصرار ہے : ’ہمارے پاس شواہد ہیں اور ہم قاعدے قانون کے مطابق کام کررہے ہیں۔‘ تاہم ان کو یہ یقین دہانی کرانی پڑی کہ ’قومی مفاد‘ میں مسٹر کمار کو گرفتار نہیںکیا جائیگا، چنانچہ آئی بی جانچ میںتعاون دینے پر آمادہ ہوگئی ، جس کے نتیجہ میںمسٹرکمار دوسرے دور کی پوچھ تاچھ ہوسکی ۔لیکن لگتا یہ ہے کہ سی بی آئی ان کو گرفتارکرنے سے گریز کریگی۔ اگر کیا گیا تو آئی بی کے ان افسران میںیقینا عدم تحفظ کا احساس پیدا ہوجائیگا جن سے دیگر مقاصد کے تحت فرضی کاروائیاں (covert operation) کرائی جاتی رہیں۔اس ضمن میں مسٹر کمار کی یہ دلیل مضبوط ہے کہ کوئی الرٹ جاری کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ پولیس فرضی انکاﺅنٹر کردے۔ گجرات میں۲۰۰۲ ءکی مسلم کشی کے بعد جو انکاﺅنٹر ہوئے ان سب میں پولیس نے دعوا کیا کہ مقتولین مودی کو قتل کرنے کے ارادے سے آئے تھے۔ ظاہر ہے اس کا فائدہ مودی کو پہنچا جو آج بھاجپا کے سب سے چہیتے لیڈر ہیں۔

یہ سوال بڑا اہم ہے کہ عشرت جہاں قتل کیس میں مسٹر کمار نے جو کردارادا کیا وہ ان کا ذاتی معاملہ ہے یا ان کی یہ کارگزاری کسی طے شدہ پالیسی کا حصہ تھی ؟ اگرچہ مسٹر آصف براہیم نے داخلہ سیکریٹری سے کہا ہے کوئی وجہ نہیں کہ مسٹر کمار نے اس گناہ میں گجرات پولیس کے ساتھ ساز باز کی ہو، کیونکہ مسٹر کمار ایک سینئر افسر ہیں، ان کو اس جرم میں شریک ہونے سے نہ کوئی مالی فائدہ ہونا تھا اور نہ ترقی کا امکان تھا۔ پھر وہ منی پور کیڈر کے افسر ہیں، گجرات پولیس سے ان کو کیا سروکار؟

بظاہر ان دلائل میں وزن ہے مگر دو وجوہ سے مسٹرکمار پر شک کیا جاسکتا ہے۔ اول یہ کہ مسٹر مودی سے،جوآر ایس ایس کے پروردہ ہیں،مسٹر کمار کی ذہنی وابستگی کے امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ آج ملک کے ہرشعبہ میں ایسے افسران موجود ہےں جن کی ذہانت کوبھانپ کر آرایس ایس نے طالب علمی کے دور سے ہی اپنی آئڈیا لوجی سے ہم آہنگ کرلیا ۔ فوج کے اعلا افسر کرنل پروہت اس کے ادنیٰ مثال ہیں۔ ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد بڑی تعدادمیں افسران کا بھاجپا میں شریک ہونا بلا سبب نہیں۔ یہ وہ افسران ہوتے ہیں، جو طالب علمی کے دورمیں ہی سنگھ کی آئڈیالوجی سے متاثرہوجاتے ہیں اور دوران ملازمت اس کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ ملک میں خانہ ساز دہشت گردی کی جو رو چلی ، جس میں اب سنگھ پریوار کا ہاتھ ہونے کے ثبوت سامنے آرہے ہیں، ان سب کا ایک ہی مقصد تھا کہ ایک مخصوص طبقہ کے خلاف ملک میں نفرت کا ماحول بناکر سنگھ پریوار کو تقویت پہچائی جائے تاکہ اقتدار پر اس کے قبضہ کی راہ آسان ہوجائے۔ اسی لئے بابری مسجد گرائی گئی ،اسی لئے سمجھوتہ ایکسپریس، مکہ مسجد، درگاہ اجمیر شریف ، مالیگاﺅں وغیرہ میں دھماکے کرائے گئے اور ایک منظم انداز میں آئی بی میں بیٹھے ہوئے سنگھ نواز افسران ان حرکتوں کولشکر، حوجی، سیمی، جیش اور آئی ایم وغیرہ سے منسوب کرکے اصل مجرموں کو بچاتے رہے جس کی بدولت عشرت انکاﺅنٹر میں آئی بی افسر پر شک کیا جاسکتا ہے۔دیکھنا یہ چاہئے کہ انہوںنے جو کردار ادا کیا وہ ان کا انفرادی معاملہ تھا یا کسی وسیع تر پلان کا حصہ تھا؟

مہاراشٹرا کے سبکدوش آئی جی پولیس مسٹر ایس ایم مُشرف نے ممبئی حملے کے بعد اپنی شہرہ آفاق کتاب ’کرکرے کے قاتل کون؟‘ کا باب دس’ آئی بی کے خلاف چارج شیٹ‘ کے عنوان سے مرتب کیا ہے جس میں ۲۲ نکات کے تحت آئی بی کی اس طرح کی کارگزاریوں کی نشاندہی کی ہے۔ چنانچہ دہشت گردی کے کسی ایک معاملہ میں آئی بی کے کسی افسر کا نام آجانا کوئی حیرت کی بات نہیں، حیرت کی بات یہ ہے خاطی افسران کے رول پر اب تک پردہ کیوں کر پڑا رہا؟اور اب اٹھا تو بھاجپا میںہڑکمپ کیوںمچا؟

آئی بی ڈائرکٹر جس طرح کھل کر کمار کی تائید میں آئے ہیں، اس سے ان کی تشویش کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ یقینا کسی محکمہ کے ایک اعلاافسرپر انگلی اٹھنے سے اس کی ساکھ خراب ہوتی ہے ۔قومی اور بین اقوامی پس منظر میں آئی بی کی ساکھ کا مطلب سرکار کی ساکھ بھی ہے۔ اس کی حفاظت بہر حال ہونی چاہئے لیکن اس کا درست طریقہ یہ نہیں کہ خطاکارعملے کی پشت پناہی اور اس کی پیروی کی جائے بلکہ اس کے لئے عملے کو سختی سے قانون کے دائرے میںرہ کر کام کرنا ہوگا۔ اس کے باوجود اگر کوئی افسرکسی دباﺅ ، لالچ یا اپنی طبیعت کے رجحان کی بدولت کوئی کام خلاف قانون کرتا ہے تو اس کی سرزنش ہونی ہی چاہئے۔ پچھلی لغزشوںپر اسی صورت میںپردہ پڑ سکتا ہے کہ سابق کیسوںکی تفتیش میں اور آئندہ پیش آنے والے ہر ملک دشمن واقعہ میں جانچ حقائق کی بنیادوں پر ہو، مفروضوںکی بنیادوں اور کسی ایک فرقہ کو مطعون کرنے کی نیت سے نہ ہو، اور اس اصول پر عمل ہو کہ کوئی بے خطا پھنسایا نہ جائے اور کسی خطاکار کو بچایا نہ جائے۔ (ختم)
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 164862 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.