ڈاکٹر کیس میں سوال یہ ہے کہ۔۔؟ شریف برادران کو نوٹس لینا چاہئے

اپنی کُچھ نجی مصروفیات سے فراغت پانے کے بعدگذشتہ روز جب میں نے اپنا ای میل اِن بوکس کھولا تو میسجز کی ایک لمبی لائن لگی ہوئی تھی اس لائن میں سب سے پہلی میل تھی اِس کی میسج باڈی کے ساتھ ڈی سی او پاکپتن کو کی جانے والی ایک میپکو رپورٹ اور اِسی ہی ضلع کے تھانہ ملکہ ہانس میں آر ایچ سی ملکہ ہانس کے میڈیکل آفیسر کے خلاف درج ہونے والی ایک ایف آئی آر کی کاپی بھی اٹیچ تھی ،اب سب سے پہلے تو میں اِنچارج فیڈرایم اقبال بھٹی کی جانب سے ڈی سی او پاکپتن کو کی جانے والی اِس میپکو رپورٹ اکاونٹ نمبری 07-15525-0380100کا متن عرض کر تا ہوں پھر ایف آئی آر اور اُس کے بعد اِصل کہانی،

رپورٹ میں فیڈر انچارج کا موقف تھا کہ: 15/06/2013کی شام مُجھے میرے ایکسین واپڈا پاکپتن نے فون کیا کہ ڈی سی او پاکپتن اِس وقت آر ایچ سی ملکہ ہانس موجود ہیںآپ وہاں جائیں،جَب میںوہاں پہنچا تو ڈی سی او نے اپنے دو ملازمین میرے ساتھ بھیجتے ہوئے مُجھے حکم دیا کہ ڈاکٹر کی سرکاری رہائش گاہ کی طرف جاتی ہوئی اِس تار کو چیک کریںمیں نے تار کی چیکنگ کے دوران تار ہسپتال کے بجلی میٹر سے لگی پائی جِس سے واپڈا کا کوئی نقصان نہ ہورہا تھا کیونکہ بِل ہسپتال کے کھاتہ سے ادا ہورہا ہے لہذا مناسب کاروائی کیلئے رپورٹ حاضر ہے ،

اب بات کرتے ہیں الیکٹرک سِٹی ایکٹ 39/Aکے تحت ڈی او ہیلتھ پاکپتن ڈاکٹرعبدلعزیز کی مدعیت میں درج ہونے والی ایف آئی آر نمبری202/13کی جِس کی تحریریہ ہے کہ: میں آج مورخہ 15/06/2013کی شام برائے معائنہ آر ایچ سی ملکہ ہانس پہنچادوران انسپکشن معلوم ہواتو مشاہدہ کرنے پرپتہ چلاکہ ہسپتال ہذا کے میٹرسے میڈیکل آفیسر کی سرکاری رہائش گاہ کو بجلی کی سپلائی بذریعہ غیر قانونی تار ہو رہی ہے جِس کی رپورٹ میپکو ملازم نے بھی کی ہے لہذا رپورٹ کی روشنی میں ضابطہ کی کاروائی کی جائے ،

رہی بات اِس کیس کے جھوٹے یا سچے ہونے کی تو میرے خیال میں یہ رپورٹ اور ایف آئی آر حاضر دماغی کے ساتھ پڑھنے کے بعد صحیح حقائق تک پہنچنے کیلئے مزید کِسی انویسٹی گیشن کی کوئی ضروت باقی نہیں رہتی کیونکہ شناخت کرنے والے سچ اور جھوٹ کی شناخت الفاظ اور اِن سے بنی تحریر سے ہی کر لیتے ہیںمگر افسوس کہ ہمارے ہاں کرپشن کا بازار گرم رہنے کے سبب سچ کِسی کو نظر ہی نہیں آتا ، اگر ایسا نہیں تو اِس کیس میں واپڈا رپورٹ کے مطابق بجلی چوری کی شکایت کِسی مقامی باسی مخبر کی جانب سے میپکو کے ٹال فری نمبر 080084338پر کرنے کی بجائے ضلع کا ایک ذمہ دار آفیسر ڈائریکٹ ایکسین واپڈا کو کیوں کر رہا ہے؟

اور پھِر ڈی سی او کو بھی بجلی چوری ہونے کا خواب تو نہیں آیاآخر اُسے بھی تو کِسی نے شکایت کی ہی ہوگی ،کیا شکایت کندہ ڈی سی او کو شکایت کرنے کی بجائے ڈائریکٹ میپکو کے شکایات سیل پر کیوں نہ کر سکا؟ اگر اُس کے پاس شکایات سیل نمبر نہیں تھا( جو آئے روز اخبارات کی زینت ہوتا ہے )توڈی سی او کا نمبر کہاں سے آگیا ؟جبکہ تیسرا سوال یہ ہے کہ کوئی بھی مخبر نہیں چاہتا کہ اُس کی مخبری کا راز سیغہ راز میں رہنے کی بجائے منظرِ عام پر آئے جِس سے اُس کی متعلقہ بندے سے دشمنی پڑے مگر محفوظ ترین میپکو نمبر استعمال کرنے کی بجائے ڈی سی او کو مخبری کرنے والے نے یہ دیدہ دلیری کیسے کرلی؟ اور چوتھا سوال ہے کہ تار کی چیکنگ کیلئے فیڈر انچارج کے ساتھ ڈی سی او اپنے دو بندے بھیج رہا ہے جیسے تار کی بجائے کوئی گائے بھینس چیک کرنی ہو ،کیا واپڈا ملازم کے کہیں بھاگنے کا کوئی خدشہ تھا؟اب سب سے اہم اور آخرری سوال یہ ہے کہ فیڈر اِنچارج نے اپنی رپورٹ میں تار کو بجلی کی سپلائی ہسپتال کے میٹر سے ہونے کی تو تصدیق کر دی مگر یہ تصدیق کیوں نہیں کی کہ ہسپتال کے میٹر سے اِس تار کے ذریعے آنے والی بجلی ہسپال کی سٹریٹ لاٹ پر صرف ہو رہی ہے یا اِس سرکاری رہائش گا کے اندر ؟

خیر تار کی چیکنگ کے بعد فیڈر انچارج اپنی رپورٹ میںجب ڈی سی او سے یہ کہہ کر مقدمہ کی مدعیت اختیار کرنے سے انکار کر دیتا ہے کہ واپڈا کی بجلی چوری نہیں ہورہی لہذا مناسب کاروائی کیلئے رپورٹ حاضر ہے مدعیت اختیار کرنے کیلئے تب ڈی او ہیلتھ کا نزول ہوجاتا ہے مگر مقدمہ کے اندراج کیلئے تھانہ مہتمم کو دی جانے والی تحریری درخواست میںایک موقف وہ بھی اختیار نہیں کر پاتا ،اپنے پہلے جملے میں تو وہ کہہ رہا ہے کہ دورانِ انسپکشن مُجھے معلوم ہوا کہ یہاں یہ یہ ۔۔۔۔ہو رہا ہے اور آخری جملہ میں رپورٹ کے مطابق کاروائی کیئے جانے کی استد عا کر دیتا ہے،

اب یہاں سوال اِس بات کا ہے کہ اگر ڈی او خود معلوم کرنے کا جملہ لکھ کر تصدیق کرہی بیٹھا ہے تو پھِر اِسے رپورٹ کی روشنی میں فوجداری کاروائی کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے ،رپوررٹ کی روشنی کا مطلب تو پھِر یہی ہوا کہ اُس نے خود کُچھ نہیں دیکھا وہ کِسی مخصوص دباﺅ کے تحت (دورانِ انسپکشن مُجھے معلوم ہوا) کا جملہ لکھ کر ڈاکٹر کے خلاف مقدمہ کے اندراج کی اِجازت دے رہا ہے ،اگر اُس نے خود دیکھا ہوتا تو سب سے پہلے وہ اپنی محکمانہ کاروائی کرتا اور الزام ثابت ہونے کے بعد اِس کے خلاف کوئی کاروائی عمل میںلاتا،مگر یہاں ایسا اِس لئے نہیں ہواکہ جِس تار کا سرکاری رہائش گاہ پر جانا شو کیا گیا ہے حقیقت میں وہ تار اِس سرکاری رہائش گاہ کے قریب واقع سٹریٹ لائٹ کو جارہی تھی،دوسری بات یہ کہ ڈاکٹر کی ذاتی رہائش گاہ ہسپتال سے صرف آدھے کلو میٹر کی دوری پرہونے کے سبب یہ سرکاری رہاش گا اِس کے استعمال میں نہ تھی،اب رہی بات کرپشن یا فرائض میں غفلت کی تو ڈاکٹر مذکور اپنے اِس ابائی شہر میں اپنی اور اپنے اباﺅ اجداد کی شہرت کو نقصان پہنچنے کے سبب یہ برداشت نہیں کرتا تھا،اور ایسے صاف سُتھرے بندے کو لوگ تو برداشت کر لیتے ہیں مگر اُس کے اعلیٰ افسران برداشت نہیں کرتے کیونکہ نیچے کرپشن ہوگی تو حصہ اوپر جائے گا ورنہ نہیں،اِسی ہی لئے تو خاص خاص علاقہ جات جات میںوہ اپنے خاص خاص لوگوں کو تعینات کرنے کیلئے کوشاں رہتے ہیں ،اور یہ کیس بھی اِسی ہی سِلسلہ کا ایک حصہ ہے ،جبکہ قوم ایسی کوششیں کرنے والوں کے خاتمہ کیلئے خوشاں رہتی ہے،

اِسی لئے تو اُنہوں نے اپنے اپنے ملک کی باگ ڈوراب شریف برادران کو تھما ئی ہے اگر و ہ بھی قوم کی اِن اُمیدوں پر پورا اُترتے ہوئے ایسے عناصر کا خاتمہ کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے تو پھِر مستقبل میں یہ لیڈر کہلانے تو بہت دُر کی بات اچھے حکمران بھی نہ کہلا سکیں گے ،اب فیصلہ اِن کے ہاتھ میں ہے اب دیکھتے ہیں کہ وہ کیا اقدامات اٹھاتے ہیں(فی ایمان ِاللہ) ۔

Muhammad Amjad Khan
About the Author: Muhammad Amjad Khan Read More Articles by Muhammad Amjad Khan: 61 Articles with 38529 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.