عورت ھمارے معاشرے میں

بچوں کی ولادت میں انسان کا اپنا کوئی کمال اور کردار نہیں،بلکہ یہ کائنات قدرت کا متعین طریقہ ہے جس کی تکمیل مرد وزن دونوں سے ہوا کرتی ہے بچہ ہو یا بچی دونوں کی پیدائش عورت کے بطن ہوتی ہے نہ کہ مرد کے۔۔اس لئے تخلیق کائنات میں جو رنگ وحسن ہے وہ عورت کے وجود سے ہے ۔یقیناً اگر عورت نہ ہوتی تو دنیا ویران و بیابان ہوتی،ان دونوں کی پیدائش کے بارے میں اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں۔ ْ وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے،جسے چاہتا ہے لڑکیاں دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے لڑکے دیتا ہےٗ

لڑکے اور لڑکیاں دونوں کو اللہ تعالٰی نے پیدا کئے ہوئے ہیں پس ایک کو دوسرے پر کوئی فوقیت نہیں ۔! لیکن آج ہماری معاشرے میں یہ رواج عام ہوچکی ہے کہ لڑکے کی پیدائش پے توبڑے دوم دام اور جوش وجذبہ کے ساتھ خوشیاں منائی جاتی ہیں اور ایک دوسروں کو خوشخبریاں دی جاتی ہیں۔اپنے عزیز واقاراب ،دوست احباب اور رشتہ داروں کو فرح دلی سے دعوت پر مدعو کیا جاتا ہے بوڑھے اور نوجوان سبھی اپنی بندوقوں سمیت خوب رقص و ناچ گانے۔۔اور بے جا فائرنگ کرکے ہزاروں کا نقصان کرتے ہیں جبکہ کسی گھر میں لڑکی کی ولادت باسعادت ہو۔جس کی ولادت پر آقا دو جہاں نبی کریمﷺ نے رحمت کی نوید سنائی ہے۔

تو بیوی پر تہمتیں اور لعنتیں بھیجی جارہی ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان پر غم و اندوھ کے پہاڑ ٹوٹے ہیں ، ان کے عزیز واقاراب میں سے جن کو معلو م ہوتا وہ بھی آفسوس کا اظہار کرتے ہیں بعض احمق قسم کے لوگ یہاں تک کہہ دیتے ہیں ْکہ آندھی آئی مینہ بھی برسے گا یعنی لڑکی کے بعد اب لڑکا بھی پیدا ہوگا ۔لڑکے اورلڑکیاں پیدا کرنا یہ تو اللہ رب العزت کی شان ہے انسان کی اپنی اختیار میں نہیں! بس انسان کو اپنے ربّ سے نیک و صالح اولاد کی فرمائش کرنی چاہیے ۔اللہ تبارک وتعالٰی کے ہاں شرف و عزت کے لئے مرد متعین نہیں!! اللہ تعالی نے بعض عورتوں کو بہت بڑی فضیلت سے نوازا ہے ْکہ حضرت مریم ؑ،حضرت خدیجۃالکبری،ام بتول حضرت فاطمہ،ام المؤمنین سیدہ طاہرہ حضرت عائشہ ،اور فرعون کی بیوی حضرت آسیہ،کو اللہ رب العزت نے بلند وبالا مقام عطاء فرمایا ہے۔

جی ہاں ،اگر کسی کے ہاں سب نرینہ اولاد ہو اور نافرمان ہوتو پھر وہ والدین ،عزیز اقاراب اور پورے معاشرے کے لئے ایک درد ناک عذات سے کم نہیں!!کیونکہ ہمارے معاشرے میں روز مرہ ایسے واقعات پیش آتے ہیں ۔اخبار وجرائد میں یہ خبریں اور رپوٹیں عام دیکھنے میں آتی ہیں جبکہ ہر فرد اپنے گردوپیش کے احوال پر غور کریں تو یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ جوان بیٹے اپنے والدین کو زدوکوب کے تحائف سے ان کا جینا دو بھر کر دیتے ہیں اور ان کے ساتھ وہ سلوک کیا جاتا ہے جو کسی انسان کے ساتھ بھی روا نہیں !!عام طور پر اس ظلم وبربریت کا شکار ماں ہی ہوجاتی ہے کیوں کہ ماں بیچاری ناتواں اور بے بس ہوتی ہیں جس کی وجہ۔۔بلکہ مشاہدے کی بات ہے کہ جب ایک بچہ اپنے باپ کو عورتوں پر حکمرانی کرتے ہوئے دیکھتا ہے تو وہ بیٹا نوجوانی کی سیڑھی پر قدم رکھتے ہی اپنے باب کے نقش قدم پر چلنے کی سعی کرتا ہے اور ہوش سمبھالتے ہی وہ ماں کی فرمانبرداری کرنے کی بجائے ماں کو محکوم رعیت تصور کرتا ہے اور ماں پر حکمرانی اور ظلم کے نت نئے طریقے ایجاد کررہا ہوتا ہے اور یہ حالت بلوغت کو پہنچتے ہی اپنے آپ کو عورت ذات پر ایک حاکم سمجھتا ہے اور یہ ابتدائی کا اثر تا حیات باقی رہتا ہے اور عورت کو محتاج اور حقیر شئی تصور کیا جاتاہے اس لئے عورت کو مرد کے تمام ناجائز نخرے بھی اور مظالم بھی برداشت کرنا پڑتا ہے جبکہ ماں بے چاری تو دل میں امید و رجائی کے سپنے دیکھتی ہے کہ بیٹا جوان ہوا ہے اب زندگی آرام وراحت سے گزرے گی اور سکھ کا سانس لیں گے موج ہی موج ہوں گے مگر اس اللہ کی بندی کو کیا معلوم کہ اس کا لارڈلااور جگر کا ٹکڑا اس کی فرمان برداری تو کیا وہ تو رسول پاکﷺ کی فرمان برداری سے بھی دست کش ہوتا جارہاہے کہ پیارے نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے۔

ْاِنّ اللہ حرّمَ علیکم عقوق الامھاتٗ:بے شک اللہ تعالٰی نے تم پر ماؤں کی نافرمانی حرام ٹھرائی ہے : اور ہمارے معاشرے میں یہ رسم عام رائج ہوچکا ہے کہ والدین نے اپنی خون پسینے کی کمائی سے بیٹے کی شادی کر لی ۔اور شادی کے ایک دو ماہ بعد اس نے والدین کو خیر باد کہتے ہوئے انہیں بے سہارا چھوڑ کر الگ تھلگ رہنے لگا۔قارئین حضرات آپ بھی اپنے گرد ویش نظریں دوڑائے تو یہ بات عیاں ہوگی کہ ماں کی حثیت ایک خاموش آیاکی سی نظر آئے گی۔بہت کم ایسے خوش نصیب ہیں جو اپنے والدین کی خدمت کو اپنا فرض سمجھتے ہوئے ان کی خدمت خوش اخلاقی سے کرتے ہیں۔جبکہ اکثر عام معاملات میں بھی ماں کی رائے کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی ہے بلکہ بعض اوقات گھریلوے امور میں اس سے مشورہ لینا ضروری ہوتا ہے باوجود اس کی رائے کو نظر انداز کیا جاتا ہے بلکہ بعض علاقوں میں اس سے مشورہ لینا اناکے خلاف اور عار سمجھی جاتی ہے ۔

اگرچہ ہمارے ہاں اکھٹے رہنے کا تصورابھی باقی ہے بظاہر تو یورپی ممالک کی طرح ْاولڈ پیپلز ہاؤس میں بوڑھوں کو دھکیلنے کا رواج نہیں ہے مگر اندرونی حالات کا جائز لیا جائے تو والدین کے حقوق کو پاؤں تلے روندتے ہوئے ان کے ساتھ جو سلوک برتا جارہا ہے کہ بوڑھے والدین کو الگ تھلگ رہنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور خود ان کی خدمت کرنے کو ہر کس وناکس حضرات عار سمجھتے ہیں اور جوصاحب استطاعت کےساتھ قابل رحم والے ہوں تو وہ ان کے لئے ملازمین رکھتے ہیں تاکہ وہ ان کی دیکھ بھال کریں اور والدین کو اپنے معاملات سے بالکل جدا کیا جاتا ہے ان کے مشوروں کو نظر اندازکیا جاتا ہے۔والدکی پھر بھی سنی جاتی ہے مگر والدہ کو زندگی کے ہر معاملے میں نظراندازکیا جاتا ہےآفسوس کہ آج کا مسلمان مغربی تقلید میں اتنا آگئے بڑھ چکا ہے کہ اسلام کی زندہ ودرخشاں روایات اور احکامات کو بھلا بیٹھے ہیں کاش کہ ہمیں یہ سمجھ آجائے کہ اللہ تعالی نے۔۔اور سرکار دو عالمﷺ نے عورت کو جو خاص مقام سے نوازا ہے۔ کہ عورت ماں ہے تو اس کے پاؤں تلے جنت ہے ،بیوی ہوتو آپ کی حمیت اور غیرت ہے ، بیٹی ہوتو سرا پا رحمت ہےاور بہن ہے تو آپ کی عفت ہے ۔اللہ رب العزت ہمیں دین اسلام کو صحیح معانوں میں سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطاء فرمائیں۔
"آمین ثم آمین"

tamver haqqi
About the Author: tamver haqqi Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.