دیامیر میں قتلِ عام دہشت گردی یا پڑوسیوں کی سازش

پچھلے بارہ تیرہ سال سے پاکستان جن مشکل حالات سے گزر رہا ہے اس نے پوری قوم کو ایک ذہنی عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے بلکہ ہر آنے والا دن مزید مشکلات لے کر آرہا ہے اور ہر نیا واقعہ پچھلے سے زیادہ اعصاب شکن ہوتا ہے ۔ صرف پچھلے چند دن کے واقعات پر ہی نظر ڈالیے کوئٹہ میں یونیورسٹی طالبات پر حملہ اور شہادتیں، زیارت میں قائداعظم ریزیڈنسی پر حملہ، مردان میں نماز ِجنازہ پر حملہ اور شہادتیں، پشاور میں مسجد میں نمازِجمعہ پر حملہ اور شہادتیں اور کراچی میں تو بربریت اور ظلم کا کوئی شمار نہیں قوم ابھی ایک حادثے سے سنبھلتی نہیں کہ دوسرا سانحہ ہو جاتا ہے ۔ اب کی بار تو ظالموں نے اُن پہاڑوں کو بھی نہ چھوڑا جہاں موسم کے علاوہ دوسرا دشمن نہیں ہوتا ۔ نانگا پربت پر گیارہ سیاحوں کا قتل ایک ایسا لرزہ خیز واقعہ تھا جس نے پوری قوم کو ایک بار پھر ہلا دیا اور حسب معمول طالبان نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کر لی ۔طالبان جو کہتے ہیں کہ وہ دین اور خلافت کے لیے لڑ رہے ہیں نے اُس دین کے پُر امن ہونے کے نظریے کی دھجیاں بکھیر دیں جو اپنے شہریوں سے زیادہ غیر ملکی اور غیر مسلم شہری کی حفاظت کی ضمانت دیتا ہے، جس دین نے زمین میں سیر کرنے اور عبرت حاصل کرنے کا حکم دیا ہے تو کیا واقعی طالبان کی جنگ کا مقصد وہی ہے جو وہ کہتے ہیں اور انہیں کہیں اور سے ہدایات نہیں ملتیں اور آخر وہ تیرہ ہزار فٹ کی انتہائی مشکل اور برفانی چوٹیوں تک پہنچ کیسے گئے، گلگت سکاوٹس کے یو نیفارم کیسے حاصل کیے، وہاں رہے کیسے اور ان نہتے لوگوں کو مار کر کونسا کارنامہ سرانجام دیا۔ اللہ کرے حکومت اِن سب سوالات کے جوابات ڈھونڈ سکے کہ یہ علاقے اس قدر پُر امن علاقے ہیں کہ یہاں جرائم کی شرح انتہائی کم ہے۔مجھے اپنے بچپن کا ایک واقعہ یاد ہے کہ گلگت شہر میں غلطی سے پستول چلا اور فائر ہوا تو بے شمار لوگ اکٹھے ہو گئے اور اگلے دن بھی پوچھا جاتا رہا کہ فائر کس سلسلے میں ہوا او ر یہ سوال ثبوت تھا یہاں کے لوگوںکی پُر امن فطرت کا اور آج جس مقام پر یہ اندوہناک واقعہ ہوا ہے وہاں تو ایسا ہونا اور بھی نا قابل یقین ہے۔ ذمہ داری تو قبول کر لی گئی لیکن قابل غور کچھ اور باتیں بھی ہیں کہ آخر اِن غیر ملکیوں کو کیوں نشانہ بنا یا گیا کیا اس لیے کہ دوست ممالک سے تعلقات خراب ہوں، چین کے پاکستان میں ترقیاتی کاموں کو بند کروایا جا سکے ،کہیں گوادر کا دکھ تو نہیں نکالا گیا ،یا ارونا چل پر دیش میں چلتی ہوئی بھارت چین نا چاقی کو ہمالیہ سے قراقرم منتقل کرنے کی کوشش تو نہیں کی گئی ۔ گوادر پر تو بھارت پہلے بھی کافی ناراضگی کا اظہار کر چکا ہے حالانکہ تب بات صرف بندرگاہ کی تعمیر میں چینی تعاون کی تھی جبکہ اب تو یہ ناراضگی زیادہ شدید ہے کہ گوادر کے انتظام کو تو چین کے حوالے کر دیا گیا ہے اور یوں بھارت جو خود کو Shining India اور Riasing India کہہ کر سپر پاورز کی صف میںشامل کرنا چاہتا ہے اس کو اپنا خواب مشکل میں پڑتا ہوا محسوس ہو رہا ہے اور وہ ہر قیمت پر پاکستان اور چین کے تعلقات کو خراب کرنا چاہتا ہے اور فیری میڈوز جیسے ظالمانہ واقعات کرنے سے بھی نہیں چونکتا۔

اس واقعے کا ایک اور پہلو بھی ممکن ہے جس کی طرف شاید کسی نے دھیان نہ دیا ہو اور شاید میری اس بات کو اب بھی بہت سارے لوگ درخوراعتنائ نہ سمجھیں لیکن ماضی کو مدنظر رکھ کر اسے بعید از قیاس نہیں سمجھنا چاہیے ۔ پچھلے کچھ مہینوں میں بھارت میں سیاح خواتین کے ساتھ بد سلوکی کے کچھ ایسے واقعات پیش آئے کہ کچھ ملکوں کو اپنی خواتین کو ہدایات جاری کرنا پڑیں کہ وہ بھارت جانے سے گریز کریں ۔ صرف 2013 میں ایسے کئی واقعات ہوئے جن میں یورپ سے آنے والی سیاح خواتین کی آبروریزی کی گئی اور اس میں درندہ صفت بھارتیوں نے کسی ملک اور عمر کی تخصیص نہیں رکھی۔ جہاں ایک اڑتیس سالہ سوئس خاتون کو درندگی کا نشانہ بنا یاگیا وہیں ایک نوجوان کورین طالبہ کو بھی اسی سلوک کے قابل سمجھا گیا اور ایک نوجوان آئرش لڑکی بھی انسانیت کے ان دشمنوں کی دست بردسے محفوظ نہ رہی۔ تین جون کو ایک امریکی سیاح کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی گئی ۔ آگرہ میں چھٹیاں گزارنے کی نیت سے آئی ہوئی ایک برطانوی خاتون سیاح نے اپنی عزت بچانے کے لیے ہوٹل کے کمرے سے چھلانگ لگائی اور اپنی ٹانگ زخمی کر بیٹھی ۔ یہ واقعات بھارت میں ایک معمول ہیں اور پانچ سال پہلے ایسی ہی ایک پندرہ سالہ معصوم برطانوی لڑکی جو سکول کی طالبہ تھی کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی گئی اور اسے گوا کے ساحل پر مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا اسی طرح کا سلوک گرو گائوں میں چینی کارکن کے ساتھ کیا گیا۔ اگر چہ یہ واقعات بھارت میں ہوتے رہتے ہیں تاہم 2013 میں اب تک ایسے کم از کم آٹھ دس واقعات ریکارڈ پر آچکے ہیں اور بھارت سیاح عورتوں کے لیے ایک خطرناک ملک قرار دیا جانے لگا ہے اسی لیے سو ئٹزرلینڈ کی حکومت نے اپنی سیاح عورتوں کو بھارت جانے کے خطرناک نتائج سے متنبہ کیا ہے جبکہ بھارت کی شان بے نیازی کا عالم یہ ہے کہ اس کا کہنا ہے کہ اِن واقعات پر واویلا کرنے کی کوئی ضروت نہیں سیاحوں کے ساتھ ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیںتو کہیں ایسا تو نہیں کہ پاکستان میں اپنے کارندوں کو استعمال کیا گیا کہ سیاحوں کے لیے بھارت جیسے بلکہ اس سے بھی بد تر حالات پیدا کیے جائیں کیونکہ سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر اس بلندی تک دہشت گرد اسلحے سمیت کیسے پہنچ گئے ،میں یہ نہیں کہتی کہ بھارتی فوجی بنفس نفیس آئے لیکن ان کی مدد کے اشارے بڑے واضح ہے جو فراہم کی گئی۔ پاکستان کے شمالی علاقہ جات قدرت کے حُسن سے مالا مال ہیں اور دنیا بھر کے سیاح یہاں بڑے شوق سے کھنچے چلے آتے ہیں اور ان کے رنگ برنگ خیمے اس علاقے میں پریوں کے اترنے کی روایت کا منظر پیش کرتے ہیں اور کوہ پیما تو اسے اپنے شوق اور پیشے کی معراج سمجھتے ہیںجب تک وہ ہمالیہ اور قراقرم کی بلندیوں کو نہ چھولیں ان کے شوق کی تکمیل نہیں ہو تی اور وہ سب ان علاقوں کے لوگوں کی امن پسندی ، مہمان نوازی اور محبت کے معترف ہیں میں نے گلگت کے کوہ و دمن میں اور درختوں پر اپنے خیموں میں بے فکری سے اپنی سیاحت کا لطف اٹھاتے سیاحوں کو مقامی لوگوں سے عزت پاتے ہی دیکھا ہے پھر آخر اب ایسا کیوں ہوا۔ تحریک طالبان اس واقعے کی ذمہ داری قبول کر چکی ہے اور یہ کوئی نئی بات بھی نہیں لیکن ضرورت واقعے کی تہہ تک پہنچنے کی ہے کہ تہہ میں کہیں گوادر یا بھارت میں سیاحوں کے ساتھ بدسلوکی تو نہیں کیونکہ مقتول سیاحوں میں بہر حال چینی باشندے بھی شامل تھے،دیگر سیاح بھی دوست ممالک اور پاکستان کے لیے اتنے ہی قیمتی تھے جتنے چینی اور اسی لیے پاکستان کا ہر شخص اس واقعے پر دکھی اور غمگین ہے حکومت بھی پریشان ہے اور سیکیورٹی ادارے بھی، وہ بھارت کی طرح اسے معمول کی کاروائی قرار نہیں دیتے بلکہ اسے اپنے ملک کی بدنامی اور اپنی روایات کے عین خلاف سمجھتے ہیں اور یہی ہمارا اپنے دوست ملکوں کے لیے پیغام ہے کہ ہم بحیثیت قوم ان کی جانوں اور عزت و آبرو کو اپنی ذمہ داری اور اپنے لیے باعث ِ عزت سمجھتے ہیں ۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ اِن دہشت گردوں کو تلاش کرنے اور کیفر کردار تک پہنچانے اور اِن سے حقائق معلوم کرنے میں کسی نرمی اور سستی کا مظاہرہ نہ کرے کیونکہ یہ ہماری قومی عزت کا سوال ہے اور جس طرح اس واقعے کی ہر سیاسی، مذہبی اور عوامی حلقے نے مذمت کی ہے اسے عملی طور پر نظر بھی آنا چاہیے اور قومی ساکھ کو بحال کرنے میں کوئی دقیقہ فرد گزاشت نہیں ہونا چاہیے۔

Naghma Habib
About the Author: Naghma Habib Read More Articles by Naghma Habib: 514 Articles with 513692 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.