سفر نامہ کے ٹو(K2)

دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی K 2 جو نہ صرف اپنی بلندی کے لحاظ سے دنیا بھر میں مشہور ہے بلکہ اسکی خوبصورتی بھی قابلِ دید ہے۔ موسمِ گرما کی آمد کیا ہوئی کہ سیاحوں کی تانتا باندھنا شروع ہو ئی ۔ہر کوئی اسکی بلند وبالا اور برف سے ڈھکی ہوئی خوبصورتی کو اپنی یادوں میں سمیٹنے بڑے جوش و خروش سے سامانِ سفر باندھنا شروع کر دیتا ہے۔گزشتہ موسم گرما میں موصوف کو بھی حسنِ یار نے چین سے بیٹھنے نہ دیا اور اپنی تعلیمی مصروفیات کو پسِ پردہ ڈال کے اسکے ہاں چند دن گزارنے کی خاطر خواہ تیاری کر لی۔متعدد معلومات لینے کے بعد اسلام آباد سے بذریعہ شاہراہِ قراقرم ستائیس گھنٹوں میں گلگت سے ہوتے ہوے سکردو کی پرسکوں فظاؤں میں جھومنے لگی۔مقامی ہوٹل میں قیام کر لی ۔ دن کو ضروری سامان کی خریداری کی۔ سکردو کی مقامی لوگوں کی رہن سہن اور آب و ہوا سے آشنا شروع ہونے لگی ۔دوسری صبح رختِ سفر باندھ کر سکردو سے بذریعہ jeep وادی شگر کو روانہ ہوا۔بل کھاتی ہوئی پرخطر راستوں سے گزر کر 45 منٹ بعد شیگر کی قدرتی حسن سے مالا مال وادیوں میں پہنچ گیا۔حسین سے حسین تر علاقوں کو حسرت بھری نظروں سے دیکھتے ہوے گزر رہے تھے کہ اچانکjeep کو ــا’’اپو علی گون ‘‘ہوٹل کے سامنے کھانے کو روک دیا۔دوپہر کی کھانا کھانے کوصرف چند منٹ ہی لگے۔دوبارہ اپنی اپنی jeep میں سوار ہو کر محوِسفر ہو گئے۔رفتہ رفتہ ہماراقافلہ سفر طے کرتے ہوے اپنی منزلِ مقصود سے چند گھنٹوں کے فاصلے پر رہ گیا۔ہمیں اسقولی جو کہ شیگر کی آخری گاوں ہے جانا تھا۔بہرکیف شام کی اذان سے چند لمحات پہلے ہم اسقولی پہنچ گئے۔ایک دن کی آرام کرنے کے بعد ہم پیدل سفر کرنے لگے۔یہاں سے ہوشے پہنچنے تک پیدل سفر کرنا تھا۔اسقولی سے صبح سویرے نکل کر lunch break کے لیئے koray Fong ڈیرہ ڈال دیا۔لنچ کے بعد سب لوگ اپنی اپنی سامان کو باندھ کر دوبارہ مسافت طے کرنے لگا۔مقامی لوگ یہاں کے جگہوں سے پوری طرح واقف تھے۔جو لوگ اپنی ذریعہ معاش کے واسطے یہاں آتے ہیں انکی ہمت وجواں مردی کی بات ہی کچھ اور تھی۔بہت خوش اور مسرور رہنے کی عادت کسی بھی غیر مقامی لوگوں کی توجہ انکی طرف کرنے میں ذرا سی بھی دیر نہ کرتی تھی۔سات آٹھ گھنٹوں کی مسافت طے کرنے کے بعدرات کی قیام کا بندوبست jolla پر کیا گیا۔ اگلے دن صبح سویرے ناشتہ کرلی ۔کبھی ریت بھری ،کبھی جھاڑیوں سے ڈھکی تو کبھی دریا کنارے ہم آہستہ آستہ اگلی منزل کی طرف رواں تھے۔راستے میں غیر ملکیوں کی بڑی تعداد دیکھنے میں آتا تھا۔ کچھ لوگ k2 کی دیدار ہو کے بہت پرسکون تھے تو کچھ لوگ اسکی چوٹی سر کرنے کی فخر سے جھومتے ہوے واپس جا رہے تھے۔ تو کچھ لوگ اسکی دیدار میں محو سفر تھے۔paju پر ایک دن کی آرام کر لینے کی اطلاع نے سفر کو اور آسان بنا دیا۔ آخرکار تھک ہار کر ہم سب paju پہنچے۔ رات کا کھانا کھارہے تھے کہ tent میں اطلاع آئی کہ کچھ لوگ ڈانس کرنے کی تیاری میں ہیں لہٰذہ آپ لوگ بھی جلدی سے آیں۔ کھانا کسی کو ہضم ہوئی تو کسی کو ڈانس کی شوق نے محفل میں پہنچا دیا۔ دن بھر کی تھکان تو لمحوں میں دور ہوا۔یوں لگا جیسے ہم ســرُ وں کی دنیا میں جھوم سی رہے ہیں۔ مقامی لوگوں کی شوق اور دیوانگی کو شاید ہی میں اپنی لفظوں میں بیاں کر سکوں۔ کچھ لوگ ناچنے میں میں اپنی کمالات دکھاتے رہے تو کچھ لوگ گائیکی میں اپنی اپنی لوہا منواتے رہے۔ ان تمام مناظروں کو میں اپنی کیمرے میں قید کرتا رہا۔لوگ رات گئے تک جھومتے رہے۔Paju سے ایک دن کی آرام کے بعد ردوکس کے لئے روانہ ہوے۔ایک گھنٹے کی مسافت طے کرنے کے بعد بلترو گلیشر پر قدم برجمان کرنے لگے۔اونچی پہاڑوں کی دلکشی قابلِ دید تھی ۔ دریائے شیگر کی ابتدا یادوں میں سمیٹتے ہوے آگے بڑھتے رہے۔ تو دوسری جانب بلترو گلیشر کی ابتدا بھی نظروں میں سماتے گئے۔جوں جوں وقت سمٹتا گیا سفر بھی کم ہوتا گیا۔دوپہر کی کھانے کیلئے خوبورسے پر ڈیرہ جما لیا تھا۔ کچھ ڈرائی فروٹ اور گرین ٹی تھکان کو دور کرنے میں کافی معاون ثابت ہوے۔ شب کی تاریکیاں چھانے کو بس چند ہی گھنٹے تھے کہ ہم Hrdokas پہنچے۔ سطح سمندر سے رفتہ رفتہ بلندی کی طرف گامزن ہمارا قافلہ ردوکس پر اپنی رات گزارنے کا فیصلہ کر چکا تھا۔ چند ہی منٹوں میں tent لگے اور سوپ پینے کو بلوا گیا۔tent کی کھڑکی سے بالکل سامنے trango tower کی خوبصورت چوٹیاں سورج کی آخری کرنوں میں سب سے نمایاں نظر آرہی تھیں۔ سیاحوں کی کثیر تعداد اس منظر سے خوب لطف اندوز ہو رہے تھے۔ان مناظروں کو دیکھ کر ہر کوئی بے ساختہ ،سبحان اﷲ ،ماشااﷲ کہہ رہے تھے۔شام ڈھلتے ہی ایک طرف بلترو کی گلیشر پر جگہ جگہ سے برف کی ٹوٹنے والی آوازوں نے فضاء میں عجیب سی خوفناکی پیدا کی ہوئی تھی تو دوسری جانب خاموشی نے پوری فضاء کو پرسکوں اور ڈراونی سی کیفیت بنارکھی ہوئی تھی۔ شب کی تاریکیاں بڑھتی گئی اور ہم تھکے ہارے کھانے کے بعد خوابوں کی دنیا میں کھو جانے کے لئے اپنی اپنی tentمیں واپس آئے۔صبح سویرے ہم گلیشر سے ہوتے ہوے goro 2 پر رات کا قیام کر لی۔ یہاں سے اگلی منزل محض 5 گھنٹوں کا تھا سے ہماری تمام تر بے چینیاں ختم ہونی تھی۔بہرکیف صبح پھر رختِ سفر باندھ لیا۔برف سے بنی ٹھوس چوٹی جیسی ٹیلے راستے کی خوبصورتی میں اضافہ کر رہے تھے۔پاکستان آرمی کے جوان بھی ملکِ پاکستان کی سرحدوں کی رکھوالی کرنے کیلئے راستے میں اپنی ڈیرہ جمائے ہوے تھے۔ جوں جوں منزل قریب ہوتا گیا k2 کی درشن کیلئے بے چینی بڑھتی گئی۔ہم سب G iv کی بلندو بالا اور برف سے ڈھکی چوٹی کو دیکھ کر اندازہ لگا رہا تھا کہ k2 بھی ایسا ہو گا یا پھر اسکی کچھ اور ہیّت ہو گی۔۔۔۔۔ تھوڑی دیر بعد kankordia پر پہنچا ۔ یہاں سے k2 نظر آنی تھی مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا کہ پوری چوٹی کو بادل میں لپیٹا گیا ہو ا تھا۔ہر کوئی بے چین تھا کہ کب یہ بادل ہٹے اور ہم دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کا درشن کرنے والوں میں شامل ہو جاؤں۔شام کے قریب سرد ہوائیں اور فضاء کی خاموشی میں سورج کی دھیمی روشنی اپنی خوصورتی میں چارچاند لگا رہی تھی۔ رات گئے تک بادلوں کی ہٹنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ چہروں پر امّید کی کرن اور صبح ہونے کی بے تابی لئے ہم k2 کی دامن میں سو گئے۔آدھی رات کو جاگ کر بھی پرکھا مگر بادلوں کی قافلے اسکی پوری جسم کو لپیٹے ہوئے سوئی ہوئی تھی۔دل کو تسّلی دیا اور دن ڈھلنے کا انتظار کرتا رہا۔صبح سویرے جاگ کر tent سے جھانک کر درشن کرنے کے لئیے سر کو باہر نکالا۔ سورج کی کِرنیں سفید چوٹی کی سر پر پڑتی دیکھ کر آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچی ۔ اس لمحے کو شائد ہی میں بھول پاؤں۔خوشی سے پھولے نہ سمایا اور بے ساختہ چیخ رہے تھے ـ۔ہر کسی کو جگا رہے تھے کہ لوگو اٹھ جاؤ اور قدرت کی حسین نظارے کو دیکھنے آجاو۔چند لمحوں بعد لوگوں کا ہجوم جمع ہو ا۔سب لوگ اسکی طرف منہ کر کے انتہائی مودبانہ اندازکے ساتھ اسکی تعظیم میں کھڑی تھیں۔ سب کی ایک اجتماعی تصویر لی گئی ۔ یوں ہمارا خواب بھی یقیں میں بدل گیا ۔ اُس دن سمجھ میں آیا کہ آخر یہ سب لوگ اسکی دیدار کی دیوانی کیوں ہے۔۔۔۔؟
Kamal Anjum
About the Author: Kamal Anjum Read More Articles by Kamal Anjum: 13 Articles with 13813 views I belong to skardu Baltistan and now I am a student of Masters in Educational Planning and Management from NUML Islamabad. 2013.. View More