سوات کی شہزادی

اے ارضِ پاک تجھے کس کی نظر ِ بد لگی۔ کن کن بدگمانیوں میں محوِ ہو، کہاں کہاں تک بدنظمی پھیلی ہوئی ہے، یہ نظام کس حد اپنی ظابطوں اور اصولوں پر عمل پیرا ہے، کہاں ہے وہ نظام جہاں اسلام اور اسلامی ظابطہ کار کی تقدس کا خیال رکھا جاتا تھا۔ لوگ اپنی سفری سامان کو سٹیشن پر کسی بھی اجنبی کے ہاتھ تھام کر مسجد میں سکون سے عبادت کر آتے تھاے۔بسوں میں بزرگ اور معمر لوگوں کیلئے جوان لوگ اُٹھ اُٹھ کر جگہ دیتے تھے اور دعائے خیر لیتے تھے ۔ جہاں لوگوں کا ہجوم سا ہوتا وہاں لوگ ضرور کسی خوشی یا تفریح کیلئے جمع ہوا کرتا تھا۔ جیبوں میں نقدی اور جسم پر زیورات تن کئے ہوئے کوسوں دور تن و تنہا سکون سے سفر کر تے تھے۔ جب کسی کا بٹوا پڑا مل جاتا ،واپس کرنے کیلئے بے چین رہتے۔ بھکاریوں کی اتنی بھرمار نہیں تھیں کیونکہ انکو کبھی بھی لوگ اپنے در خالی ہاتھ جانے نہ دیتے تھے۔ ہسپتالوں ، پولیس چوکیوں ، اور سرکاری دفاتروں میں لوگ اچھی امیدیں لیکر اطمینان سے جاتے اور اپنی کاغذی امور سرانجام دیتے۔ کسی سے کسی بھی نقطے پر شکایت کا سوچتے تک نہیں تھے۔ ہماری قوم کی یہ حالتیں لکھاری کولکھتے ہوئے اور قاری کو پڑھتے ہوئے فخر محسوس ہوتی ہے۔ اور تو اور لوگوں کی حب الوطنی کی تاریخ ہم جنگِ آزادی 1965, 1972, اور کارگل کی جنگوں کے دوراں رقم کر چکی ہے۔ قوم کے سپوتوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ، ساری قوم ایک ہو کر دعا کرتے رہے اور اپنی جوانوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر اظہارِ یکجہتی کا ثبوت پیش کیا تھا۔ اب اس دور میں ملک میں ان تمام سنہری باتوں کا کسی بھی ذریعے سے بہتری کی توقع رکھنا نادانی ہوگی۔راقم موجودہ دور کی خستہ حالی پر تنقید برائے تنقید کی حق میں نہیں ہوں اور نہ ہی میں اعلیٰ درجے کا صاحبِ علم ہوں جو تنقید برائے اصلاح کیلئے لکھوں ۔ مجھے تو حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہونابھی نہیں آتا مگر دل ہی میں کوئی چیز اٹکی سی رہتی ہے۔ نہ جانے عالمی میڈیا کی اتنی توجہ سوات کی صرف ایک ہی امیر گھرانے سے تعلق رکھنے والی امیر زادی پر ہے۔ عالمی میڈیا اور پاکستان کی صحافتی ادارے اتنی معمولی سی واقعے پر ہزاروں کی تعداد میں خبریں ، آرٹیکلز اور تبصرے کر چکے ہیں اور نہ جانے انکی نوخہ خوانی کب نقطہ انجام کو پہنچے گی۔میرا مطلب سوات کی امیر زادی پر ہونے والی حملے پر تنقید کرنا نہیں، ان پر حملے کا دکھ سبھی کو ہے مگر وہ واحد لڑکی نہیں جنکو گولی لگی ہو، بلکہ گولی سے زخمی ہونے والی دوسری سینکڑوں طالبات بھی ہیں ، کچھ طالبات تو اپنی جان تک سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ۔ بلکہ دہشتگردوں کے نشانے کی زد میں کئی دوسری طالبات اب بھی ہیں۔ میرا مطلب قوم کی ہر اُس بہن کے ساتھ ہمدردی کرنے کی توجہ دلانا ہے جو غریب اور نادر خاندانوں سے تعلق رکھتے ہو۔ جو ٹوٹی دیواروں والی سکولوں ، پھٹی دریوں اور ٹوٹی پھوٹی بنچوں پر بیٹھے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ معاشرے کی جاہل لوگوں کی طعنے سنتے ہوئے بھی، جو وردی کی آس دل میں رکھتے ہوئے، ننگے پاؤں احساسِ کمتری کا شکار ہوتے ہوئے بھی، جو دورانِ تفریح اپنی ٹفن سے ٹھنڈی سبزی کو مجبوراً کھاتے ہوئے بھی، جو سکولوں کی گھنٹی بجتے ہی ہر کام کو ترک کر کے حصولِ علم کے لئے درسگاہوں کی جانب قطار در قطار دوڑکر آتے ہوئے بھی، کوسوں دور پھٹی پرانی جوتوں کے بل ، بھوک ،پیاس، دھوپ اور تھکن کو پسِ پشت ڈال کر حصولِ علم کی خاطر بلا ناغہ سالہا سا ل سکولوں کی طرف محوِ سفر رہتے ہیں۔اور نہ جانے کتنے مصائب جھیلتے ہوئے علم کی شمع جلانے کے لئے ہمہ وقت کوشاں رہتی ہے۔ مگر انکی ان تمام مصائب اور مشکلات سے سوات کی اس امیر زادی کا دکھ درد اور کہانی کچھ الگ سی پیش کر رہی ہے۔ ہمیں افسوس اس بات پر ہونی چاہیے کہ ہماری ہزاروں چھوٹی بہنیں علم کی نور سے محروم ہیں اور مسلسل محروم کئے جا رہے ہیں۔ہمیں افسوس اس امیر زادی پر بھی ہوئی جن پر طالبان نے حملہ کیا تھا۔ جو لوگ سوشل میڈیا پر اس امیر زادی کے لئے جو بھی زبان استعمال کر رہے ہیں وہ گویا روایتاً کر رہے ہیں۔ ہمیں ضرور فکرمند ہونی چاہیے لیکن اٹھارہ کروڑہ کی آبادی میں صرف ایک ہی بے نظیر کی شال اوڑھنے کی قا بل لڑکی نہیں ہے بلکہ ہزاروں ایسی طالبات موجود ہیں جو علم کی نور کو روشن کرنے کے لئے سرگرم ِ عمل ہے۔یہ الگ بات ہے کہ ان طالبات کو بیرونی امداد کے کمپیوٹرز اور انٹرنیٹ کی سہولتیں میسر نہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کی تربیت فوجی گھرانوں اور ابتدائی تعلیم آرمی سکولوں کی چاردیواری میں نہیں ہوئی مگر آج بھی وزیرستان، ہنگو، وانا،اورکزئی ایجنسی، دیر، ٹنڈو آدم خیل، چترال اور گلگت بلتستان کے پسماندہ علاقوں میں سینکڑوں ایسی طالبات موجود ہیں جنکی صلاحیتیں کسی سے کم نہیں۔ بلتستان کی اک ننھی سی طالبہ کی اپنے استاد سے ایک معصومانہ سوال سالوں سوچنے پر ہر کسی کو مجبور کر دیتی ہے۔ سکول سے چھٹی کے وقت اپنی استاد سے انتہائی ادبی لہجے میں ایک پیغام دیتی ہے۔ـ ــ’’ سر۔۔۔ آپکی کمپیوٹر کو میرا سلام کہناـ‘‘۔اس گزارش کی استاد کے پاس کوئی معقول جواب تو نہ تھا لیکن اسنے اپنی طالبہ کو مایوس کرنے کی بجائے سرگوشی میں ہاں کہ دی۔ ہم سکولوں کی خستہ حالی اور والدین کی معاشی وسائل کا اندازہ اسی اک جملے سے لگا سکتے ہیں۔ دوسری جانب اہل علم کے لئے اک لمحہ فکریہ ہے کہ آخرکیوں ہماری بیٹیوں کو یہ حق بھی حاصل نہیں ہے کہ اکیسویں صدی میں بھی کمپیوٹر اور دوسرے سائنسی ایجاداد سے مستفید ہو جائیں۔۔۔!

گزشتہ سال ڈپٹی ڈائریکٹر ایجوکیشن گنگ چھے سکولوں کی دورے پر آکر انہوں نے عمائیدین ، سکول کمیٹی اور باقی سکولوں کے ہیڈ ماسٹرز صاحبان سے ملکر اک چھوٹی سی میٹنگ منعقد کی جس میں راقم نے آخر میں ان سے ایک سوال پوچھا۔ ’’ سر ۔۔۔ آ پ اپنی بیٹے اور بیٹیوں کی تعلیمی نگرانی کرتے ہوے، انکے یونیورسٹیز میں داخلے اور سائنس اور ٹیکنالوجی کے استعمال کرتے ہوئے دیکھ کر دل میں خوشی محسوس کرتے ہو ں گے۔ مگر آپکو کیا یہاں موجود معصوم بچے سائنس و ٹیکنالوجی کی باتیں کرنا اچھا نہیں لگتا ۔۔۔یا انکو اپنی بیٹیوں جیسا نہیں سمجھتے۔۔۔؟ ان سوالوں کا جواب اب تک ہمارے مستقبل کے معمار ناخن چباتے ہوئے بہتری کی منتظر ہیں۔ نہ جانے ہماری میڈیا اور صاحبِ اقتدارلوگوں کی توجہ سوات کی امیر زادی سے کب ہٹیں گی اور باقی لٹتی برباد ہوتے قوم کی بیٹے بیٹیوں کی بہتری کے لئے اقدامات کریں گے۔ہم شہباز شریف صاحب اور وزیرِ اعلیٰ مہدی شاہ صاحب کی حالیہ ملاقات اور انکی تعلیمی موضوع پر کی جانے والی گفتگو پر کچھ امید باندھ سکتے ہیں۔ مگر کل کی تصویر حال ہی میں دیکھ رہے ہیں۔ بجٹ میں کوئی خاطر خواہ تعلیمی امور پر خرچ کی گنجائیش رکھی ہی نہیں ہے۔ اب دانش سکول سسٹم کی توقع شائد ہماری تعلیمی میدان میں اک انقلابی صورت اختیار کر جائے۔ امید اور توقع یہی ہے کہ آنے والے وقتوں میں علم کی شمع جلانے اور علم کے لئے آواز اُٹھانے والے ہر شخص کی بھرپور پذیرائی کی جائیگی۔
Kamal Anjum
About the Author: Kamal Anjum Read More Articles by Kamal Anjum: 13 Articles with 13814 views I belong to skardu Baltistan and now I am a student of Masters in Educational Planning and Management from NUML Islamabad. 2013.. View More