استقبال رمضان اور ہمارے رویے

 حضرت علیؓ کا ارشاد ہے جس کا آج اس کے گذشتہ کل سے بہتر نہیں وہ تباہ ہو گیا،آج اگر ہم اپنا جائزہ لیں تو علم ہوتا ہے کہ ہرطرف نمازیوں اور مسجدوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے لیکن ہماری اجتماعی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آرہی۔رمضان میں ہم عبادات کا خاص اہتمام کرتے ہیں ۔مساجد میں نمازیوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے ۔عبادت گذار تو ہر طرف نظر آتے ہیں لیکن صاحب کردار نظر نہیں آتا۔ اس اسلامی ریفریشر کورس کے بعد بھی عمومی رویے وہی رہتے ہیں

سورۃ السجدہ (آیت ۲۱) میں اﷲ کا ارشاد ہے کہ"ہم انہیں لازماً بڑے عذاب سے پہلے چھوٹے عذاب کا مزہ چکھائیں گے شاید کہ وہ رجوع کر لیں " آج ہم سب چھوٹے چھوٹے عذابوں کا شکار ہیں۔قرآن پاک میں اﷲ تعالیٰ نے اپنے غیظ و غضب کی تین علامتیں بتائی ہیں۔ان تینوں میں رسول اکرم ﷺنے سب سے کم یہ بتائی کہ تمہیں آپس میں لڑا کرایک دوسرے کی گردنیں کٹوا کر عذاب کا مزا چکھایا جائے ۔دوسری علامت آسمانوں سے عذاب آنے کی ہے،تیسری علامت پاؤں کے نیچے سے عذاب کی ہے ۔ ان سطور کا مقصد بھی یہی ہے اس فتنہ و فساد اور نفسا نفسی کے دور میں ہم اﷲ سے توبہ کریں۔ہمارے آپس کے میل جول میں اﷲ کی رضا کے لیے نمایاں فرق محسوس ہوکہ یہ رمضان پچھلے رمضان سے انفرادی اور اجتماعی طور پر بہتر ہواور اﷲ کی رحمتیں نازل ہوں۔رسول اکرم ﷺ کی وعید ہے کہ "بہت سے روزہ رکھنے والے ایسے ہیں کہ ان کو روزے سے سوائے بھوکا رہنے کے کچھ بھی حاصل نہیں اور بہت سے شب بیدار ایسے ہیں کہ ان کو جاگنے کی مشقت کے سوا کچھ نہیں ملتا"یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ نبی کریم ﷺکے ارشاد کے مطابق ہمیں رمضان میں اپنی مغفرت کی فکر کرنا لازمی ہے ۔کیوں کہ وہ شخص جس نے رمضان پایا اور اس کی مغفرت نہ ہوئی اس کے لیے روح الامین ؑنے بد دعا کی ہے اوررسول اﷲ ﷺ نے آمین کہا ہے۔ایک مرتبہ رسول اﷲ ﷺ نے صحابہؓ کومنبر کے قریب آنے کا حکم دیا پھر آپ نے پہلے درجے پر قدم رکھا تو فرمایا آمین ،دوسرے درجے پر قدم رکھا تو فرمایا آمین تیسرے درجے پر قدم رکھا تو فرمایا آمین ۔ صحابہؓ نے وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا کہ اس وقت جبرئیل ؑ میرے سامنے آئے ۔جب میں نے پہلے درجے پر قدم رکھا تو انہوں نے کہا ہلاک ہو جائے وہ شخص جس نے رمضان کا مہینہ پایا پھر بھی اس کی مغفرت نہ ہوئی۔میں نے کہا آمین۔ جب میں نے دوسرے درجے پر قدم رکھا تو انہوں نے کہا ہلاک ہو جائے وہ شخص جس کے سامنے آپ کا ذکر مبارک ہو اور وہ درود نہ بھیجے ۔میں نے کہا آمین جب میں نے تیسرے درجے پر قدم رکھا تو انہوں نے کہا ہلاک ہو جائے وہ شخص جس کے سامنے اس کے والدین یا ان میں سے کوئی ایک بڑھاپے کو پائیں اور وہ اس کو جنت میں داخل نہ کرائیں میں نے کہا آمین (بخاری)

دو لوگوں کا جھگڑا ۔۔۔۔ ذرا اپنے گریبان میں جھانکیں ہم اس ماہ مقدس میں بڑھ چڑھ کر نیکی کرتے ہیں ۔لیکن اپنے دلوں کا جائزہ نہیں لیتے کہ کتنے لوگوں کے لیے ہمارے دلوں میں کینہ بھرا ہے۔چاہے جیون ساتھی ہو یا دفتر کے رفقائے کار ملازم ہو یا رشتہ دار ۔ہمسایہ ہو یا کاروباری حریف ہمارے ذہن میں منفی سوچ اور بد گمانیاں ختم نہیں ہوتیں جو اصل میں غیبت ،غصے ،بلڈ پریشر اور ٹینشن کاسبب بنتی ہیں ۔
ابھی ہماری شب برات کیسی گزری ہے۔ہم شب برات کے لئے کتنی تیاری کرتے ہیں ،حلوے ،کھانے اور شب بیداریوں کا اہتمام ہوتا ہے لیکن نبی کریم ﷺ نے اس رات کے بارے میں کیا ارشاد فرمایا ہے ذرا ملاحظہ فرمائیں "شب برات میں اﷲ کی رحمت مخلوق کی طرف متوجہ ہوتی ہے۔اور مخلوق کی مغفرت کی جاتی ہے مگر دو اشخاص کی مغفرت نہیں ہوتی۔ایک کافر ،دوسرا جو کسی سے دل میں چھپی ہوئی دشمنی رکھے"اس طرح ایک اور حدیث میں ارشاد ہے "ہر پیر اور جمعرات کے دن اﷲ کے حضور میں بندوں کے اعمال پیش ہوتے ہیں اور اﷲ کی رحمت سے مشرکوں کے علاوہ اووروں کی مغفرت ہوتی رہتی ہے مگر جن دو میں جھگڑا ہوتا ہے۔ان کے متعلق ارشاد ہوتا ہے کہ ان کو چھوڑے رکھو جب تک صلح نہ ہو" چند لمحوں کے لیے ایک مرتبہ پھر سوچیں کہ کتنے پیر اور جمعرات پوری زندگی میں گزرتے ہیں ۔اور کتنے اس رمضان میں گزریں گے ۔جب اﷲ کی خاص رحمت ہماری طرف متوجہ ہوتی ہے۔اگر ہماری کسی سے لڑائی ہے تو ہمارے اعمال جو پہلے ہی سے اس قابل نہیں کہ اﷲ کے دربار میں پیش کئے جائیں ان کا کیا حال ہو گا ؟نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کوئی بھی قوم راہ ہدایت پر چلنے کے بعد اسی وقت گم راہی کا شکار ہوئی جب اس کو جھگڑے کی عادت ہو گئی ۔پھر آپ ﷺ نے یہ آیت پڑھی (زخرف ۵۸)وہ اس بات کو آپﷺ کے سامنے جھگڑنے کے لیے بیان کرتے ہیں بلکہ (دراصل )وہ وقوم جھگڑالو ہے (ترمذی) ایک اور مقام پر آپ ﷺ نے جہنمی لوگوں کے بارے میں بتایا " ہر وہ شخص دوزخی ہے جو جھگڑالو اور اکھڑ مزاج ہے اور تکبر اور عناد کی وجہ سے حق بات کو قبول نہیں کرتا (بخاری و مسلم)" آپس میں میل جول اور دلوں کی صفائی کی اہمیت کتنی ہے نبی کریم ﷺ کا یہ واقعہ غور سے دیکھیں۔مشہورصحابی حضرت عبادۃؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺاس لئے باہر آئے تاکہ ہمیں شب قدر کی اطلاع دیں ،مگر دو مسلمانوں میں جھگڑا ہو رہا تھا ۔آپﷺ نے فرمایا کہ میں اس لیے آیا تھا کہ تمہیں شب قدر کی اطلاع دوں مگر فلاں فلاں شخصوں میں جھگڑا ہو رہا تھا ۔جس کی وجہ سے اس کا تعین اٹھا لیا گیا ۔کیا بعید ہے کہ یہ اٹھا لینا اﷲ کے علم میں بہتر ہو"۔

﴾چار اشخاص اور شب قدر سے محرومی۔۔۔۔شب قدر کی دیگر فضیلتوں کے علاوہ حضرت جبرئیل ؑ کی آمد اور روانگی پر بھی غور کریں کہ آپس کے جوڑ کی کتنی اہمیت ہے۔مختلف احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ شب قدر میں اﷲ تعالیٰ کے حکم سے حضرت جبرئیل فرشتوں کے ایک لشکر کے ساتھ زمین پر اترتے ہیں اور فرشتوں سے کہتے ہیں کہ جو مسلمان آج کی رات کھڑا ہو یا بیٹھا ہو نماز پڑھ رہا ہو یا ذکر کر رہا ہو اس کو سلام کریں اور مصافحہ کریں اور ان کی دعاؤں پر آمین کہیں۔اور جب عید الفطر کا دن ہوتا ہے۔تو اﷲ تعا لیٰ پنے فرشتوں کے سامنے بندوں کی عبادت پر فخر کرتے ہیں۔ان سے دریافت کرتے ہیں کہ اے فرشتو ! اس مزدور کا جو اپنی خدمت پوری پوری ادا کردے کیا بدلہ ہے !وہ عرض کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب اس کا بدلہ یہی ہے کہ اس کی اجرت پوری دے دی جائے۔تو ارشاد ہوتا ہے کہ اے فرشتو میرے غلاموں نے اور باندیوں نے میرے فریضے کو پورا کردیا ،پھر بلند آوازدعا کے ساتھ(عید نمازکے لیے) نکلے ہیں ۔میری عزت کی قسم ،میرے جلال کی قسم ،میری بخشش کی قسم ،میرے علو شان کی قسم،میرے بلند مرتبے کی قسم میں ان لوگوں کی دعا ضرور قبول کروں گا۔پھر ان لوگوں سے خطاب ہوتا ہے کہ جاؤتمہارے گناہ معاف کردیے گئے۔اور تمہاری برائیوں کونیکیوں سے بدل دیا ہے۔پس یہ لوگ عید گاہ سے ایسے حال میں لوٹتے ہیں کہ ان کے گناہ معاف ہو چکے ہوتے ہیں۔شب قدر کی صبح روانگی کے وقت فرشتے حضرت جبرئیل ؑ سے پوچھتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے احمدﷺ کی امت کے مومنوں کی حاجتوں اور ضرورتوں میں کیا معاملہ فرمایا ۔وہ کہتے ہیں اﷲ تعالیٰ نے ان پر توجہ فرمائی اور چار اشخاص کے علاوہ سب کو معاف فرما دیا۔ایک وہ جو شراب کا عادی ہو ۔دوسرا والدین کا نافرمان ۔تیسرا قطع رحمی کرنے والا اور چوتھا کینہ رکھنے والا اور آپس میں قطع تعلق کرنے والا ۔کیا ہم روزہ دار مسلمانوں نے اس بات پر بھی غور کیا کہ اگر ہم ان چار لوگوں میں شامل ہو گئے تو ہمارے اعمال کا کیا بنے گا؟ آپس کا سلوک کتنا اہم ہے احمدﷺ کے ارشادات ملاحظہ کریں ۔
"تین شخص ہیں جن کی نماز ان کے سر سے ایک بالشت بھی اوپر نہیں جاتی جن میں آپس میں لڑنے والے بھی فرمائے ہیں"
"جو شخص کسی مسلمان بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع تعلق رکھے اگر اس حالت میں مر گیا تو سیدھا جہنم میں جائے گا "
﴾ انسان کی فطرت۔۔۔۔۔۔۔۔۔اگر قرآن کی روشنی میں انسان کی فطرت کا جائزہ لیں ۔تو پتہ چلتا ہے کہ یہ دنیا تو ہے ہی آزمائش، انسان ایک دوسرے کے لیے آزمائش ہے۔یہ کم حوصلہ اور جلد باز ہے۔
۱۔اﷲ تعالیٰ نے زندگی اور موت کا عمل اس لیے جاری کیا ہے تاکہ اچھے عمل کرنے والوں کو پرکھا جاسکے (سورۃ الملک)
۲۔کیا انسان نے دیکھا نہیں کہ ہم نے اسے نطفے سے پیدا کیا اور پھر وہ اچانک کھلا جھگڑالو بن کر کھڑا ہو گیا(اصفٓت۔۷۷)
۳۔قیامت جب آئے گی تو لوگ جھگڑ رہے ہوں گے(یٰس۔۴۹)
۴۔ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا ہے(البلد۔۴)
۵۔ انسان کم حوصلہ پید کیا گیا ہے۔جب اس پر مصیبت آتی ہے تو گھبرانے لگتا ہے ۔اورجب اس پر خوش حالی آتی ہے تو بخیل بن جاتا ہے ۔سوائے ان نمازیوں کے جو اپنی نماز کی پابندی کرتے ہیں۔جن کے مالوں میں سائل اور محروم کا حق ہے(المعارج۔۱۹ تا۲۵)
۶۔انسان احسان فراموش ہے(الزخرف)
اگرمندرجہ بالا آیات پر غور کیا جائے آ تو ہمارے بے شمارمسائل اور جھگڑوں کا حل نکل سکتا ہے ۔کہ صبر ۔نماز اور اﷲ کی راہ میں صدقہ ان کمزوریوں کو کم کرسکتے ہیں
﴾مل جل کر رہنے والے لوگ۔۔۔۔۔۔۔سورۃص ٓآیت۔۳۴ میں مشترک خاندانوں ،دفاتر اور کاروبار کے سلسلے میں ساتھیوں کے حوالے سے حکمت بھری بات بتائی گئی ہے کہ "اور بہت سے مل جل کر رہنے والے لوگ ایک دوسرے پر زیادتیاں کرتے رہتے ہیں سوائے ان لوگوں کے جو ایمان رکھتے ہیں اور نیک عمل کرتے ہیں۔ایسے لوگ بہت کم ہیں "اسی طرح سورۃ االفرقان (آیت ۲۰) میں ارشاد باری تعالیٰ ہے "ہم نے تم لوگوں کو ایک دوسرے کے لیے آزمائش کا ذریعہ بنا دیا ہے ،کیا تم صبر کرتے ہو؟اور تمہارا رب ہر چیز کو دیکھنے والا ہے "یہ آیات ساس بہو ،رشتہ داروں اور ہمسایوں کے جھگڑوں ،قریبی ساتھیوں کے ٹانگ کھینچنے کی کاروائی میں کافی و شافی علاج رکھتی ہیں۔رمضان میں ہم بھی صبر کرکے ان کم لوگوں میں شامل ہو سکتے ہیں جوا اﷲ کو محبوب ہیں ہمسایوں سے تعلقا ت کے سلسلے میں کہ ایک شخص نے نبی رحمتﷺ سے دریافت کیا یا رسول اﷲ ﷺ مجھے کس طرح معلوم ہوگا کہ میں اچھا ہوں یا برا ! آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا جب تم اپنے پڑوسیوں کو یہ کہتے سنو کہ تم نے اچھا کیا تو بلا شبہ تم اچھے ہو اور جب تم ہمسایوں کو یہ کہتے سنو کہ تم نے برا کیا تو یقینا تم برے ہو (ابن ماجہ)ہمسایوں کا یہ فارمولادفاتر میں ،کاروبار میں ،سڑک پر گاڑی چلاتے،اوور ٹیکنگ کرتے،ہارن بجاتے ،ٹرین ،جہاز اور پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرتے ہوئے ،پارک،چڑیا گھر،تفریحی مقامات پربھی اپلائی ہوتا ہے۔ جہاں ہم دوسروں کے ذرا دیر کے لیے پہلو کے ساتھی بن جاتے ہیں جس کے متعلق "صاحب الجنب " کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔اس طرح تعلیمی اداروں میں بھی طلباء کو یہ شعور دینے کی ضرورت ہے کہ کلاسوں میں بھی ایک دوسرے کے ہمسائے جیسے حقوق رکھتے ہیں ۔ رمضان میں اگر ہم اپنے ہر قسم کے قریبی اور دور کے ہمسایوں سے احسان کا معا ملہ کرنے کی مشق کریں تو اﷲ تعالیٰ ہمارے حال پر مزید رحمت نازل فرمائے گا(ان شا ء اﷲ)

حضور ﷺ کے سامنے دو عورتوں کا ذکر کیا گیا کہ ایک عورت ہے وہ کثرت سے روزہ نماز اور صدقہ خیرات کرنے والی ہے(لیکن)اپنے پڑوسیوں کو اپنی زبان سے تکلیف دیتی ہے آپ ﷺ نے فرمایا" اس میں کوئی خیر نہیں وہ دوزخ والیوں میں سے ہے ۔"پھر عرض کیا گیا"فلاں خاتون کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ صرف فرض نماز پڑھتی ہے اور تھوڑے سے پنیر کے ٹکڑوں کا صدقہ کر دیتی ہے لیکن اپنے ہمسایوں کو اپنی زبان سے تکلیف نہیں دیتی!آپ ﷺنے فرمایا وہ جنت والیوں میں سے ہے(مسند احمد) ایک شخص نبی اکرمﷺکی خدمت میں حاضر ہوااور عرض کی کہ میرا پڑوسی مجھے ایذا دیتا ہے ۔آپ ﷺ نے فرمایا تم اپنا سامان نکال کر راستے میں رکھ دو ۔اس نے ایسا ہی کیا ۔چنانچہ جو بھی گزرتا اس سے وجہ پوچھتا وہ پڑوسی کے رویے کے متعلق بتا تا جسے سن کر ہر گزرنے والا اس پر لعنت ملامت کرتا ۔پڑوسی نے یہ دیکھا تو معافی مانگی اور آئندہ تکلیف نہ دینے کا وعدہ کرکے سامان اندر رکھنے کی التجا کی(سنن ابو داؤد)
﴾قرآن میں معاشرتی رویوں کی ہدایات۔۔
۱۔بغیر تحقیق کے منافقوں اور فاسقوں کی باتوں پر یقین نہ کریں
سورۃ المنافقون اور سورۃ محمد میں منافقوں کی جو نشانیاں بتائی گئیں ہیں۔ان میں قسمیں کھاناخواہشات نفس کی پیروی،،تکبر،کنجوسی،سمارٹ جسم ،(چہرے اور گفتگو سے ان کی پہچان کی جا سکتی ہے) سمارٹ قسم کی باتیں شامل ہیں ،ہر مخالفت ان کے لیے ناقابل برداشت ہے ۔

کسی فاسق کی خبر پر بغیر تحقیق کے یقین نہ کریں ۔ہمارے اردگرد کارباری دفتری یا گھریلو ماحول میں یہ صورت حال دیکھنے کو ملتی ہے ۔جب ہم کسی بھی بات کو درست سمجھ کر اپنے اعصاب پر سوار کرلیتے ہیں ۔"یہ بات تو سار ی گلی/دفتر/مارکیٹ والے جانتے ہیں.ہمارے ہاں بچوں اور" چلتی پھرتی بریکنگ نیوز" ٹائپ سوشل خواتین اورحضرات کے ذریعے اس قسم کی باتیں پھیلتی ہیں ۔جن کو ہم اپنے چسکے کے لئے سنتے ہیں اور پھر غیبت کا عذاب سہتے ہیں۔۔اب بنی اکرم ﷺ کے ایک ارشاد پر غور کریں "لوگ کہتے ہیں " یہ لفظ مرد کے لیے بری سواری ہے" ہم یہ لفظ اس طرح سنتے ہیں کہ "سب یہی کہہ رہے ہیں "کسی سنی سنائی بات پر یقین کرنے سے بہتر ہے کہ براہ راست متعلقہ فرد سے بات پوچھ لی جائے اگر ہم نے بھی ٹوہ لگانے کی عادت اختیار کی تو حدیث کے مطابق ہمارا غم اور غصہ لمبا ہو جائے گا "۔

اسی طرح بچوں کی لڑائیوں میں ہم بڑے بغیر تحقیق کے شامل ہو جاتے ہیں لیکن نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کچھ دیر بعد بچے دوبارہ کھیل رہے ہوتے ہیں اور بڑے تھانہ کچہری کے چکر میں الجھ جاتے ہیں ۔قرآن کہتا ہے" اے ایمان والو اگر کوئی فاسق تمہارے پاس خبر لے کر آئے توتحقیق کر لیا کرو (کہیں ایسا نہ ہو )کہ تم کسی گروہ کو لا علمی سے (نقصان) پہنچا دو۔پھر جو کچھ تم نے کیا ہو اس پر نادم ہونا پڑے۔"
۲۔ صلح کرائیں ۔۔۔۔دوسرا مرحلہ لڑائی جھگڑے کے بعد کا ہے ۔اس میں دونوں فریقین کی بھڑاس سننے والے ہمدرد جلتی پر پٹرول چھڑکتے ہیں ۔قرآن کی طرف سے ایمان والوں کی ڈیوٹی لگائی گئی ہے کہ" ایمان والے آپس میں بھائی بھائی ہیں ۔اس لیے اپنے بھائیوں میں صلح کرا دیا کرو اور اﷲ سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے "اگر آپ کے علم میں جھگڑے والی ایسی دو پارٹیاں ہیں تو آپ کا فرض ہے کہ آپ دونوں کی صلح کرا دیں ۔اﷲ نے ایسی اصلاح سے بھی منع فرمایا ہے جو فساد کی وجہ بنے" جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ کرو تو کہتے ہیں ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں۔جان لو یہی خرابی کرنے والے ہیں لیکن وہ شعور نہیں رکھتے (البقرۃ ۱۱۔۱۲)"

اس کے پس منظر میں اگلی بات بہت اہم ہے کہ اﷲ کا خوف ضروری ہے تاکہ ہم پر اﷲ رحم فرمائے۔حدیث نبوی ہے کہ" میں تمھیں ایسا عمل نہ بتا دوں جس کا درجہ روزے ،صدقے اور نماز سے زیادہ ہے ۔وہ ہے" آپس میں دشمنی رکھنے والوں کے درمیان صلح کرانا " اور آپس میں فساد پھیلانا ایسی خصلت ہے جو دین کو (استرے کی طرح)مونڈنے والی اور برباد کرنے والی ہے ۔(ترمذی)۔امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے فریضے کی وجہ سے یہ بات اور زیادہ اہم ہو جاتی ہے۔ورنہ ہم بھی ایسی کسی صورت حال کا شکار ہو جائیں گے پھر کوئی بھی ہماری مدد کو نہیں آئے گا-

۳۔عمومی مزاح کا نداز۔سخر اور لمز۔۔۔۔۔ہمارے ہاں وقت گزاری اور روزہ کاٹنے کے لیے کے لیے سکھوں ،پٹھانوں،پنجابیوں ،بلوچوں ،سندھیوں ،سرائیکیوں وغیرہ کے SMSٹائپ لطیفے بھی رواج پا رہے ہیں ۔اگر کسی لسانی یا علاقائی گروہ کا فر ان کثیفوں (بقول مشتاق احمد یوسفی) کو بظاہر برداشت کر رہا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم کو کھلی چھٹی مل گئی ہے۔خواتین میں خاص طور پر غیر اسلامی بنیادوں پر ایسی باتیں سر زد ہو جاتی ہیں اس وقت ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کا دفاع کریں ۔سورۃ الحجرات میں سخر اور لمز کییہ دو اصطلاحات استعمال ہوئی ہیں "اے ایمان والو ایک قوم دوسری قوم کا مذاق نہ اڑائے شاید وہ ان سے بہتر ہوں ۔اور عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق نہ اڑائیں شاید وہ ان سے بہتر ہوں ۔اور ایک دوسرے کو عیب نہ لگاؤ اور ایک دوسرے کو چڑانے والے نام نہ ڈالو ۔ایمان کے بعد گناہ کرنا برا کام ہے ۔اور جو توبہ نہ کرے وہی ظالم ہیں" سخر کا مطلب یہ ہے کہ کسی کی تحقیر کے لیے اس کے کسی عیب کو اس طرح ذکر کرنا جس سے لوگ ہنسنے لگیں ۔لمز کا مطلب ہے کسی میں عیب نکالنا۔تنابزوابالا القاب یعنی دوسرے کو برے لقب سے پکارنا۔اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ کسی نے کوئی گناہ یا برا عمل کیا ہو پھر اس سے توبہ کرلی ہو اس کے بعد اس کو اس برے عمل کے نام سے پکارنا۔نبی کریم کا ﷺارشاد ہے کہ" جومسلمان کسی کو ایسے گناہ پر عار دلائے جس سے اس نے توبہ کر لی ہو تو اﷲ نے اپنے ذمے لے لیا ہے کہ اس کو اسی گناہ میں مبتلا کرکے دنیا و آخرت میں رسوا کرے گا"ماہرین نفسیات کے مطابق منفی سوچ ،طنزیہ لہجہ ،دکھاوے کا اندازاور لباس ہماری شخصیت کے بیمار پہلوؤں کی عکاسی کرتے ہیں ۔ان سے نجات استغفار اور توبہ سے ہی ممکن ہے۔۔زبان کو مڑوڑ کر ذو معنی الفاظ ادا کرنا بھی منافقت کی نشانی ہے۔اسی کے متعلق یہود اور منافقین کے رویوں کا ذکر آیا ہے جب ایمان والوں کو راعنا کے بجائے انظرنا کے اندازتخاطب کا حکم دیا گیا۔رحمۃاللعالمین ﷺ کا ارشاد ہے کہ بے شک آدمی ایک بات کہتا ہے اور صرف اس لیے کہتا ہے کہ اس کے ذریعے لوگوں کو ہنسائے تو وہ اس بات کی وجہ سے زمین و آسمان کے درمیانی فاصلے سے زیادہ (دوزخ) میں جا گرتا ہے اور بلا شبہ انسان کی زبان اس کے قدموں سے زیادہ پھسلتی ہے(بہیقی)

۴۔بد گمانی، جلدباز ی اورغیبت غصے کی بنیاد۔انسان بنیادی طور پر جلد بازاور کم حوصلہ ہے۔نفسیات کے نقطہ نگاہ سے ہمارے ذہن میں سب سے پہلے کسی بھی بات کا منفی پہلو آتا ہے۔اسی پہلو کو شیطان اور زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے ۔بد گمانی اور غیبت کے متعلق اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔اے ایمان والوبہت زیادہ بد گمانیوں سے بچتے رہو ۔بے شک بعض بد گمانیاں گناہ ہیں ۔اور کسی کے بھید نہ ٹٹولو اور ایک دوسرے کو پیٹھ پیچھے برا نہ کہو ۔کیا تم کو اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا اچھا لگتا ہے ،تم کراہت کرتے ہو ۔اﷲ سے ڈرو بے شک اﷲ معاف کرنیوالاہے(الحجرات)۔حضور اکرم کا ارشاد ہے کہ کسی کے بارے میں بد گمانی قائم کرنے سے اجتناب کرو کیوں کہ یہ بد ترین جھوٹ ہے ،کسی کے حالات کی ٹوہ میں نہ رہو نہ کسی کے حالات کی تحقیق کرو نہ کسی کے سودے (لین دین)پر خریدنے کا اظہار کرو نہ ایک دوسرے سے بغض رکھو ۔نہ ایک دوسرے کی غیبت کرو اور تم سب اﷲ کے بندو ایک دوسرے کے ساتھ بھائی بھائی بن کر رہو(بخاری)اگر غیبت سرزد ہو گئی ہو تو اس شخص کے لیے دعا کرتے رہیں ۔ بہیقی میں ارشاد نبوی منقول ہے کہ "غیبت کا کچھ کفارہ یہ ہے کہ تم اس شخص کے لیے مغفرت اور بخشش کی دعا مانگو جس کی تم نے غیبت کی ہے اور اس طرح مانگو اے اﷲ ہم کو اور اس شخص کو بخش دے ،"ناحق اور جھوٹی بات میں بھی چسکے لینے والوں کو وعید سنائی گئی ہے کہ" جو شخص کسی ناحق ْ یا جھوٹی بات میں جھگڑا کرے اور وہ اس کے حق ہونے سے واقف ہو وہ ہمیشہ ہمیشہ اﷲ کے عذاب میں رہتا ہے ۔جب تک اس سے باز نہ آجائے اور جو شخص کسی مسلمان کی نسبت ایسی بات کہے جو اس میں نہیں پائی جاتی۔وہ اس وقت تک دوزخیوں کی پیپ ،کیچڑ اور خون میں رہے گا جب تک اس سے توبہ نہ کرلے (مشکوٰۃ)"

۵۔برے زمانے کا شکوہ........۔ ہمارے ذہن اور سوچ تک چار قسم کے راستے پہنچتے ہیں ۔ہم جو باتیں روزانہ سنتے ہیں ،جس قسم کی باتیں دیکھتے ہیں ،جو باتیں پڑھتے ہیں اور جو باتیں سوچتے ہیں ان سب کا ہمارے ذہن پر گہرا اثر ہو تا ہے۔آج کل کے پروپیگنڈہ اور اشتہار بازی کے دور میں ہمیں ہر طرف بم دھماکے ،کرپشن ،رشوت ،دھوکہ دہی ۔کا بازار گرم نظر آتا ہے۔سیاست دانوں کی قلابازیاں ،مایوسی اور دکھوں کی کہانیاں ،تنقید برائے تنقید،قیامت اور دجال کی باتیں ،آج کا دن کیسا گزرے گا؟ باس کو نالائق ماتحتوں سے اور ماتحتوں کو سٹوپڈ باس سے شکایات اس کی کچھ مثالیں ہیں۔سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ ہر کسی کو شکوہ ہے کہ" زمانہ" برا آگیا ہے! حالاں کہ حدیث قدسی ہے کہ زمانے کو برا مت کہو کیوں کہ میں زمانہ ہوں ۔ان سب باتوں نے ہمارے عمومی مزاج میں تندی اور تیزی بھر دی ہے۔ان سے بچنے کا واحد طریقہ اﷲ کا ذکر ہے ۔جس میں درود شریف اور استغفار کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔اس کے علاوہ تہجد کی پابندی اور آخری عشرے کا اعتکاف ہماری شخصیت میں بہت سے مثبت پہلو پیدا کر دے گا-
۶۔خوف ،غم سے نجات اور درگزر کا رویہ۔۔۔۔جب ہم اپنے ہی اعمال کی وجہ سے خوف اور غم کا شکار ہوتے ہیں تو مندرجہ ذیل نورانی باتیں سامنے لائیں
٭ اﷲ ہمارے دلوں کی باتوں سے واقف ہے اور ہر کام اﷲ ہی کی طرف لوٹایا جاتا ہے (ال عمران۱۰۹)
٭جب ہم کسی کو اپنے خلاف باتیں کرتے اور چالیں چلتے ہوئے دیکھیں تو اﷲ تعالیٰ کے اس ارشاد کو سامنے رکھیں" اوران پر غم نہ کرو ،اور نہ ہی ان کی چالوں پر خفگی محسوس نہ کرو (سورۃ النمل۔۷۰)"
٭ اﷲ کی راہ میں صدقہ دیں رمضان میں ہسپتالوں یا ہمسایوں اور رشتہ داروں کے گھروں میں جاکر مریضوں کی دل داری کریں ۔

جن صاحب دل حجرات کی ریلوے ستیژنوں اور بسوں کے اڈوں تک قربت ہے وہ مسافروں کے سحرو افطار کے اوقات میں ٹھنڈا پانی اور کھجور کے اکرام سے ہی اﷲ کی رحمت کو اور زیادہ متوجہ کرسکتے ہیں
بے سہارا ،بے روزگار مستحق افراد کی زکوٰۃ کی مد میں اس طرح مدد کریں کہ وہ اگلے سال زکوٰۃ دینے والے ہوں ۔سورۃ ال عمران (آیات۱۳۳ تا۱۳۵) میں اﷲ کا ارشاد ہے۔ وہ لوگ جوخوشی اور تکلیف میں اﷲ کی رضا کے لیے خرچ کرتے ہیں اور غصہ ضبط کرتے ہیں اور لوگوں کو معاف کرتے ہیں ۔اور اﷲ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے ،اور وہ لوگ جب اپنے ساتھ کچھ کھلا گناہ یا برا کام کر بیٹھیں تو اﷲ کو یاد کریں اور اپنے گناہوں کی بخشش مانگیں۔اور اﷲ کے سوا کون گناہوں کو بخشنے والا ہے۔اور وہ اپنے کیے پر اصرار نہیں کرتے اور وہ جانتے ہیں ۔اسی طرح ارشاد ہے کہ ۔"درگزر اپناؤ ،نیکی کا حکم دو اور جاہلوں سے اعراض کرو (الاعراف ۱۹۹).۔رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ہے
"میری امت میں ۵۰۰ برگزیدہ بندے اور ۴۰ ابدال رہتے ہیں جب ان میں سے کوئی مرجاتا ہے تو فوراً دوسرا ان کی جگہ لے لیتا ہے ۔صحابہ ؓنے عرض کیا ان کے خصوصی اعمال کیا ہیں ؟ ارشاد فرمایا کہ ظلم کرنے والوں سے درگزر کرتے ہیں،برائی کا معاملہ کرنے والوں سے احسان کا برتاؤ کرتے ہیں اور اﷲ کے عطا کردہ رزق میں سے لوگوں کے ساتھ ہمدردی اور غم خواری کا برتاؤ کرتے ہیں" .

﴾۔گھریلو جھگڑے۔
رمضان المبارک میں میاں بیوی آپس میں صبر اور شکر کی مشق کرسکتے ہیں۔والدین کے آپس کے تعلقات کا اثر بچوں پر بھی پڑتا ہے۔اور گھر کا ماحول خوشیوں سے بھر پور ہو جاتا ہے۔آج کل برداشت کم ہونے کی وجہ سے میاں بیوی کے جھگڑے بڑھ گئے ہیں ۔اس لیے مندرجہ ذیل گل ہائے رحمت پر غور کریں
٭۔کریم و شریف اور لائق شوہروں پر عورتیں غالب آجاتی ہیں۔اور کمینے شوہر ڈنڈے اور گالی گلوچ سے ان پر غالب آجاتے ہیں ۔میں ﷺپسند کرتا ہوں کہ کریم رہوں چاہے مغلوب رہوں۔

٭۔ عورت میں برکت بھی ہے اور نحوست بھی۔برکت یہ ہے کہ اس کا مہر تھوڑا ہو ،نکاح سہولت سے اور کم خرچ ہو اور وہ خوش اخلاق اور دین دار ہو۔عورت کی نحوست یہ ہے کہ مہر زیادہ ہو نکاح دشواری سے ہوا ہو ۔بد اخلاق اور بے دین ہو(ابو داؤد)
٭۔جو شخص اپنی بیوی کی بد خلقی پر صبر کرے اسے حضرت ایوب ؑ کی بیماری پر ملنے والے اجر کے برابر ثواب ملے گا اور جو عورت اپنے خاوند کی بد خلقی پر صبر کرے گی اسے اﷲ تعالیٰ آسیہ ؓ زوجہ فرعون کو ملنے والے اجر کے مطابق اجر عطا فرمائیں گے۔
٭رسول اﷲ ﷺ کی یہ دعا ہے "اے اﷲ میں ایسی بیوی سے پناہ چاہتا ہوں جو مجھے بڑھاپے کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی بوڑھاکردے"
٭۔احادیث میں خواتین کی عادات میں کثرت سے لعنت کرنا اور شوہروں کی ناشکری کے متعلق بتایا گیا ہے کہ یہ عادات انہین جہنم میں لے جاتی ہیں۔جہاں تک لعنت کا تعلق ہے رسول اکرم ﷺ کا یہ بھی حکم ہے کہ ہوا کو بھی لعنت نہ کرو کیوں کہ وہ تو حکم کے تا بع ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ جو شخص کسی ایسی چیز پر لعنت کرے جو لعنت کے قابل نہ ہو تو وہ لعنت اس کی طرف لوٹ آتی ہے(ترمذی)۔
٭۔جیسے بیوی کا شوہر پر حق ہے ویسے یہی شوہر کا بیوی پر حق ہے (البقرۃ۲۲۸)۔حضرت عبداﷲ بن عباس ؓ اس آیت کو پڑھ کر فرمایا کرتے تھے کہ "میں پنی شریک حیات کے لیے خود کو سنوارتا ہوں جیسے وہ خود کو میرے لئے سنوارتی ہے۔اور مجھے پسند نہیں کہ اس سے زیبائش کا حق تو وصول کرلوں اور اس کے حق میں کوتاہی کروں "۔کسی نے آپ ﷺ سے دریافت کیا کہ عورتوں کا ہم پر کیا حق ہے؟آپ ﷺ نے فرمایا ۔جب تم کھاؤ تو انہیں بھی کھلاؤ،جب تم پہنو تو اسے بھی پہناؤ۔اس کے منہ پر نہ مارو،اسے گالیاں نہ دو اس سے روٹھ کر اور کہیں نہ بھیج دو ہاں گھر میں ہی رکھو(ابن کثیر)
٭۔حضرت عمرفاروقؓ کا ارشاد ہے " مرد کو گھر کے اندر انسیت کے اعتبار سے بچے کی طرح رہنا چاہیئے ۔اور جب گھر سے باہر لوگوں کے ساتھ ہو تو بھر پور مرد بن جائے"
٭۔اپنے جیون ساتھی کا پیارا سا "نک نیم" رکھیں ۔آپ ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ کا پیار والا نام حمیرا رکھا ہوا تھا۔سفر سے واپسی پرجیون ساتھی اور اولاد کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور لائیں
٭آپ ﷺ نے بچوں کی دیکھ بھال اور شوہر کے ذاتی کاموں کے علاوہ اس بات کی بھی حوصلہ افزائی فرمائی ہے کہ بیگمات دیگر کاموں میں بھی مہارت حاصل کریں ۔نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ "قریش کی عورتیں سب عورتوں سے بہتر ہیں ۔اونٹ کی سواری بھی کر لیتی ہیں اور چھوٹے بچوں پر نہایت مہربان اور مشفق ہیں اور اپنے شوہر کے ذاتی کاموں پر بھی بھر پور توجہ دینے والی ہیں (الاصابہ)"آج کل کے ڈیجیٹل دور میں ماؤں کے لیے ضروری ہے کہ وہ کمپیوٹر اور انٹر نیٹ کے علاوہ موبائل فون کے استعمال میں شد بد رکھتی ہوں ۔کیونکہ ہم نے جن بچوں کی تربیت کرنی ہے وہ ڈیجیٹل ایج کے بچے ہیں ۔ٹی وی پر تشدد اور لڑائی کے کارٹون ،کمپیوٹر پر کار ریسنگ جیسی چیزوں سے مزے لینے کے بعد بچے میں چڑچڑا پن آجاتا ہے ۔لیکن حکمت و بصیرت سے کام لے کر ان کی بظاہر نافرمانی کو فرماں برداری میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔اس لیے والد اور والدہ کو ایک ساتھ بیٹھ کر بچوں کی کونسلنگ کرنی پڑے گی۔جو کسی بھی فوڈ آئٹم (معمول سے ہٹ کر) کے مزے لیتے ہوئے بچوں کا دل جیتنے کے لیے کافی ہے ۔رمضان بچوں کو سحرو افطار کا عادی بنا کر بچوں کی باتیں محبت اور صبر سے سننے کی مشق کریں ۔اور پر کشش اشتہاروں سے لے کر بچوں کی عادات تک ساری باتیں ڈسکس کریں ۔اپنی مالی حیثیت اور دوسری حدود کے متعلق کونسلنگ سے آپ کی کافی مشکلات کم ہو جائیں گی۔ان کی صلاحیتوں کوسحر و افطارکی تیاری،غربا و مساکین کو کھلانے اور ہمسایوں کے کام آنے میں استعمال کریں ۔سلام کی عادت کو رواج دیں ،گلی ،محلے اور سڑک پر بکھرے ریپرز ،کوڑا کرکٹ کو شاپرز میں ڈال کر الگ رکھنے کی مشق سے آپ ان میں بہت سے مثبت جذبات کی نشوو نما کرسکتے ہیں۔
٭۔رمضان میں ہم لوگ افطاریوں اور دیگر چیزوں پر بہت خرچ کرتے ہیں لیکن جیون ساتھی کی محنت اور قربانی کو بھول جاتے ہیں آپ ﷺ کا ارشاد ہے۔"تم جوخرچ بھی اﷲ کی رضا کے لیے کرو گے اس پر تمہیں اﷲ کی طرف سے ضرور اجر ملے گا۔حتیٰ کہ تم جو لقمہ اپنی بیوی کے منہ میں ڈالو گے اس پر بھی اجر ملے گا(حیاۃ صحابہ)" اس رمضان میں افطاری جس کے ہاتھ کی بنی ہے ۔کم از کم اس کے منہ میں کھجور ڈال کر ہی اﷲ کی رحمت کے امیدوار بن جائیں
٭۔میاں بیوی کے درمیان جادو اور تعویذ گنڈے کے معاملات ہماری جہالت اور کم علمی کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ساری چیزیں بد گمانیوں اور بد اعتمادی سے شروع ہوتی ہیں ۔سورۃ الفلق کے بغور مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ جادو اور حسد میں گہرا تعلق ہے۔خواتین میں حسد کا مادہ زیادہ ہوتا ہے۔کوئی بھی جادو ایمان سے زیادہ طاقت ور نہیں ہو سکتا۔رسول رحمت ﷺ کا ارشاد ہے "کہ مجھے اپنی امت کے بارے میں سب سے زیادہ خوف زیادہ کھانا،زیادہ سونا ،کاہلی اور ضعیف الاعتقادی کا ہے(کنز العمال)"ایک عام ذہن رکھنے والا اس حدیث مبارک کے پس منظر میں" جادو زدگان کی نشانیاں"اور ان کے اثرات اچھی طرح سمجھ سکتا ہے۔مختلف عاملوں ،پیروں اور تعویذ گنڈے والے جاہلوں کے پاس جانے والی خواتین کے ذمے دار مردوں کا فرض ہے کہ ان کی ذہن سازی کر کے اپنی اور ان کی دنیا و آخرت کا سامان کریں ۔اگر نماز اور صبر سے مدد لی جائے تو حالات خود بخود درست ہو جاتے ہیں ۔ان حالات میں دونوں طرف کے اہل دل کا فرض ہے کہ صلح کی کوشش کریں۔ادبی ذوق رکھنے والی بیگمات اورشوہر حضرات ان اشعار مفہوم سمجھ کر عمل کر لیں
اس شرط پہ کھیلوں گی پیا پیار کی بازی وہ جس نے بنایا میرے گھر کو میری جنت جیتوں تو تجھے پاؤں ہاروں تو پیا تیری
میرے لیے دنیا میں وہی حور بہت ہے

﴾بزرگوں سے ہمارا سلوک۔ہمارے ہاں تقریباً ہر گھر میں ریٹائرڈ اور بوڑھے افراد موجود ہوتے ہیں۔ان کی بیماری اور چڑ چڑ ے مزاج اور بچگانہ پن سے قطع نظر ہم ان بزرگوں پر توجہ دے کر رمضان میں اﷲ کے خصوصی انعامات کے حق دار بن سکتے ہیں ۔ اگر چار قسم کی مخلوق نہ ہوتی توعذاب ایسے نازل ہوتے جیسے بارش کے قطرے گرتے ہیں ۔دودھ پیتے بچے،بے زبان جانور،بوڑھے اور عبادت گزار نوجوان۔حضرت جبرئیل ؑ کی بد دعا اور رسول اﷲ ﷺ کے آمین کی حدیث گزر چکی ہے" ہلاک ہو جائے وہ شخص جس کے سامنے اس کے والدین یا ان میں سے کوئی ایک بڑھاپے کو پائیں اور وہ اس کو جنت میں داخل نہ کرائیں "۔رمضان میں نوجوانوں کے پاس ایک سنہری موقع ہے کہ وہ اپنے مزرگوں کے علاوہ ہمسائے میں بوڑھے افراد کی خدمت کر کے ان گنت ثمرات حاصل کرسکتے ہیں۔بوڑھے شخص کے متعلق آتا ہے کہ اﷲ بھیاﷲ بھی اسلام میں بوڑھا ہونے والے کو بغیر حساب کے بخش دے گا ۔نبی اکرمﷺ کا ارشاد ہے کہ "جب آدمی ۵۰ سال کی عمر کو پہنچتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس کا حساب ہلکا کر دیتے ہیں جب ساتھ سال کی عمر کو پہنچتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس کو اپنی طرف رجوع کی توفیق دے دیتے یں ۔جب ستر سال کو پہنچتا ہے تو سب آسمان والے اس سے محبت کرنے لگتے ہیں اور جب اسی سال کو پہنچتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اسکی حسنات کو لکھتے ہیں اور برائیوں کو معاف کر دیتے ہیں ۔نوے سال کا ہونے پر اﷲ تعالیٰ اس کے اگلے پچھلے گناہوں کو معاف کر دیتے ہیں اور اس کو اپنے گھر والوں کے معاملے میں شفاعت کا حق دے دیتے ہیں اور اس کی شفاعت قبول فرماتے ہیں اس کا لقب" امین اﷲ" اور" اسیر اﷲ فی الارض" ہو جاتا ہے" بوڑھے اور ریٹائرڈ لوگ اپنا سہارا خود بن کر نئی نسل کی علمی و عملی تربیت کر سکتے ہیں

صلہ رحمی اور رمضان المبارک ۔۔۔۔۔۔شب قدر میں جن لوگوں کی بخشش نہیں ہوتی ان میں قطع رحمی کرنے والا بھی شامل ہے۔صلہ رحمی کا مطلب ہے خون کے رشتوں سے تعلق رکھنا۔اس سے متعلق چند احادیث کا انتخاب پیش خدمت ہے۔تاکہ اس رمضان میں ہم صلہ رحمی کے انعامات سے زیادہ بہرہ مند ہو سکیں
۱۔اﷲ تعالیٰ ہر گناہ کی جب چاہے مغفرت فرما دیتے ہیں لیکن والدین سے تعلق توڑنے کی سزا مرنے سے پہلے دے دیتے ہیں
۲۔جمعہ کی رات تمام آدمیوں کے عمل اﷲ کے سامنے پیش ہوتے ہیں ۔قطع رحمی کرنے والے کا کوئی عمل قبول نہیں ہوتا
۳۔صلہ رحمی میں بیماریوں کی شفا ہے۔صلہ رحمی کرنے والے کی عمر بڑھتی ہے ،مال بڑھتا ہے،رزق بڑھتا ہے اور وہ بری موت نہیں مرتا
۴۔اپنی والدہ کے ساتھ حسن سلوک کی ابتدا کرو پھر باپ ،بہن بھائی کے ساتھ ۔پڑوسیوں اور حاجت مندوں کو نہ بھولنا
۵۔بہترین صدقہ تمہاری وہ لڑکی ہے جو لوٹ کر تمہارے پاس آگئی ہو اور اس کا تمہارے سوا کوئی کما نے والا نہ ہو
۶۔صلہ رحمی کا صلہ سب سے جلدی ملتا ہے ۔بعض آدمی گناہ گار ہوتے ہیں لیکن صلہ رحمی کی وجہ سے ان کے مالوں اور اولاد میں برکت ہوتی ہے

﴾غصہ اور جھگڑے ختم کرنے کے طریقے جھگڑا ہمیشہ بدگمانی سے شروع ہو کرغصے پر ختم ہوتا ہے۔آپ ﷺ نے سب سے بہترین شخص اسے قرارر دیا ہے جس کو دیر سے غصہ آئے اور جلدی ختم ہو جائے۔

۱۔ "جو شخص استغفار کی کثرت رکھتا ہے اﷲ تعالیٰ ہر تنگی میں اس کے لیے راستہ نکال دیتے ہیں ،اور ہر غم سے خلاصی نصیب فرماتے ہیں اور ایسی جگہ سے روزی پہنچاتے ہیں کہ اس کو گمان بھی نہیں ہوتا "
۲۔۔ اور نیکی اور بدی برابر نہیں ہے۔تم بدی کو بہترین طریقے سے دفع کرو۔پھر اچانک تم دیکھو گے کہ تم اور تمھارا دشمن جگری دوست بن گئے ہیں۔اور یہ بات انہی کو ملتی ہے جو صبر کرتے ہیں اور یہ بات انہی کو ملتی ہے جو بڑے نصیب والے ہوتے ہیں(حم السجدہ۳۴۔۳۵)
۳۔اس شخص کے لیے خوشخبری ہے جس کو اپنی عیب جوئی دوسروں کے عیبوں پر نظر ڈالنے کی فرصت نہ دے
۴۔ مجلس میں دوسروں کے لیے جگہ خالی کرنا ،تحفہ دینا ،ہاتھ ملانا اور سلام کرنا چند ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جن پر اس رمضان میں عمل کرکے آئندہ آنے والے لمحات اپنے اور دوسروں کے لیے قیمتی بنا سکتے ہیں ۔رسول رحمت ﷺ نے آپس میں محبت پیدا کرنے کی کتنی آسان ترکیب بتائی ہے "تم اس وقت تک جنت میں نہیں جاؤ گے جب تک ایماندار نہ بنو گے اور ایماندار اس وقت تک نہیں بنو گے جب تک آپس میں محبت نہیں کرو گے ۔کیا میں تمہیں ایسی بات نہ بتا دوں جس پر عمل کرنے سے تم آپس میں محبت کرنے لگو وہ بات ہے سلام کو رواج دینا(مسلم)۔ایمان والا اپنی خوش خلقی کے ذریعے رات کو عبادت کرنے والے اور دن کو ہمیشہ روزہ رکھنے والے شخص کا درجہ حاصل کرلیتا ہے (مشکٰوۃ)" رمضان میں چھوٹے بچوں سے لے کر بزر گوں تک سب کو سلام کرنے کی مشق کریں

﴾۔صبر کے مہینے میں صبر کی مشق
یہ مہینہ صبر کا ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے اور یہ مہینہ لوگوں کے ساتھ غم خواری کرنے کا ہے"صبر کے اس مہینے میں اگر ہم بھی صبر کا عمل سیکھ جائیں تو ان شا ء اﷲ اگلے رمضان تک ہم اپنی زندگی کو جنت بنا لیں گے
۱۔کسی بھی مصیبت اور مسئلے میں صبر کریں اور اﷲ کے سامنے صلٰوۃ الحاجت پڑھیں اﷲ کی تمام قدرت آپ کے ساتھ ہو جائے گی۔قرٓن مجید میں بے شمار مقامات پر صبر کی تلقین کی گئی ہے"اے لو گو جو ایمان لائے ہو صبر اور نماز سے مدد لو بے شک اﷲ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے"۔(البقرۃ ۱۵۳)
۲۔کمینوں کی جلتی ہوئی باتوں پر دھیان نہ دیں ۔ہمارے ہاں کمینے ،سفارشی اور خوشحال لوگوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ کسی کو سلگانے چبھتے ہوئے جملے کستے ہیں ۔سورۃ مزمل کی آیت ۱۰ ۔۱۱ میں ان کی طرف ہی اشارہ کیا گیا ہے۔" اور جوکچھ یہ لوگ کہ رہے ہیں اس پر صبر کرو اور ان سے اچھے طریقے سے الگ ہو جاؤاور چھوڑ دو مجھے اور ان جھٹلانے والے خوشحال لوگوں کو"
۳۔اﷲ کی رحمت سے نا امید نہ ہوں قرآن مجید میں ارشاد ہے۔"اے نبی ﷺکہ دو میرے بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے اﷲ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جاؤ۔یقینااﷲ سارے گناہ معاف کردیتا ہے۔بے شک وہ غفور اور رحیم ہے(الزمر۵۳)" (مایوسی جہنمیوں کی نشانی ہے)۔اسی طرح ایک اور جگہ پر ارشاد ہے "پس ہر تنگی کے ساتھ آسانی ہے،بے شک ہر تنگی کے ساتھ آسانی بھی ہے(النشرح۔۶)"
﴾۔غلطی ہونے کے بعد ایمان والوں کا طریقہ۔
قرآن مجید میں تفصیل سے بتایا گیا کہکہ ایمان والوں کی خصوصیات کیا ہیں اور غلطی ہو جانے کے بعد ان کا طرز عمل کیا ہوتا ہے
الف "ایمان والے بڑے بڑے گناہوں سے اور بے حیائی کے کاموں اجتناب کرتے ہیں۔
ب۔جب ان کو غصہ آجائے تو درگزر کرتے ہیں،نماز قائم کرتے ہیں
ج۔،ان کا آپس کا معاملہ مشورے سے ہوتا ہے ،جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں،
د۔اور جب ان پر کوئی زیادتی ہو جائے تو وہ اس کا مقابلہ کرتے ہیں ۔اور برائی کا بدلہ اس جیسی برائی ہی ہے ۔
ک۔پھر جو معاف کردے اور اصلاح کرے اس کا اجر اﷲ کے ذمے ہے وہ ظالموں کو پسند نہں کرتا۔
ل۔اور جو لوگ ظلم ہونے کے بعدبدلہ لیں ان لوگوں پر کوئی ملامت نہیں ہے،ملامت تو ان لوگوں پر ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں کسی حق کے بغیر زیادتیاں کرتے ہیں۔ان لوگوں کے لیے دردناک عذاب ہے۔
ْق ۔البتہ جو شخص صبر کرے اور معاف کردے۔تو یہ بات بڑی ہمت کے کاموں میں ہے (الشوریٰ۔۳۸تا۴۳)
﴾امر با لمعروف و نہی عن المنکراور ہمارے رویے
سورۃالعصر میں زمانے کی قسم کھا کر اﷲ نے ارشاد فرمایا ہے کہ انسان چار طریقے اپنا کر ہی نقصان سے بچ سکتا ہے ۔ایمان لا کر اچھے اعمال کرنا ہوں گے۔پھر سچی بات کی باربار تلقین کرنا ہو گی اور اس کے جواب میں انعام دیر سے ملے گا جس کے لیے ایک دوسرے کو صبکی تلقین کرنا ضروری ہے۔ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ "تم میں سے ہر ایک اپنے بھائی کا آئینہ ہے لہٰذہ اگر وہ اس میں کوئی برائی یا خرابی یا عیب دیکھے تو اسے دور کرے (ترمذی)حضرت عمرؓ فاروق کا ارشاد ہے کہ اﷲ سرسبز و شاداب رکھے اس شخص کو جو مجھے میرے عیب بتائے۔ہمارا غصہ اور جھگڑے اس وجہ سے بھی ہوتے ہیں کہ ہم دل ہی دل مین بدگمانیاں پالتے رہتے ہیں اور بغیر تحقیق کیے ایک دن یہ سب گندگی فتنہ و فساد کی صورت میں سامنے آجاتی ہے ۔ہمارے اندر اتنی اخلاقی جرات ہونی چاہیئے کہ ہم اگر کسی سے بات کہنا چاہیں تو کھل کر کہہ سکیں ۔دوسری صورت میں خط کی صورت میں بات کہی جا سکتی ہے یا کسی درمیانی دوست کو اعتماد میں لا کر بات دوسرے تک پہنچائی جا سکتی ہے
اگر ہماری نیت صاف ہوگی تو یہ ہمارے ایمان کی تجدیدبھی ہو گی اور بے شمار رحمتیں ہم پر نچھاور ہوں گی۔اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے "اے ایمان والو اﷲ سے ڈرو اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ۔اﷲ تمھیں اپنی رحمت کا دوگناحصہ عطا فرمائے گااور تمھارے لیے ایسی روشنی بنا دے گا جس میں تم چلو گے اور تمھارے قصور معاف کردے گا۔اﷲ بڑا بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔(الحدید۲۸)"
۴۔اگر ہم اپنی موت کو سامنے رکھیں اور یہ سوچیں کہ ہمارے جنازے پر ہمارے جیون ساتھی سے لے کر اولاد، دفتر اور کاروبار کے ساتھیوں کے علاوہ رشتہ داروں کے کیا تاثرات ہوں گے تو ہمارے بہت سی انا پرستی خاک میں مل جائے گی۔بیماروں کی عیادت اور جنازوں میں شرکت سے ویسے بھی موت یاد رہتی ہے
نہ تھی حال کی جب ہمیں اپنے خبر ،رہے دیکھتے اوروں کے عیب و ہنر
پڑی اپنی برائیوں پر جو نظر تو نگاہ میں کوئی برا نہ رہا
ظفر ؔ آدمی اس کو نہ جانئے گا گو ہو کیسا ہی صاحب فہم و ذکا
جسے عیش میں یاد خدا نہ رہی ، جسے طیش میں خوف خدا نہ رہا

Barkatullah Awan
About the Author: Barkatullah Awan Read More Articles by Barkatullah Awan: 5 Articles with 9884 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.