دعاکرتے ہیں جینے کی،دوادیتے ہیں مرنے کی

باسمہ تعالیٰ
گذشتہ دنوں جب بہارمیں جدیواوربی جے پی کا برسوں پرانابے جوڑرشتہ اپنے منطقی انجام کوپہونچنے والا تھا اس وقت نتیش جی نے بڑے ہی شاعرانہ اندازمیں بی جے پی کی منافقانہ چال پرتبصرہ کرتے ہوئے کہاتھاکہ:دعاکرتے ہیں جینے کی اوردوادیتے ہیں مرنے کی۔نتیش جی کی یہ شاعری سننے میں توبڑی اچھی لگی تھی لیکن سمجھنے کے قابل نہ تھی،کیوں کہ اس بے جوڑگٹھ بندھن کاوجودہی مفادپرستی پرتھاتوبھلاجینے کی دعااورمرنے کی دوامیں بھی مفادپوشیدہ تھایہ الگ بات ہے کہ نتیش جی کامفاداب الگ تھااس لیے گٹھ بندھن کو توڑنا ہی ضروری تھا،خیرجملہ معترضہ کے طورپریہ باتیں آگئیں اورویسے بھی شعر کاپس منظربتانے کے لیے مختصرااس کاتذکرہ ضروری تھا۔

بات ہورہی تھی شعر کے مطلب کی ،تویقیناجس وقت نتیش جی نے یہ شعرپڑھاتھااس وقت اس کاصحیح مفہوم سمجھ میں نہیں آیاتھالیکن جب جمہوریہ مصرمیں غیرآئینی طورپرجمہوری طریقہ سے منتخب صدرمرسی کوبرطرف کرکے فوج نے غیرآئینی حکومت قائم کی اوراخوانی صدرمرسی کی برطرفی کے ساتھ ہی عالم عرب کے قائدملک سعودی عرب نے ۵؍ارب ڈالرکی گراں قدرامداد سے مصرکی نئی فرعونی حکومت کی حوصلہ افزائی کی اورساتھ ہی رمضان کے مبارک مہینہ میں مساجدمیں قنوت نازلہ میں شام کے ساتھ ساتھ مصرکی بھی سلامتی کی دعائیں کی جانے لگیں تب جاکراس شعرکاحقیقی مفہوم سمجھ میں آیاکہ ایک طرف فرماں روائے سعودی مصرکے مسلمانوں کی سلامتی کی دعاکررہے ہیں تودوسری جانب مصری اسلام پسندمسلمانوں کاقتل عام کرنے کے لیے فرعونی حکومت کوگراں قدرامدادسے نوازرہے ہیں،یعنی جوشعرنتیش جی نے بی جے پی کے لیے کہاتھااس شعرکامصداق صحیح معنوں میں سعودی عرب ہے۔

سعودی عرب امت مسلمہ کی امیدوں کامرکزہے،ملت اسلامیہ کادھرکتادل ہے،ہرمسلمان سعودی عرب سے محبت کواپنے ایمان کاایک جزء سمجھتاہے،لاکھ خرابی کے باوجودجب بھی اسے یہ محسوس ہوتاہے کہ سعودی عرب اسلام اوربانی اسلام کی جائے پیدائش ہے،اورہمارے محبوب آخری نبی کاوطن ہے توہ بے چین ہواٹھتاہے اوراپنی محبت کوچھپا نہیں پاتا ہے، ہرمسلمان جس کے پیش نظریہ حدیث ہوتی ہے کہ ’’ایک مسلمان دوسرے مسلمان کابھائی ہے،یایہ کہ’’ہرمسلمان آپس میں جسم کے اعضاء کی طرح ہیں کہ اگرجسم کے کسی عـضو کو تکلیف پہونچتی ہے توپوراجسم بے چین ہواٹھتاہے اسی طرح دنیاکاہرمسلمان جب بھی مسلم ممالک بالخصوص عرب ممالک میں مسلمانوں کوپریشان اورمظلوم دیکھتاہے تواس کادل مچل جاتاہے،وہ خودبھی اپنے آپ کومظلوم تصورکرنے لگتاہے،اوروہ اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق نمازوں میں اس کے لیے دعائیں کرتاہے،اس کی سلامتی اوراس کی بھلائی کے لیے رب ذوالجلال کے سامنے دست سوال درازکرتاہے،تاکہ اس کامسلمان بھائی امن وسکون اورخیروعافیت کے ساتھ رہے۔اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے جہاں اپنی امت کودنیاکے دیگرامورکی تلقین کی ہے وہیں یہ بھی کہاہے کہ جب مسلمان عمومی مصیبت اورابتلاء وآزمائش میں گرفتارہوں،دشمنوں سے مقابلہ سخت ہوتوایسی حالت میں فجریاوترکی نمازمیں دعائے قنوت نازلہ کااہتمام کیاجائے،اوران کے لیے سلامتی کی دعائیں کی جائیں،دنیاکے کسی حصہ میں جب کبھی کہیں بھی مسلمانوں پراس طرح کی مصیبت آتی ہے تودنیاکے گوشہ گوشہ میں پھیلامسلمان اپنی نمازوں میں ان دعاؤں کااہتمام کرتاہے اوراپنے مسلمان بھائیوں کی سلامتی کی دعاء مانگتاہے،اوراﷲ مظلوموں کی مدد کرتاہے،سعودی عرب کی مساجدمیں بھی اس کاخوب اہتمام کیاجاتاہے بلکہ حرمین شریفین میں بھی دنیابھرکے مظلوم مسلمانوں کی سلامتی کے لیے دعائیں مانگی جاتی ہیں،اس وقت مصرخانہ جنگی اورآپسی انتشارکاشکارہے،لہٰذااس تناظرمیں جہاں دیگرمصیبت زدہ ممالک کے لیے دعائیں کی جارہی ہیں وہیں مصرکانام بھی لیاجارہاہے جوکہ یقیناقابل مستحسن قدم ہے،لیکن !حالات وشواہدکچھ اورہی کہتے ہیں،ایک طرف توسلامتی کی دعائیں کی جارہی ہیں وہیں دوسری جانب موجودہ فرعونی حکومت کی خوب مالی امدادکی جارہی ہے،اسی منافقت اورشاطرانہ چال کودیکھتے ہوئے اچانک یہ شعرزبان پرآیاکہ : ؂دعاکرتے ہیں جینے کی،دوادیتے ہیں مرنے کی!!

آپ سمجھ رہے ہوں گے کہ آخراس میں کون سی منافقت کی بات ہوگئی،لیکن اگرآپ کے پردۂ ذہن پرمصرکے حالات نقش ہوں گے توآپ خوب سمجھ گئے ہوں گے،میں آپ سے پوچھناچاہتاہوں کہ سعودی عرب ایک اسلامی مملکت ہے،جس کادستور’’قرآن وسنت‘‘ اورلوگو کلمہ توحید’’لاالٰہ الااﷲ محمدرسول اﷲ‘‘ہے،اورمصرمیں جوکچھ ہورہاہے وہ اسلام پسند اور غیراسلام پسندجماعتوں کے درمیان،یعنی خیروشرکی لڑائی ہورہی ہے،توسعودی عرب کس کے ساتھ ہے،اورسعودی کی حمایت کسے ملنی چاہیے؟آیااس حکومت کوجوسراسرغیردستوری اورجس کاسربراہ یہودی ہے اسے یاپھرایک ایسی جماعت کوجواسلام پسندہے اورجس کی کوشش ہی مصرمیں اسلامی حکومت کاقیام ہے،اس کو؟آپ خودفیصلہ کریں کہ سعودی کی حمایت کاحقدارکون ہے؟یقیناہروہ شخص جومسلمان ہے اورخداورسول پرجس کاایمان ہے وہ یہی کہے گاکہ ہرحال میں سعودی کواسلام پسندوں کی حمایت کرکے اسلامی حکومت کے قیام کی راہ ہموارکرنے میں بھرپورمددکرنی چاہیے،لیکن سعودی حکومت نے ایسانہیں کیا،بلکہ اس کے بہت سارے شواہدملے ہیں اورخودسعودی عرب کے ایک جنرل عبداﷲ مسفر القحطانی نے یہ انکشاف کرتے ہوئے اپنے عہدہ سے استعفادے دیاکہ مرسی حکومت کی برخواستگی میں سعودی حکومت کااہم کرداررہاہے،اسی طرح سعودی عرب کے مشہورعالم دین اورداعی اسلام ڈاکٹرالعریفی کوصرف اس لیے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیاگیاکہ انہوں نے اپنی تقریروں میں اخوان المسلمین کی حمایت کی اورموجود ہ فرعونی حکومت کوسعودی امدادکی مخالفت کی تھی،ایک طرف مساجدمیں مصرکی سلامتی کی لیے دعائیں کرنااوردوسری جانب مصرکی موجودہ فرعونی حکومت کوگراں قدرامداد،یہ ظاہرکرتاہے کہ سعودی عرب میں اسلام کی حیثیت صرف ایک سرکاری مذہب کی ہے،جس کامشاہدہ اس ناچیزکوسعودی عرب میں رہتے ہوئے روزہوتاہے،سعودی عرب نہیں چاہتاہے کہ عرب خطہ میں اسلام پسندوں کی قوت مضبوط ہو،اوراسلام کے مکمل نفاذکامطالبہ ہو،کیوں کہ اگرایساہوتاہے توسب سے پہلے سعودی عرب کے شاہی گھرانے کے مفادکواس سے ٹھیس پہونچے گا،اس وقت مصرمیں جوکچھ ہورہاہے وہ اسلام پسندوں کے لیے بہت ہی اذیت ناک ہے،مصرکی موجودہ فرعونی حکومت اخوان کے ایک ایک رکن کوقتل کررہی ہے،ایک بارپھرجمال عبدالناصرکے دورکی یادوں کومصرمیں تازہ کردیاگیاہے،ا ورایسے وقت میں سعودی عرب کی یہ امداداس لیے نہیں کہ اس سے ملک کی لڑکھڑاتی معیشت کوسہارادیاجاسکے،بلکہ اس رقم کااستعمال اخوان المسلمین کے کارکنان کاقتل عام کرنے میں کیاجارہاہے،اسلام کی جڑوں کومصرسے ختم کرنے کے لیے اس رقم کااستعمال کیاجارہاہے،افسوس ہے ایسے حکمراں پرکہ پوری دنیاجسے اپنااسلامی رہنمامانتی ہے وہ خوداسلام کی بیخ کنی اپنے ہاتھوں سے کررہاہے،اوراس کی بنیادی وجہ صرف اورصرف اپنی بادشاہت کوسلامت رکھناہے خواہ اس کے لیے اسلام کی قربانی ہزارباردینی پڑے۔

فرماں روائے سعودی اورخادم الحرمین جیسے معززلقب کے حامل بادشاہ وقت کواﷲ تعالیٰ کایہ فرمان ہروقت اپنے پیش نظررکھناچاہیے کہ :اے ایمان والو!جب (دشمن کے) کسی گروہ سے تمہاری مڈبھیڑہوتوثابت قدم رہو،اورخوب اﷲ کاذکرکرو،تاکہ تم کامیاب ہوسکو،اوراﷲ اوراس کے رسول کی اطاعت کرو،آپس میں جھگڑے نہ کروکہ تم کمزورپڑجاؤگے،تمہاری ہوااکھڑجائے گی،اورصبرکرو،بے شک اﷲ صبرکرنے والوں کے ساتھ ہیں۔(الانفال:۴۵۔۴۶)مذکورہ آیت میں اﷲ نے مسلمانوں کوچارباتوں کی تلقین کی ہے:۱۔ثابت قدم رہو،حرص وطمع میں نہ آو۔۲۔ہرحال میں اﷲ سے لولگائے رہو،اوراسی سے مانگتے رہو،۔۳۔اپنی زندگی میں اﷲ اوراس کے رسول کے احکام کوقائم رکھو،اورکسی قسم کی تقسیم وتفریق نہیں ہونی چاہیے۔۴۔آپس میں جھگڑومت۔اس آیت کواپنے سامنے رکھیں اورموجودہ وقت کی نزاکت کومحسوس کریں کہ اس وقت تمام باطل قوتیں ہماری بیخ کنی کے لیے ایک صف میں کھڑی ہے،جس کامرکز اتحادکچھ نہیں ہے،صرف اسلام دشمنی ہی ان کامرکز اتحادہے اوراس کی وجہ سے وہ ایک صف میں کھڑے ہیں،لیکن ہمارے پاس تومرکز اتحادہے اوربہت مضبوط ہے اوروہ ہے کلمۂ توحید’’لاالٰہ الااﷲ محمدرسول اﷲ‘‘اس کے باوجودہماری صفوں میں اتحادنہیں ہے،بلکہ تھوڑی سی ذاتی مفادکے لیے اپنے ہاتھوں اپنے ہی بھائی کا خون بہانے کے لیے ہروقت تیاررہتے ہیں،شام اورمصراس کی زندہ مثال ہیں،اورایسے وقت میں سعودی عرب کی فرعونی طاقت کوحمایت مذکورہ نص قرآنی کی کھلی خلاف ورزی ہے،اس وقت میں ان باتوں پہ کچھ نہیں لکھوں گاجوکہ سعودی عرب میں ہوتاہے،اگرظاہرسے صرف نظرکرلیاجائے تواس وقت سعودی عرب میں ہروہ براکام انجام دیاجاتاہے جس کاتصورایک عام مسلمان کربھی نہیں سکتا،ظاہرماشاء اﷲ بہت خوبصورت ہے،یایوں کہہ لیں کہ بڑاخوبصورت غلاف چڑھادیاگیاہے،لیکن اندرون خانہ جوکچھ ہورہاہے الامان والحفیظ،اوراخوان المسلمین جیسی تحریکوں سے ڈرنے کی یہی بنیادی وجہ ہے،کیوں کہ اگرسعودی عرب میں مکمل طریقے سے اسلام نافذہوجاتاہے توان عیش پرست حکمرانوں کے لیے مغرب میں پناہ لینے کے علاوہ اورکوئی چارہ کارنہ ہوگا۔ان کی عیش پرستی اورشہنشاہیت کی ہوس نے ہی آج مسلمانوں کوان کے قبلہ اول بیت المقدس سے محروم کررکھاہے،آج ان کی عیش کوشی کایہ عالم ہے کہ ان کے بچوں کی پرورش فلپائن اوردیگرغیراسلامی ممالک سے آئی ہوئی عیسائی اورغیرمسلم خادماؤں کے ہاتھوں سے ہوتی ہے توبھلاان کی گودوں سے صلاح الدین ایوبی کی تیاری کی امیدرکھناایسے ہی ہے جیسے کہ ببول بوکرآم کی امیدرکھنا۔نوجوان کسی بھی قوم کامستقبل ہوتاہے اورقوم کاباگ ڈوران کے ہاتھوں میں ہوتاہے لیکن اس قوم کے نوجوانوں کے ہاتھوں میں سگریٹ،بلیک بیری،آئی فون،آئی پیڈاورگاڑی ہوتی ہے ،اوران کی سب سے بڑی خواہش بھی یہی ہوتی ہے، جوانہیں جگاسکتا تھا انہیں حکومت نے بہت پہلے سلادیاہے،اورحکومت چاہتی بھی نہیں ہے کہ وہ جاگیں،کیوں کہ اگریہ جاگ گئے اوران میں سے کسی نے صلاح الدین ایوبی بننے کی کوشش کی توپھران کااﷲ ہی حافظ ہے!

ذراغورکریں!اخوان کاجرم کیاہے؟صرف یہی نہ کہ وہ اسلام کاغلبہ چاہتے ہیں،مرسی کاجرم کیاتھا؟یہی نہ کہ مرسی نے اسرائیل کوآنکھیں دکھاتے ہوئے کہاکہ جوگیس تم برسوں سے کوڑیوں کے داموں خریدرہے ہو،اب ایسانہیں چلے گابلکہ اب ازسرنواس کی قیمت متعین کی جائے گی،مرسی کاایک اورجرم تھاجس نے اسرائیل اورامریکہ کواندرسے بے چین کردیا وہ یہ ہے کہ غزہ کے مظلوم مسلمانوں کی مددکے لیے مصرکے بارڈراورسرنگوں کوکھول دیاتاکہ وہاں کے مظلوم مسلمانوں کی مستقل امدادکی جاسکے،آج وہ بارڈراورسرنگیں بندکی جاچکی ہیں،غزہ کے بچے دودھ کے لیے بلک رہے ہیں،بوڑھے اناج کے لیے اورمریـض دواکے لیے تڑپ رہے ہیں،آخران مظلوم کی بددعاء میں سعودی عرب برابرکاشریک نہیں ہے؟ کیاسعودی عرب کایہ عمل مسلمانوں پرظلم کے مترادف نہیں ہے؟سعودی عرب کی جانب سے ملحدوں اورفرعونی حکومت کی مالی امدادپریہ شعر برملازبان پرآرہاہے کہ:چوں کفرازکعبہ می خیزد۔کجاماندمسلمانی۔اوراسی کے ساتھ ایک طرف سعودی عرب کافرعونی حکومت کومالی امداداوردوسری طرف مصرکی سلامتی کے لیے مساجدمیں دعائیں درحقیقت نتیش جی کے اس شعرکاحقیقی مصداق ہے:دعاکرتے ہیں جینے کی،دوادیتے ہیں مرنے کی۔٭٭٭
Ghufran Sajid Qasmi
About the Author: Ghufran Sajid Qasmi Read More Articles by Ghufran Sajid Qasmi: 61 Articles with 46680 views I am Ghufran Sajid Qasmi from Madhubani Bihar, India and I am freelance Journalist, writing on various topic of Society, Culture and Politics... View More