خیبر پختونخواہ صنعتوں کا قبرستان

جمشید خٹک

خیبر پختونخواہ کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے مقامی صنعت کاروں کے ایک وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ صوبہ خیبر پختونخواہ کی حکومت نے تمام انڈسٹریل اسٹیٹس کو نجی شعبے کے حوالے کرنے اوراُنہیں سستی بجلی فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔یہ فیصلہ نہایت بروقت اور دوراندیش سوچ کا مظہر ہے ۔اس وقت خیبر پختونخواہ صنعتوں کا قبرستان بنا ہوا ہے ۔پورے ملک میں اس وقت بجلی کا بحران ہے ۔جس کی وجہ سے صنعتوں کا پہیہ جام ہوگیا ہے ۔ملک میں بدامنی بجلی کے بحران نے سب سے زیادہ صوبہ خیبر پختونخواہ کو متاثر کیا ہے ۔بیمار اوربند صنعتوں کو چلانے کیلئے ارزان نرخوں پر بجلی کی فراہمی کا وعدہ تازہ ہوا کا ایک جھونکا ہے۔حکومت خیبر پختونخواہ کا ایک غیر ملکی کمپنی کے ساتھ 1000 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کیلئے 2 ارب ڈالر کا معاہدہ ایک مستحسن اقدام ہے ۔

خیبر پختونخواہ کل 74521 سکوئر کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے ۔اس کی آبادی 22 ملین ہے ۔26 اضلاع میں سرکاری ذرائع کے مطابق کل 2254 صنعتی یونٹس قائم ہیں۔پچھلے پانچ سالوں میں پاکستان میں 1579 صنعتی کارخانے بند کر دئیے گئے ہیں۔ان 1579 بند یونٹوں میں 688 صنعتی یونٹوں کا تعلق خیبر پختونخواہ سے ہے ۔گو یا صوبہ خیبر پختونخواہ میں سب سے زیادہ کارخانے بندش کا شکار ہوئے ۔صوبہ خیبر پختونخواہ میں بند یونٹس کا تناسب کل بند کارخانوں کا 44 فی صد بنتا ہے ۔ان صنعتی یونٹوں کی بند ش سے 7530 مزدور بے کار ہوگئے ہیں ۔صنعتی ترقی کی رفتار 0.01 فی صد ہے ۔ بلکہ حقیقی معنوں میں یہ نفی میں ہے ۔انڈسٹریل اسٹیٹس میں سال 2006-10 کے دوران ضلع پشاور میں 190 ، گدون ضلع صوابی میں 294 ، حطار میں 198 اور ضلع نوشہرہ میں 6 صنعتی یونٹس بند ہو چکے ہیں ۔جبکہ ایکسپورٹ پروسیسنگ زون میں بند یونٹس اس کے علاوہ ہیں ۔انڈسٹریل اسٹیٹس اور ایکسپورٹ پروسیسنگ زون سے باہر بھی کئی صنعتیں بن ہو چکی ہیں ۔پورے ملک میں 10 مقامات پر ایکسپورٹ پروسیسنگ زونز بنائے گئے ہیں۔ جس میں صرف ایک زون خیبر پختونخواہ میں رسالپور کے مقام پر قائم کیا گیا ہے ۔جس کا کل رقبہ 92 ایکڑ ہے ۔ لیکن اس صنعتی زون کی حالت بھی کوئی قابل رشک نہیں ہے ۔خیبر پختونخواہ کے ویب سائٹ پر سرکاری اعداد وشمار کے مطابق جو 2007-08 تک خیبر پختونخواہ میں کل کارخانوں کی تعداد 2254 بتائی گئی ہے ۔ 2007 کے بعد سرکاری ویب سائٹ خاموش ہے ۔ محکمہ صنعت خیبر پختونخواہ ویب سائٹ بیورو آف اسٹیٹسکس پر بھی ایک نظر ڈالنی چاہیے ۔جس میں کئی اعدا د وشمار کو Up-Date کرنے کی ضرورت ہے ۔

ماربل ، فرنیچر ، ماچس ، سیگریٹ ، فارسیوٹیکل کی صنعتیں بجلی اور گیس کی بحران کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔باقی وجوہات کے علاوہ صنعتوں کی بندش کی وجہ امن کی بگڑی ہوئی صورتحال بندرگاہ سے دوری اور بجلی اور گیس کی بحران ہے ۔آمد ورفت کے بہتر ذرائع نہ ہونے کی وجہ سے اس علاقے میں تیار کردہ مال ملک کے باقی ماندہ علاقوں میں تیار کردہ مال سے قیمتوں میں مقابلہ نہیں کرسکتا۔اتنی کثیر تعداد میں صوبہ خیبر پختونخواہ میں کارخانوں کی بندش نے بے روزگاری میں اضافہ اور دیگر کئی مسائل کو جنم دیاہے ۔اگر بروقت ان مسائل کی طرف توجہ نہ دی گئی تو روز بروز بے روزگاری میں اضافے سے جرائم کی شرح میں اضافہ ہوگا۔جس کو روکنے کیلئے ضروری ہے کہ روزگار کے مواقع فراہم کئے جائیں۔بند کارخانوں کو چلائیں۔کارخانہ دار اور سرمایہ کاروں کو جو مشکلا ت درپیش ہیں اُن کے ازالے کیلئے پالیسی بنائی جائے ۔مرکزی سطح پر تو وزارت صنعت تو اپنے طور پر اقدامات اُٹھائے گی۔لیکن صوبائی سطح پر ترجیحی بنیادوں پر ان مسائل کی حل کیلئے خیبر پختونخواہ کی حکومت صنعتوں کی بہتری کیلئے عملی کام کا آغاز کیا جائے ۔خیبر پختونخواہ میں صنعتوں کی بہتری کیلئے آئندہ دس سالوں کیلئے خصوصی مراعات کا پیکج کا اعلان کیا جائے جس میں بند اور بیمار صنعتوں کی بحالی کیلئے صوبائی ٹیکسوں اور مرکزی ٹیکسوں بشمول EOBI ، ایجوکیشنسس میں، ایمپلائز سوشل سیکورٹی ، ایمپلائز ویلفئیر بورڈ ، پرافٹ پارٹیسیپیشن فنڈ سے مستثنا قرار دیا جائے ۔جب یہ بیمار اور صنعتی یونٹس ایک دفعہ چل پڑے گے ۔ اس قابل بنیں ۔ اپنے پاؤں پر کھڑے ہوں ۔اس کے لئے پانچ سال کا عرصہ کافی ہوگا۔اس پانچ سال کے عرصے کے بعد حکومت بے شک ان کارخانوں سے ٹیکسوں کی وصولی شروع کریں ۔یہ پانچ سال کا عرصہ ان کارخانوں کو اس قابل بنادیگا۔کہ وہ ملک کے دیگر کارخانوں کے برابر آجائیگا۔جب تک لیول پلینگ فیلڈ نہیں مہیا کیا جائیگا۔اس صوبے کی صنعت ترقی نہیں کرسکتی ۔صوبائی حکومت دُنیا بھر سے سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کیلئے صنعتی کانفرنس کا اہتمام کر کے جس میں سرمایہ کاروں اور صنعت کاروں کو راغب کرنے کیلئے خصوصی مراعات کے پیکج کا اعلا ن کیاجائے ۔سالم اور سندر (پنجاب ) کے طرز پر انڈسٹریل زونز بنائے جائیں۔فری ٹریڈ زونز قائم کریں۔سب سے بڑھ کر امن اور بجلی کی فراہمی کو پہلی ترجیح کے طور پرکام کا آغاز کیا جائے ۔

اس صوبے کے صنعت کاروں کو کارخانوں میں وسعت دینے یا نئے کارخانے لگانے کیلئے بینکوں سے قرضہ لینے کیلئے دوسرے شہروں میں جانا پڑتا ہے ۔ وہ اس لیے کہ اکثر بینکوں کے مرکزی دفاتر اسلام آباد یا کراچی میں واقع ہیں۔ ایک صنعت کار کو آسان شرائط پر قرضہ لینے میں دوسرے شہروں کے چکر لگانے پڑتے ہیں ۔انڈسٹریل بینک یا کسی بڑے بینک کا مرکزی دفتر پشاور میں شفٹ ہونے سے صنعت کاروں کو ایک ترغیب دی جاسکتی ہے ۔

افغانستان جانے کیلئے سب سے کم فاصلہ پشاور سے ہی ہے ۔خیبر پختونخواہ افغانستان کے دھانے پر واقع ہے ۔ہزاروں سالوں سے تاریخی ، مذہبی اور سماجی رشتوں میں منسلک ہونے کے باوجو د خیبر پختونخواہ میں صنعتی ترقی نہ ہو جانے کی وجہ سے یہ صوبہ افغانستان میں تجارتی مواقعوں سے خاطر خواہ فائدہ حاصل نہیں کرسکا۔اس کے باوجود پاکستان افغانستا ن کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے ۔سال 2011-12 کے دوران 2249.52 ملین ڈالر کے افغانستان کو برآمدات کی گئی۔لیکن اس میں صو بہ خیبر پختونخواہ کا حصہ اتنی قربت کے باوجود نہ ہونے کے برابر ہے ۔پاکستان کے مارکیٹ کے ضرورتوں کو پورا کرنے کے بعد افغانستان کا پورا ملک پاکستان کے اشیاء کیلئے کھلا پڑا ہے ۔اور اس خلاء کو پر کرنے کیلئے صوبہ خیبر پختونخواہ میں لگائے ہوئے کارخانے بہ اسانی اس طلب کو پورا کر سکتے ہیں۔اگر اس صوبے میں کارخانوں کیلئے خصوصی مالی پیکج دیا جائے ۔ خاص طور پر کمیکلز ، ڈائیز ، پرنٹنگ سیاہی ، پولی پراپلین بیگز ، پو لیسٹر ، تینر، گھی اور دوائیاں تو افغانستان میں بہ آسانی اس کی رسد کی جاسکتی ہیں ۔خیبر پختونخواہ میں اس وقت تقریباً 76 دوائیوں کے کارخانے موجودہیں ۔ جس میں کئی بند بھی ہو چکے ہیں ۔لیکن اس شعبے میں وسعت کی کافی گنجائش موجود ہے ۔زیادہ ماچس اور ماربل کی صنعتوں کا تعلق اس صوبے سے ہے ۔جن کے پیداوار کو بیرونی ممالک میں برآمد بھی کیا جاتا ہے ۔ماربل میں جتنی پیداوار ہورہی ہے ۔اُس سے کئی گنا پیداوار بڑھانے کی گنجائش موجو دہے ۔اور باہر دُنیا میں اتنی مانگ ہے کہ پاکستان اُن کو سپلائی کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا۔صوبہ خیبر پختونخواہ میں صنعتیں نہ ہونے کی وجہ سے افغانستان یہ اشیاء ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعے دوسرے ممالک سے درآمد کرتا ہے ۔پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ ایک الگ داستان ہے ۔مفاد پرست تاجروں نے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے آڑ میں ہمیشہ وہ مال درآمد کیا ہے جو واپس اسمگل ہو کر پاکستان کے مارکیٹوں میں پہنچا ہے ۔ اور جن اشیاء کی پاکستان میں طلب ہے ۔اُن اشیاء کو افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے آڑ میں درآمد کیا جاتا ہے ۔ جیسے آج کل جنریٹرز ، یو پی ایس ، ری چارجبل بیٹری ،خشک ری چارجبل سیلز ،ری چارجبل پنکھے اور ڈسکو لائیٹس شامل ہیں ۔ پاکستان نے کئی دفعہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی فہرست میں کئی اشیاء منہا بھی کردئیے۔لیکن اسمگلر پاکستان کی بجائے ایران (بندر عباس) ، دوبئی ، ولاڈیوسٹک (روس) اور دیگر ہوائی راستوں سے درآمد کر کے پاکستان میں آسانی سے داخل کر ا کر ’’ باڑہ مارکیٹس ‘‘میں پہنچ جاتی ہیں۔

حکومت نے حالیہ بجٹ میں افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے تحت مال لے جانے پر 1 فی صد ٹیکس لگایا ہے ۔اس اقدام سے اگر ایک طرف حکومت کی آمدنی میں اضافہ ہو سکتا ہے ۔تو افغان ٹرانزٹ ٹریڈ میں کمی بھی ہو سکتی ہے ۔تاجر اپنے لیے نئے نئے راستے ڈھونڈ نکال لیتا ہے ۔اگر اُن کو بند رعباس ، روس یا دوبئی سے مال لانا وارے میں پڑتا ہے تو وہ یقینا پاکستان کے راستے کو ترک کرینگے ۔اس میں یہ سوچنا بھی ہے ۔کہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ سے وابستہ افراد کیلئے ٍیہ خبر گھاٹے کی ہے یا فائدے کی ۔ دوسری اہم بات یہ ہے ۔کہ لینڈلاک ممالک کیلئے 1965 کے کنونشن ٹرانزٹ ٹریڈ کی فار لینڈ لاک ممالک لگا کر کیا ہم لینڈلاک ممالک کیلئے اقوام متحدہ کے قوانین کی خلاف ورزی تو نہیں کررہے ہیں۔پرنسپل VI آف 1965 کنونشن آف ٹرانزٹ ٹریڈ آف لینڈ لاک ممالک پر ایک نظر دوڑانے کی ضرورت ہے۔ اس شق کے آخری دو سطور کچھ اسی طرح ہیں۔
" Means of the transport should not be subjected to special taxes or charges higher then those levied for the use of means and transport of the transit country "
Afrasiab Khan
About the Author: Afrasiab Khan Read More Articles by Afrasiab Khan: 24 Articles with 22982 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.