ہم سب زہر کھاتے ہیں

جمشید خٹک

میوہ جات قدرت کی طرف سے بنی نوح انسان کیلئے ایک انمول تحفہ ہے جو روئے زمین پر ہر علاقے میں موسم کے مطابق مختلف انواع کے پھل پائے جاتے ہیں۔گرمیوں اور سردیوں میں الگ الگ موسم کے لحاظ سے مختلف قسم کے پھل کھانے کو ملتے ہیں ۔پھل ایک ذائقہ دار ، رسیلہ ، بے ضرر اور مقوی غذا ہے ۔پھلوں کو انسان ،حیوان ، پرند ، چرند بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔پھلوں کے درخت اور پودے خود رو بھی پائے جاتے ہیں اور باقاعدہ طور پر اس کے باغات بھی کاشت کئے جاتے ہیں ۔ہر پھل ایک خاص سیزن میں پک کر کھانے کے قابل ہوتا ہے ۔بعض پھل درخت پر پکنے کی بجائے اُس کو کچے توڑ کر پراسیس کے ذریعے پکایا جاتا ہے ۔ذائقے کے لحاظ سے درخت پر پکا ہوا پھل پسند کیا جاتا ہے ۔کچے پھل درخت سے توڑنے کے بعد اُس میں وہ مٹھاس اور ذائقہ برقرار نہیں رہتا۔بعض پھل کچے توڑ کر مخصوص طریقوں سے پکایا جاتا ہے ۔کچے پھل توڑ کر جلدی گل سڑ جانے سے بچ جاتے ہیں۔بیچنے والوں کیلئے یہ وارے کی بات ہوتی ہے ۔کہ پھل دو چار دن میں خراب نہ ہوں اور زیادہ عرصے کیلئے مارکیٹ میں بغیر داغ کے نظر آئے ۔اس دھوکا دہی کیلئے زمیندار ، بیوپاری کچے پھل توڑ کر کیلشئم کاربائیڈ کے ذریعے اُس کو پکاتے ہیں ۔کیلشئم کاربائیڈ ایک زہریلا کیمیکل ہے جو انتہائی گرمائش دے کر پھل کا رنگ تو تبدیل کرتا ہے ۔لیکن اپنے اثرات ضرور چھوڑ دیتا ہے ۔ہر فروٹ کے کریٹ میں سبز رنگ کا سفوف صاف نظر آتا ہے ۔عام طور پر لوگ کریٹ سے پھل کو اُٹھا کر دھوئے بغیر منہ میں ڈال لیتے ہیں ۔یہ طریقہ انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور صحت کیلئے بے حد مضر ہے اور حفظان صحت کے بنیادی اُصولوں کے خلاف ہے ۔پھلوں کے ساتھ ظلم یہاں ختم نہیں ہوتا۔بلکہ بعض پھلوں کو تو سرف (Surf) سے دھویا جاتا ہے ۔سبزیوں پر سپرے کا استعمال لازمی ہوگیا ہے ۔لیکن زرعی اُصولوں کے مطابق سپرے کرنے کے بعد کم از کم تین دن تک اُن سبزیوں کو توڑ کر استعمال نہیں کرنا چاہیے ۔ہوتا یہ ہے کہ ایک دن سپرے کرکے اگلے دن اُس کو مارکیٹ میں بیچنے کیلئے لایا جاتا ہے ۔یہ کہانی صرف پھلوں اور سبزیوں تک محدود نہیں ہے ۔بلکہ دیگر روز مرہ کے استعمال کے خورد نوش کے اشیاء میں بھی کسی نہ کسی طریقے سے غیر معیاری اور مضر صحت طریقے استعمال کئے جاتے ہیں ۔ادرک کا استعمال ہاضمے کیلئے مفید سمجھا جاتا ہے ۔لیکن ادرک کو صاف کرنے کیلئے تیزاب کے پانی میں ڈبویا جاتا ہے ۔مارکیٹ میں جتنا خوبصورت اور صاف ادرک نظر آتا ہے وہ تیزاب کے صفائی کے عمل سے گزرا ہوتا ہے ۔چائے کی پتی جو روز مرہ کے استعمال میں سب سے زیادہ ہے ۔چنے کا چھلکا ، بیر کے درخت کے سوکھے ہوئے پتے ، دنداسے کارنگ اور چمڑ ا رنگنے کیلئے رنگ کے استعمال کی خبریں بھی عام ہیں ۔خوردہ چائے میں تیز اور جلدی سرخ نما رنگ والی چائے ملاوٹ کی نشاندہی کرتی ہے ۔مصالحوں میں مرچ کی جگہ برادہ ، چاؤل کے چھلکے کا برادہ اور کیمیکلز کا استعمال بھی کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ۔آئے دن مفاد پرست عناصر کے گوداموں سے ملاوٹ شدہ چائے کی پتی کی بوریاں ، مصالحہ جات کی کثیر مقدار کی برآمدگی کی خبریں آتی رہتی ہیں۔پولیس باقاعدہ ان کے گوداموں پر چھاپے مارتی ہیں ۔لیکن یہ کاروبار ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔گرمیوں میں مشروبات کا استعمال زیادہ ہوجاتا ہے ۔مشروبات بنانے کیلئے جگہ بہ جگہ مقامی سوڈا واٹر کی فیکٹریاں قائم ہیں ۔جو بغیر کسی لائسنس یا اجازت نامے کے اپنا کاروبار جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ مشروبات میں چینی کی بنیادی حیثیت ہے ۔جعلی مشروبات میں عام طور پر چینی کی بجائے اور دیگر کیمیکلز کا استعمال بہت زیادہ ہورہا ہے ۔گڑ کی بجائے مشروبات میں کیمیکلز ڈالا جا تا ہے ۔کیونکہ گڑ مہنگا اور کیمیکل سستا ہے ۔کیمیکل سے گڑ کا ذائقہ اور مٹھاس تیار کیا جاتا ہے۔عام طور پر گڑ کولا اور دیگر مقامی طور پر تیار ہونے والی مشروبات میں ملاوٹی اشیاء استعمال ہوتی ہیں۔اس قسم کے جتنے مشروبات بھی تیار کئے جاتے ہیں ۔اُن میں کوالٹی اور سٹینڈرڈ کا خیال نہیں رکھا جاتا ہے ۔نہ پانی کسی فیلٹریشن پلانٹ سے لیا جاتا ہے ۔نہ کسی ادارے نے مشروبات کے کیمیکلز کا تجزیہ کیا ہے ۔نہ مشروبات میں استعمال ہونے والے Ingredients کو چیک کیا گیا ہے ۔کبھی کبھی مقامی انتظامیہ حرکت میں آجاتی ہے ۔لیکن نہ اُن کے پاس کوالٹی ، سٹینڈرڈ کے کوئی مخصوص قوانین ہیں و ہ زیادہ سے زیادہ نمونے لیکر لیبارٹری میں بھجوا دیتے ہیں ۔لیکن لیبارٹری کے نتائج اکثر دفن ہوجا تے ہیں ۔اشیا ئے خورد نوش کے معاملے میں کوئی واضح قانون اور ادارہ حرکت میں نظر نہیں آتا۔برف بھی انتہائی غیر شفاف طریقے سے بنایا جاتا ہے ۔زنگ آلود سانچے میں غیر معیاری پانی سے برف کا استعمال صحت کیلئے نہایت ہی نقصان دہ ہے ۔بیمار اور لاغر جانوروں کا گوشت سر عام بکتا ہے ۔شہروں میں تو گوشت پر برائے نام ٹاؤن کمیٹی کے ڈاکٹر کا ایک مہر لگا ہوتا ہے ۔لیکن دیہات میں اس طرح چیک کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے ۔بیمار اور لاغر جانوروں کے ساتھ ساتھ جو ملاوٹ کا ایک نیا طریقہ اختیار کیا گیا ہے ۔وہ جانور ذبح کرنے کے بعد اُس میں مخصوص طریقے سے پانی بھر ا جاتا ہے ۔تاکہ جانور کے وزن میں دس پندرہ کلو تک اضافہ ہو۔نہ پانی کے صاف ہونے کا کوئی ثبوت ہے ۔نہ گوشت کے پاک رہنے پر اعتبار کیا سکتا ہے ۔جانور کے گوشت کا وزن بڑھانے کیلئے اس طریقے سے جانور میں پانی داخل کرانا صحت کیلئے انتہائی مضر ہے ۔شہد انسانی کی صحت اور نشوونما کیلئے نہایت فائدہ مند قرار دیا گیا ہے ۔لیکن تب اگر شہد خالص ہو۔آجکل خالص شہد کا ملنا تقریباً ناممکن ہے ۔شہد میں سب سے زیادہ ملاوٹ ہورہی ہے ۔بلکہ اصلی شہد بھی آج کل مصنوعی طریقے سے بنتا ہے ۔پھولوں کے رس چو سنے کے بجائے شہد کے چھتے کے ارد گرد اطراف میں سرنج سے جگہ بہ جگہ چینی کے شیرے کا سپرے کیا جاتا ہے ۔شہد کی مکھی وہ میٹھا گڑ اور چینی لیکر اُس سے شہد تیار کرتی ہے ۔گو شہد کی مکھی کو بھی انسان نے پھولوں کی رس سے ہٹا کر دونمبر ی طریقے سے شہد بنانے پر مجبور کیا ہے۔گویا شہد کی مکھی بھی اوریجنل طریقے کے بجائے یعنی پھولوں سے رس کی بجائے انسانی جعل سازی کے طریقوں میں پھنس کر شہد بناتی ہے ۔مٹھائی ہماری پسندیدہ اور مرغوب اشیاء میں سے ایک ہے ۔عام طور پر لوگ سفید رس گلے پسند کرتے ہیں ۔ بہت کم لوگوں کو یہ علم ہے ۔ کہ بالکل سفید رس گلے میں سرف (Surf) استعمال کیاجاتا ہے ۔ اب خود سوچنا چاہیے کہ سرف کھانے کے بعد یہ انسانی پیٹ میں کیا گڑ بھڑ پیدا کر سکتا ہے ۔کباب تقریباً سارے لوگ کھاتے ہیں ۔کباب چربی میں تلا جاتا ہے ۔چربی کیا چیز ہے ۔یہ سب کے علم میں ہے ۔قانون اس پر خاموش ہے ۔کہ کباب میں چربی کا استعمال جرم ہے یا اس کی اجازت ہے ۔اس کے بارے میں قانون بنانے والے اور قانون نافذ کرنے والے بہتر طور پر رائے دے سکتے ہیں ۔

خوردونوش کے اشیاء کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں دیگر ایسے اشیاء مارکیٹ میں موجود ہیں جس کی تیاری میں ملاوٹ کی جاتی ہے ۔ جیسے جوتوں کا پالش ، شیمپو ، صابن اور ٹوتھ پیسٹ وغیر ہ شامل ہیں ۔حتیٰ کہ زہر کا کاربار کرنے والے بھی زہر میں ملاوٹ کرتے ہیں ۔ایسی خبریں بھی ملتی ہیں ۔کہ ہیروئن پینے والے کو اصلی ہیروئن نہیں ملتی۔بلکہ نوشادر اور دیگر اشیاء ملاوٹ کے طور پر ہیروئن میں پائی جاتی ہیں ۔ چلیں اور کچھ نہیں تو ملاوٹی زہر کا کچھ نہ کچھ فائدہ تو ہے ۔اس کا استعمال کرنے سے فوراً زہر اثر نہیں کرتا ۔ زہر پینے والا زہر کا استعمال کرنے سے فوراً نہیں مرتا بلکہ سسک سسک کر مر جاتا ہے ۔

ان سب ملاوٹوں کی بیخ کنی کیلئے ضروری ہے ۔کہ وہ تمام ادارے جن کو یہ کام سپرد کیا گیا ہے ۔وہ حرکت میں آکر موثر طریقے سے قانون کے نفاذ کو عملی بنائیں۔پاکستان میں غیر معیاری اشیاء کے بنانے اور بیچنے کے کنٹرول کے لئے کئی ادارے موجود ہیں ۔جن میں پاکستان سٹینڈرڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی (PSQCA) ، پاکستان انٹولیکچول پراپرٹی آرگنائزیشن (IPO) ، پاکستا ن ٹریڈ مارک رجسٹری ، محکمہ خوراک ، صوبائی لیبارٹری ، مقامی انتظامیہ، مقامی بلدیہ یہ وہ ادارے ہیں جو موجود ہیں لیکن فعال نظر نہیں آتے ۔ قانون موجود ہے ۔لیکن قانون کے تحت کاروائی کا فقدان ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے ۔کہ یہ سب ادارے ملکر اپنی اپنی ذمہ داریاں پوری کریں۔انسانی صحت کو ان جعلی اور ملاوٹی اشیاء سے بچانے میں مدد کریں۔تاکہ ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل ہو۔اور ایک صحت مند قوم بن کر ان معاشرتی برائیوں کا قلع قمع کریں۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Afrasiab Khan
About the Author: Afrasiab Khan Read More Articles by Afrasiab Khan: 24 Articles with 22680 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.