وہ سہانا سفر

 کراچی سرکلر ریلوے مین سفر کرنا بھی ایک مزے کی بات تھی
کیا کیا نظارے نہیں ہو تے تھے سرکلر ٹرین میں

اتوار کا دن تھا - موسم سہانا تھا - سوچا کہ اپنے ایک دوست کو ملیر کینٹ مل آتے ہیں - یونیورسٹی کے اسٹیشن سے سرکلر ٹرین میں سوار ہوا -

جب بوگی میں سوار ہوا تو زیادہ رش نہیں تھا - ایک خان صاحب موٹے سے غالبآ پختون خوا یا بلوچستان سے تعلق تھا اپنی سیٹ پر نیم خوابیدگی کی حالت میں سوئے ہوئے تھے -

اتنے میں ایک سرمہ بیچنے والا بھی اندر داخل ہوا - پہلے تو سب کو زور دار آواز میں سلام کیا -- اس کی آواز سے وہ بیدار ہو گئے اور سرمہ بیچنے والے کو دیکھنے لگے - سرمہ بیچنے والے نے زور دار سلام کے بعد سلام کے بارے میں کچھ احادیث سنائیں - پھر کہا کہ خوشبو لگانا بھی ایک سنت ہے - اس کے بعد کہا کہ اس کے آبا و اجداد -- مغل شہزادی نور جہاں کے بہت قریب تھےمزید یہ کہ نور جہاں اور اس کے آبا و اجداد عطر بنانے کے نت نئے طریقے سوچا کرتے تھے - یہ تو قسمت کی ستم ظریفی ہے کہ آج شرفاء اور ھنر مند خوار ہیں وغیرہ وغیرہ --- بعد میں اپنے عطر کی خصوصیات پر روشنی ڈالی اور بیچنے لگے - انہوں نے اسے کسی کے کپڑوں پر لگانے کی پیش کش کی - ان خان صاحب نے اپنی ٹوپی پیش کی اور اسے خوشبو سے معطر کرلیا

پوری بوگی میں بھی خوشبو سے پھیل گئی - عطر بیچنے والے صاحب اپنا عطر بیچا اور اگلے اسٹیشن پر اپنی اگلی منزل یعنی دوسرے ڈبے کی طرف روانہ ہوگئے -

ابھی ٹرین چلنے والی ہی تھی ایک اور خوانچہ فروش شعر پڑھتے ہوئے داخل ہوئے - مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے ----- وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے

صاحبان قدر دان مہربان - یہ سرمہ ہے کوہ طور کے پتھروں سے بنا آپ کے شان شایان - اسے عینک توڑ سرمہ بھی کہتے ہیں کیونکہ اسے لگانے سے نظرصحیح ہو جاتی ہے - آنکھوں میں کسی قسم کا جالا ہو اس کے استعمال سے نیست و نابود ہو جاتا ہے - ایک سلائی ابھی لگائین اور ابھی اس کے اثرات دیکھیں -یہ کہہ کر سرمے کی سلائی تلوار کی طرح ہوا میں لہرائی -خان صاحب نے اپنے کو پیش کیا اور سرمہ لگا کر تھوڑی دیر تک آنکھیں موند کر بیٹھے رہے پھر آہستہ آہستہ آنکھیں کھولیں-
کیوں صاحب چودہ طبق روشن ہو گئے یا نہیں
ایک مسافر نے تبصرہ کیا لیکن خان صاحب مسکرانے لگے -
سرمہ بیچنے والے نے بھی اپنا کاروبار کیا اور اگلے اسٹیشن پر نہ جانے کہاں غائب ہو گئے - شاید میں سرمہ لگا لیتا تو مجھے نظر آجاتے -

چند مسافر اترے اور اس سے زیادہ سوار ہوئے - شاید شاہ فیصل کالونی (اس زمانے میں ڈرگ کالونی کہلاتا تھا ) کا اسٹیشن تھا - ان مسافرون کےہمراہ دانتوں کو صاف کرنے والی دوا بیچنے والے ایک صاحب لال بوتلیں ہاتھ میں سنبھالے داخل ہوئے - آتے ہی ایک مختصر مگر جامعہ لیکچر دانتوں کی صفائی کے بارے مین دیا - حاضرین کو سمجھانے ان کے پاس دانتوں کی تصاویر بھی تھیں -ان کی آفر بھی تھی کہ کوئی صاحب ٹیسٹ کرنا چاہتے ہیں تو لگا کر ٹیسٹ کر لیں -- انکی وہ پیشکش صرف اسی روز کے لئے تھی -- خان صاحب شاید ایسے کاموں کے لئے ہمیشہ دل و جان سے سے اپنی خدمات پیش کرتے تھے -پھر آگے بڑھے اور دوا لگالی -- دانت ایک دم موتیوں کی طرح چمکدار ہو گئے - اس کے بعد میں کیا اثرات ہوں گے وہ اللہ پر چھوڑدئے -

ٹرین چلی جارہی تھی چھکا چھک -

اگلا اسٹیشن آیا -- چشم بوگی نے ایک نیا نظارہ دیکھا -اب کے ایک چہرے کو لگانے پاؤڈر بیچنے والا داخل ہوا اور پاؤڈر کی جملہ صفات پر کماحقہ روشنی ڈالی - اور یہ بھی کہا کہ کوئی صاحب لگا کر دیکھنا چاہتے ہوں تو دیکھ لیں -

خان صاحب --اب ہمیں دیکھنے لگے - چہرے پر کچھ شرماہٹ بھی آئی اور تذبذب کا شکار بھی دکھائی دئے - ہم نے نظروں میں حوصلہ افزائی کی - سو خان صاحب بے وہ بھی لگالیا-

ایک صاحب جو ساتھ میں بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے کہا لگا لو لگا لو - ابھی سولہ اسٹیشن باقی ہیں آخری اسٹیشن تک سولہ سنگھار پورے ہو جا ئیں گے-

گاڑی پھر چل پڑی --- اب رش بڑھ گیا تھا - کچھ لوگ کھڑے بھی تھے - ایک بو ڑھے سے صاحب جن کے اپک ہاتھ میں پان دان تھا وہ دوسرے ہاتھ سے چھت کے ڈنڈے کو پکڑے بڑی مشکل سے کھڑے ہوئے تھے -ان کی کوشش تھی کہ پان دان کو ہچکولے نہ لگیں - انکی سمجھ میں نہیں آرہی تھی کیا کریں -خان صاحب کی نظر ان پر پڑی --ان کی عمر کا اندازہ کیا ایسے لگا انہیں کرنٹ لگا -ایک دم اٹھے اور اپنی نشست ان کو پیش کی ----بیٹھو بیٹھو -- کینا کینا --ہم جوان آدمی ہے تم بیٹھو-

مسافر جو اب تک تمسخر سے دیکھ رہے تھے ششدر رہ گئے

سارے ڈبے کو سانپ سونگھ گیا تھا

یہ میں ٹائپ کر رہا ہوں اور میرے سامنے اب بھی خان صاحب کی تصویر پھر رہی ہے اور اس کے ساتھ ہی ششدر لوگوں کے چہروں کی بھی-
Munir  Bin Bashir
About the Author: Munir Bin Bashir Read More Articles by Munir Bin Bashir: 124 Articles with 335910 views B.Sc. Mechanical Engineering (UET Lahore).. View More