مجھےیاد ہے سب ذراذرا

 محترمہ عابدہ رحمانی کی خودنوشت پڑھنے کا موقع ملا۔اس سے پہلے ان کی پہلی کتاب" زندگی اک سفر" بھی پڑھنے کاموقع ملا۔ جس میں انھوں اپنے بچپن کے حالات ہی قلم بند کیے تھے۔ وہ حالات اتنے دلچسپ انداز میں بیان کیے گئے تھے کہ جی چاہا کہ کاش وہ اپنی پوری داستان حیات قلم بند کریں۔اس خواہش کا پھر میں نے بھی دوسروں کی طرح اظہار کیا۔جس کے نتیجے میں یہ ان کی دوسری کتاب پڑھنے کو ملی۔

اس خودنوشت کو پڑھ کران کی یادداشت کی داد دینی پڑتی ہے کہ کتنی تفصیل سے انھوں نے اپنی زندگی کے مختلف ادواربھرپور تاثرات کے ساتھ قلم بند کیے ہیں۔ منظر کشی ایسے کی ہے گویا نظروں کے سامنے تصویر آجاتی ہے۔تحریر کی یہ صلاحیت یقیناً خدادداد ہے ۔ کیونکہ میٹرک ہی میں انھوں نے مختلف رسائل اور اخبارات میں پہلے بھائی اور پھر اپنے نام سے کہانیاں لکھنی شروع کردی تھیں۔ حیرت ہے کہ اپنے بچپن کے حالات جو ان کے شعور میں محفوظ ہیں اور جو انھوں نے دوسروں سے سنے، پوری جزیئات کے ساتھ یاد رکھے۔یہ کسی بڑے لیڈر ، سیاستدان یا کسی بڑے افسر کی داستان نہیں جومحض اپنے کارناموں پر مشتمل ہو یا سازشوں کی داستان ہو۔ یہ ایک عام طبقے کے عام فرد کی داستانِ حیات ہے جس میں ایک عام فرد کی زندگی اپنی بھرپور انداز بیان کی گئی ہے۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ایک ثقافت کی داستان ہے کیونکہ جس طرح محترمہ نے اپنے روایت پرست معاشرے کی تفصیلات کتاب کے ابتدائی حصے "زندگی اک سفر" میں بیان کی ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دور میں بالخصوص پختونوں کا طرزِ زندگی، طرزِ فکر اور طرزِ عمل کیسا تھا۔اسی طرح دادی کی دادا جان سے وفاداری کا حال اور ان کے نام پر ساری زندگی اپنے گھر کے اندرصرف اپنے اکلوتے بیٹے کی تعلیم و تربیت میں گزار دینا یقیناً ایک بہت بڑی بات ہے۔بعض ایسی عجیب و غریب روایات کا ذکر بھی ہے جو ضرورت سے زیادہ ضعیف الاعتقادی کا نتیجہ تھا۔لیکن ان سب سے یہ ضرور واضح ہوتا تھا کہ کس طرح اس معاشرے کے سب لوگ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے۔ہر طبقے کا فرد اہمیت رکھتا تھا۔

کتاب کے آغاز میں محترمہ کے فقیر منش دادا جان کا احوال واقعی متاثر کن ہے ۔یقیناً اسی وجہ سے نیک فطرت اس خاندان کو میراث میں ملی ہے۔ پھر ان کے والد گلدا جی کا کردار بھی بہت بھرپور ہے۔ جنھوں نے اپنے علاقے میں کافی حد تک جدید زمانے کے اثرات اخلاقی اقدار پر اثر انداز ہوئے بغیر اشیاء اور مشینوں کے ذریعے پہنچائے۔

پیدائش کے چند دن بعد محترمہ کے گلے میں انگوٹھی پھنسنے والا واقعہ پڑھا اور پھر آٹھویں کے امتحان سے پہلے وہ جس سانحے کا شکار ہونے سے بچ گئیں تواللہ کا شکرادا کیا کہ وہ محفوظ و مامون رہیں اور آج اتنی خوبصورت داستان پڑھنے کو ملی۔ اپنی حقیقی والدہ کی وفات کا صدمہ سہنے کے بعد جس طرح نئی ممی اورا ن کے درمیان خوشگوار تعلقات استوار ہوئے وہ بھی قابلِ رشک بات ہے۔

ان کی داستان میں ابتدائی زندگی کے بہت سے ایسے واقعات ہیں جو بے ساختہ ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیر دیتے ہیں۔ ایک جگہ انھوں نے بیمار بھینس کو ذبح کرنے میں اپنے والد کی مشکل اور لوگوں کو مدد کے لیے بلانے اور لوگوں کے خوفزدہ ہو کر بھاگنے کا حال بیان کیا تو اس منظر کا تصور کرکے ہنسی نکل جاتی ہے۔

اپنی زندگی کے نئے موڑ پر اپنے گھر سے پیا کے دیس رخصتی کے بعد زندگی ایک نئے انداز میں جلوہ گر ہوتی ہے۔ اب گھر بار کی دیکھ بھال اور اس میں ایک شادی شدہ عورت کی گھریلو زندگی کا حال بھی بڑے خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے۔ اس دور میں جو کردار ان کے ہمراہ رہے ان کے بیان میں بھی پورا پورا انصاف کیا ہے۔ اس داستان میں جہاں پختون معاشرتی روایات کا تفصیلی حال ملتا ہے وہیں بنگالی معاشرے کی بھی پوری تصویر نظر آتی ہے۔ یہاں سے ان کے طرزِ زندگی میں ایک تبدیلی کی صورت نظر آتی ہے جوایک روایت پرست معاشرے سے نکل کر وقت کے حالات سے ہم آہنگ ہونے کی کوشش کو ظاہر کرتی ہے۔ اس کےلیے جو الجھنیں پیش آئیں وہ بھی ایک عمومی مسئلے کی صورت میں بیان کی ہیں۔

جب ان کے ابتلاء و آزمائش کے دور کا آغاز ہوتا ہے تو فقط ان کی ایک ذات کا نہیں بلکہ اس دور کے ایک عام انسان کی کیفیات کی عکاسی اس خودنوشت میں نظر آتی ہے۔ انھوں نے جس طرح اپنی پریشانیوں کا اظہار کیا ہے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ کارپروازانِ سیاست کی وجہ سے عام لوگ کیسی تکالیف اور دکھوں کا شکار ہوئے۔ شریک ِ حیات سے طویل عرصے تک دوری اورانتہائی خطرناک حالات میں ان کی سلامتی کی طرف سے مسلسل پریشانی یقینا ایک عورت کے لیے ناقابلِ برداشت ہے۔اسی وجہ سے طویل عرصے بعد جب ملاقات ہوتی ہے تو صرف آنسووں کے ذریعے ہی باتیں ہو پاتی ہیں۔ منہ سے الفاظ کا نکلنا دشوار ہوجاتا ہے۔

کتاب میں محترمہ نے اپنے چند سفرنامے بھی تحریر کیے اور اس میں اسی خصوصیت کا اظہار کیا ہے جس سے پورا منظر تفصیل سے سامنے آجاتا ہے۔ شاید یہ خواتین کی فطری اور خداد داد صلاحیت ہے۔تمام عمارات، عجائب گھر اور چڑیا گھر وغیرہ کا حال اتنی تفصیل سے بیان کیا ہے کہ جیسے ہم خود اپنی نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔لیکن کتاب کا آخری سفر نامہ ایک الم ناک حادثہ لیے ہوئے ہے۔ جس میں اپنے دکھ سکھ کے ساتھی کا ہمیشہ کے لیے بچھڑنے کا دکھ بھرا حال بیان کیا ہے۔ پچھلی کتاب "زندگی ایک سفر" میں یہ سفر نامہ کچھ افسانوں کے ساتھ تھا۔ اس وقت پڑھتے ہوئے یہی سوچتا رہا کہ خدا کرے کہ یہ بھی ایک افسانہ ہی ہو۔ لیکن یقین کرنا پڑا کہ پہلے بہت سے قریبی رشتوں سے جدائی کے بعد اب شریک حیات سے جدائی کا دُکھ بھی سہنا پڑا ۔ اللہ محترمہ کو مزید کسی آزمائش و ابتلاء سے محفوظ رکھے اور اپنی اولاد کی بھر پور خوشیاں دیکھنا نصیب فرمائے۔

کہنے کو تو کتاب کا نام ہے "مجھے یاد ہے سب ذرا ذرا" لیکن پڑھنے کے بعد پتا چلتا ہے کہ ذرا ذرا نہیں ، بہت کچھ بلکہ سب کچھ یاد ہے۔ایسی بعض یادیں کبھی تو دل کو خوش کردیتی ہیں مگر بعض اوقات ایسی یادِ ماضی عذاب کی صورت میں سامنے آجاتی ہے۔

اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ
Abida Rahmani
About the Author: Abida Rahmani Read More Articles by Abida Rahmani: 195 Articles with 235486 views I am basically a writer and write on various topics in Urdu and English. I have published two urdu books , zindagi aik safar and a auto biography ,"mu.. View More