بقالہ اخضر

ابو ظبیی ایک انتہائی خوبصورت و بین الآقوامی معیار کا شہر ہے ، بلا شبعہ اسکی تعمیر میں عوامی فلاح کو فوقیت دی گئی ہے ۔صحت عامہ ،تعلیم، سیر و سیاحت کے علاوہ انسانی ضروریات زندگی کی تمام تر ایشاء سے بھر پور عالمی معیار کے شاپنگ مول جو ایک دوسرے سے مناسب فاصلے پر تعمیر کئے ہیں شہر میں چھوٹی موٹی دکانوں پر پابندی ہے البتہ ایک مخصوص سائز کی دکان جسے بقالہ کہتے ہیں کی اجازت ہے جو تقریباً ہر رہائشی عمارت کے نیچے ہوتی ہیں تاکہ فوری ضرورت کی چیزین وہاں سے حاصل کی جا سکیں۔شاپنگ مول ،اور بقالہ ’’ قدکاٹھ‘‘ کے اعتبار سے واضع مختلف ہوتے ہی ہیں لیکن ان میں ایک بنیادی فرق یہ بھی ہے کہ شاپنگ مول ایک بڑی دو تین منزلہ عمارت جو باہر سے بلکل بند اور سادہ نظر آتی ہے فقط اس کے داخلی دروازے پہ مول کا نام لکھا ہوتا ہے جب کہ بقالہ ایک درمیانے درجے کی ایک کمرے پر مشتمل دکان جس کے داخلی دروازے کے سارے حصے کو شیشے سے بند کیا جاتا ہے جس کے ساتھ انتہائی پر کشش چیزیں سجا کر رکھ دی جاتی ہیں جو باہر سے گزرتے ہر فرد کو اپنی جانب متوجہ کر سکیں ۔

عصر کا وقت تھا ہم پارک کے ایک بینچ پر بیٹھے ہی تھے کہ سڑک کی دوسری جانب ایک بقالہ پر نظر پڑی تو اس کے نام نے فوراً متوجہ کیا ’’بقالہ اخضر‘‘یہ عربی نام ہے ۔بقالہ یعنی چھوٹی دکان انگلش میں گروسری اور دیسی زبان میں ’’ہٹی‘‘۔اخضر اردو میں سبز انگلش میں گرین اور دیسی زبان میں نیلہ۔۔۔بقالہ اخضر جسے ہم اپنی زبان میں’’ نیلی ہٹی‘‘ کہ سکتے ہیں ۔اسی لئے اس لفظ’’ نیلے‘‘ پر نظر پڑتے ہی یہ ہماری گفتگو کا محور بن گیا،اس لئے کہ آج کل سوشل میڈیا پر اس’’ نیلے پیلے‘‘ پر بہت لہہ دے ہو رہی ہے،بہت شور شراپا اور دوہائی مچی ہے اور یہ جاننے کی کوشش ہو رہی ہے کہ لوگ ان چھوٹی دکانوں سے بڑے مول تک کا سفر کیسے طے کرتے ہیں ۔

آزاد کشمیر کے موضع دھیر کوٹ میں بھی ایک بقالہ اخضر ’’نیلی ہٹی‘‘ واقع ہے جس کے مالک سردار عبدالقیوم ہیں جنہوں نے اسے اپنی پسند کے عین مطابق (پاس کھڑے ہو کر)تعمیر کروایا ۔ یہ وہی سردار قیوم ہیں جو ریاست میں آزادی کے سب سے بڑے ناقد مانے جاتے ہیں ۔۔۔یہ وہی سردار قیوم ہیں جنہوں نے ابتداء میں ’’مجاہد فورس ‘‘نام سے بھی ایک دکان کھولی تھی جو نہ چل سکی ۔۔۔یہ وہی سردار قیوم ہیں جنہوں نے ۷۱ ء میں گنگا ہائی جیکنگ کیس کے دوران اپنے( مرحوم )بھائی سردار غفار خان کے زریعے بد نام زمانہ شاہی قلعہ لاہور میں قید شہید کشمیر محمد مقبول بٹ کو یہ پیغام بھجوایا کہ اگر آپ اس گوریلہ کاروائی کو ’’مجاہد فورس ‘‘کے کھاتے میں ڈال دیں تو ہم آپ کو فوری رہا کروا کر پورے آزاد کشمیر میں نیشنل ہیروز کے طور پر سرکاری استقبال کروائیں گے جواباًشہید کشمیر نے اس گھٹیا پیشکش کو نفرت سے دھتکار دیا اور اپنی اس ناکامی کے رد عمل میں سردار قیوم نے ےٰحیٰ خان سے مل کر شہید کشمیر کو بھارتی ایجنٹ کا خطاب بخشا اور بھرپور پروپیگنڈا مہیم چلائی ۔۔۔یہ وہی سردار قیوم ہیں جن کی ساری سیاست زاتی مفادات کے گرد گھومتی ہے اور جنہوں نے ایکٹ 74 کی صورت میں آزاد حکومت کے تمام تر اختیارات اسلام آباد کو منتقل کر کے اسے ایک ضلعی اتھارٹی بنا ڈالا اور پھر بھی اقتدار ہاتھ سے نکلتا دکھائی دیا تو ’’نیلی ہٹی ‘‘ کے نام سے نئی دکان کھولی اور پاکستان کے ایک فوجی آمر ضیاء الحق کی گود میں جابیٹھے ،اور اس ’’نیلی ہٹی‘‘ کو یوم شہدائے کشمیر یا یوم شہدائے جموں جیسے قومی دن کے ساتھ ملانے کی بھونڈی کوشش کی جاتی رہی جس کا مقصد قوم کو یکجا کرنا ہر گز نہ تھابلکہ ایک ایسا خاندان، جس کے سر سے اگرآج (جے سی او)مری اپنا دست شفقت ہٹا لے تو ان کا چولہا ٹھنڈا پڑھ جائے کو سیاست میں زندہ رکھنے کی کوشش ہے جب کہ سیاست کا ہر طالب علم اچھی طرح جانتا ہے کہ اس ’’نیلی ہٹی ‘‘ کی تاریخ میں کوئی اہمیت حیثیت نہیں ہے ، یہ فقط ایک چھوٹا سا تجارتی مرکز ہے جہاں ایک خاندان لفظ ’’کشمیر‘‘کی حرمت اور قومی غیرت کی تجارت کرتا ہے ۔طریقہ واردات کچھ یوں ہوتا ہے کہ پہلے اس بقالہ کو بڑی محنت سے سنورا جاتا ہے سٹیج لگتا ہے اور لوگوں کو کچھ فرسودہ و دقیانوسی کہانیاں سنا کر بہلا پھسلا کر ’’مال مویشوں کی طرح ہانک کر ‘‘وہاں لاکر بٹھایا جاتا ہے ویسے ہی جیسے دکاندار اپنے ’’پروڈکٹ‘‘ کو شو کیس میں سیٹ کر کہ رکھتا ہے ۔۔۔اس سے پہلے وہاں اور کئی غیر ملکی تاجر وں کو بھی مدعو کیا جاتا ہے ۔۔۔پھر میلہ سجتا ہے ۔۔۔بھاؤ تاؤ ہوتا ہے ۔۔۔ان تمام لوگوں کی خودی کا ۔۔۔قومی ہمیےت و غیرت کا ۔اور اگر منافع بہتر ہو، سودا اچھا ہو جائے تو دکاندار جھٹ سے ملک کے بڑے شاپنگ مول ’’مظفر آباد ‘‘میں بھی پہنچ جاتا ہے اور اس طرح ریاست کے تینوں حصوں میں روائتی سیاست دان برسوں سے یہ کھیل کھیل رہے ہیں۔ سرینگر گلگت اور مظفر آبادکے ایوان نمائندگان نے کبھی عوامی نمائندگی کا حق ادا نہیں کیابلکہ ہمیشہ ان کا کردار بڑے شاپنگ مول ’’ایکسیبیوشن سنٹر ‘‘کے جیسا رہا ہے ان میں فرق صرف اتنا ہے کہ ان چھوٹی دکانوں میں سر عام قومی و انسانی غیرت نیلام ہوتی ہے جب کہ ان بڑے مولز میں ذرہ مہذب انداز میں چار دیواری کے اندر ’’مک مکا‘‘ ہوتا ہے ،جہاں اجتماعی عوامی ضمیر و قومی غیرت کے سودے ہوتے ہیں اور یہ بھی ایک واضع حقیقت ہے کہ تحریک آزادی کشمیر کی بارہا ناکامی میں ان تین بڑے غیر ملکی اڈوں سمیت ان چھوٹی بڑی ’’ نیلی پیلی‘‘ دکانوں کا اہم ترین کردار رہا ہے جنہوں نے قوم کوزمینی و فکری طور پر تقسیم کر رکھا ہے۔47ء سے آج تک اس دیس کے چھ لاکھ لوگ آزادی کی خاطر جان سے گئے اور حالیہ تحریکی فیز میں 1,80,000لوگوں نے جانوں کے نظرانے دئیے 10,000سے زائد عزت مآب وطن کی بیٹیوں نے اپنی عصمتیں قربان کیں ،45,000عورتوں نے اپنے سہاگ قربان کئے اور بیوہ ہو گئیں،1,25,000ہزار بچے یتیم ہوئے،12,000نوجوانوں کو لا پتہ کر دیا گیا جن کے ورثاء یہ بھی نہیں جانتے کہ وہ زندہ بھی ہیں یا نہیں ،1,18,813بے گناہ لوگوں کو بنا کسی جرم کے جیلوں میں ڈالا گیا،6,982افراد کو ماورائے عدالت عقوبت خانوں میں ٹارچر و تشدد سے شہید کر دیا گیابستیاں اجڑ گئیں گاؤں کے گاؤں انسانوں سمیت جلا دئے گئے ہزاروں لوگ ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے اس کے باوجود اگرہم حق و باطل میں ۔۔۔ انسانی و قومی غیرت کے سوداگروں اور آزادی پسندوں میں ۔۔۔سرفروشوں اور وطن فروشوں میں ۔۔۔محب وطنوں کے معاسکر اور مظفر آبا، گلگت ،سرینگر سمیت ’’نیلے پیلے‘‘وطن فروشی کے اڈوں میں فرق نہیں سمجھ سکے تو ہمیں آزادی و وحدت کے مطالبہ سے دستبردار ہو جانا چاہیے ۔کیوں کے ایسی وطن فروشی کی دکانیں اور ایکسیبیوشن سنٹر زکبھی ،چہ گویرہ ،گھو سماؤ ،یاسر عرفات ،بھگت سنگھ ،سبز علی شہید ،ملی خان شہید ،محمد مقبول بٹ شہید ،اشفاق مجید وانی شہید ،عبدالحمید شیخ شہید ،چوہدری جمیل شہید ،شبیر صدیقی شہید جیسے اولالعزم عظیم انقلابیوں کو کبھی متاثر نہ کر سکے ،کیوں کے انہوں نے اپنے عوام کو ایسے ہی روائتی و غیر انسانی نظام کے خلاف صف آرا ء کر کے انقلاب کی بنیاد رکھی ،اس لئے یہ ممکن نہیں کہ ایک ہی وقت میں آزادی دشمن عناصر سے دوستی بھی ہو اور حصول آزادی کی جنگ بھی۔۔۔؟بارہا غیر ملکی آئین کو تسلیم کر تے ان کے قائم کردہ سیاسی نظام کا حصہ بھی بننے کے لئے’’ اوتاولے‘‘ہوں اور عوام کو مکمل انقلاب کے سہانے سپنے بھی دکھاتے ہوں ۔۔۔ایسا نہیں چلے گا۔۔۔اب وقت آ گیا کہ آزادی پسندوں اور آزادی دشمنوں میں ایک واضع’’خط‘‘لکیر کھینچ دی جائے تا کہ ’’کشمیر ‘‘کے نام پر چلنے والے ان تجارتی مراکز کا ’’شٹر ڈاؤن‘‘ہو سکے۔۔۔
Niaz Ahmed
About the Author: Niaz Ahmed Read More Articles by Niaz Ahmed: 98 Articles with 75610 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.