شاعر انسانیت : خادم وسائی پوری

پاکستان کی تعمیر و تہذیب میں ضلع قصور غیر معمولی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ اس خطے نے علم، سیاست، مذہب، فلسفہ، آرٹ اور سائنس ہر شعبے میں اپنی مردم خیزی کی بے مثال روایت قائم کی ہے۔ جس روایت پر ہم تمام پاکستانیوں کو بجا طور پر فخر ہے۔یہ روایت اس لیے بھی قابل تحسین رہی ہے کہ اس کی بنیادیں جتنی جدت پسندی اور انقلابی اقدار پر مبنی ہیں، اتنی ہی اس کی جڑیں اپنے وطن کی سرزمین کی گہرائیوں میں پیوست ہیں۔اپنی مٹی اور اپنے عظیم ماضی سے اسی مثبت تعلق نے تمام تر جدت پسندی کے باوجود اس کلچر، آرٹ اور فلسفہ و فکر کو مغربی مرعوبیت سے پاک رکھا۔خادم وسائی پور ی کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔انہوں نے 1954میں قصور کے ایک علاقے وسائی پورہ میں آنکھ کھولی ،وہیں سے میٹرک کرنے کے بعد انہوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔انہوں نے شاعری کی طرف پہلا قدم 89ء میں رکھا جب انہوں نے استاد طالب چشتی کی شاگردی اختیار کی ۔اور پھر کبھی پیچھے مڑکر نہیں دیکھا انہوں نے سینکڑوں لافانی گیتوں کو تخلیق کیا ۔اب تک انہوں 1000سے زئد گیتوں کولکھا اور سینکڑوں گلوکاروں نے انہیں ریکارڈ کروایا۔خادم وسائی پوری نے پہلا گیت،،مینوں گوددے وچ سیں لوٹاندی،،نی اک واری بول مائیں،،لکھاجو کہ عطاء اﷲ عیسیٰ خیلوی نے ریکارڈکروایا اس گیت نے بلندیوں کوچھوا اور اس وقت کے شعراء میں اپنا مقام اپنی شاعری کی بنا پر بنایا۔خادم وسائی پوری کی شخصیت قدیم و جدید کے اسی حسین امتزاج کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ ان کا دل اگر ماضی کی لازوال اقدار، وراثت کا ترجمان تھا تو دماغ جدید افکار و خیالات کی آماجگاہ۔ یہی سبب ہے کہ ان کی شخصیت زمانہ کی سرحدوں کو پھلانگ کر ایک بین الاقوامی لیجنڈ کا حصہ بن گئی ہے۔پاکستان کے افق پر خادم وسائی پوری کا نمودار ہونا وقت کا عین تقاضا تھا۔مغرب کا سیاسی تسلط ، غلامی کا سنگین دور، تہذیبی Invasion، مذہبی احیا پرستی، افکار و عقائد کی کشاکش، قدیم و جدید کی آویزش ، علم و ادب کی نئی روشنی، یہ سارے عناصر و عوامل ایک نئے معاشرے کی تشکیل اور اس کی سمت و معیار کے تعین میں اپنا اپنا کردار ادا کر رہے تھے۔خادم وسائی پوری کے دل میں آقا ؐ دوجہاں کیلئے بے پناہ محبت ہے وہ اپنی محبت کا اظہار کچھ اس طرح اپنے شعروں میں کرتے ہیں ۔
شان وکھری وکھری سبناں دی پر مصطفےٰ جیا کوئی ہوسکدا ای نئیں
دھونے امت دے ایہو جئے دھوئے اوہناں ،کوئی ہور پیغمبرردھوسکدا ای نئیں
میرے چن دی چمک نورانڑی اے چن سامنے کوئی کھلوسکدا ای نئیں
اوس بندے نے خادم کی لینا اے حْب نبیؐ وچ جوروسکداای نئیں

خادم وسائی پوری کی شخصیت اور ان کے ذہن و شعور کی آبیاری میں ان تمام عناصرکے اثرات نے مثبت کردار ادا کیے۔ ان کے عہد کی تمام تر ترشی و شیرینی محلول ہو کر امرت بانی کا روپ دھارکر ان کی تخلیقات میں سما گئی۔ ان کی شاعری ہر جگہ انسانیت کی آفاقی لو اپنی روشنی بکھیرتی ہوئی نظر اآتی ہے۔ اس اعتبار سے خادم وسائی پوری کی شاعری میں ہر طرح کی اپنائیت ملتی ہے۔چونکہ ان کا مطالعہ اور مشاہدہ جتنا عمیق اورو سیع تھا، انھوں نے اسی وسیع القلبی سے تمام حسین اور فطری انسانی اقدار کو اپنے دامن دل میں جگہ دی۔ انھوں نے نیک نیتی کے ساتھ انسانیت کے اتھاہ ساگر میں غوطے لگائے اور بحیثیت انسان ہر اس شے کو دل کی گہرائیوں میں اتارا جو انسانی تھی اور جس کی مستقل قدر و قیمت تھی۔ انسان کے دل کی ہرآرزو، حسرت، تمنا، کیفیت ، دکھ درد اور خواب ان کے تخیل اور وجدان کا حصہ بن کر ان کی تخلیقات میں رچ بس گئے ہیں۔ انھوں نے جو بھی قبول کیا اس کو اپنا لیا اور اس کو اپنے رنگ میں اتنا رنگ لیا کہ وہ ان کا اپنا ہو کر رہ گیا۔ ان کی تخلیقات میں سچائی کا وہ روپ ملتا ہے جو ذاتی احساس و تجربہ کے بغیر ممکن نہیں۔خادم وسائی پوری کو اپنی دھرتی اور اپنے وطن سے اٹوٹ محبت ہے۔ اس محبت کی بنیاد اگر ایک طرف محاسن فطرت اور اس سے ان کی بے پناہ انسیت پر ہے تو دوسری طرف اس دھرتی اور مادر وطن کے باسیوں سے اٹوٹ پیار اور جذباتی وابستگی پر قائم ہے۔ مادر وطن اور اپنی دھرتی سے اس قدر ٹوٹ کر پیار کرنے کی نظیر دوسرے ہم عصر شعراء کے یہاں شاذو نادر ہی ملتی ہے۔مادر وطن اور دھرتی سے وابستہ صبح و شام ہو یا موسم کے سرد وگرم ہواؤں کے مناظر قدرت ہوں، ندی ہوں یا پہاڑ، لہلہاتے کھیت ہوں یا چڑیوں کی چہچہاہٹ ، ایک ایک جزئیات کی جیتی جاگتی تصویرخادم وسائی پوری کی شاعری میں موجود ہے۔ مادر وطن سے ان کی جذباتی وابستگی اور اٹوٹ محبت کی لہران کی شاعری میں اس طرح سرائیت کرتی ہوئی ملتی ہے کہ ان کی فطرت ، شعور اور لاشعور کا حصہ معلوم ہوتی ہے۔ حب وطن کا جذبہ ان کی شاعری میں ایک فطری صفت کا روپ دھارتا نظرآتاہے۔
اکو ماں دے جائے آں پر دولت وتھاں پائیاں نے
سون دیاں برساتاں وانگوں نیناں جھڑیاں لائیاں نے
جیویں ماں ورچوندی اے نکیاں نکیاں بالاں نوں
میں تے اپنے دل دیاں سدھراں خادم انج ورچائیاں نے

خادم وسائی پوری نے اپنے ہم عصر بیشتر وطن پرست ادیبوں اور دانشوروں کے برعکس اپنی وطن پرستی کو تنگ یا محدود نہیں ہونے دیا۔ ان کے یہاں ہم وطنوں کی تمناؤں اور آرزوؤں کی سرحدیں عالم انسانیت کی تمناؤں اورآرزوؤں سے جا ملتی ہیں۔ انہیں اپنی دھرتی کے باسیوں، اور ہم وطنوں سے محبت اور جذباتی لگاؤ ہے۔ مگر غیر ممالک اور اقوام کے لیے نفرت اور تعصب کا شائبہ تک نہ ہے۔ اپنی دھرتی اور دھرتی باسیوں سے ان کی بے پناہ محبت تمام نبی نوع انسانیت کے لیے بیکراں جذبہ محبت کی حیثیت رکھتی ہے۔ وہ خالص انسانیت کے پجاری ہیں اور بیگانہ پن کے تصور کو کبھی خاطر میں نہیں لاتے۔ا ن کی مشہور گیت بھی اسی کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں۔انسانیت سے بے پناہ محبت خادم وسائی پوری سے قریب کر دیتی ہے۔ وہ غلامی کی اذیت سے بے قرار تو ہوتے ہیں اور اپنے ہم وطنوں کے اندر قومیت کے جذبے کو بیدار کر کے آزادی کے حصول کی ترغیب دیتے ہیں۔ لیکن اس عظیم مقصد کے لیے تشدد اختیار کرنے کی سخت مخالفت کرتے ہیں۔ ان کی نگاہ میں چاہے مقصد کتنا ہی پاک و بلند کیوں نہ ہو، وطن پرستی کی کتنی بلند سطح کیوں نہ ہو، انسان کو ایسا عمل نہیں کرنا چاہیے جو انسانی دل اور اعلیٰ قدروں کے خلاف ہو۔ خادم وسائی پوری فطرتاً شاعرہے۔ اور شاعری ان کی رگ و پے میں رچی بسی ہوئی ہے۔ بحیثیت شاعر ان کی عظمت کا اعتراف ملکی سطح پر کیا گیا۔ ان کا شعری سرمایہ ایک دفتر کی حیثیت رکھتا ہے۔ تخلیقی عمل کے اس طویل سفر میں ذہنی و جذباتی اعتبار سے خادم وسائی پوری نشیب و فراز کی کئی منزلوں سے گزرے، لیکن ’’محبت‘‘ کی مضطرب موجیں شروع سے آخر تک ان کی شاعری میں ٹھاٹھیں مارتی نظرآتی ہیں۔ ان کے تخلیقی ارتقاء کے ساتھ ساتھ ان کے پریم کا تصور بھی ذات سے کائنات کی لامتناہی وسعتوں میں پھیلتا اور قوسِ قزح کی رنگینی بکھیرتا چلا جاتا ہے۔ غم جاناں سے غم دوراں کی حدود میں پہنچ کر شاعر پوری کائنات اور انسانیت کا ہدی خواں بن گیا ہے۔
دل میرے نوں چھلنی کیتا اے دو نیناں دیاں تیراں نیں
مینوں پاگل کرچھڈیا اے ہتھ دیاں چپ لکیراں نیں
رنگ ساک تے سجن ساتھی سارے لوکی دولت دے
مینوں کنے رونا ایں سجنوں میریاں کد جگیراں نیں

کائنات، فطرت اور انسانیت سے خادم وسائی پوری کا بے پناہ عشق لا شعوری طور پر عشق حقیقی میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ ان کے تخیل میں مناظر فطرت، انسان اور خالق کائنات تینوں ایک وحدت کا روپ دھار لیتے ہیں۔ ان کی نظر میں محبت یا پریم ہی خداہے۔ بچے کے لیے ماں کی مامتا، ایک انسان کا دوسرے انسان کے لیے قربانی اور ایثار کا جذبہ، عاشق کی اپنے محبوب سے محبت اس عشق حقیقی کا روپ ہیں۔ اس طرح خادم وسائی پوری عشق یا پریم کو محض تصوراتی اور وجدانی شکل میں نہیں دیکھتے بلکہ اس کا عملی روپ عام انسانوں کی روز مرہ کی زندگی میں متشکل ہوتے دیکھتے ہیں اور اسی کوکائنات کے لافانی اور ابدی حسن کی بنیاد قرار دیتے ہیں۔ وہ صوفی شاعری اور تصوف کے رموز سے بھی متاثر ہیں، وہ اپنے دل کی دھڑکنوں میں تخلیق کی ابدیت کو دھڑکتا ہوا محسوس کرتے ہیں۔ مادی کائنات، فطرت اور زندگی سے ان کی محبت اپنے وجود کو جہاں نفس کے ساتھ ضم کر دینے پر مصر ہے وہیں مادی کائنات اور انسان کی ابدیت ان کی شاعری کے بنیادی محور ہیں۔ ان کے یہاں عرفان فطرت، عرفان ذات اور عرفان الٰہی کے مترادف ہے۔انھوں نے زندگی کے اس تصور کو قبول نہیں کیا جو جسمانی تقاضے اور دنیاوی نعمتوں سے بھرپور لطف اندوزی کی ممانعت کرتا ہے۔مگر انھوں نے جسمانی عیش و تلذذ کو ہی مقصد حیات نہیں مانا، بلکہ عرفان زیست کے حصول کو زندگی کا نصب العین گردانا۔ زندگی کو مکمل اور ہمہ گیری کے ساتھ جینے کی آرزو ان کی شاعری میں جلوہ گر ہے۔ یہی سبب ہے کہ انھوں نے جنت کی پر سکون اور عیش و نشاط کی زندگی پر دنیاوی زندگی کی متحرک صفت اور دکھ سکھ سے بھرپور طرز حیات کو ترجیح دی۔وہ اپنی شاعری میں ایسے مگن ہیں کہ کہتے ہیں۔
نہ کریا بندیا توں مان پروہنا ایں گھڑی پل دا
تینوں چھڈنا پینا ایں جہان پروہنا ایں گھڑی پل دا
کالی رات ہنیرے اوتھے،ڈولے گی جند تیری اوتھے
کرنیکیاں ول دھیان پروہنا ایں گھڑی پل دا

خادم وسائی پوری کی شاعری پر گرچہ رومانیت کا شدید غلبہ ہے لیکن ان کی رومانیت حقیقت کی زمین پر ٹکی ہوتی ہے۔ وہ اس فلسفہ جمالیات کے قائل نہیں جو ادب برائے ادب پر اصرار کرتا ہے۔وہ فن اور حیات کے باہمی رشتے سے بخوبی واقف ہیں، اس لیے انھوں نے حسن کی جستجو ضرور کی، لیکن زندگی کے مظاہرے کی ہی شکل میں۔ وہ زندگی کی محرومیوں، غم ناکیوں اور اذیتوں کو حسن سے مزین کرنے کی تمنا رکھتے ہیں اور حیات کی زہر ناکیوں میں شیرینی اور مدھر تا گھول دینا چاہتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ ان کی شاعری میں بیشتر جگہوں پر تخیل پر تجربہ اور مشاہدہ حاوی نظرآتا ہے۔ ان میں زندگی کی تلخ حقیقتوں سے چشم پوشی کی بجائے ان سے آنکھیں چار کرنے کا حوصلہ موجود ہے۔وہ اپنے وطن کی محبت میں کچھ اس طرح سے بے قرار دکھائی دیتے ہیں۔
تیری سوچ نوں لکھ سلام آکھاں سوہنا پاکستان بنا دتا
ستی ہوئی سی قوم ہنیریاں وچ نعرہ حق دا مار جگا دتا
کیئاں راتاں دے کٹ جگراتیاں نے رام رام توں سانوں بچا دتا
سر چک کے جین دا ول خادم سوہنے قائد نے سانوں سکھا دتا

آج ہمارا ملک ایک لق و دق صحرا ہے۔ جس میں شادابی اور زندگی کا نام و نشان نہیں ہے۔ ملک کا ذرہ ذرہ دکھ کی تصویر بنا ہوا ہے۔ ہمیں اس غم و اندوہ کو مٹانا ہے اور از سر نو زندگی کے چمن میں آبیاری کرنا ہے۔ادیب کا فرض یہ ہونا چاہیے کہ ملک میں نئی زندگی کی روح پھونکے، بیداری اور جوش کے گیت گائے ہر انسان کو امید اور مسرت کا پیغام سنائے اور کسی کو نا امید اور ناکارہ نہ ہونے دے۔ ملک اور قوم کی بہی خواہی کو ذاتی اغراض پر ترجیح دینے کا جذبہ ہر بڑے چھوٹے میں پیدا کرنا ادیب کا فرض عین ہونا چاہیے۔ قوم سماج اور ادب کی بہبودی کی قسم جب تک ہر انسان نہ کھائے گا اس وقت تک دنیا کا مستقبل روشن نہیں ہو سکتا۔اگر تم یہ کرنے کے لیے تیار ہو تو تمہیں پہلے اپنی متاع کھلے ہاتھوں لٹانی ہوگی اور پھر کہیں تم اس قابل ہو گے کہ دنیا کے کسی معاوضے کی تمنا کرو، لیکن اپنے کو مٹانے میں جو لطف ہے اس سے تم محروم نہ رہ جاؤ۔‘‘ یاد رکھو تخلیق ادب بڑے جو کھم کا کام ہے۔ حق اور جمال کی تلاش کرنا ہے تو پہلے، انا ، کی کینچلی اتاردو۔ کلی کی طرح سخت ڈنٹھل سے باہر نکلنے کی منزل طے کرو۔ پھر دیکھو کہ ہوا کتنی صاف ہے۔ روشنی کتنی سہانی ہے اور پانی کتنا لطیف ہے۔

خادم وسائی پوری کو جاودانی عطا کرنے میں گرچہ ان کی شاعری کو مرکزی اہمیت حاصل ہے، لیکن ان کی اختراعی اور تخلیقی صلاحیتوں کی بساط کافی وقیع اور ہمہ جہت ہے۔ انھوں نے ایک ہزار سے زیادہ گیتوں کی تخلیق کی۔اور ان کا نام رہتی دنیا تک اسی طرح چمکتا رہے گا۔جیسے ان کے لکھے ہوئے گیت اپنا مقام رکھتے ہیں-
M A TABASSUM
About the Author: M A TABASSUM Read More Articles by M A TABASSUM: 159 Articles with 152757 views m a tabassum
central president
columnist council of pakistan(ccp)
.. View More