چیف جسٹس محمد یونس سرکھوی: کشمیر کی دھرتی کا عظیم سپوت

چیف جسٹس محمد یونس سرکھوی ایسی نابغہء روزگارشخصیات میں ایک تھے جن کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں تھی ۔سیاستدان ،قانون دان ،فقیر ،درویش غرض کتنے رنگ اس ایک شخص میں جع ہوگئے تھے ۔شاید ایسی شخصیت کے لیے ہشت پہلو کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔کشمیرکی دھرتی کی کوکھ سے ایسی عظیم شخصیات نے جنم لیا جو اپنے علم ،جدوجہد ،کردار اور اپنے عمل کی وجہ سے تاریخ میں ہمیشہ زندہ جاوید رہیں گے۔خطہ کشمیر کی نامور عظیم ہستی حضرت میاں محمد بخش ؒکی سرزمین میرپور کی تحصیل ڈڈیال کے گاؤں سورکھی میں جنم لینے والا یہ عظیم کشمیری سپوت جسٹس محمد یونس سرکھوی خطہ کشمیر کا وہ نامور مجاہد تھا جس پر آنے والی نسلیں ہمیشہ فخر او رناز کرتی رہیں گی ۔جسٹس محمد یونس سرکھوی ایک مدبر ،ایک اعلیٰ پائے کے وکیل ،بہترین جج اور ممتاز سیاسی راہنما کے طور پرہمیشہ زندہ وجاوید رہیں گے ۔سیاست وکالت اور عدالت میں جسٹس یونس سرکھوی نے ایسا نام پیدا کیا جس پر آزادخطہ کے عوام ہمیشہ انہیں یادکرتے ہیں ۔

چیف جسٹس محمد یونس سرکھوی زمانہ طالب علمی سے ہی وطن کی تڑپ او رجدوجہد کرنے میں مشہور ہوگئے ۔بڑے بڑے نامور طلباء ،دانشور ،قانون دان ،سیاستدان ،مورخ اسی گورنمنٹ کالج میرپور ہی سے فارغ ہوکر بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہوئے ۔میڑک کاامتحان اپنے آبائی گاؤں سرکھوی سے پاس کیا ۔1961ء سے 1964ء تک میرپور کالج میں تعلیم مکمل کی ۔بی اے کرنے کے بعد لاکالج لاہور پنچاب یونیورسٹی میں داخلہ لیا ۔محمد یونس سرکھوی گورنمنٹ کالج میرپور کے انتہائی زہین اور باصلاحیت محترک سٹوڈنٹس لیڈرتھے کالج کی مختلف سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ۔محمدیونس سرکھوی ناصر ف اچھے طالب علم تھے بلکہ وہ زبردست مقرر،مختلف موبحثوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ۔جسٹس محمد یونس سرکھوی ،سابق وزیر اعظم ممتاز حسین راٹھور ،پروفیسر خواجہ محمد حنیف ،محمد ریاض انقلابی ایڈووکیٹ ،گورنمنٹ کالج میرپور اور بعد ازاں لاکالج لاہور میں کلاس فیلو تھے ۔جسٹس سرکھوی لاء نے کرنے کے بعد پنجاب کے نامور قانون دان اپنے سینئر استاد جنا ب برکت علی سلیمی کے ساتھ قانون کے پیشہ کی پریکٹس شروع کرلی ۔کچھ عرصہ بعد لاکالج لاہور سے فارغ ہونے کے بعد سرکھوی (مرحوم ) نے میرپور میں پریکٹس شروع کردی ۔تھوڑے عرصہ میں انہوں نے اپنی مسلسل محنت اور صلاحیتوں کا نہ صرف لوہا منوایا بلکہ میرپور کے نامور وکلاء میں انکا شمار ہونے لگا۔

جسٹس محمد یونس سرکھوی نہ صرف اچھے وکیل تھے بلکہ وہ ایک سیاسی راہنما بھی تھے زمانہ طالب علمی سے ہی سیاست کی پُر خار وادیوں میں داخل ہوچکے تھے ۔لاہور میں جموں کشمیر سٹوڈنٹس یونین بنائی کشمیریوں کے حق خود ارادیت کیلئے نہ صرف کام کیا ۔بڑی بڑی شخصیات کی پاکستان آمد پر عالمی راہنماؤں کی توجہ کشمیر کی جانب مبذول کروائی ۔وطن عزیز پاکستان کے تاریخی دوست ملک چین کے چیئرمین (لیوشاؤچی) جب پہلی مرتبہ لاہور ائرپورٹ پر اترے تو وہاں پر موجود کشمیری طلباء نے ان کا والہانہ استقبال کیا ۔جسٹس محمد یونس سرکھوی نے لاہور میں اپنے قیام کے دوران جب تیسری دنیا کے عظیم لیڈر ذوالفقارعلی بھٹو کی پاکستان آمد ہوئی تو جسٹس محمد یونس سرکھوی ،ذوالفقارعلی بھٹو کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے بے تاب تھے ۔عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا یہ تاریخی سمندر دیکھ کر جسٹس محمد یونس سرکھوی نے اپنے دوست سے کہا کہ پاکستان کے لاکھوں عوام ذوالفقارعلی بھٹو کو اپنا قائد مانتے ہیں یہی وجہ ہے کہ جسٹس یونس سرکھوی کے دل میں قائد عوام کی محبت اور عقیدت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ۔جسٹس یونس سرکھوی بھٹو شہید کی سحر انگیز ،انقلابی اور تاریخی تقریروں اور عالمی ڈائیلاگ بولنے کی وجہ سے ذوالفقارعلی بھٹو کے شدید گرویدہ تھے وہ بھٹو صاحب کے تاریخی کارناموں بلخصوص اسلامی سربراہی کانفرنس کا قیام ،مملکت پاکستان کو متفقہ آئین ،ایٹمی ٹیکنالونی کی بنیاد رکھنا ،جمعتہ المبارک کی چھٹی ،قادیانوں کو غیر مسلم قرار دینا اور کشمیریوں کے حق خوداردیت کے ساتھ ان کی نظریاتی وانقلابی وابستگی ،لاکھوں غریبوں ،مزدوروں ،کسانوں اورطلب علموں کو جو عزت ومقام بھٹو صاحب نے دیا اہل کشمیر کے عوام اس لئے ان کا بے حد احترام کرتے تھے ۔

جسٹس یونس سرکھوی آزادکشمیر کی سب سے بڑی بار میرپور بارایسوسی ایشن کے تین مرتبہ صدر منتخب ہوئے ۔وکلاء کے حقوق اور عوامی جدوجہد کیلئے شہرت اور مقام آپ کو نصیب ہوا بہت کم لوگوں کے حصہ میں آیا ۔1994ء میں سابق وزیر اعظم پاکستان محترمہ بینظیر بھٹو صاحبہ کے دور اقتدار میں آزادجموں وکشمیر سپریم کورٹ کا جج بنادیا گیا۔جسٹس محمد یونس سرکھوی وہ پہلے جج تھے جو ڈائریکٹ سپریم کورٹ میں گئے یادرہے کہ ان سے پہلے آزادکشمیر کا کوئی جج ڈائریکٹ سپریم کورٹ میں نہیں گیا ۔جسٹس محمد یونس سرکھوی نے انکشاف کیا تھا کہ میں ایشاء کی تاریخ کا پہلا وکیل ہوں جو ڈائریکٹ سپریم کو جج بناہوں ۔ہائی کورٹ میں پانچ سال گزرنے کے بعد ہی کسی وکیل کو سپریم کورٹ میں جانے کا موقع ملتا ہے ۔جسٹس یونس سرکھوی ہماری ہماری دھرتی کے وہ عظیم سپوت تھے بلخصوص آزادکشمیر کا ہر فردان کے عظیم کارناموں اور اعلیٰ عدالتی فیصلوں پر ہمیشہ ناز کرتارہے گا ۔سرکھوی (مرحوم ) نے انہی محلوں ،گلیوں میں پرورش پائی اعلیٰ تعلیم حاصل کی ،انہی عدالتوں میں ایک نامور قانون دان کی حیثیت سے جو ناقابل فراموش خدمات سرانجام دیں عوامی حقوق کے لیے آپ نے جو فیصلے کیے یہ یقینا تاریخ کا حصہ ہیں ۔جسٹس محمد یونس سرکھوی سے میری برسوں پرانی شناسائی تھی جب سرکھوی صاحب مظفرآباد میں میرے عظیم جلیل القدر والد گرامی پروفیسر خان زمان مرزا آزادجموں وکشمیر یونیورسٹی کے ڈائریکٹر جنرل تھے ۔والد محترم سے انکے پرانے مراسم تھے جب بھی سرکھوی مرحوم مظفرآباد آتے تووہ سابق وزیر اعظم ممتاز حسین راٹھور اور پروفیسر خان زمان مرزا کے پا س ضرورجاتے ۔پروفیسر خان زمان مرزا سے تحریک آزای کشمیر اور بین الاقوامی امو رپر تفصیلی گفتگوکرتے سرکھوی مرحوم پروفیسر کے بڑے قدر دان تھے جسٹس محمد یونس سرکھوی پروفیسر صاحب کی علمی ،ادبی اور بلخصوص کشمیر اور پاکستان کے حوالہ سے لکھی گئی کتابوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔پروفیسر خان زمان مرزا (مرحوم ) کی وفات پرجو تاریخی الفاظ خراج عقیدت کے طورپر پیش کیے ۔جسٹس صاحب فرماتے ہیں ’’کہ آج خطہ کشمیر اپنے عظیم دانشور مورخ اور عالمی مدبر سے محروم ہوگیا پروفیسر خان زمان مرزا کشمیر اور پاکستان کے قیمتی سرمایہ تھے اس جیسا عظیم المرتبت اُستاد اب ہمیں کہاں سے ملے گا ‘‘

قارئین محترم !جسٹس محمد یونس سرکھوی درویش منش اور بے نیاز قسم کی اعلیٰ شخصیت تھے سپریم کورٹ جیسے اعلیٰ ترین عہدے پر فائز ہونے کے باوجود اُن کے ہاں غرور تکبر نہیں تھا بڑی سادہ زندگی بسر کرتے تھے سادل لباس لیکن سلیقے سے پہنتے تھے اگر سرکاری گاڑی نہ ہوتی تو پیدل چل پڑتے ۔راقم کو چیف جسٹس محمد یونس سرکھوی (مرحوم ) کے ساتھ مظفرآباد ،میرپور اور اسلام آباد متعدد بارسفر کرنے کاسفر کرنے کا شرف حاصل ہوا ۔ مجھے اپنی 27سالہ زندگی کے اندر بڑے بڑے قدر آور ملکی اور بین الاقوامی شخصیات سے ملنے اور بیٹھنے کا اتفاق ہواہے لیکن سچی بات ہے کہ جسٹس محمد یونس سرکھوی کے ہاں میں نے کبھی پروٹوکول نہیں دیکھا ۔دوران سفر چیف جسٹس صاحب نے کئی مرتبہ میری موجودگی میں عام ٹرک ڈائیور ہوٹل میں بیٹھ کر کھانا کھایا ،چائے پی ۔یہ سلسلہ میں نے کئی مرتبہ دیکھا میں اس کا عینی شاہد ہوں اسی لئے اﷲ تعالیٰ نے انہیں اس منصف ِجلیلہ پر فائز کیا تھا ۔اپنے سے چھوٹے او ربڑے کے ساتھ ان کا حسن اخلاق ،منہ بولتا ثبوت تھا ۔عاجزی وانکساری کا یہ سلسلہ چیف جسٹس کے اعلیٰ ترین عہدے تک جاری رہا ایسے ہی فقیر اور درویش منش انسان کیلئے فرزند کشمیر حضرت علامہ اقبال ؒ نے کیا خوب کہا تھا ۔
میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خود ی نہ بیج غریبی میں نام پیداکر

جناب جسٹس محمد یونس سرکھوی جیسے لوگ مر نہیں سکتے یہ لوگ امر ہوجاتے ہیں جن لوگوں کا زہنی اورجذباتی رشتہ اپنی مٹی سے ہوتاہے وہ دانہ خاک میں مل کر گل وگلزار ہوتاہے ۔میں وہ چند لمحے کبھی نہیں بھلا سکتا ۔عوامی میرج ہال جس کا افتتاح بھی چیف جسٹس محمدیونس سرکھوی نے کیا (راقم ) چیف جسٹس کی تقریب کا اسٹیج سیکرٹری تھا کسے خبر تھی کہ آج وہی عوامی میرج ہال جہاں ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر ریاض انقلابی ایڈووکیٹ(وقت) کی طرف سے آزادکشمیر کے نومنتخب چیف جسٹس ریاض اختر چوہدری کے اعزاز میں تقریب منعقد کی گئی تھی ۔جسٹس یونس سرکھوی (مرحوم) کی موت جو اپنے پیشہ کے اعتبار سے وکلاء برادری کی ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے 10منٹ کی مختصر تقریر کے دوران جسٹس صاحب نے جو شعر پڑھا وہ کچھ یوں تھا ۔
نہ ہم بدلے نہ تم بدلے نہ دل کی آرزو بدلی
میں کیسے اعتبار انقلاب آسماں کرلوں

بحیثیت چیف جسٹس سپریم کورٹ حلف برداری کاوہ تاریخی اور یاد گار دن بھی (راقم ) کو اچھی طرح یادہے جب صدر ریاست جموں وکشمیر نے مستقل چیف جسٹس محمد یونس سرکھوی سے جو حلف لیا ۔صدر آزادجموں وکشمیر کے خطاب سے پہلے چیف جسٹس محمد یونس سرکھوی (مرحوم ) نے اپنے تاریخی حلف برداری سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’وکلاء کو میرے ساتھ تعاون کرنا پڑے گا اور چاہتا ہوں کہ جب میں قبر سے اٹھایا جاؤں تو میرا چہرہ صاف ستھرا ہو میں سیاہ شکل وصورت کے ساتھ نہ اُٹھوں میں گندگی سے آلودہ نہ ہوں ہر حالت اور حالات میں انصاف کا دامن نہیں چھوڑوں گا ‘‘آزاد خطہ کی عدالتی تاریخ میں چیف جسٹس محمد یونس سرکھوی کی گراں قدر خدمات اور کارنامے تاریخ کا حصہ ہیں بلاشعبہ جب کوئی مورخ ،قانون دان عدالتی تاریخ مرتب کرے گا تو یقینا چیف جسٹس محمد یونس سرکھوی (مرحوم ) کی تاریخی کوششوں کو قدر کی نگاہ سے یادر رکھے گا ۔
Humayun Zaman Mirza
About the Author: Humayun Zaman Mirza Read More Articles by Humayun Zaman Mirza: 10 Articles with 12147 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.