حوا کی بیٹی ……اور ……انسانی المیۂ

حوا کی بیٹی دور جاہلیت سے ظلمت کی چَکی میں پستی آرہی ہے ،کہیں اس بیٹی کو زندہ دفنانے کے المناک واقعات ،تو کہیں بیٹے کو ترجیح دے کر حوا کی اس بیٹی کو احساس کمتری کے گڑھے میں دبا کر معاشرتی اقدار کو زوال پذیر کیا گیا ،دین اسلام نے جاہلانہ رسوم کے تمام دروازوں کو بند کر کے عورت کی عزت وحرمت کا خاص خیال رکھا، اور عورت کو بحیثیت بیٹی ،بہن ،بیوی اور ماں کے وہ حقوق مہیاکئے کہ دیگر مذاہب میں اس کی مثال نہیں ملتی ۔

مال و زر کی لوٹ مار انسان برداشت کر بھی لے مگر اب تو بات صنفِ نازک کی عز ت کی پامالی پر آگئی ہے ،جنسی آگ کو ٹھنڈا کرنے کی خاطر درندگی کی بدترین مثالیں جنم لے رہی ہیں ، دورِ حاضر میں اسلامی جمہو ریہ پاکستان میں حواکی بیٹی کی عزت وعصمت بھی محفوظ نہیں ،جب رشتوں اور معاشرتی تقدیس سے عاری افراد دحشت ووحشت کے خو گر بن جائیں تو انسانی تاریخ کے بد ترین المیئے ہی جنم لیا کرتے ہیں۔

لاہور کے علاقے مغل پورہ میں درندہ صفت افراد کی پانچ سالہ معصوم بچی کے ساتھ اجتماعی زیادتی کے افسوسناک واقعے نے انسانی دل دہلا کر رکھ دیا ہے ، رپورٹ کے مطابق گزشتہ آٹھ ماہ کے دوران صرف لاہور میں خواتین و نابالغ بچیوں کے ساتھ زیادتی کے 145 واقعات رونما ہوئے جن میں 32 بچیوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ،اس کے علاوہ فیصل آباد ،ٹوبہ ٹیک سنگھ اور ملک کے دیگر علاقوں میں اخلاقی باختی کے واقعات رپورٹ ہوئے،جبکہ کئی ایسے واقعات پولیس تھانوں میں رپورٹ ہی نہیں ہو تے یا بعض خاندان اپنی بدنامی کے خوف سے زیادتی کا نشانہ بننے والی لڑکیوں کا معاملہ تھانہ اور عدالت میں لے جانے سے گریز کرتے ہیں اگر پورے ملک سے جنسی زیادتی واقعات کے اعداد و شمار جمع کئے جائیں تو ہما را یہ معاشرہ مہذب انسانو ں کے بجائے درندوں کے معاشرے کی عکاسی کر تا نظر آئے ،آج معاشرتی گراوٹ اس انتہا کو پہنچ چکی ہے کہ خواتین اور معصوم نابالغ بچیوں کی عزتوں کی پامالی کے روز افزوں واقعات بھی ہمارے معاشرتی بگاڑ کی انتہا کی چغلی کھا رہے ہیں ،معصوم بچی کے ساتھ جس وحشیانہ درندگی کا مظا ہرہ کیا گیا وہ معاشرے کی احسن اقدار کی ٹارگٹ کلنگ ہے ،معاشرتی سطح پر بے راہ روی میں میں اضا فے کا غمازاس امر کی جانب اشارہ کررہا ہے کہ انٹرنیٹ کے بے جامنفی استعمال اور فحش فلموں کا پھلتا پھولتاکاروبار بھی نئی نسل کی گمراہی و تباہی کا سبب ہے۔

معاشرے میں پھیلتے ایسے قبیح جرائم ہما رے اجتماعی شعور کیلئے لمحۂ فکریہ ہیں ، با اثر ملزمان کے قانون و انصاف کے شکنجے سے بچ نکلنااور جرائم کی روک تھام میں حکومتی انتظامی مشینری کی ناکامی بھی منہ چڑا رہی ہے ،چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ نے صحیح کہا کہ موت کی سزا پر عمل درآمد نہ ہونے کے نتیجے میں معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے ۔چند دنو ں قبل پڑوسی ملک انڈیا کی اعلیٰ عدالت نے ایک لڑکی کے ساتھ اجتماعی زیادتی کرنے والے چار ملزمان کو موت کی سزاسنائی ،اگر انڈیا جیسے ذات پات پر مبنی معاشرے میں جنسی زیادتی کے مرتکب افراد کو سزا ئے موت مل سکتی ہے تو پاکستان میں کیو ں نہیں ؟معصوم بچیوں کے ساتھ زیادتی کے مرتکب افراد کی فوری گرفتاری اور ان کیلئے سخت سزا حا لات کا اہم ترین تقاضا ہے ، اگر قانون کا ڈر اور سزا کا خو ف نہ رہا تو کل کو کسی کی بھی عزت و عصمت محفوظ نہیں رہے گی ،جب معاشرے میں انسانیت ناپید ہو اور کسی شخص کو اپنے ضمیر کی طرف سے کوئی قدغن محسوس ہی نہ ہو تو یہ صورتحال کسی کی شخصی مجرمانہ ذہنیت کی عکا سی کرتی ہے۔ ضرورت ایسے اقدامات کی ہے کہ مستقبل میں جنسی تشدد کے مزید واقعات کا سدّباب ہو سکے۔ جب تک ان سنگین جرائم کے مرتکبین کو سخت سزائیں دے کر( ان کی سزا پر فوری عمل کر کے) معاشرے کیلئے نشان عبرت بنا کر پیش نہیں کیا جائے گا تب تک ایسے مجرموں کے حوصلے پست نہیں ہوں گے۔ بصور ت دیگر یہی کہنے پر مجبو ر کہ
شب گزرتی دکھائی دیتی ہے
دن نکلتا نظر نہیں آتا
Salman Ahmed Shaikh
About the Author: Salman Ahmed Shaikh Read More Articles by Salman Ahmed Shaikh: 6 Articles with 4140 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.