اپنی جان کی پرواہ نہیں، بس انسانیت کی مسیحائی ہو جائے

(ترجمان جماعۃ الدعوۃ کراچی)

بلوچستان کے ضلع آواران میں زلزلہ کی خبر سنتے ہی جماعۃ الدعوۃ کے کارکنان نے اپنی تمام تر سرگرمیاں منسوخ کر کے فوری طور پر متاثرین کی امداد کے لیے تیاریاں شروع کر دیں ۔ مرکزی دفتر لاہور سے زلزلہ کی شدت اور نقصان کے اندازے کے لیے فون کالز شروع ہوئیں تو کراچی اور کوئٹہ کے بھائیوں نے فوری طور پر ایمبولینس گاڑیوں کو ضروری ادویات سے بھرنا اور ڈاکٹر، پیرامیڈیکل اسٹاف اور رضاکاروں کو جمع کرنا شرو ع کر دیا۔ زلزلہ کے وقت جماعۃ الدعوۃ کے مرکزی رہنما حافظ سیف اﷲ منصور اور فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کے چیئرمین حافظ عبدالرؤف کوئٹہ میں موجود تھے۔ جو فوری طور پر جماعۃ الدعوۃ بلوچستان کے مسؤل مفتی محمد قاسم اور رضا کاروں کے ہمراہ آواران کے لیے روانہ ہوئے۔ کراچی سے بھی مسؤل کراچی انجینئر نوید قمر کی قیادت میں ڈاکٹروں اور رضا کاروں کا قافلہ ایمبولینس، ادویات اور ضروری سامان کے ہمراہ آواران کی جانب رواں دواں ہوگیا۔

آواران کراچی سے سات آٹھ گھنٹوں کی مسافت پر ہے مگر دونوں شہروں کے رہن سہن میں صدیوں کا فاصلہ ہے۔ سخت گرمی، دشوار گزار راستوں اور وسائل کی عدم دستیابی کے باعث یہاں زندگی گزارنا انتہائی مشکل ہے۔ روزگار کا کوئی ذریعہ نہیں، مقامی لوگ اندورن و بیرونِ ملک مزدوری کر کے اپنے اہل خانہ کا پیٹ پالتے ہیں۔ غربت انتہاء کی ہے مگر لوگ صابر اور دین دار ہیں۔ اسلام اور مقامی روایات سے محبت انہیں ممتاز کرتی ہے۔ آواران کے بعض علاقوں کو باغیوں کی پناہ گاہ بھی قرار دیاجاتا ہے اور یہاں امن و امان کی صورتحال بھی انتہائی مخدوش ہے۔

یہی وجہ تھی کہ جب جماعۃ الدعوۃ کے امدادی قافلے کراچی کوئٹہ شاہراہ پر آواران کی جانب مڑ ے تو ایف سی کے اہلکاروں نے انہیں آگے جانے سے روک دیا اور سنگین صورتحال سے آگاہ کیا۔ مگر اپنے بھائیوں کی مدد کے لیے بے تاب رضاکار مسلسل آگے جانے پر اصرار کرتے رہے۔ بالآخر انہیں تحریری طور پر لکھ کر دینا پڑا کہ ہم اﷲ کے توکل اور اپنی ذمہ داری پر آواران جا رہے ہیں۔ کچھ ہونے کی صورت میں ہم خود ذمہ دار ہوں گے۔ آواران پہنچے تو زلزلے کے بعد ہونے والی تباہی کے مناظر دل کو دہلا دینے والے تھے۔ ہرگاؤں سے اٹھنے والی لاشوں اور اپنے پیاروں کے زخموں کی وجہ سے لوگ افسردہ تھے۔ مٹی کے گھروں سے بنے گاؤں مٹی کا ڈھیر بن چکے تھے۔ زلزلہ نے ہر چیز کو تہس نہس کر دیا تھا۔ کنؤیں اور ہنڈ پمپ بھی متاثر ہوگئے، لاشوں کو غسل دینے کے لیے پانی کی شدید قلت پیدا ہو گئی۔ ملبے سے اپنے پیاروں کو نکالنے کے بعد ان کے لیے قبریں کھودنے کی ہمت بھی باقی نہ تھی۔ بعض علاقوں میں صرف دو سے ڈھائی فٹ گہری قبریں بنا کر اور بعض جگہ پر بنا کفن کے اجتماعی تدفین کی گئی۔

مرنے والے تو مر گئے۔ مگر اصل مسئلہ زخمیوں کا تھا۔ جن کی جان بچانے اور زخموں پر پٹی کرنے کے لیے پورے ضلع میں کوئی سہولت میسر نہ تھی۔ ڈسٹرکٹ ہسپتال بھی فقط پتھروں سے بنی عمارت تھی جس میں نہ کوئی ڈاکٹر تھا اور نہ ہی ادویات ۔

فلاح انسانیت فاونڈیشن کے رضاکاروں نے شہر میں داخل ہوتے ہی ٹیمیں بنا کر گاڑیاں مختلف سمتوں میں روانہ کر دیں ۔ جنہوں نے ملبے سے زخمیوں کو نکالنے اور انہیں طبی امداد دینے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ شہر کے مرکزی بازار میں فوری میڈیکل کیمپ لگا دیا گیا۔ ایک ٹیم نے مرکزی ریلیف کیمپ کے لیے جگہ کی تلاش شروع کی اور کچھ دیربعد ٹیلی فون ایکسچینج سے متصل مسجد بابِ رحمٰن میں مرکزی ریلیف کیمپ قائم کر کے کھانا پکانے کا سلسلہ شروع ہو کر دیا۔ پہلے روز دو ہزار متاثرین کے لیے کھانا تیار کر کے تقسیم کیا گیا۔ بستی میں پہلا کھانا پہنچنے پر بھوک سے ستائے بچوں کے چہرے کھل اٹھے۔ بزرگوں نے کھانا تقسیم کرنے والے رضا کاروں کے ہاتھ اور ماتھے چومنا شروع کر دیے اور ہاتھ اٹھا کر دعائیں دیتے رہے۔ زخمیوں کو فوری علاج کے لیے ہسپتال منتقل کرنا تھا۔ کچھ لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت زخمیوں کو کراچی منتقل کر دیا جبکہ بڑی تعداد کرایہ نہ ہونے کے باعث پریشان تھی۔ حافظ سیف اﷲ منصور اور انجینئر نوید قمر نے ڈسٹرکٹ ہسپتال پہنچ کر مریضوں میں نقد رقوم تقسیم کیں تاکہ انہیں فوری علاج کے لیے کراچی منتقل کیا جا سکے۔

دن بھر امدادی کاموں، میڈیکل کیمپس اور کھانے کی تیاری و تقسیم کے بعد تھک کر جب سب مسجد باب رحمٰن میں قائم ریلیف کیمپ میں جمع ہوئے ۔ رات ہو چکی تھی اور سونے کا کوئی انتظام نہ تھا۔ دن بھر کی دھوپ کے باعث زمین سے تپش نکل رہی تھی۔ اس کے باوجود جماعت کے مرکزی رہنما اور کارکنان کھلے آسمان تلے زمین پر چٹائی ڈال کر لیٹ گئے۔ کوئی تکیہ تھا نہ چادر، مچھروں کی بھرمار اور گرمی، نیند کیا آنی تھی ! بس صبح ہونے کا انتظار تھا کہ روشنی ہوتے ہی پھر امدادی کاموں کے لیے روانہ ہو جائیں۔ نمازِ فجر کے فوری بعد ناشتے کے نام پر چائے کے کپ کے ساتھ بسکٹ کا ایک پیکٹ تھماتے ہوئے حافظ عبدالرؤف صاحب نے ہدایت دی کہ بھائی فوری طور پر علاقوں میں نکلیں اور امدادی کام شروع کریں۔ ہر کارکن عظم و ہمت کا پہاڑ اور خدمت کے جذبہ سے سرشار تھا۔ فوراً ہی ٹیمیں مختلف علاقوں میں روانہ ہوئیں اور پھر انتھک محنت شروع کر دی۔ شہر میں واحد فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کی گاڑیاں متحرک اور کارکن لوگوں کو ادویات اور تیار کھانا فراہم کرنے میں مصروف نظر آرہے تھے۔ میڈیا پر بیانات اور خبریں جاری کرنے والی این جی اوز اور فلاحی تنظیموں کا دور دور تک نام و نشان نہ تھا۔

زلرلے سے آواران شہر بھی شدید متاثر ہوا تھا۔ یہ شہر کیاتھا بلکہ ایک بڑا گاؤں تھا۔ بس فرق صرف اتنا تھا کہ یہاں کچھ پختہ سرکاری عمارتیں موجود تھیں۔ زلزلے کے بعد بازار بند تھے اور کچھ دستیاب نہ تھا۔

شہر میں کسی بھی قسم کی کھانے اور رہنے کی سہولت دستیاب نہ ہونے کے باعث زلزلہ کی کوریج کے لیے آواران پہنچنے والی میڈیا ٹیموں کی میزبانی کا حق بھی فلاح انسانیت فاؤنڈیشن نے ادا کرنا شروع کر دیا۔ مسجد باب رحمٰن میں قائم مرکزی ریلیف کیمپ پر شام ہوتے ہی ٹی وی چینلز کے نمائندوں کی قطاریں لگ جاتیں اور ساتھ ہی دور دراز کے علاقوں سے آئے متاثرین بھی آرام کے لیے یہیں کا رخ کرتے۔ دن بھر امدادی کاموں کی تھکاوٹ کے باوجود رضاء کارمتاثرین کے آرام کی خاطر اپنا آرام قربان کر دیتے۔

زلزلہ ایک بڑے علاقے میں آیا تھا۔ جہاں آبادی دور دور پھیلی ہوئی تھی۔ یہاں فاصلے کلو میٹر میں نہیں گھنٹوں میں پوچھے جاتے ہیں۔ جہاں پہنچنا انتہائی مشکل اور دشوار تھا۔ کچے اور ٹوٹے پھوٹے راستوں پر عام گاڑی کا سفر ناممکن تھا۔ فور بائی فور جیپ اور گاڑیوں کے بغیر ان علاقوں تک رسائی ناممکن تھی۔ اس کے باوجود فلاح انسانیت ایمبولنسوں کو ان علاقوں میں میڈیکل کیمپس کے لئے بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا۔ جب ٹیمیں ڈل بیدی، بالاچ، ماشی، مالار اورماشکے سمیت دیگر علاقوں میں پہنچیں تو معلوم ہوا کہ زلزلہ کے زخمی تاحال موجود ہیں۔ جوہڑ کا گندہ پانی پینے سے پیٹ کی بیماریاں پھیل گئی ہیں۔ فلاح انسانیت فاونڈیشن کی میڈیکل ٹیموں نے درختوں کے سائے اور جھونپڑیوں میں بیٹھ کر زخمیوں کی پٹی اور ہڈیاں ٹوٹے مریضوں کے پلاسٹر کئے ۔ یہ وہ علاقے ہیں جہاں بیماری کو نظر انداز کرنا مجبوری ہے اور کسی بیمار کا علاج کروانا ہو تو اسے کراچی منتقل کرنے کے لئے جیپ میں کرایہ اور دیگر اخراجات کی مد میں کم از کم 20 سے 25 ہزار ہونا ضروری ہیں۔ فجر کے بعد روانہ ہونے والی ٹیم رات گئے واپس پلٹتی تو معلوم ہوتا کہ یہ گاڑی اب دوبارہ ایسے دشوار سفرکے قابل نہیں رہی۔

اس دشوار علاقے میں امدادی کاموں کے دوران ایک بڑی دشواری یہ تھی کہ ٹرک ڈرائیور امدادی سامان آواران لے جانے کو تیار نہیں تھے۔ بڑی مشکل سے اضافی کرایہ کے ساتھ کراچی سے ٹرکوں پر امدادی سامان روانہ کیا گیا مگر کئی ٹرک راستے میں چڑھائی چڑھتے یا پتھریلے راستے سے گزارتے ہوئے خراب ہوگئے۔ چند گھنٹوں کا سفر دنوں پر پھیل گیا۔ دو چار روز میں کراچی، فیصل آباد، لاہور سمیت ملک بھر سے جماعت کے مرکزی ذمہ داران اور رضاکار اور امدادی سامان کے ٹرک آواران پہنچنا شروع ہو گئے۔

امیر جماعۃ الدعوۃ پروفیسر حافظ محمد سعیدحفظہ اﷲ دن میں کئی بار فون کر کے امدادی کاموں کی تفصیل معلوم کرتے اور کام کو مزید تیز کرنے کی ہدایت کرتے۔متاثرین تک امدادی کی تیز ترین ترسیل کے لیے کراچی میں بیس کیمپ قائم کیا گیا۔ اﷲ کی مدد اور توفیق سے چند روز میں ہی ایف آئی ایف کے رضاکاروں نے خدمت اور امداد کی وہ مثال قائم کی کہ آواران کا ہر شخص یہ گواہی دیتا نظر آیا کہ جو کام سرکار نہ کر سکی وہ جماعۃ الدعوۃ نے کر دیا۔

جس علاقے سے بغاوت اور نفرت کی خبریں پھیلائی جا رہی تھیں اور جہاں کا سفر کرنے سے عام پاکستانیوں کو روکا جا رہا تھا۔ آج اس شہر میں اپنے پاکستانی بھائیوں کی مصیبت پر مدد کے لیے پہنچنے والوں سے محبت کے جذبات بھی دیدنی ہیں۔ ایف آئی ایف کی جیکٹ پہن کر شہر سے گزرنے والوں کو ہر شخص محبت کی نظر دیکھتا اور ہاتھ اٹھا کر سلام کرتا ہے۔ متاثرین منہدم گھروں کے باوجود بھی چائے اورکھانے کی دعوت دیتے اور ساتھ مل کر امدادی کاموں میں ہاتھ بٹاتے۔ دکاندار سامان کی خریداری پر رقم لینے سے انکار کر دیتے ہیں اور مقامی علماء اپنے مصلے پر جماعۃ الدعوۃ کے کارکنان کو آگے کر دیتے ہیں۔ وہ جان گئے ہیں کہ ہم مسلمان اور پاکستانی ہیں ۔ ہماری مدد کے لیے ملک کے کونے کونے سے لوگ رشتہ لا الہ الا ﷲ کی وجہ سے پہنچے ہیں۔ یہ وقت متاثرین زلزلہ کی مدد اور خدمت کر کے نفرتیں ختم کرنے کا ہے آپ بھی اپنا حصہ ملائیے اور اپنے بلوچ بھائیوں کے دل جیت لیجیے ۔

Ahmed Nadeem
About the Author: Ahmed Nadeem Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.