یہ سپنوں کا دیس---عابدہ رحمانی

جھلملاتا عروسی جوڑا، بھاری زیورات ، بیوٹی پارلرسے میک اپ، ہیئر اسٹایل ، مہندی کے دلکش ڈیزائینوں سے آراستہ ھاتھ پاؤں، کومل انتہائی حسین نظرآرہی تھی اوربھر پور روائتی پاکستانی دلہن لگ رہی تھی -لڑکے والے خوب خوب اپنے ارمان پورے کر رہے تھے - موسیقی ، ناچ ، گانا ، کھانے میں بہرپورتکلفات، کئی آئیٹم ،لوازمات کی کوئی کمی نہیں تھی دولہا شاید عمرمیں قدرے زیادہ ہے ، ایک خاتون جو میرے پاس بیٹھی تھیں کچھ نا اعتباری میں کہنے لگیں ،نہیں ایسا تو نہیں لگ رہا "میں نے غور سے جائزہ لیتے ہوئے جواب دیا - بیرے میزوں پر appetizer رکھ رہے تھے- سب کچھ کافی عمدہ لیکن انوکھا تھا پاکستانی ثقافت اور روایات کے بر عکس--،-اسی لئے تو لڑکی کی جانب کے لوگ شک و شبے میں مبتلا تھے-- سارے اخراجات، ساری تیاری اور چکا چوند تو لڑکے والوں کی تھی - سجا سجایا شاندار بینکوئٹ ھال ،جلتی بھجتی ڈسکو بتیوں اور تازہ پھولوں سے سجا اسٹیج -- کوئی کسرنظر نہیں آرہی تھی --لڑکی والے کومل کو ملا کر محض آٹھ افراد تھے ، میں انمیں سے ایک تھئ -سارا خاندان رضا کو گود میں بٹھا بٹھا کر تصویریں اتار رہا تھا - نکاح ہوا ،حق مہر اچھا خاصا -- لمبی دعا ہوئی دولہا دلہن کی تصاویر کی چکا چوند سب لوگ مبارکباد دینے اور گلے ملنے لگے ، میں نے بھی اسٹیج پر جاکر دولھا دولھن کو مبارکباد اور سلامی دی - کومل نے میرا تعارف کریا اور رضا دولہا کی گود میں بیٹھا ہوا چھوٹا سا شہ بالا لگ رہاتھا --- کیا پیار کیا وارفتگی کہیں کسی کی پیشانی پر شکن نہیں ہے سب خوش ہیں، سب مطمئن ہیں ---
--------------------------------------
میں کافی مصروف تھی کہ رابعہ کا فون آیا ،" باجی جلدی ائیں پتہ نہیں کومل کو کیا ہو گیا ہے - بار بار باتھ روم جا رہی ہے-" میں نے جلدی کام سمیٹا گاڑی نکالی انکو فون کیا کہ ہسپتال جانے کی تیاری کریں--کومل کو گائنا کولوجسٹ نے پہلے ہی سیزیرین کا کہا ہوا تھا --دونوں کو لیکر ہسپتال پہنچی ، دونوں بہنیںبے تحاشہ روئے جا رہی تھیں - فوری طور پر اسکو داخل کیا گیا ڈاکٹر شرما پہنچ چکے تھے اانہوں نے تسلی اور اطمینان دلایا-- آپریشن کی تیاری شروع ہو گئی - رابعہ نے پاکستان اپنی ماں کو فون کیا ، شام تک رضا پیدا ہو چکا تھا ساڑھے چھ پونڈ وزن ،ماں اور بیٹا دونوں صحیح تھے بچہ صحتمند تھا-- ڈاکٹر سلمان کو بلا کر میں نے بچے کو آذان دلوائی-اگلے روز رابعہ کو لیکر میں بچے کیلئے ضروری شاپنگ کرنے گئی- ان مما لک کے اپنے تکلفات ہوتے ہیں - ہسپتال والے جب تک بچہ حوالے نہیں کرتے جب تک کہ اٹھانے والی سیٹ اور کار سیٹ نہ ہو-- سوشل سروسز والے پہنچ چکے تھے انہوں نے خریداری کے لئے کہا اور رسیدیں جمع کرانے کی تاکید کی--

دودن بعد ماں اور بچے دونوں کو لیکر میں گھر آئی - سوشل سروسز کی جانب سے بچے کا پلنگ ، کپڑے ، دودھ کی بوتلیں ، ڈائپرز اور ضرورت کادیگر تمام سامان آچکا تھا- گھر میں ماشاءاللہ ایک بچے کا اضافہ خوش آیند تھا- رابعہ خوشی خوشی بہن اور بچے کی دیکھ بھال میں مصروف تھی--میں نے اپنی طرف سے بھی بچے کو تحایف دئے-- برار سنگھ کی دکان سے دو ڈبہے لڈو بھی لے آئی -
-------------------------------------------------------------
--خالہ خالو کینیڈا سے ملنے گئے اور اپنے دونوں بیٹوں سے دونوں بہنوں کانکاح کر دیا - کا غذ ات کی تیاری پر رخصتی طے ہوئی-- ماں باپ خوشی سے بے حال ، جان پہچان والے ، سہیلیاں، عزیز رشتہ دار سارے حیرت، رشک اور حسد کا اظہار کئے جارہے تھے -،" ارے دیکھو کیا قسمت پائی دونوں کی دونوں کینیڈا جارہی ہیں --- رابعہ نے ایف اے کر کے بیوٹی پارلر سے تھریڈنگ وغیرہ کی تربیت لی، کومل نے بس میٹرک کرکے خانہ داری وغیرہ سیکھی - نچلے متوسط گھرانے کی بچیاں والد اور بھائی کی درزی کی دکان تھی- وہ گھر والوں کی جدائی سے اداس بھی تھیں لیکن کیینڈا جانے کا سوچ سوچ کر ایک سہانا اور رنگین خواب دیکھتی رہیں-

خالہ ِ خالوکاغذات کی تیاری پر دونوں کی رخصتی کراکے ٹورنٹو لے آئے- ماں باپ خوش تھے کہ صرف چند زیور اورچند جوڑے کپڑوں پر معاملہ طے ہوااور پھر لڑکیاں سگی خالہ کے گھر جا رہی تھیں-- ٹورنٹو میں گھر کے حالات پاکستان سے بھی بدتر تھے نیا ملک نئے لوگ ، خالہ خالو کو دو نوکرانیاں مل گئیں -- گھر کیا ایک قید خانہ تھا کہیں آنے جانے کی اجازت نہیں تھی - سیر و تفریح کا تو کوئی تصور ہی نہیں تھا - انکو ملا کر گھر میں آ ٹھ افراد تھے ، سارا کام ان دونوں کے ذمے آگیا ، ڈانٹ ڈپٹ الگ ،چند ہی روز میں مار پیٹ تک نوبت پہنچ گئی-چینخ پکار، تو تو میں میں تو ہر وقت ہی چلتی تھی - خالہ کو انکی زبان درازی کی سخت شکایت تھی- سسر اور شوہر سب مار پیٹ میں طاق تھے - پاکستان ماں باپ سے سزا کے طور پر بات چیت پر پابندی لگ جاتی تھی- تینوں باپ بیٹے کیش( اجرات) پر محنت مزدوری کرتے تھے باپ کی پہلے نوکری تھی - جسکی بناء پر انکو سپانسر کیا تھا اب وہ اور بیٹے سب ویلفئیر( سرکاری امداد) پر تھے--اپارٹمنٹ بھی حکومت کی طرف سے تھا--ایک روز جب شور ہنگامہ انتہا کو پہونچ گیا - رونے دھونے اور اٹھا پٹخ کی آوازیں ناقابل برداشت ہو گئیں --- پڑوسیوں نے پولیس کو کال کردی - دس منٹ کے اندر پولیس پہنچ گئی -- تمام مردوں اور خالہ کو گرفتار کرلیا اور دونوں لڑکیوں کو شیلٹرshelter( خواتین کی پناہگاۃ - ان ممالک میں گھریلو زیادتیوں، بدسلوکیوں یا بے حد مالی مجبوری کی صورت میں ، خواتین اور بچوں کو ایک پناہگاہ میں پہنچا دیا جاتاہے - جہاں حکومت اور فلاحی ادارے انکی دیکھ بھال کرتے ہیں-قدرتی آفات اور اسطرح کے دوسرے اندوہناک حالات میں پورے خاندانوں کو پناہ ، خوراک اور آسائش مہیا کی جاتی ہے) میں لے گئے-------کومل چھ مہینے کی حاملہ تھی اس طرح اسکا کیس اورزیادہ مضبوط ہوگیا--

میرےفلاحی سنٹر کی جانب سے مجھے انکی دیکھ بھال کی ذمہ داری سونپی گئی --جلد ہی انکے لئےسرکاری مکان کا بندوبست ہوا- اچھا خاصہ تین بیڈ روم کا مکان ، یہ مکان ٹاؤن ہاؤس کہلاتے ہیں نیچے گیراج بھی تھا- شیلٹر کی طرف سے انکو کافی گھریلو سامان ملا -باقی سامان کا بندوبست میں نے اپنے ذرائع سے کیا - اس دوران انہوں نے اپنی والدہ کو پاس بلا نے کی درخواست بھی دیدی- رفتہ رفتہ دونوں بہنوں کا اعتماد بحال ہوا- وہ اکثر خوفزدہ ہوکر کہتیں،" باجی وہ بڑے بد معاش لوگ ہیں وہ ہمیں جان سے مار دینگے" میں نے اپنے طور پر انکو سمجھا یا کہ اگر ان لوگوں سے مفا ہمت کرنا چاہیں لیکن وہ کسی طور پر تیار نہیں تھیں - کمپیوٹر کا استعمال انکو سکھا یا اور انٹرنیٹ لگوادیا - ای میل کا استعمال سمجھایا ،سکائپ اور یاہو کے ذریعے وہ لاہور اپنے گھر والوں سے خوب گپیں لگاتیں- مسجد کے فوڈ بنک میں انکا نام لکھوادیا - حکومت کی جانب سے انہیں اچھی خاصی امداد حاصل تھی - تہی دست، بے بس لڑکیاں اب کینیڈا اور اسکے ظریقہ کار سے خوب فائدہ اٹھا رہی تھیں- رابعہ نے انگریزی سیکھنے کے لئے ای ایس ایل ( انگریزی دوسری زبان کے طور پر) کی کلاس میں داخلہ لے لیا - کومل بچے کے ساتھ مصروف تھی-

رضا کی پیدایش کے دو ماہ کے بعد انکی امی لاہور سے آگئیں -وہ بھی شروع میں کافی گھبرائی ہوئی تھی - لیکن تمام صورتحال دیکھ کر خوب مطمئن اور خوش ہوئی-----
--------------------------------------------------------------------------------------------------------
میں اپنے دیگر کاموں میں مصروف ہوکر انسے قدرے لا تعلق ہوئی وہ اب یہاں کے سسٹم کو بخوبی جان چکی تھیں - اور اسی کے مطابق اپنے آپکو ڈھال رہی تھیں چونکہ ماں آچکی تھی وہ بچے اور گھر کا خیال رکھتیںان دونوں نے چھوٹی موٹی ملازمت اور پڑھائی شروع کی - رابعہ نے ڈرائونگ سیکھ کر ایک پرانی گاڑی خرید لی---- چند واقعات سے میں انسے قدرے بد ظن بھی ہوگئی لگتا تھا کہ وہ ہمہ وقت فائدے بٹورنے میں لگی ہوئی ہیں -------

سال بھر سے زیادہ عرصہ ہو چلا تھا کہ اچانک مجھے خیال آیا کہ جاکر رابعہ ، کومل کی خیریت پوچھ لوں -وہاں گئی تو گھر تو وہی تھا لیکن بہت کچھ بدلا ہوا، تمام گھر میں نیا فرنیچر نئی قالینیں ، جدید ترین ٹیلی ویژن، جادو لگا کر پاکستانی ڈرامے دیکھے جارہے تھے -رابعہ اور اسکی امی خوب لپٹ کر ملیں ،"باجی آپ تو ہمکو بھول ہی گیئں - آپکا نمبر کہیں گم ہو گیا تھا ، بہت ڈھونڈھا پر ملا نہیں آپ اتنی یاد آتی تھیں-"وہ بھی شائد بہانہ بنا رہی تھیں-،" کومل نظر نہیں آرہی ہے - کیا جاب پر ہے ؟"میں نے جائزہ لیتے ہوئے پوچھا- رضا اب چار سال کا بچہ ادھر ادھر بھاگ رہا تھا " باجی کل کومل کا نکاح ہے ابھی سرکاری دفتر میں اپنے ہونیوالے خاوند کے ساتھ شادی کے کا غذات بنانے گئی ہے" - آپ بھی ہمارے ساتھ چلئے گا- اور آپکو پتہ ہے تین مہینے پہلے رابعہ کی شادی بھی کردی ہے - بڑا اچھا داماد ملا ہے -شکر ہے اللہ کا، اسکی اپنی ٹیکسی ہے" ساجدہ بے تکان بولے جا رہی تھی-"کومل کو تو اللہ نے چھپر پھاڑ کر رشتہ دیا ہے - کھاتا پیتا گھرانہ ہے اللہ کا دیا بہت کچھ ہے- سارا خرچہ وہ کر رہے ہیں -"رابعہ شادی کا جوڑا اور سیٹ دکھانے کیلیے لائی قیمتی بھاری جوڑا، خوبصورت جڑاؤ سیٹ -- اور ساجدہ وہ پچھلے رشتوں کا کیا ہوا ؟وہ تو باجی سال پہلے ہی طلاقیں ہو گئی تھیں-بہن تو میری اب بھی بہت اکڑتی ہے کہ کینیڈا تمہاری بیٹیوں کو لانیوالی میں ہوں-"
کومل اور رابعہ کو اپنے سہانے سپنوں کی تعبیر کینیڈا میں خوب ملی- واقعی مقدر کے کھیل نرالے ہوتے ہیں--

یہ سپنوں کا دیس---عابدہ رحمانی

جھلملاتا عروسی جوڑا، بھاری زیورات ، بیوٹی پارلرسے میک اپ، ہیئر اسٹایل ، مہندی کے دلکش ڈیزائینوں سے آراستہ ھاتھ پاؤں، کومل انتہائی حسین نظرآرہی تھی اوربھر پور روائتی پاکستانی دلہن لگ رہی تھی -لڑکے والے خوب خوب اپنے ارمان پورے کر رہے تھے - موسیقی ، ناچ ، گانا ، کھانے میں بہرپورتکلفات، کئی آئیٹم ،لوازمات کی کوئی کمی نہیں تھی دولہا شاید عمرمیں قدرے زیادہ ہے ، ایک خاتون جو میرے پاس بیٹھی تھیں کچھ نا اعتباری میں کہنے لگیں ،نہیں ایسا تو نہیں لگ رہا "میں نے غور سے جائزہ لیتے ہوئے جواب دیا - بیرے میزوں پر appetizer رکھ رہے تھے- سب کچھ کافی عمدہ لیکن انوکھا تھا پاکستانی ثقافت اور روایات کے بر عکس--،-اسی لئے تو لڑکی کی جانب کے لوگ شک و شبے میں مبتلا تھے-- سارے اخراجات، ساری تیاری اور چکا چوند تو لڑکے والوں کی تھی - سجا سجایا شاندار بینکوئٹ ھال ،جلتی بھجتی ڈسکو بتیوں اور تازہ پھولوں سے سجا اسٹیج -- کوئی کسرنظر نہیں آرہی تھی --لڑکی والے کومل کو ملا کر محض آٹھ افراد تھے ، میں انمیں سے ایک تھئ -سارا خاندان رضا کو گود میں بٹھا بٹھا کر تصویریں اتار رہا تھا - نکاح ہوا ،حق مہر اچھا خاصا -- لمبی دعا ہوئی دولہا دلہن کی تصاویر کی چکا چوند سب لوگ مبارکباد دینے اور گلے ملنے لگے ، میں نے بھی اسٹیج پر جاکر دولھا دولھن کو مبارکباد اور سلامی دی - کومل نے میرا تعارف کریا اور رضا دولہا کی گود میں بیٹھا ہوا چھوٹا سا شہ بالا لگ رہاتھا --- کیا پیار کیا وارفتگی کہیں کسی کی پیشانی پر شکن نہیں ہے سب خوش ہیں، سب مطمئن ہیں ---
--------------------------------------
میں کافی مصروف تھی کہ رابعہ کا فون آیا ،" باجی جلدی ائیں پتہ نہیں کومل کو کیا ہو گیا ہے - بار بار باتھ روم جا رہی ہے-" میں نے جلدی کام سمیٹا گاڑی نکالی انکو فون کیا کہ ہسپتال جانے کی تیاری کریں--کومل کو گائنا کولوجسٹ نے پہلے ہی سیزیرین کا کہا ہوا تھا --دونوں کو لیکر ہسپتال پہنچی ، دونوں بہنیںبے تحاشہ روئے جا رہی تھیں - فوری طور پر اسکو داخل کیا گیا ڈاکٹر شرما پہنچ چکے تھے اانہوں نے تسلی اور اطمینان دلایا-- آپریشن کی تیاری شروع ہو گئی - رابعہ نے پاکستان اپنی ماں کو فون کیا ، شام تک رضا پیدا ہو چکا تھا ساڑھے چھ پونڈ وزن ،ماں اور بیٹا دونوں صحیح تھے بچہ صحتمند تھا-- ڈاکٹر سلمان کو بلا کر میں نے بچے کو آذان دلوائی-اگلے روز رابعہ کو لیکر میں بچے کیلئے ضروری شاپنگ کرنے گئی- ان مما لک کے اپنے تکلفات ہوتے ہیں - ہسپتال والے جب تک بچہ حوالے نہیں کرتے جب تک کہ اٹھانے والی سیٹ اور کار سیٹ نہ ہو-- سوشل سروسز والے پہنچ چکے تھے انہوں نے خریداری کے لئے کہا اور رسیدیں جمع کرانے کی تاکید کی--
دودن بعد ماں اور بچے دونوں کو لیکر میں گھر آئی - سوشل سروسز کی جانب سے بچے کا پلنگ ، کپڑے ، دودھ کی بوتلیں ، ڈائپرز اور ضرورت کادیگر تمام سامان آچکا تھا- گھر میں ماشاءاللہ ایک بچے کا اضافہ خوش آیند تھا- رابعہ خوشی خوشی بہن اور بچے کی دیکھ بھال میں مصروف تھی--میں نے اپنی طرف سے بھی بچے کو تحایف دئے-- برار سنگھ کی دکان سے دو ڈبہے لڈو بھی لے آئی -
-------------------------------------------------------------
--خالہ خالو کینیڈا سے ملنے گئے اور اپنے دونوں بیٹوں سے دونوں بہنوں کانکاح کر دیا - کا غذ ات کی تیاری پر رخصتی طے ہوئی-- ماں باپ خوشی سے بے حال ، جان پہچان والے ، سہیلیاں، عزیز رشتہ دار سارے حیرت، رشک اور حسد کا اظہار کئے جارہے تھے -،" ارے دیکھو کیا قسمت پائی دونوں کی دونوں کینیڈا جارہی ہیں --- رابعہ نے ایف اے کر کے بیوٹی پارلر سے تھریڈنگ وغیرہ کی تربیت لی، کومل نے بس میٹرک کرکے خانہ داری وغیرہ سیکھی - نچلے متوسط گھرانے کی بچیاں والد اور بھائی کی درزی کی دکان تھی- وہ گھر والوں کی جدائی سے اداس بھی تھیں لیکن کیینڈا جانے کا سوچ سوچ کر ایک سہانا اور رنگین خواب دیکھتی رہیں-
خالہ ِ خالوکاغذات کی تیاری پر دونوں کی رخصتی کراکے ٹورنٹو لے آئے- ماں باپ خوش تھے کہ صرف چند زیور اورچند جوڑے کپڑوں پر معاملہ طے ہوااور پھر لڑکیاں سگی خالہ کے گھر جا رہی تھیں-- ٹورنٹو میں گھر کے حالات پاکستان سے بھی بدتر تھے نیا ملک نئے لوگ ، خالہ خالو کو دو نوکرانیاں مل گئیں -- گھر کیا ایک قید خانہ تھا کہیں آنے جانے کی اجازت نہیں تھی - سیر و تفریح کا تو کوئی تصور ہی نہیں تھا - انکو ملا کر گھر میں آ ٹھ افراد تھے ، سارا کام ان دونوں کے ذمے آگیا ، ڈانٹ ڈپٹ الگ ،چند ہی روز میں مار پیٹ تک نوبت پہنچ گئی-چینخ پکار، تو تو میں میں تو ہر وقت ہی چلتی تھی - خالہ کو انکی زبان درازی کی سخت شکایت تھی- سسر اور شوہر سب مار پیٹ میں طاق تھے - پاکستان ماں باپ سے سزا کے طور پر بات چیت پر پابندی لگ جاتی تھی- تینوں باپ بیٹے کیش( اجرات) پر محنت مزدوری کرتے تھے باپ کی پہلے نوکری تھی - جسکی بناء پر انکو سپانسر کیا تھا اب وہ اور بیٹے سب ویلفئیر( سرکاری امداد) پر تھے--اپارٹمنٹ بھی حکومت کی طرف سے تھا--ایک روز جب شور ہنگامہ انتہا کو پہونچ گیا - رونے دھونے اور اٹھا پٹخ کی آوازیں ناقابل برداشت ہو گئیں --- پڑوسیوں نے پولیس کو کال کردی - دس منٹ کے اندر پولیس پہنچ گئی -- تمام مردوں اور خالہ کو گرفتار کرلیا اور دونوں لڑکیوں کو شیلٹرshelter( خواتین کی پناہگاۃ - ان ممالک میں گھریلو زیادتیوں، بدسلوکیوں یا بے حد مالی مجبوری کی صورت میں ، خواتین اور بچوں کو ایک پناہگاہ میں پہنچا دیا جاتاہے - جہاں حکومت اور فلاحی ادارے انکی دیکھ بھال کرتے ہیں-قدرتی آفات اور اسطرح کے دوسرے اندوہناک حالات میں پورے خاندانوں کو پناہ ، خوراک اور آسائش مہیا کی جاتی ہے) میں لے گئے-------کومل چھ مہینے کی حاملہ تھی اس طرح اسکا کیس اورزیادہ مضبوط ہوگیا--
میرےفلاحی سنٹر کی جانب سے مجھے انکی دیکھ بھال کی ذمہ داری سونپی گئی --جلد ہی انکے لئےسرکاری مکان کا بندوبست ہوا- اچھا خاصہ تین بیڈ روم کا مکان ، یہ مکان ٹاؤن ہاؤس کہلاتے ہیں نیچے گیراج بھی تھا- شیلٹر کی طرف سے انکو کافی گھریلو سامان ملا -باقی سامان کا بندوبست میں نے اپنے ذرائع سے کیا - اس دوران انہوں نے اپنی والدہ کو پاس بلا نے کی درخواست بھی دیدی- رفتہ رفتہ دونوں بہنوں کا اعتماد بحال ہوا- وہ اکثر خوفزدہ ہوکر کہتیں،" باجی وہ بڑے بد معاش لوگ ہیں وہ ہمیں جان سے مار دینگے" میں نے اپنے طور پر انکو سمجھا یا کہ اگر ان لوگوں سے مفا ہمت کرنا چاہیں لیکن وہ کسی طور پر تیار نہیں تھیں - کمپیوٹر کا استعمال انکو سکھا یا اور انٹرنیٹ لگوادیا - ای میل کا استعمال سمجھایا ،سکائپ اور یاہو کے ذریعے وہ لاہور اپنے گھر والوں سے خوب گپیں لگاتیں- مسجد کے فوڈ بنک میں انکا نام لکھوادیا - حکومت کی جانب سے انہیں اچھی خاصی امداد حاصل تھی - تہی دست، بے بس لڑکیاں اب کینیڈا اور اسکے ظریقہ کار سے خوب فائدہ اٹھا رہی تھیں- رابعہ نے انگریزی سیکھنے کے لئے ای ایس ایل ( انگریزی دوسری زبان کے طور پر) کی کلاس میں داخلہ لے لیا - کومل بچے کے ساتھ مصروف تھی-
رضا کی پیدایش کے دو ماہ کے بعد انکی امی لاہور سے آگئیں -وہ بھی شروع میں کافی گھبرائی ہوئی تھی - لیکن تمام صورتحال دیکھ کر خوب مطمئن اور خوش ہوئی-----
--------------------------------------------------------------------------------------------------------
میں اپنے دیگر کاموں میں مصروف ہوکر انسے قدرے لا تعلق ہوئی وہ اب یہاں کے سسٹم کو بخوبی جان چکی تھیں - اور اسی کے مطابق اپنے آپکو ڈھال رہی تھیں چونکہ ماں آچکی تھی وہ بچے اور گھر کا خیال رکھتیںان دونوں نے چھوٹی موٹی ملازمت اور پڑھائی شروع کی - رابعہ نے ڈرائونگ سیکھ کر ایک پرانی گاڑی خرید لی---- چند واقعات سے میں انسے قدرے بد ظن بھی ہوگئی لگتا تھا کہ وہ ہمہ وقت فائدے بٹورنے میں لگی ہوئی ہیں -------
سال بھر سے زیادہ عرصہ ہو چلا تھا کہ اچانک مجھے خیال آیا کہ جاکر رابعہ ، کومل کی خیریت پوچھ لوں -وہاں گئی تو گھر تو وہی تھا لیکن بہت کچھ بدلا ہوا، تمام گھر میں نیا فرنیچر نئی قالینیں ، جدید ترین ٹیلی ویژن، جادو لگا کر پاکستانی ڈرامے دیکھے جارہے تھے -رابعہ اور اسکی امی خوب لپٹ کر ملیں ،"باجی آپ تو ہمکو بھول ہی گیئں - آپکا نمبر کہیں گم ہو گیا تھا ، بہت ڈھونڈھا پر ملا نہیں آپ اتنی یاد آتی تھیں-"وہ بھی شائد بہانہ بنا رہی تھیں-،" کومل نظر نہیں آرہی ہے - کیا جاب پر ہے ؟"میں نے جائزہ لیتے ہوئے پوچھا- رضا اب چار سال کا بچہ ادھر ادھر بھاگ رہا تھا " باجی کل کومل کا نکاح ہے ابھی سرکاری دفتر میں اپنے ہونیوالے خاوند کے ساتھ شادی کے کا غذات بنانے گئی ہے" - آپ بھی ہمارے ساتھ چلئے گا- اور آپکو پتہ ہے تین مہینے پہلے رابعہ کی شادی بھی کردی ہے - بڑا اچھا داماد ملا ہے -شکر ہے اللہ کا، اسکی اپنی ٹیکسی ہے" ساجدہ بے تکان بولے جا رہی تھی-"کومل کو تو اللہ نے چھپر پھاڑ کر رشتہ دیا ہے - کھاتا پیتا گھرانہ ہے اللہ کا دیا بہت کچھ ہے- سارا خرچہ وہ کر رہے ہیں -"رابعہ شادی کا جوڑا اور سیٹ دکھانے کیلیے لائی قیمتی بھاری جوڑا، خوبصورت جڑاؤ سیٹ -- اور ساجدہ وہ پچھلے رشتوں کا کیا ہوا ؟وہ تو باجی سال پہلے ہی طلاقیں ہو گئی تھیں-بہن تو میری اب بھی بہت اکڑتی ہے کہ کینیڈا تمہاری بیٹیوں کو لانیوالی میں ہوں-"

کومل اور رابعہ کو اپنے سہانے سپنوں کی تعبیر کینیڈا میں خوب ملی- واقعی مقدر کے کھیل نرالے ہوتے ہیں--
Abida Rahmani
About the Author: Abida Rahmani Read More Articles by Abida Rahmani: 195 Articles with 235522 views I am basically a writer and write on various topics in Urdu and English. I have published two urdu books , zindagi aik safar and a auto biography ,"mu.. View More