خدا کے ہاتھ میں ہے آب و دانہ کون کہتا ہے!

 
اُن دنوں میری ڈیوٹی برانچ لائن کے ایک سٹیشن پر تھی۔ جب ایک صُبح ریل گاڑی سے اٹھارہ کے قریب مسافر اُترے جومسافروں سے زیادہ مداری لگ رہے تھے۔ کالے سے اُترے ہوئے چہرے اور بڑے بڑے بیگ لئے پلیٹ فارم کا طواف کرنے لگے۔ اُن کی بے چینی دیکھ کر میں نے ایک ملازم کو بھیجا کہ جاکر اِن مسافروں کی تکلیف معلوم کرو۔ گرمی کا موسم ہے اور یہ دو گھڑے سٹیشن کا پانی صرف آدھے گھنٹے میں پی چکے ہیں ، اور اگر طواف کی یہی حالت رہی توبعید نہیں کہ یہاں بھی صحرائے تھر کے حالات پیدا ہوجائیں۔ وہ ملازم اُن سے ملنے کے بعد دوڑا دوڑا آیا۔۔ صاحب جی! ۔۔ یہ توگانے بجانے والے ہیں اور سامنے والے گاؤں میں پروگرام کے لئے آئے ہیں۔ ان کا گلوکار ان کے پیچھے اپنی کار میں آرہا ہے ۔ لیکن ایکسٹرا کو بذریعہ ریل بھیجنا ہی مناسب سمجھاکیونکہ یہ سفر سستا پڑتا ہے۔ اور میں نے بھی سوچا کہ واقعی آجکل تو ریل کی حالت ایکسٹرا بھیجنے کی ہی رہ گئی ہے۔ ہم نے دفتر سے باہر نکل کر اُن سے بات کی۔۔۔ بات کرنے میں بھی اپنا ہی فائدہ سوچا ۔۔ کیونکہ کیا پتہ آج گرد سے بھرے یہ چہرے کل چھوٹی سکرین یا بڑی سکرین کی عظیم ہستیاں بن جائیں۔ اور سلیبرٹی بن کر لوگوں کو ایک جھلک دکھلانے کیلئے تڑپائیں اور قوم قطاروں میں کھڑی ہوکر ان کے انتظار میں اپنا وقت خراب کرے۔ کیونکہ سب بڑے چہرے اسی برادری سے آئے ہیں اور پھر ایوان والوں کو اپنا گرویدہ کرکے عزت دار بنتے ہیں ۔ اہلِ ثروت و اقتدارانکل سام کے بعدان ہی کے قدموں پر جھکتے ہیں۔ہم تو ایک معمولی سر کاری ملازم ہیں ہماری اوقات کیا کہ ان سے بات نہ کریں۔

اُن کی تعداد اٹھارہ تھی لیکن سولہ مردوں کے علاوہ ان میں دو اٹھارہ انیس سال کی عمروں کے نیم مردقسم کے انسان بھی تھے۔ یہ لڑکے داڑھی مونچھ سے بے نیاز تھے اُنکی زلفیں شانوں کو چُھو رہی تھیں اوروہ مٹک مٹک کر چل رہے تھے۔ بات بات پر اپناہاتھ بالوں میں پھیر کر اپنی انگشتِ شہادت سے رخساروں کو چُھوتے ۔ کمر اور شانے ایک طرف جھکا کر نچھلا دھڑ دوسری طرف جھکاتے اور زنانہ آواز میں مختصر کلام کرتے۔۔ باقیوں میں سے ایک کا منہ تو حد سے زیادہ بڑا تھااور جب بات کرنے کیلئے اسے کھولتا تو سرکاری ذبح خانے کی یاد تازہ ہوجاتی۔انھوں نے بطورِ یادگار اپنے منہ سے پان کے کچھ دستخط پلیٹ فارم پر کیے جو تا دمِ تحریر زند و جاوید ہیں۔۔ وہ غیر ارادی طور پر باتوں کے درمیان منہ ایک طرف کرکے مُنی۔۔۔۔۔ مُنی ۔۔۔۔۔۔۔ کی صدائیں نکالتااور درمیان میں آ۔۔۔۔سا ۔۔۔۔رے ۔۔۔۔ی۔۔ کی آوازیں نکالتا۔۔۔ ہم ادھر اُدھر دیکھنے لگے یہ ہماری کم فہمی تھی کہ ہم سمجھے کہ شاید کوئی صنفِ نازک بھی اُن کی شریک سفر ہے۔لیکن جب اُن کے منہ سے بد۔۔۔نام ۔۔۔۔ کا لفظ چند قسطوں میں نکلاتو عقدہ کھل گیا کہ مُنی تو ہمارے پڑوسیوں کی بدنام ہے اور اُنھوں نے اسکی اطلاع اپنی قوم کو ایک گانے کے ذریعے دی ہے۔خیر اُنکی کونسی مذہبی ممانعت ہے وہ تو شیلا کی جوانی، رضیہ کے پھنسے اور مختلف بائیوں کی بے غیرتی والی خبریں گا کر دیتے ہیں اورانکی قوم خوش ہوکر فخر کرتی ہے۔۔۔۔ ہم تو غیرت مند اسلامی ملک کے باشندے ہیں ہماری مُنی جوکچھ کرے اُنھیں ہم بدنام ہونے نہیں دیتے ۔ ورنہ لائن بنا کر بِلو کے گھر جانا کونسااسلامی کام ہیں۔ہاں ایک دو بندے چھپکے دیوار پھلانگ سکتے ہیں،جسکا مولوی کو پتہ نہیں چلتا ۔۔ حال ہی میں ہماری ایک مُنی پڑوسیوں کے گھر گئی تھی اور وہاں غلطی سے کسی مرد کا مساج کر دیا حالانکہ اُس بیچاری کو بلکل پتہ نہیں تھا کہ یہ لمبے بالوں والا مر د ہے۔ اور پھر ایک مولوی صاحب کے زیر عتاب آگئی اس لئے ہلکی پھلکی بدنامی ہوئی لیکن یہ بدنامی مُنی جتنی نہیں تھی!۔۔ ورنہ کون ہے جو اسلامی ملک کی مُنیوں کی طرف میلی آنکھ سے دیکھے ،ہم تو عزت کیلئے اُن کے ساتھ بیگم ، میڈم اور محترمہ کے سابقے یا لاحقے بھی لگاتے ہیں۔ اور پھر یہاں قانون اور آئین کی حدیں آج بھی موجود ہیں اور تھانیدار کی حدیں آج بھی لامتناہی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اُن کے ساتھ ایک پڑھی لکھی صورت والابندہ بھی تھا جس نے قریب آکر مُنی کے گیت پر منہ سے ڈھول بجانا شروع کیا۔۔ میں نے جب اُسکی شکل وصورت کو دیکھا تو بہت دکھ ہوا کہ کاش یہ ہمارے علاقے میں ہوتا تو پرفیسر وں میں شمار ہوتا۔ہمیں بھی ہمارے علاقے والے ہماری تعلیم سے زیادہ عزت دیتے ہیں ۔کیونکہ ہمارے علاقے میں تعلیم استری کپڑوں اور کنگھی شدہ بالوں پر قیاس کی جاتی ہے ۔ ورنہ ہمارے ایک دوست تو شکل سے ہی جاہل لگتے ہیں اور وہ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود اپنی شکل کی لاج رکھتے ہیں ۔۔وہ صاحبان اپنی تال سے فارغ ہوکر ہماری طرف داد طلب نظروں سے دیکھتے اور ہم سبحان اﷲ کہہ کر اُنکو داد دیتے۔

اُنھوں نے کہا کہ ہم ایک گروہ کی شکل میں پروگرام کیلئے جاتے ہیں۔ ان میں سے فلاں بندہ کھانا پکاتا ہے ، فلاں ڈفلی بجاتا ہے، فلان بانسری والا ہے۔فلان فلان ویل اکھٹی کرتے ہیں جو سب سے زیادہ تعداد میں تھے اور فلان ہوائی باجہ بجاتا ہے جس کو ایک ہاتھ سے بجایا اور ایک ہاتھ سے پنکھا ہلا کر ٹھنڈا کیا جاتا ہے۔بڑے منہ والا ڈرم بجانے والا تھا اور دو نازنین جیبیں ڈھیلی کرنے کے ہتھیار تھے۔ انھوں نے ہمیں بھی پروگرام دیکھنے کی دعوت دی جس کو ہم نے بہ سر و چشم قبول کیا۔ملازم سے ایک گھڑا مزید پانی پلانے کا کہا جس کی تعمیل فورََا ہوئی۔ وہ کچھ دیر وہاں بیٹھے رہے اور پھر ایک گاڑی اُنھیں اپنی منزل مقصود کی طرف لے گئی۔۔۔

رات کے کھانے کے بعد میں نے اپنے ساتھی سے اجازت چاہی اور وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اجازت دے گیا۔ہم جب مطلوبہ مقام پر پہنچے تو لوگوں کا ایک جمِ غفیر تھا، اور شاید کھوے سے کھوا بھی چھل رہا تھا۔ چند منٹ بعد بسم اﷲ سے اس پروگرام کا آغاز ہوا کیونکہ ہم مسلمان ہیں اور شراب بھی داہنے ہاتھ سے پینے کے عادی ہیں ۔ ہمیں شراب کے لئے تاویل مِل جاتی ہے ، کبھی اسے انگور کا جوس کہہ لیتے ہیں اور کبھی پھلوں کا رس، لیکن پینا پلانا دائیں سے بائیں ہاتھ کی طرف ہوجائے تو سیدھا "نارُُحامیہ" اور اگر مخالف پارٹی کا بندہ کر ے تو مردود گمراہ اور بعض اوقات واجب القتل تک بات پہنچ جاتی ہے۔۔ ڈھول کی تاپ پر بسم اﷲ سُنی تو ایک عجیب سی کراہت محسوس ہوئی لیکن ہم کوئی واعظ تو تھے نہیں کہ سٹیج پر جاکر نصیحت کرتے اور آئے بھی کنجروں کی دعوت پر تھے اس لیے چُپ ہی رہے۔

بڑے گلوکار صاحب سفید شلوارپر سُرخ رنگ کی قمیص پہنے دس پندرہ زنجیروں والی لاکٹ گلے میں میں ڈالے اپنے سینے سے نکلے ہوئے پیٹ کیساتھ ہوائی باجے کے پہلو میں تشریف فرما تھے ۔ لمبے لمبے بال ، اور اُس پہ سیاہ رنگت سُرخ رنگ کی قمیص کو چار چاند لگا رہے تھے۔ ۔اس نے باجے پر اُنگلیاں پھریں اور آ۔۔او ۔۔۔ کا شور شروع کر دیا لیکن ڈھولک کی تھاپ اور بانسری کی آواز اُسکا شور قابلِ قبول بنا رہی تھی۔۔ پھر نبی پاکﷺ کی شان میں اسی ڈھولک کی تھاپ پہ کچھ پنجابی میں سنایا اور پھر دم مست قلندر مست مست ہوگیا۔۔۔ وہ دو نو عمر نوجوان الہڑ مٹھیار بنی ہوئی تھیں لڑکیوں کے زرق برق کپڑے، سولہ سنگہار اور اُس پہ عورتوں کے دل کَش لوازمات یا دِل کُش بھی کہہ سکتے ہیں بڑے سلیقے سے سجائے گئے تھے۔۔ خان صاحبان تو ویسے ہی اس باب میں بدنام ہیں، ورنہ حمام میں سب ہی ننگے ہوتے ہیں یا ننگوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ان شوخ حسیناؤں نے ایسا میک اپ کیا تھا کہ ہم نے کئی اداکاراؤں کو چھٹی دے دی۔ سارے دل اِن حسیناؤں(جعلی) پہ مائل تھے۔ اور چند ایک فریفتہ۔۔۔اُن کے پیروں میں گھنگرؤں کے بڑے بڑے پٹے تھے جو تان کے ساتھ چھن چھن کر رہے تھے۔ دم مست قلندر پہ ان حسیناؤں نے وہ رقص کیا کہ قلند کی کیا مجال ہم جیسا خشک مزاج بھی مست ہونے لگا۔۔ پیچھے چند بوتلیں بھی نظر آئیں اور حسیناؤں نے دو تین کش چرس کے بھی لئے۔۔۔ بوتلوں پر ہم کوئی فتوی لگانے کی پوزیشن میں نہیں کیونکہ ہمیں کونسی پہچان ہے ایسی چیزو ں کی ۔ اور دوسری وجہ ہماری قدرتی شرافت ہے جو تنگ دستی نے فراہم کی ہے اس لئے بوتلوں کی پہچان نہ ہوسکی۔ "قُلو" تو ہم نے نہیں دیکھا لیکن" وشربو" ساری رات چلتا رہا اور چرس کو بھی اسی میں شامل کیا جائے۔ ایک ایک بندہ اُٹھتا ہے اور پانچ روپے کی گڈی پھینکنا شروع کرتا ہے گانا ختم ہوتا ہے لیکن نوٹ ابھی تک باقی ہوتے ہیں ۔لیکن اس سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ بڑے نوٹ پھینکنے والے نہیں تھے ۔۔ وہ بھی بدرجہ اتم موجود تھے۔

کون کہتا ہے کہ پاکستان میں غربت ہے ۔ پاکستان میں غربت بلکل نہیں یہ مصنوعی غربت ہے جو چند سانپوں نے پیدا کی ہے۔ یہ سانپ اُس خزانے پر بیٹھے ہیں جو قوم کی امانت ہے اور جن سے قوم اپنا حصہ پیروں میں گنھنگرو باندھ کر اور بے غیرت بن کر نکال رہی ہے ۔ اُٹھ کر اپنا حصہ چھینتی نہیں۔ یہ ناگ عوام کو اُنکا حق بے عزت کیے بغیر کبھی نہیں دیتے۔ پیروں میں گھنگرو نہ بھی ہوں پھر بھی دفتروں میں جُھک کر اور اہل ثروت کے ہاں اپنی عزت گروی رکھ کر بھی یہ حق لیا جاتا ہے ۔ لیکن دونوں کام ایک سے ہیں صرف ظاہر کا فرق ہے۔۔۔ خیر دم مست قلندر کے بعد دما دم مست قلندر ہوا اور حسینائیں وہ ناجیں کہ ریما اور انجمن کا سکہ ذہن سے اُتر گیا۔اپنے جسم کا ایک ایک انگ ہلایا ۔ وہ حصے بھی ہلائے جو یا تو پبلک ٹرانسپورٹ یا آپریشن تھیٹر میں ہلائے جاتے ہیں ۔ ۔ ۔ ہمارے ایک عزیز بھی بغیر ہاتھ لگائے اپنا کان ہلا لیتے ہیں ۔۔ تو ایک دوست نے بھپتی کسی کہ یہ کام تو سارے گدھے کرتے ہیں اس میں حیران ہونے کی کونسی بات ہے۔۔۔۔۔

رقص کا ہمیں کوئی خاص ذوق نہیں اور نہ ٹھمکے کی سمجھ ہے کیونکہ یہ تو الیکشن جیت کر ایوان میں جانے والوں یا سرمایہ داروں کے مقدر میں ہوتے ہیں، پھر بھی لوگوں کی زبانی سُن رہے تھے کہ ایک حسینہ بڑے جاندار ٹھمکے لگا رہی تھی۔لیکن جسم ہلانے کی داد ہم جیسے بدذوق نے بھی دی۔یہی ہلنا جھلناشاید ٹھمکے ہوں۔۔۔۔ حسینائیں تھک کر بیٹھ جاتیں کچھ پی لیتیں اور پھر سے پسینے سے شرابور بدن ہلانا شروع کرتیں۔ گلوکا ر ایک مخصوص سا اشارہ اُنھیں کرتااور وہ تماشائیوں اور خاص کر کرسیوں پر بیٹھے ہوئے امیروں سے نین مٹکا شروع کرتیں۔ وہ اُمراء دل کھول کر داددیتے اور اُنکے آدھے منٹ کے قرب کے لئے اپنی دولت اُڑا دیتے۔۔ ہمارے ایک دوست کو اﷲ سلامت رکھے دووقت کے کھانے پینے کو بھی اسراف میں شمار کرتے ہیں اور ایک حدیث کا حوالہ دیکر عام لوگوں کو شیطان کا دوست ثابت کرتے ہیں ۔ اچھا ہوا کہ وہ اس محفل میں نہیں تھے ورنہ اس فضول خرچی پر کفر کا فتوی ضرور دیتے۔۔ پیسے پھینکنے والے کو شاید کوئی لذت ملتی ہو یا اس طرح وہ اپنی انا کی تسکین کرتے ہوں، کہ یہ حسینائیں اُن کے پہلو میں کھڑی ہیں اُن کے ساتھ ہاتھ ملارہی ہیں ۔۔اور وہ اپنے آپ کو باقی حاضرین سے ممتاز سمجھ رہا ہو۔۔۔ ایک سفید داڑھی والے باباجی ڈھول کے پاس سے صُبح تک نہیں ہلے۔ حسیناؤں کو آنکھوں کے ساتھ ساتھ مُنہ سے بھی دیکھ رہے تھے کیونکہ آنکھوں کے ساتھ ساتھ منہ بھی صُبح تک کُھلا تھا۔۔۔ ایسے باباجی تو ساری زندگی ایسے مولوی کی تلاش میں ہوتے ہیں جو اُنھیں لیٹ کر نماز پڑھنے کی اجازت دے۔۔ لیکن یہاں اُسکا منہ اور ایکسرے جیسی آنکھیں ان حسیناؤں کے طواف میں سارے میدان کا چکر کاٹ کر بھی تھکنے کا نام نہیں لے رہی تھیں۔۔۔ ایک اور بندہ گھر سے سفید لٹھے کے سوٹ پہن کر آیا تھا اور باجے کے قریب ہی بیٹھا تھا جب پیسنے سے شرابور یہ حسینائیں آکر اُسکے پاس بیٹھتیں تو اُن سے دوچار باتیں کرتا اور باقی وقت مجمع کو فاتحانہ نظروں سے دیکھتا ، کہ دیکھو اِ ن حسیناؤں کا قرب صرف مجھے ملا ہے اور اُن کی بے تکلفی صرف میرے ساتھ ہے۔ ویسے کچھ لوگوں کو حُسن سے کچھ سروکار نہیں ہوتا لیکن لوگوں کی نظروں میں آنے کے لیے ایسی اوچھی حرکتیں کرتے ہیں۔ اور اسے اپنی عزت سمجھتے ہیں ورنہ معاشرہ اُن کے کردار پر تھوکتا رہتا ہے۔اور مجھ جیسے لوگ تو اُس پر زیادہ تھوکتے ہیں کیونکہ حسرتِ گناہ بھی کسی چیز کا نام ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہم بھی ناکردہ گناہوں اور حسرت کی داد مانگنے والے ہیں، کیونکہ غالبؔ نے بھی کردہ گناہوں کی سزا پر یہی شکوہ کیا تھا۔ہم نے کبھی منہ سے قرب نہیں مانگاجس طرح سیاسی مولانا صاحب منہ سے بڑی کرسی نہیں مانگتے۔۔ ارادے اور اشارے پر کوئی حد ہو تو ہم اور مولانا صاحب دونوں مناظرے کیلئے تیار ہیں۔ ۔۔ ہم جیسے گئے تھے ویسے ہی آگئے ۔ یعنی ویل نہیں دی۔ سننے کا گناہ اس لئے نہیں لائے کہ پنجابی ہمارے پلے کہاں پڑتی ہے۔۔ اور ہم گئے بھی عبرت حاصل کرنے کیلئے تھے جس طرح دینی مدارس کے طلباء ہندوستانی فلمیں عبرتاََدیکھتے ہیں۔۔ ! ہم نے بھی دل کی بھڑاس نکالی اور رات چار بجے تک جسے یار لوگ صبح کہتے ہیں پروگرام کو خونخوار نظروں سے دیکھا۔مجال ہے کہ کسی نے خلافِ شرح کام کو سراہا ہو اور ساتھ والے ساتھی کو بھی تبلیغ کرتے رہے۔ ۔!

ہم نے اپنے ملازمین کے چہروں پر اکتاہٹ دیکھی اور وہاں سے جانے کا قصد کیا۔ جاتے جاتے ایک نظر پھر سے اُن جسموں پر ڈالی جو پسینے سے شرابورناچنے میں مصروف تھے۔ لیکن اس دفعہ وہ مجھے کسی دیہاڑی دار مزدور کی طرح محسوس ہوئے ۔ اُس مزدور کی طرح جو صُبح سے شام تک اینٹیں اُٹھاتاہے یا کسی مل میں کام کرکے اپنا پسینہ بہاتا ہے ۔اوراُنکے مالکان ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر کروڑوں کماتے ہیں ، لیکن اُسے دو وقت کا کھانا بھی نصیب نہیں ہوتا۔ انکی لچکتی کمر اور تھرکتا جسم مزدوری سے زیادہ کچھ نہ تھا۔ ذہن میں ہزاروں سوالات کروٹیں لے رہے تھے، دل چیخ چیخ کر کہہ رہا تھاکہ اے مولا!! میرے اس دیس میں بندہ مزدور کی اوقات اتنی دگرگوں کیوں ہیں۔ کیوں ایک بندہ صبح سے شام تک دھکے کھا کر اپنی قابلیت کے باوجود اپنی پیٹ کی آگ نہیں بجھا سکتا اور نااہل کرسیوں پر بیٹھ کر کیوں اربوں کھربوں کماتے ہیں۔ ۔۔ سارے لوگ جو گھر سے ہشاش بشاش آئے تھے، اب کرسیوں پر تھکن کی وجہ سے لیٹ گئے تھے اور یہ ناچنے والے اپنے گرد آلود ہ پاؤں ، مُردہ ضمیر، بُجھی آنکھوں اور مصنوعی مسکراہٹ کے ساتھ پسینے سے شرابور جسم ہلا ہلا کر اپنا رزق کمارہے تھے۔۔۔۔ کسی سر پھرے کا شعر بار بار ذہن کے پر دوں سے نکل کر زبان تک آنا چاہتا تھا اور ہم اپنے عقیدے کے باعث بار بار روک رہے تھے۔لیکن۔۔۔۔
؂ یہاں تو آدمی کا آدمی محتاح ہے یارب
خدا کے ہاتھ میں ہے آب و دانہ کون کہتا ہے!
زبان تک آہی گیا۔
Wasim Khan Abid
About the Author: Wasim Khan Abid Read More Articles by Wasim Khan Abid: 27 Articles with 32877 views I am a realistic and open minded person. .. View More