یہ افسانہ پڑھے دِل والا کوئی……

 شفیق کی خوشی کا یہ عالم تھا کہ وہ دن بھر کی تھکان بھی بھول گیا۔ اُسے آج پہلی مرتبہ خرچہ پانی نکال کر پورے چار سو ستر روپے کا منافع ہوا ۔شفیق سارا دِن محنت مزدوری کرتا اور روز کے ڈھائی ،تین سو کما کرشام گئے گھر کو لوٹتااور پھر کچن میں رونق ہوتی ۔ آج پہلی مرتبہ نا صرف اُس نے دوگنی دیہاڑی لگائی تھی بلکہ شام کی سیاہی پھیلنے سے قبل ہی واپس لوٹ آیا تھا ۔ شفیق کے تین بچے ہیں سب سے بڑی بیٹی مریم قریبا ً چھ سال کی اور منچلی بیٹی اقصاء کی عمر چار سال جبکہ بیٹافیضان دو سال کا ہے ۔شفیق کی بیوی حاجرہ انتہائی پاکدامن اور صابرہ ہے اُس نے آج تک اپنے سرتاج سے یہ شکوہ نہیں کیا کہ’’ آپ آدھی رات کو لوٹے ہو اب اِس گرمی میں چولہا جلاؤں ‘‘۔اُس روز شفیق خیالی کہچڑی پکاتا ہوا گھر کو لوٹ رہا تھا کہ وہ اپنے بچوں سمیت کوئی اچھی سی ڈش کھائے گا ۔خیالوں میں وہ اپنی پلیٹ میں آج بکرا عید کے بعد پہلی مرتبہ گوشت دیکھ رہا تھا ۔وقت سے پہلے شفیق کو گھر میں پا کر حاجرہ کا منہ اُتر گیا وہ سمجھی شاہد آج میرے خاوند کو کوئی خاص مزدوری نہیں مِل پائی مگر شفیق کا چہرہ دمق رہا تھا اور وہ مسلسل مسکرا تے ہوئے حاجرہ کی جانب بڑھنے لگا ۔

اِس سے قبل کے حاجرہ کچھ کہتی شفیق فورا ُاُبل پڑا ’’اﷲ پاک کی کرم نوازی اور تمہاری دعاؤں سے آج پورے چار سو ستر روپے بچے ہیں۔ میں نے سوچ لیا ہے کہ آج ہم خوب عیاشی کریں گے بولو کیا کھانا ہے میں وہی لے کر آتا ہوں جو تمہاری فرمائش ہو ‘‘ حاجرہ کا چہرہ بھی کِھل اُٹھا ’’ آپ تو جانتے ہی ہیں کہ میری خوشی ہمیشہ آپ کی خوشی میں ہی رہی ہے اور میں جانتی ہو کہ آپ کا من بہت دِنوں سے گوشت کھانے کو چاہ رہا ہے ،گزشتہ رات بھی آپ آدھی رات کو سوتے ہوئے خواب میں مجھ سے قیمہ کریلے مانگ رہے تھے مگر…… چلیں چھوڑیں آپ گوشت ہی لیں آئیں ‘‘حاجرہ کی یہ خواب والی بات سُنکر شفیق شرمندہ سا ہو کر رہ گیااور اس کے ساتھ ہی وہ حاجرہ کی مگر والی بات پر چونک سا گیا’’ کیا بات ہے کچھ اوردِل کر رہا ہے تو بولونا آج میں تمہاری فرمائش کا پکانے کو لا دیتا ہوں ،میں جانتا ہوں تمہیں چکن بریانی پسند ہے ‘‘

’’چھوڑیں آپ قیمہ ،کریلے مصالحے ،آٹا ،گھی ،دودھ اور چینی پتی ہی لے آئیں یہ سب تھوڑا تھوڑا لانے کے بعد بھی بڑی مشکل سے سو روپے ہی بچیں گے اور آپ کو تو پتہ ہے کہ روز کا سو روپیہ الگ سے جمع کرنے کے بعد مہینہ کے آخر میں ہمارے ایک کمرے کے مکان کا کرایہ اور بجلی گیس کا بِل بڑی مشکل سے نکلتا ہے ہمارے گھر ٹیوی تو کیا ریڈیو بھی نہیں ہے پھر بھی حکومت کی جانب سے ہر ماہ بجلی کے بل میں ٹیلی ویژن فیس لگ کر آجاتی ہے اور کبھی کبھی تو یہ لوگ بجلی اور گیس چوروں کا غصہ نکالنے کیلے بھی وہ بل ہم غریبوں سے مختلف ٹیکسوں کی صورت میں وصول کرتے ہیں اور اکثر مہینہ کے آخر میں ہزار پانچ سو کاقرضہ لیناپڑتا ہے ۔بس آپ چھوڑیں اِن تمام باتوں کو اور جو میں نے کہا ہے وہ سودا لے آئیں اور چھوڑیں اگر مگر کو ‘‘ حاجرہ کی بات سنکر شفیق بھی خاموش ہو گیا مگر پھر بولا کریلے کیسے لا سکتا ہوں ڈیڑھ سو روپے کلو ہیں ‘‘

’’اچھا تو ایسا کریں شملہ مرچ لے آئیں قیمہ کے ساتھ اچھی پکتی ہیں ‘‘ ۔

’’مگر شملہ مرچ تو کریلے سے بھی مہنگی ہیں آج میں صبح منڈی میں سے گزرا تو دیکھا شملہ مرچ کا آج کا ریٹ دوسوروپے کلو ہے جبکہ ٹماٹر ،ادرک ،لہسن بھی دوسوروپے کا دامن پکڑ کر جھوم رہے تھے اور آلو بھی سوکے سُرخ نوٹ کی گود میں چھپا بیٹھا تھا ‘‘۔شفیق نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کہا ۔پھر چند لمحوں کیلئے چھوٹے سے گھر کے بالش بھر صحن میں مکمل خاموشی سی چھا گئی کیونکہ فیضان سو رہا تھا جبکہ مریم اور اقصاء باہر گلی میں کھیل رہیں تھی ۔

شفیق نے حاجرہ کا اُداس چہرہ اپنے ہاتھوں کے کٹوروں میں بھر کر اُسے اپنی جانب کیا اور کچھ روہانسی انداز میں بولا ’’میرے ذہن میں تمہاری وہ مگروالی بات گونج رہی ہے بولو میری پیاری سی شریکِ حیات کو کیا چاہیے ‘‘ اتنا کہہ کر اُس نے جیب میں ہاتھ ڈال کر واپس باہر نکالا اور حاجرہ کے سامنے مٹھی کھول دی دس ،بیس اور پچاس کے نوٹ آپس میں دستِ گریباں ہوئے تھے ’’یہ لو سارے پیسے پورے چار سو ستر روپے ہیں میں تو ایک دِن بھوکا بھی رہ سکتا ہوں تم اپنے اور بچوں کے لیے کچھ منگوا کر کھا لو باقی تمام پیسوں سے جو بھی ضرورت ہے اپنی پوری کر لو ‘‘ شفیق کے چہرے پر حقیقی مسکراہٹ رقص کرنے لگی۔’’نہیں میرے سر کے تاج میری ہر ضرورت ، میری ہر خواہش صرف آپ اور آپ کی سلامتی ہے ،خواہشات کو جتنا لاڈ پیار کرو گے یہ اُتنا ہی سر چڑھیں گی ۔زندگی کا کیا ہے بڑے بڑے محلوں میں بھی بسر ہوتی ہے ،بالش بھر جھونپڑی میں بھی اور قید خانوں کی اذیت میں بھی مگر اصل اور حقیقی خوشنما ں زندگی وہ ہے جو اپنوں کے ساتھ ہنسی خوشی ،پیار و محبت سے بسر ہو خواہ وہ ایک کمرے پرہی محیط کیوں نہ ہو‘‘ حاجرہ نے اپنی خوبصورت بانہوں کا حالا شفیق کی گردن کے گرد تنگ کرتے ہوئے کہااور پھر جلدی سے سنبھلتے ہوئے اپنا دوپٹے کا پلو سر پر لیا اور گھر کی لائٹیں جلانیں لگی ۔مغرب کی اَذانیں ہو نے لگی تھیں ۔

لائٹیں جلاکر حاجرہ چارپائی پر شفیق کے پاس آکر بیٹھ گئی شفیق اَذا ن کا جواب دینے کے بعد حاجرہ سے مخاطب ہوا ’’ اب بچیوں کو اندر بُلا لو مغرب ہو گئی ہے ‘‘ حاجرہ نے کہا ’’ جی اچھا ابھی بُلا لیتی ہوں ،میرے ذہن میں ابھی ابھی ایک بات آئی ہے ‘‘ کیوں نہ مریم کو ٹیوشن لگوا دیں یہ صفیہ آنٹی کی بیٹی نمرہ گھر میں بچوں کو پڑھاتی ہے اُس نے کہا ہے کہ وہ ہم سے صرف دو سو روپیہ ماہانہ لے گی اُس نے مجھے کتابوں کی لسٹ لکھ کر دی ہے جو تقریبا ڈھائی سو کی آئیں گی پورے پندرہ دِن سے یہ لسٹ میرے پاس پڑی ہے مگر ہمارے گھر کے حالات میرے سامنے تھے اِسی لیے میں نے آپ سے کوئی ذکر نہیں کیا ‘‘ شفیق نے مسکرا دیا اور بولا ’’ اِس سے بہترا ور کیا ہوسکتا ہے کہ ہماری مریم پڑھنے لگ جائے اﷲ نے چاہا تو جلد ہی اُسے اسکول بھی لگوا دیں گے تم ایسا کرو اِن پیسوں میں سے ڈھائی سو الگ کر کے لسٹ کے ساتھ مجھے دے دو میں کتابیں لے آتا ہوں اور باقی تم اچھی طرح سے جانتی ہو‘‘ اچانک حاجرہ کی بڑی بڑی گہری آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے اور اُس نے اُنہیں چھپانے کیلئے دونوں ہاتھوں کی مدد سے آنکھیں زور زور سے مسلنے لگی کہ جیسے سچ میں آنکھ میں کوئی چیز ڈل گئی ہے ۔مگر شفیق نے بھی دنیا دیکھی تھی وہ فورا ً سمجھ گیا بات کچھ اور ہی ہے اور اُس کے ہاتھ ہٹا کر خود حاجرہ کے آنسو پونچنے لگا ۔میاں بیوی کا رشتہ ہونا بھی ایسا ہی چاہیے کہ بات لبوں تک آنے سے قبل ہی زوج کی سمجھ میں آجائے ،خوشحال زندگی کیلئے ازواج کو ایک دوسرے کی پرچھائی ہونا چاہئے۔ ’’کیا بات ہے کھل کر بتا! تُو جانتی ہے کہ تیری آنکھوں میں آنسوں مجھے اچھے نہیں لگتے ‘‘

’’میں سوچ رہی ہوں کہ میں نے غلط کیا ابھی آپ کو مریم کے ٹیوشن کا بتا کر کیونکہ اب آپ کِسی صورت بھی گوشت نہیں لائیں گے اور آپ کی خواہش پھر پوری نہیں ہو پائے گی اپنی ہی بیوقوفی پر آنسو بہہ نکلے ہیں۔بے شک عورت ذات ہوتی ہی ناقص العقل ہے‘‘حاجرہ نے اپنا سر شفیق کے دائیں کندھے پر جھکاتے ہوئے اظہارِ نادانی کیا۔اس بار شفیق کی آنکھیں بھی نم ہو چکی تھیں’’جِس گھر میں تم جیسی با وفا اور صابر بیوی ہو وہ گھر دنیا میں جنت ہے ۔میں جانتا ہوں کہ تمہاری بھی خواہشات ہیں جن کا تم ہمیشہ گلا دبا دیتی ہو۔ مجھے خوشی ہے کہ تم دوسروں کے گھر روشنی دیکھ کر اپنے گھر کو آگ نہیں لگاتیں۔پورا ایک سال ہوگیا ہے تمہارا ایک سوٹ بھی نہیں بنا نہ گھر میں پہننے کیلئے کوئی ڈھنگ کی جوتی ہے تمہارے پاس بس میں نے سوچ لیا ہے ڈھائی سو مریم کیلئے الگ کردو اور ڈیڑھ سو کی اپنی جوتی لے آؤ آج ہم مرچوں سے آدھی آدھی روٹی کھا کر گُزارا کر لیں گے،بلاشبہ میرارب صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ‘‘

’’امی امی …… ابو جی وہ جلدی آئیں جلدی وہ اقصاء کو ساتھ والے قادر بھائی نے دھکا دیا اور وہ گرگئی ہے اُس کے سر سے بہت زور سے خون نکل رہا ہے ‘‘ مریم بھاگتی ہوئی آئی اور ہانپتے ہوئے اپنے والدین کو یہ خبر سُنائی۔ دونوں جیسے بیٹھے تھے اُسی حالت میں باہر کو بھاگے حاجرہ جِس کی پردہ داری کی مثالیں تمام محلے میں مشور تھیں آج اُولاد کی چاہت نے زندگی میں پہلی بار در وازے سے باہر بِنا چادر ہی نکال دیا تھا ۔شفیق نے جاتے ہی فوراً اقصاء کو دبوچا اِس کے بہتے ہوے خون پر ہاتھ رکھ کر حاجرہ کی جانب دیکھا ۔حاجرہ نے چیخ کر مریم سے کہا’’ جلدی سے میرا دوپٹہ لاؤاور تم اندر بھائی کے پاس ہی بیٹھنا‘‘مریم کے سر پر دو ٹانکے آئے تھے اور کمپاوئڈر نے پٹی باندھ دی تھی حاجرہ اور شفیق کلینک میں موجود تمام لوگو ں کی توجہ کا مرکز بن گئے کیونکہ یہ دونوں پاؤں سے ننگے اور اُجڑی بکھری سی حالت میں تھے۔

سر یہ شربت بچی کو دِن میں تین مرتبہ دینا ہے اور دودھ میں ہلکی سی پتی ڈال کر دینا صرف دودھ سے پرہیز کریں کہیں ٹانکوں میں ریشہ نہ پڑ جائے اور یہ پر چی لیں اِس پر جو دوا لکھی ہے یہ آپ کو برابر والے ہمارے میڈیکل اسٹور سے باآسانی مِل جائے گی ۔لائیں تین سو بیس (320) رو پے دے دیں ‘‘ ڈاکٹر کے کمپاؤڈ ر نے اپنے کلینک کی دوا اور میڈیکل اسٹور کی پرچی شفیق کو تھماتے ہوئے کہا ۔ شفیق نے حاجرہ کی جانب دیکھا اور حاجرہ نے وہی بند مٹھی شفیق کی جانب کر کے کھول دی جِس میں شفیق کی آج کی کُل کمائی تھی مُرجھائے ہوئے تمام نوٹ اُسی طرح دستِ گریباں تھے ۔شفیق نے اُن میں سے تین سو بیس روپے گن کر اُٹھا ئے اور کمپا ؤڈر کی جانب بڑھا دئے ۔’’ بھائی یہ دوا دے دیں ‘‘ شفیق نے میڈیکل اسٹور والے کو پرچی دی ۔میڈیکل اسٹور والے نے پرچی دیکھتے ہی فوراً دوا نکال کر شفیق کی جانب بڑھا دی ’’ سر ایک سو باون(152) رو پے دے دیں ‘‘۔ شفیق نے ایک دفعہ پھر حاجرہ کی جانب دیکھا اور حاجرہ نے پھر سے مُرجھائے ہوئے نوٹوں والی بند مٹھی کھول دی ۔’’ بھائی ابھی تو یہی ڈیڑھ سو رو پے ہیں دو روپے میں کل آپ کو دے جاؤنگا ‘‘ شفیق نے حاجرہ کی خالی ہتھیلی کو مزید خالی کرکے میڈیکل والے کی جانب پیسے بڑھاتے ہوئے درخواست کی ۔’’ جی چھوڑیں کوئی بات نہیں دو رو پے کی…… اگر یاد رہا تو دیدیجئے گا ‘‘

گھر پہنچ کرشفیق نے اقصاء کو چارپائی پر لٹا دیا اور حاجرہ سے مخاطب ہوا’’ تم اِس کا خیال رکھو میں ابھی آتا ہوں ‘‘ فیضان ابھی تک سو یا ہوا تھا ’’ کہا ں جارہے ہیں آپ؟حاجرہ نے اقصاء پر چادر ڈالتے ہوئے کہا’’ آتا ہوں ابھی کِسی دوست کے پاس جاؤنگا کوئی سو دو سو روپے اُدھار لے کر آتا ہوں اقصاء کیلئے دودھ بھی تو لانا ہے۔ شاید ہماری آزمائش کی گھڑیاں ابھی باقی ہیں حاجرہ! ‘‘یہ کہہ کر شفیق صحن کا دروازہ کھول کر باہر نکل گیا۔ پیچھے سے حاجرہ کی آواز گونجی ’’یا اﷲ تیرا لاکھ لاکھ شُکر ہے کہ میری لاڈو رانی کی آنکھ بچ گئی ‘‘۔

Muhammad Ali Rana
About the Author: Muhammad Ali Rana Read More Articles by Muhammad Ali Rana: 51 Articles with 37440 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.