انتظامیہ کارکردگی دکھانے کے شوق میں غریبوں کے پیچھے پڑ گئے

 '' پہ تہ میں وس نہ رسی مڑ بہ دے پلار کم'' یہ پشتو زبان کا ایک محاورہ ہے ہر زبان کی اپنی ایک چاشنی ہوتی ہے اگر میں اسے ترجمہ کروں گا تو اس کی چاشنی برقرار نہیں رہے گی جہاں تک پشاور کے باسیوں کا تعلق ہے کوئی بھی زبان بولنے والا جو پشتو بول نہیں سکتا وہ پشتو سمجھ ضرور سکتا ہے اس محاورے کی مثال ایسی ہے کہ پانی کا تیز ریلا ہمیشہ کمزور پشتے کو ہی خس و شاک کی طرح بہا کر لے جاتا ہے اس کو اس طرح بھی سمجھا جاسکتا ہے طاقتور کو ہمیشہ اپنی طاقت کا گھمنڈ ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود وہ اپنے برابر پر چڑھائی کی بجائے ہمیشہ کمزور پر ہی چڑھائی کرتا ہے کیونکہ کمزور کی طرف سے جوابی ردعمل سامنے نہیں آتا بلکہ وہ فریاد ہی کرسکتا ہے یہ ساری تمہید مجھے اس لئے باندھی بڑی کہ آج کل غالباً ضلعی انتظامیہ بھی یہی کچھ کر رہی ہے آپ سوچ رہے ہوں گے کہ وہ کیسے تو وہ ایسے کہ گزشتہ دو تین ماہ سے وہ فردوس اس پرچون سبزی منڈی کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں باہر روڈ پر اگر تجاوزات ہٹانے کی بات ہو تو اس کی مخالفت نہیں کی جاسکتی تجاوزات سے یقینا ٹریفک میں خلل پڑتا ہے تاہم یہ خلل بھی ٹریفک اور انتظامی افسران اور اہلکاروں کی طرف سے بھتہ وصولی کی وجہ سے ہو رہا ہے تاہم اس کے ساتھ سبزی منڈی کے اندر بھی مداخلت جاری رہی اب جب سبزی منڈی کے یونین کا وفد ملاقات کیلئے گیا تو افسر شاہی حکم صادر ہوا کہ ''سبزی منڈی کسی صورت برداشت نہیں کریں گے'' جواز یہ دیا جاتاہے کہ اس سے ٹریفک کی روانی میں خلل پڑتا ہے جبکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ اس روڈ پر چارسدہ روڈ پر چلنے والی گاڑیوں کا ایک غیر قانونی اڈا قائم ہے جس سے دن بھر گاڑیاں چلتی ہیں اصل مسئلہ غیر قانونی اڈا ہے نہ کہ سبزی منڈی' دوسرے علاقوں کی بہ نسبت اس منڈی سے شہر کے باشندوں کو سستی سبزی مل رہی ہے اور چونکہ انتظامی اہلکاروں کا کام ہی عام آدمی کو اذیت دیتا ہے اس لئے وہ اس منڈی کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اگر دیکھا جائے تو شہر میں ایسے کئی مقامات ہیں جہاں سے ٹریفک کی روانی متاثر ہو رہی ہے اس کے باوجود اسے نظر انداز کیا جارہا ہے فردوس انڈر پاس کے قریب تعمیراتی میٹریل پڑا ہے اس سے ٹریفک کیا عام لوگوں کو بھی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن چونکہ وہاں سے بھتہ مل چکا ہے اس لئے اسے نظر انداز کیا جارہا ہے یہی صورت حال جیل روڈ کی ہے اور اس سے بھی زیادہ پریشان کن صورتحال یونیورسٹی کے لنک روڈز ہیں جس پر پبلک ٹریفک کو گاڑیاں لے جانے پر مجبور کیا گیا ہے ان لنک روڈ پر زیادہ تر بارگینز موجود ہیں ان کی گاڑیاں دن بھر لنک روڈ پر کھڑی رہتی ہیں جبکہ دیگر کاروبار کرنے والے تاجروں کی دکانوں کے سامنے بھی اس کے گاہکوں کی گاڑیاں کھڑی رہتی ہیں لیکن چونکہ انتظامی اہلکاروں اور افسران کا ان پر زور نہیں چلتا اس لئے انہیں کچھ نہیں کہا جارہا ہے حالانکہ دن بھر اس سے ٹریفک میں رکائوٹ پڑتی ہے اور پبلک گاڑیوں میں سفر کرنے والوں کو شدید کوفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور یہ کوفت اس وقت بڑھ جاتی ہے جب صبح طلباء اور ملازمین اپنے تعلیمی اداروں اور دفاتر جاتے ہیں یا واپسی پر گھروں کو لوٹتے ہیں اس کے باوجود انتظامی افسروں کو اس کی پرواہ ہے اور نہ ہی ٹریفک حکام کو جن کے تقریباً تمام ''پلان'' ناکام ثابت ہوئے فردوس سے ہشتنگری تک اور ہشتنگری یادگار شہداء سے نیو اڈے تک بھی یہی صورتحال ہے دعویٰ یہ کیا جاتا ہے کہ یہ ٹریفک کو رواں رکھنے کیلئے ہے جبکہ اس کا اثر برعکس نظر آرہا ہے صرف عوام کو اذیت دے کر اور انہیں مشکلات میں مبتلا کر کے ''کارکردگی'' دکھانے اور حکومت کو بدنام کرنے کی بجائے اگر یہ اہلکار اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھ لیں کہ ان کے اس عمل سے کتنے لوگوں کا رزق متاثر ہو رہا ہے اور کتنے لوگوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو شاید بہتری کی کوئی صورت سامنے آجائے لیکن گریبان میں تو تب ہی جھانکا جاسکتا ہے جب گریبان ہوگا۔

SULTAN HUSSAIN
About the Author: SULTAN HUSSAIN Read More Articles by SULTAN HUSSAIN: 52 Articles with 40971 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.