اب گیس بھی نہیں ہے

بیرے کو چائے کا آرڈر دے کر میں اخبار پڑھنے میں لگ گیا۔ اخبار کیا تھا ! محض چند کٹی پھٹی لہو زدہ لاشوں اور کچھ کالی سرخیوں کا مجموعہ تھا ۔ یہ لاشیں ۔۔یہ کالی کالی سرخیاں تو میری نظروں سے روزانہ گزرتی ہیں، اس لیے مجھے ذرا بھی حیرت اور دکھ نہ ہوا۔کافی دیر کے بعد بھی چائے نہ آئی تو میں نے اپنی آواز ذرا بلند کر کے کہا: بھائی چائے کہاں ہے؟
"یار گیس ہوگا تو چائے بنے گی۔حکومت۔۔۔۔۔۔"حکومت سے متعلق چائے بنانے والے کے باقی فقرے 'قابل ِ خال ' ہیں ۔ اس لیے میں انھیں سنسنر کیے دیتا ہوں۔

حکومت کے خلاف چائے بنانے والے کے برانگیختہ جملے سن کر میں سوچنے لگا ۔ اس ملک میں کچھ بھی ہو، متاثر غریب ہوتا ہے۔ ڈالر مہنگا ہو جائے تو مہنگائی غریب کی قوت ِ خرید نا کارہ کردیتی ہے ۔فرقوں کے نام پر جلوس نکالے جائیں تو سب سے زیادہ متاثر غریب کاٹھیلا ہوتا ہے۔ سیاسی اور مذہبی ٹارگٹ کلنگ کے بعد مخالف جماعت کے پر اشتعال جلوس میں بسیں جلا دی جائیں تو بے چارہ ڈرائیور اور کنڈیکٹر بے روزگار ہو جاتا ہے۔گولیوں کی تڑتراہٹ گونجے تو سب سے پہلے غریب کو اپنی ریڑھی بند کرنی پڑتی ہے کہ وہ سب سے زیادہ غیر محفوظ ہوتا ہے۔ اونچی اونچی دوکانوں والے تو شٹڑ نیچے کرکے اپنی حفاظت کا خاطر خواہ انتظام کرلیتےہیں ، مگر غریب کہاں جائے ؟اسے مجبوراََ اپنا ٹھیلا بند کرنا پڑتا ہے۔شدید گرمی میں بجلی آنکھ مچولی کھیلے تو سب سے زیادہ متاثر غریب ہوتا ہے۔کیوں کہ امیر تو متبادل طریقہ اختیار کر لیتا ہے۔ اور اختیا ر کرنے کی سکت بھی رکھتا ہے، مگر غریب کیا کر سکتا ہے؟ سوائے صبر کے کڑوے گھونٹ پینے کے!اور اب گیس نہیں ہے تو بھی سب سے زیادہ غریب ہی متاثر ہو رہاہے ۔

پانی اور بجلی کے وفاقی وزیر نے خوشخبری سنائی کہ قوم بجلی کے ساتھ ساتھ گیس کی لوڈشیڈنگ کے لیے بھی تیار رہے۔ شاید انھیں معلوم نہیں کہ عوام تیار ہی کیا ، گیس کی لوڈ شیڈنگ بھگت رہی ہے۔ پہلے خیال تھا کہ شاید یہ لوڈ شیڈنگ صرف کراچی تک محدود ہے ، لیکن ایک خبر سے معلوم ہوا کہ کوئٹہ میں لوگ تاریخی جنگلات کاٹ کاٹ کر کھانا بنا رہے ہیں ۔ معلوم ہونا چاہیے کہ کوئٹہ بلوچستان میں ہے ، اور اسی صوبے سے سوئی کے مقام سے پہلی دفعہ گیس نکلی تھی۔گیس کی لوڈشیڈنگ کیا ہوئی ، پھل بیچنے والوں کے وارے نیارے ہوگئے ۔ وہ خالی پیٹی جو پانچ روپے کی بھی مشکل سے بکتی ہے، اب 30 روپے کی بیچی جا رہی ہے۔ بڑے میاں تو بڑے میاں ، چھوٹے میاں سبحان اللہ ۔ یعنی بادشا ہ تو بادشاہ ، عوام کا بھی جواب نہیں۔پہلے جب چولھا جلتا تھا ، تو گیس اپنے ہونے کا یقین دلانے کے لیے ہلکی پھلکی آواز نکال لیتا تھا ، پر اب وہ آواز سننے کے لیےلوگ مارے مارے پھر رہے ہیں۔جو سالن آدھے سے پونے گھنٹے میں پکتا تھا ، اب چار گھنٹوں میں بھی بہ مشکل پکتا ہے۔ایک خبر کے مطابق صنعتوں اور سی این جی سیکٹر کی گیس بند کرنے کے باوجود گیس گھروں میں نہیں پہنچ رہی ۔جس سے متعلقہ ادارے کی بد انتظامی کھل کر سامنے آگئی ہے۔کس قدر افسوس ناک بات ہے کہ سردیاں نکتہ عروج پر پہنچ گئی ہیں ، اور گیس نہیں ہے۔ یعنی متعلقہ حکام کی طرف سے ہمیں یہ تلقی کی جارہی ہے کہ مہربانو! گرمی میں تو آپ نے بغیر پنکھے کے رہنا سیکھ لیا ہے ، اب سردی میں بغیر گیزر کےرہنا بھی سیکھ لو !!

( اگر میری اس بذلہ سنجی سے کسی کی دل آزاری ہوئی ہے تو میں معافی چاہتا ہوں ۔ میں تو صرف یہ چاہتا ہوں کہ میرے پیارے وطن کے تمام لوگوں کے گھروں کا گیس بحال ہوجائے۔ )
 
Naeem Ur Rehmaan Shaaiq
About the Author: Naeem Ur Rehmaan Shaaiq Read More Articles by Naeem Ur Rehmaan Shaaiq: 122 Articles with 147395 views میرا نام نعیم الرحمان ہے اور قلمی نام نعیم الرحمان شائق ہے ۔ پڑھ کر لکھنا مجھے از حد پسند ہے ۔ روشنیوں کے شہر کراچی کا رہائشی ہوں ۔.. View More