وہ میرا اسلام آباد

راولپنڈی جانے والی پسنجر ٹرین کا ٹائم تو دس بجے تھا۔ مگر ہم سارے دوست رات 9بجے سے پہلے ہی ریلوے سٹیشن پر پہنچ گئے تھے۔ اُن دنوں درجہ سوم کا کرایہ تقریباً 7روپے تھا مگر درجہ سوم کی نشستیں لکڑی کے تختوں کی تھیں۔ اس لیے ہم نے درجہ دوم کی ٹکٹیں لیں درجہ دوم کا کرایہ بارہ یا تیرہ روپے تھا مگر وہاں سیٹیں فوم کی بنی ہوئی اور آرام دہ تھیں۔ چونکہ گاڑی سٹیشن پر کھڑی تھی اس لیے ہم ٹکٹ لے کر اپنی اپنی سیٹوں پر پہنچے۔ کندھوں سے بیگ اتار کر تکیے کے طور پر رکھے اور سوگئے۔

ٹرین کو دس بجے چلنا تھا۔ مگر نیند کی وجہ سے ہمیں کچھ خبر نہ تھی کہ ٹرین کب چلی۔ آنکھ اُس وقت کھلی جب راولپنڈی سے کچھ پہلے مندرہ کا سٹیشن آیا۔ ایک دوست نے ’’مندرہ آیا ‘‘کا نعرہ لگایا ہم نے بیگ کندھے پہ ڈالا اور چند لمحوں میں سٹیشن سے باہر تھے۔ وہاں سے ہم قریب ہی جی ٹی روڈ پر پہنچے اور راولپنڈی جانے والی بس کے ذریعے پنڈی روانہ ہوگئے۔

پسنجر ٹرین کا راولپنڈی کا ٹائم تقریباً ساڑے آٹھ بجے تھا۔ ہمیں آٹھ بجے کلاس میں پہنچنا ہوتا تھا۔ اس لیے مندرہ سے رالپنڈی کا سفر بس سے کرتے اور سات بجے سے پہلے بس ہمیں لیاقت باغ اتارتی۔ اُس زمانہ میں بس کا اڈہ لیاقت باغ تھا۔ لیاقت باغ سے اومنی بس میں صرف دس پیسے دے کر اسلام آ باد کا سفر ہمارا معمول تھا۔ وہ بھٹو صاحب کا دور تھا اور طلبا کو سرکاری بسوں میں صرف دس پیسے دیکر ہر فاصلہ طے کرنے کی
اجازت تھی۔
اُس وقت اسلام آباد جانے کا یہی واحد راستہ تھا۔ بس چاندنی چوک اور پھر6thسکستھ روڈ سے گزرتی تو ویرانا شروع ہوجاتا۔ اکا دکا عمارتیں فوجی کیمپ اور پھر فیض آباد کے گاؤں سے اسلام آباد ہائی وے پر مڑ جاتے۔ اسلام آباد ہائی وہ کے دونوں طرف ٹیلے تھے اور کہیں بھی کوئی راستہ نہ تھا ماسوائے ایک راستے کے جو زیرو پوائنٹ سے تھوڑا پہلے دائیں طرف شکر پڑیاں کوجاتا تھا۔ زیرو پوائنٹ سے سڑک دائیں طرف آب پارہ کو مڑجاتی تھی۔ زیرو پوائنٹ پر کھڑے ہو کراوراگرو نظر ڈالیں کوئی سڑک یا کوئی بلڈنگ دور دور تک نظر نہ آتی تھی ماسوائے ایک پتلی سی سڑک کے جو آبپارہ جانے والی سڑک کے متوازی شکر پڑیاں کے آگے سے گزرتی تھی۔ یہ پتلی سڑک انتہائی ویران تھی اور اُس سے گزرتے لوگ ڈرتے تھے۔

زیرو پوائنٹ سے آبپارہ آتے ہوئے فقط دو بلڈنگیں نظر آتی تھیں ایک پرنٹنگ پریس کی اور دوسری فائر بریگیڈ کی ان بلڈنگز کے فوراً بعد آبپارہ شروع ہوجاتا ۔ آبپارہ چوک میں بس کا آخری سٹاپ تھا۔ اسلام آباد موڑ پر کامران ریسٹورنٹ تھا جس سے ملحقہ عمارت میں یونائیٹڈ بیکر ی تھی۔ بیکری کے آگے وہ سیڑھیاں تھیں جو یونیورسٹی کے طلبا اور طالبات سے بھری ہوتی تھیں کیونکہ یہ یونیورسٹی کی بس کا سٹاپ تھا۔

یونیورسٹی بس صبح سات بجے سے رات آٹھ بجے تک ہر پندرہ منٹ بعد دستیاب ہوتی تھی۔ رات آٹھ بجے کے بعد جو لوگ جانے سے رہ جاتے وہ حضرت بری امام کے مزار پر نورپورشاہاں جانے والی ویگن ڈھونڈتے انتہائی خستہ حالت کی کھٹارا ویگن اُس راستے پر گامزن ہوتی تھی۔ وہ مل جاتی تو غنیمت یونیورسٹی ہوسٹل تک کوئی ڈیڑہ دو کلو میٹر ہی پیدل چلنا پڑتا اور اگر نہ ملتی تو سب لوگ اکٹھے ہو کر ہاتھوں میں پتھر اور ڈنڈے پکڑ کر پیدل یونیورسٹی کو چل پڑتے یہ کوئی چھ کلومیٹر کا فاصلہ تھا۔ شاہراہ دستور سے آگے چار پانچ کلومیٹر انتہائی ویران۔ راستے میں فقط روس کی ایمبسی تھی یا مڑکر یونیورسٹی کے نزدیک شاید پولینڈ کی۔ باقی رستہ انتہائی ویران سوروں اور سانپوں کی بہتات۔ راستے میں ایک دو سانپ ضرور مارنے پڑتے سور نظر آئے تو پتھر مار کر بھگا دیتے۔ وہ اسلام آباد جہاں لوگ آباد تھے آب پارہ سے میلوڈی سے کچھ آگے F/6تک وہاں سے سیکرٹریٹ۔ سیکرٹریٹ سے شابراہ دستور اور پھر آبپارہ اس چکور سے ٹکرے کا نام اسلام آباد تھا۔

آب پارہ مارکیٹ، میلوڈی مارکیٹ اور ایک کورڈ مارکیٹ۔ یہ اسلام آباد کے پررونق مرکز تھے۔ وہ میرا اسلام آباد انتہائی صاف ستھراپُر سکون شہر تھا۔ کبھی کبھی ہائیکنگ کے شوق میں ہم اوپر پہاڑوں پر چڑھ جاتے اور اُس بورڈ تک پہنچتے جس پر ’’ہزارہ ڈسٹرکٹ شروع‘‘ لکھا ہوتا۔ چڑھتے تو یونیورسٹی ایریا سے تھے۔ مگر آتے ہوئے پگڈ نڈیاں کہیں کی کہیں لے جاتیں اور ہم اسلام کے علاقے میں اترتے۔ اس قدر تھکاوٹ کہ دودن آرام کرتے گزر جاتے ۔یہ ننھا منا اسلام آباد راولپنڈی سے یوں جڑا تھا جیسے کوئی بچہ کسی بزرگ کے ساتھ چپٹا ہو۔

چند دن پہلے میں ایک عرصہ کے بعد اسلام آباد گیا۔ مگر یہ کیا جی ٹی روڈ سے راولپنڈی اور پھر راولپنڈی سے اسلام آباد جانے کا تصور ہی نہیں۔ اب اسلام آباد خود چل کر جی ٹی روڈ پر پہنچ چکا ہے۔ اور راستے اتنے ہیں کہ شمار نہیں۔ ہر راستہ اسلاآباد کو جاتا ہے۔ چھوٹا سا گاؤں فیض آ باد سڑکوں کے جال اور انسانوں کے ہجوم میں گم ہے۔شاہراہ اسلامآباد کے چھوٹے چھوٹے ٹیلوں کو کاٹ کر بہت سی سڑکیں دائیں بائیں مختلف علاقوں کو جارہی ہیں۔

زیرو پوائنٹ پر حد نظر آبادی، ہی آبادی اور عمارتیں ہی عمارتیں نظر آرہی تھیں۔ وہ بڑی سڑک جو آب پارہ کو جاتی تھی بند کر دی گئی ہے اور جو کبھی چھوٹی سی ویران سڑک تھی اب پھیل چکی اور ٹریفک سے لدی پھندی ہے۔ آب پارہ پہنچ کر موڑ پر کامران ریسٹورنٹ کو اُسی طرح دیکھ کر اک مسرت ہوئی مگر یہ لمحہ بھرکی تھی۔ ملحقہ عمارت میں بیکری ختم ہوچکی تھی اور و سیڑھیاں جن پر کبھی ہم بیٹھ کر بس کا انتظار کیا کرتے تھے جن سیڑھیوں سے بہت سی داستانیں وابستہ تھیں اب غائب تھیں۔ سامنے بس سٹاپ خالی پڑا تھا۔ میں جس طرف بھی گیا۔ اسلام آباد ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا تھا۔ شاہراہ دستور سے یونیورسٹی تک کا راستہ اب سفارت خانوں کی بھرمار کی وجہ سے بند کر دیا گیا۔بغیر ضرورت کے وہاں سے گزرنا ممکن نہیں۔ وہ اسلام آباد جو کبھی راولپنڈی کا ایک چھوٹا سا ہمسایہ تھا اب اس قدر پھیل گیا ہے کہ راولپنڈی ڈھونڈنا مشکل ہوگیا ہے۔

میں ہزار کوشش کے باوجود اپنے ماضی سے وابستہ جگہوں اور مقامات کو ڈھونڈھ نہ پایا۔ وہ چیزیں ،وہ جگہیں اور وہ باتیں جن کی وابستگی انسان کو جوان رکھتی ہے۔ اب اسلام آباد کی بھیڑ میں کہیں کھو گئی ہیں۔ اب یہ میرا اسلام آبادنہیں اب یہ ایک بے ہنگم پر شور اور عجیب سا اسلام آباد ہے جس کے کسی گوشے میں میرا اسلام آباد ،میراماضی ،میری یادیں اور میرا سب کچھ کھو گیا ہے۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 575 Articles with 451767 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More