تعلیم یافتہ بے روزگار نوجوانوں کے لیے سنہری موقع

ریاست کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ عوام کی بنیادی ضروریات کو پورا کرے۔ بے روزگاری، غربت، کرپشن اور ملاوٹ کے ناسور کو معاشرے سے مکمل طور پر ختم کر دے، مگر ہمارے ہاں حالات اس کے برعکس ہیں۔ حکومت وقت اپنے فرائض سے غافل، غربت اور دیگر ناسور سے آنکھیں چرائے خرگوش کی نیند کے مزے لے رہی ہے۔ گزشتہ تحریروں میں بھی لکھ چکا کہ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کی خوشحالی کا راز یہی ہے کہ وہاں مالدار لوگ آگے بڑھ کر حکومت کو سپورٹ اور معاشرے سے غربت کے خاتمے کے لیے کردار ادا کرتے ہیں، ادارے اُن کو مکمل سپورٹ کرتے ہیں۔ افسوس ہمارے ہاں کوئی انسانیت کا درد رکھنے والا جب خدمت انسانی کے جذبے سے سرشار ہو کر آگے بڑھے تو اُس کے راستے میں جگہ جگہ مسائل کھڑے کر دیئے جاتے ہیں،اُسے اتنا تنگ کیا جاتا ہے کہ وہ تنگ آ کر انسانیت کی خدمت سے ہمیشہ کے لیے توبہ کر لیتا ہے۔ بعض درد انسانی رکھنے والے افراد نے اپنے راستے میں آنے والی تمام رکاوٹوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ، پاکستانی عوام خصوصاًنوجوانوں کے لیے روزگار کے کئی مواقع پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ درمیانے طبقے اور غریب افراد کو چھت فراہم کر کے انہیں سکون مہیا کیا۔جس سے ملک بھر میں پراپرٹی کے کاروبار نے وسعت پائی ،راولپنڈی اور اسلام آباد میں بھی کئی سوسائٹیز وجود میں آئیں، بعض قابل ذکر سوسائٹیوں نے پوری دنیا میں نام کمایا۔ افسوس کے اِس بزنس میں بھی نوسربازگھس آئے جنہوں نے پورے تالاب کو آلودہ کر دیا۔ پراپرٹی کے بزنس نے کاروبار کے مواقع بڑھائے، جس سے بے روزگاری کے خاتمے کی طرف ایک سیڑھی عبور ہوئی۔ پراپرٹی کا کام اتنا آسان نہیں جتنا اِس کو سمجھا جاتا ہے۔ اِس میں وہی انسان کامیاب ہو پاتا ہے جو تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ اِس کی الف ب اور اس کام سے مکمل واقفیت رکھتا ہو، بعض ناسمجھ اور اِس کام سے ناواقف افراد بھی داؤ پیچ آزماتے ہوئے وقتی طور پر کامیاب ہوئے مگر اُن کی کامیابی زیادہ دیر تک قائم نہیں رہی، آخر وہ اِس کام کو چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ ہمارے ملک میں کچھ عرصے سے بے روزگاری میں قدرے اضافہ ہوا، تعلیم یافتہ نوجوانوں کے کثیر تعداد ڈگریاں ہاتھ میں لیے دفتروں کا چکر لگاتے لگاتے خوار ہو رہے ہیں۔ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد نے اِس شعبے میں قسمت آزمائی، اکثر یت نے اِس میدان میں کامیابی کے جھنڈے گاڑھے نت نئے منصوبے پیش کیے گئے ،جس سے اِس کاروبار میں بہتری آتی گئی۔ رہائشی سیکٹرز، سوسائٹیوں، ٹاؤنز میں نوجوانوں نے قابل قدر کام کیا، اسی میں ایک نام خالد طاہر کا ہے، تقریباً 10 برس سے اِسی کاروبار سے وابستہ ہیں۔انہوں نے حرمین اسٹیٹ کے نام سے کام شروع کیا تعلیم مکمل کرنے کے بعد شوق اِن کو اسی بزنس کی طرف لے کر آیا، کہتے ہیں کہ 10 سال کیسے بیت گئے، معلوم ہی نہیں رہا، میں جب اِس شعبے میں آیا تو خوف زدہ تھا کہ یہ کام کر پاؤ گے بھی یا نہیں لیکن خدا کی کرم نوازی اور والدین کی دعاؤں کی بدولت آج میں ایسے مقام پر کھڑا ہوں جہاں لوگ پہنچنے کے خواب دیکھتے ہیں، میں نے یہ خواب دیکھا اور الحمداﷲ وہ پایہ تکمیل تک پہنچا۔بے سروسامانی کے عالم میں پڑے غریب افراد کو چھت فراہم کر کے جو سکون انسان کو میسر آتا ہے۔ اِس شعبے میں جہاں شفافیت ہے، اُس سے بڑھ کر دھوکا دہی سے بھی کام کیا جاتا ہے،خصوصاًقبضہ گروپ کے ہاتھوں خریدی گئی زمین پر ایسے معاملات زیادہ دیکھے جاتے ہیں وہاں ایک پلاٹ کی رقم کئی افراد سے بٹورنے کے بعد پلاٹ واپس انہی کے پاس آ جاتا ہے ،اس لیے ایسے افراد سے بچنا چاہیے۔ پہلے تو پراپرٹی میں رینٹ اور سیل پرچیز کا کام تھا، اب وہ زیادہ تر سیل پرچیز تک رہ گیا ہے، کیوں کہ جڑواں شہروں میں بڑھتی آبادی کے پیش نظر کئی سوسائٹیوں کا قیام عمل میں لایا گیا جہاں درمیانے طبقے کے افراد کے لیے اقساط پر بھی پلاٹ اور مکان دیے جا رہے ہیں کرایے پر رہنے والے افراد اقساط پر مکان لے کر ذاتی مکان کے مالک بن گئے ہیں، دوسری طرف اِس کاروبار میں کسٹمرز اگر انجان ہے تو وہ جلد دھوکے کا شکار ہو جاتا ہے۔ ایک پلاٹ کئی افراد کو بیچ دیا جانا، طویل عرصے سے خالی پلاٹ کو جعلی ڈاکومنٹس تیار کرکے سیل کر نامعمول کی بات ہے۔ کسٹمرز کو چاہیے کہ وہ پراپرٹی کے لین دین سے قبل ایسے افراد سے رہنمائی ضرور لیں جو اس میں ماہر ہوں،پلاٹ اور مکان کی خرید و فروخت کی شُد مُد سے ضرور واقفیت حاصل کر لیں۔ اِس کام کی طرف آنے والے نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ پہلے کسی کے پاس کام سیکھ لیں، تاکہ آنے والے وقتوں میں ان کے لیے آسانیاں ہوں، اگر وہ ناواقف ہوتے ہوئے کام شروع کر دیں گے تو ناکامی اور خسارہ ہی ان کا مقدر ہوں گے۔ اِس بزنس میں اُتار چڑھاؤ بھی معمول کی بات ہے، کبھی کبھارکام اتنا ہوتا ہے کہ آپ سالوں بیٹھ کر کھا سکتے ہیں اور کبھی طویل مدت تک کام نہیں آتا۔ نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے خوابوں کو ضرور بلند رکھے، خواب دیکھے اور اُن کو عملی جامہ صرف اِسی صورت میں پہنایا جا سکتا ہے کہ قدم زمین میں رکھ کر آسمان کی طرف دیکھا جائے اگر یک دم آسمان میں پہنچانے کی سعی کریں گے تو خواب کبھی مکمل نہیں ہو پائیں گے۔ اسلام آباد اور راول پنڈی میں پراپرٹی کے کام کے وسیع مواقع موجود ہیں۔ بے روزگار نوجوان اِن مواقع سے بھرپور فائدہ اٹھا کر اپنے مستقبل کو سنوار سکتے ہیں۔ بحریہ ٹاؤن، ڈی ایچ اے، کورنگ ٹاؤن، سواں گارڈن، ملٹی سوسائٹی ،پی ڈبلیو ڈی اور اس جیسے کئی صاف ستھرے پراجیکٹ کام کر رہے ہیں۔ خالد طاہر کا مزید کہنا ہے، پڑھے لکھے خصوصاً بزنس سے متعلق طالب علموں کو چاہیے کہ وہ اسے شعبے میں آ کر اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں اور اپنے مستقبل کو بہتر بنائیں اور پاکستان کی خوشحالی کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔

Umer Abdur Rehman Janjua
About the Author: Umer Abdur Rehman Janjua Read More Articles by Umer Abdur Rehman Janjua: 49 Articles with 50914 views I am Freelance Writer and Journalist of Pakistan .. View More