باکما ل لوگ لاجواب سروس فار سیل

 دنیا میں کوئی بھی ملک جب کوئی ادارہ بناتا ہے تو اس کی تعمیر و ترقی کے لئے ہر ممکن اقدامات اٹھا تا ہے کسی بھی ادارے کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لئے اس کے ابتدائی چند سال بہت اہم اور مشکل ہوتے ہیں کیونکہ شروع میں صرف انوسٹمنٹ کرنی ہوتی ہے بلکل ویسے ہی جیسے کوئی بھی درخت جب زمین میں لگایا جاتا ہے تو وہ ایک دم سے پھل نہیں دینا شروع کر دیتا بلکہ اس کے لئے ایک ٹائم پیریڈ مقرر ہوتا ہے تب وہ کچھ دینے کے قابل ہوتا ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ اس کی حفاظت اور مناسب دیکھ بھال اور محنت بھی ضروری ہوتی ہے بلکل ویسے ہی کوئی بھی ادارہ بغیر حفاظت اور محنت کے کچھ بھی نہیں دیتا بلکہ الٹا نقصان کرتا ہے میری یہ تحریر پی آئی اے سے متعلق ہے جس کو پڑھ کر آپ لوگوں کو پتا چلے گا کہ کیا وجوہات ہیں کہ اتنا اہم ادارہ آج فار سیل کے بورڈز سے آویزاں کیا جا رہا ہے -

پی آئی اے کبھی باکما ل لوگ لاجواب سروس کے نام سے جانی جاتی تھی مگر آج اس کی حالت سب کے سامنے ہے ایسا کسی بھی ملک میں نہیں ہوتا کہ سال میں سب سے زیادہ رسکی پروازیں چلائی جائیں جس میں بہت سی حادثات کا شکارہونے سے مشکل سے بچتی ہیں ان تمام برائیوں کی بڑی وجہ مناسب فلائیٹ چیکنگ کانہ ہونا،وقت کی پابندی کا فقدان، ناقص سہولیات،عملے کا مسافروں سے ناروا سلوک اور دیگر کئی انتظامی شکایات بھی ہیں جس کی وجہ سے پاکستان کی ائیر لائن مسلسل دباؤ کا شکار ہے اس میں تقریبا انیس ہزار ملازمین ہیں اور یہ مجموعی طور پر بتیس جہازوں کے ساتھ آپریشن کرتی ہے ان میں سے بہت کم جہاز آپریشنل ہیں اور باقی مختلف بیماریوں کا شکار ہو کر مختلف جگہوں پر ٹھیک ہونے کے لئے کھڑے ہیں اگر ان کو ٹھیک کر لیا جائے تو بہتری کی طرف جایا جا سکتا ہے مگر ؟؟شاید کوئی اس طرف جانا نہیں چاہتا دوسری طرف اہم سوال یہ ہے کہ اتنے کم جہازوں کے ساتھ اتنے زیادہ ملازمین کا بوجھ اٹھا کر پی آئی اے حکومت کو کس طرح منافع دے سکتی ہے یہ وہ سوالات ہیں جن کے جواب بہت مشکل ہیں۔آج بھی اسکی بری حالت کے باوجود اس پر مسافروں کا لوڈ 72 فیصد سے اوپر ہے ائیر لائن انڈسٹری کا فارمولا ہے کہ اگر کوئی بھی ائیر لائن 50فیصد کے لوڈ پرچلائی جائے تو نفع نقصان برابر ہو جاتا ہے مگر یہاں 72 فیصد سے اوپر ہونے کے باوجود نقصان ؟اس کے بکنے کے بعد اس میں ملازمین کی چھانٹی بھی یقینی بات ہے کیونکہ جہاز کم اور عملہ زیادہ ہے جس میں سے زیادہ تر کے بارے میں خیال کیا جا تا ہے کہ سیاسی بھرتیوں کے ذریعے پی آئی اے کے سر پر تھونپا گیا عملہ ہے جن کو گولڈن ہینڈ شیک کے ذریعے ڈاون سائز کیا جائے گا جیسا کہ اس سے پہلے پی ٹی سی ایل کو بیچتے وقت کیا گیا تھاقومی اداروں میں پی آئی اے ایک ایسا ادارہ تھا کہ جس نے متحدہ عرب امارات اور کئی دوسرے ممالک کی ائیرلائینوں کو قائم کرنے میں اور ان کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے میں معاونت کی اور ان کو کامیاب کرنے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا جس کی وجہ سے ان ممالک کی ائیر لائینوں کاشماردنیا کی بہترین اور صف اول کی ائیر لائینوں میں ہوتا ہے یہ سب اسی پی آئی اے کی وجہ سے ہے جو آج خود ایک بے بسی کی تصویر نظر آرہا ہے اخبارات میں جس کی کارکردگی پاکستان کے حکمرانوں کا منہ چڑھا رہی ہوتی ہے یورپ اور امریکہ میں جس کی غیر معیاری سروس کی وجہ سے پابندی عائد کی جانے کی کئی وارننگز دی جا چکی ہیں اور بعض یورپی ممالک میں اس کی پروازوں پر پابندی بھی عائد ہے اگر سنگا پور ،انڈیا،سری لنکا اور دیگر کئی ممالک کی سرکاری ائیر لائینیں منافع دے سکتی ہیں تو پی آئی اے کیوں نہیں دے سکتی ؟ یہاں ایک بات اہم ہے کہ اگرصرف حج پروازوں کو اگر صیحح طریقے سے کنٹرول کیا جائے تو پی آئی اے کو منافع بخش بنایا جا سکتا ہے پی آئی اے کی کانامی کی بنیادی وجہ کیا ہے؟ پی آئی اے انتظامیہ کی بدنظمی اور ناقص حکمت عملی کی وجہ سے مالیاتی خسارے کی اڑان آسمان کی جانب ہے سال 2013 بھی قومی ایئرلائن کیلئے بدترین خسارے کاسال ثابت ہوا خسارہ 200 ارب روپے سے زائد تجاوز کرگیاقومی ایئرلائن ، باکمال لوگ لاجواب سروس اب ماضی کا حصہ بن چکا ہے، فضاؤں کا سینا چیرتے ہوئے پی آئی اے کے جہاز کبھی پاکستانیوں کے مکمل اعتماد اور دنیا بھر میں پاکستانی وقار کی علامت سمجے جاتے تھے مگر شاہانہ اڑان کو انتظامیہ کی بدنظمی اور ناقص حکمت عملی لے ڈوبی گذرتے وقت کے ساتھ ساتھ انتظامیہ کی کوتاہیوں کی وجہ سے قومی ایئرلائن کا موازنہ زوال کی جانب سے گامزن دیگر اداروں کے ساتھ کیا جانے لگا پروازوں کی روانگی میں تاخیر معمول بن گیا ہے۔انجنوں کی عدم دستیابی اور طیاروں کے گراؤنڈ ہونے کی وجہ سے بڑھتا ہوا خسارہ قومی ایئرلائن کو ایک ایسی کھائی میں دھکیل دیا، جس پر حکومت کو قومی ایئرلائن کی نجکاری کا فیصلہ کرنا پڑا پرزہ جات نہ ہونے کی وجہ سے آدھے سے زیادہ طیارے بدستور گراؤنڈ ہیں، جو ادارے پر بوجھ بن رہے ہیں۔انتظامیہ کی ناقص حکمت عملی کی وجہ سے قومی ایئرلائن کے ذریعے سفر کرنے والے مسافروں کی تعداد میں بھی کمی آنا شروع ہوگئی، جس کی وجہ سے قومی ایئرلائن کو مزید خسارے سے دوچار ہونا پڑرہا ہے پی آئی اے میں گذشتہ چند برسوں کے دوران انتظامیہ تبدیلی کے باعث ہر آنے والے سربراہ نے بلند باگ دعوے کیے اب تو سال بیت گیا مگر بات اب بھی جوں کی توں ہے۔

تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اس ادارے کواونے پونے داموں بیچنے یا بیل آوٹ پیکج دینے کے بجائے اسے دوبارہ اپنے پاوں پر کھڑا کرنے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچے اور ایسا منصوبہ ترتیب دیا جائے جس سے پاکستان کے وقار کی علامت سمجھا جانے والا یہ ادارہ اپنے پاؤں پر دوبارہ کھڑا ہو کر پاکستان کی کمزور معیشت کو مضبوط بنانے میں اہم کردارادا کر سکے۔

rajatahir mahmood
About the Author: rajatahir mahmood Read More Articles by rajatahir mahmood : 304 Articles with 208698 views raja tahir mahmood news reporter and artila writer in urdu news papers in pakistan .. View More