تھوڑا سا مثبت عمل

اﷲ پاک کے نام سے شروع جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

میانوالی شہر میں بے ہنگم ٹریفک کی روانی نے ایک عجیب سی پریشانی اور عوام میں خوف پیدا کر رکھا ہے۔کب اور کدھر سے کوئی موٹر سائیکل یا موٹر کار آ کر ٹکرا جائے اور جان لیوا حادثہ پیش آ جائے کسی کو معلوم نہیں۔ ہرفردکو گھر سے لے کراپنی منزل ِمقصود تک پہنچنے تک کا خطرہ لاحق رہتا ۔ کم عمر لڑکوں نے اس پریشانی میں حد درجہ اضافہ کر دیا ہے۔ایک ہاتھ سے موبائل فون سننے اور میسج کا عمل اور دوسری طرف ایک ہاتھ سے موٹر سائیکل یا گاڑی کا ہینڈل تھامے ہوئے ہوتے ہیں۔ جبکہ اپنی طرف سے وہ شوخی دیکھا رہے ہوتے ہیں۔بعض اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے دونوں ہاتھ چھوڑ دیتے تاکہ دیکھنے والے اس سرکس قسم کی حرکت کی تعریف کریں جو کہ درحقیقت ایک بڑی جان لیوا حماقت ہوتی ہے۔بعض نوجوان کانوں میں ہیڈفون لگائے ہوئے فونز کالز، میسجز اور گانے وغیرہ سننے کے ساتھ ساتھ سڑکوں پر پیدل،موٹر سائیکل اور گاڑی چلاتے پھرتے نظر آتے جس سے انکو یہ بھی پتہ نہیں چلتا کہ کون کس طرف سے آ جا رہا اور کون پیچھے سے ہارن بجا رہا ہوتا۔کافی عرصہ پہلے اخبار میں اس قسم کی خبر پڑھی تھی کہ ایک نوجوان جو کہ کانوں میں ہیڈفون لگائے ریلوے لائن پر پیدل چل رہا تھا اور اس کونہ ہی لوگوں اور ٹرین کی آواز سنائی دی اور نتیجہ اس کی موت واقعہ ہو گئی تھی۔پاکستانی عوام بھی بے حس اور ذہنی طور پر سوفیصد بیمار ہو چکی ہے۔عوام سارا کا سارا گلہ شکوہ صرف حکومتی پالیسوں پر ڈالتے ہیں جبکہ چاہیے تو یہ تھا کہ ہر فرد اپنی ذمہ دار نہایت ایمانداری سے پوری کرے اور قانون کی بالادستی قائم بھی رہے۔بدبختی کہ ہم قانون کی حکمرانی کا نعرہ تو لگاتے کہ پاکستان میں قانون کی بالادستی ہے مگر یہاں ہر فرد کے لئے قانون الگ الگ ہے۔یہی وجہ ہے کہ ملک کوجہاں مختلف مسائل کا سامنا ہے وہاں اہم جزو لاقانونیت اور اس پر عمل کرنے والوں کی بہت زیادہ کمی ہے۔یہاں بات ٹریفک کے بے ہنگم روانی کی ہورہی تو ذمہ داری پولیس ٹریفک کے اہلکاروں پر ڈالی جائے یہ سراسر ناانصافی ہوگی کیونکہ 90فیصد غلطی ہماری اپنی ہوتی ہے اوراُس غلطی کوکرتے وقت ٹریفک پولیس کے ہاتھوں چالان کروا بیٹھیں یہ ہماری قسمت ہوتی۔اگر نکل جائیں تو خود کو چالاک سمجھتے۔جہاں پر میانوالی شہر کا بلوخیل روڈ، مین بازار ٹریفک کے مسائل میں گھرا ہوا وہاں پر مسلم بازارکا بھی کیا کہنا۔اس بازار میں عام دنوں میں بھی لوگوں کا ہجوم کے ساتھ ساتھ موٹر سائیکل، گاڑیوں اور چنگ چی رکشوں کی غلط پارکنگ نے یہاں سے گزرے والوں کیلئے عذاب بنا رکھا ہوتا ہے۔ اوپر مسلم بازار کی پوری سڑک کی کھودائی شروع کر دی گئی تھی جس کو ماہر ڈرائیور ہی اس روڈ کو صحیح سلامت پار کر سکتا ۔کھودائی کرکے اس کی بھرائی کا عمل کافی لمبا رہا لیکن سڑک اپنی اصلی حالت میں کس طرح تھی کسی کو معلوم نہیں۔اس کی عارضی بھرائی کو اب عوام کے پاؤں، موٹر سائیکل، چنگ چی رکشوں اور گاڑیوں کے پہیے رولر کے طور پر فی الحال اپنی اصلی حالت میں لانے کی کوشش کر رہے۔کیونکہ کہ حکومت کا کام سڑکوں کی توڑ پھوڑ کرنا ہے ان کی دوبارہ ٹھیک طریقہ سے بھرائی عوام کا اپنا کام ہوتا۔ہر طرف عوام کیلئے پریشانی ہی پریشانی پیداکرنے کے طریقے تلاش کیا جاتے۔ اسی وجہ سے نہ کوئی قانون کی قدر کرتا اور نہ ہی کوئی اپنی قدر کروانے کی کوشش کرتا۔بغیر نمبرپلیٹ موٹر سائیکل، چنگ چی اور گاڑیوں کے خلاف کاروائی بھی ہو رہی جس کا اچھا ردعمل آ رہا۔ایک اور اہم بات کہ والدین بدلتے حالات کے پیش نظر یا دیکھا دیکھی اپنے بچوں کو جیسے تیسے کر کے موٹر سائیکل تو لے دیتے چاہیے اس عمل کیلئے ادھار ہی کیوں نہ لیا جائے یہ ہمارے نوجوانوں کویہ بھی سوچنا چاہیے کہ ہمارے لیے والدین کی عزت اہمیت کی حامل اور تعلیم حاصل کرنا ہمارا مقصد ہونا چاہیے۔ لیکن کم عمری کی ڈرائیونگ کی اجازت قانون نہیں دیتا۔ جسکی وجہ سے روزانہ حادثات رونما ہوتے اور کتنوں کی جانیں ضائع ہوجاتی یہ آپ لوگ روزانہ اخبارات و ٹی وی پر سنتے اور دیکھتے ہوں گے۔ یہ سب لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ گزشتہ روز مسلم بازار میں پیدل گزر ہوا۔سڑک کی ٹوٹ پھوٹ اپنا رونا خود ہی رو رہی ہے۔جگہ جگہ چنگ چی رکشوں اور موٹر سائیکل کی پارکنگ نے سڑک کو مزید تنگ کر کے رکھا دیا ۔اسی دوران جلد ی جلدی چنگ چی رکشے والوں نے اپنے رکشے اسٹارٹ کرنے شروع کر دیے اور چلتے بنے۔پیچھے موڑ کر دیکھا تو ایک پرائیویٹ موٹر سائیکل پر ٹریفک پولیس کاASI اور سپاہی چنگ چی رکشے والوں کا یہاں سے نکل جانے کا کہ کرآگے آگے جا رہے تھے۔اس ASI کا نام رفیع اﷲ لکھنا چاہوں گا کیونکہ دوران عید میلاد النبیﷺ جلوس میلہ گراؤنڈ میانوالی پر یہ اہلکار ڈیوٹی اپنی پوری ایمانداری سے دے رہا تھا اور میں نے اس کی کوریج کی تھی ۔اور سپاہی کا نام مجھ کو معلوم نہیں کیونکہ وہ موٹر سائیکل پر سوار تھے۔ ی اس واقعہ کا بیان کرنا مقصد یہ ہے کہ ٹریفک پولیس اہلکار عصر کے وقت بھی عوام کی جان کی حفاظت اور کسی بھی جان لیوا حادثہ کے پیش نظرڈیوٹی سر انجام دے رہے تھے۔جوں جوں پولیس اہلکار آگے آگے جا رہے تھے چنگ چی رکشے والے دوبارہ اپنی اصلی جگہ پر آ کر کھڑے ہوتے جار ہے تھے۔تو اب اس ساری صورت حال کا یہاں قصوروار کون ہے؟وہ پولیس والے جو ایک جگہ پر کھڑے ہو کر بھی اپنی ڈیوٹی پوری کر سکتے تھے یا وہ چنگ چی رکشے والے جو رزق کے حصول پانے کیلئے عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ کر رہے تھے اور کسی بھی حادثہ کا سبب بن سکتے تھے؟ تو اس موقع پر میں نے سوچا کہ چنگ چی رکشہ کے چالان پھر ٹھیک ہی ہوتے۔اﷲ تعالیٰ ہم سب کو قانون پر عمل کرنے اور اپنی ذمہ داری کو پورا کرنے کی توفیق عطاء فرمائے ۔
Habib Ullah
About the Author: Habib Ullah Read More Articles by Habib Ullah: 56 Articles with 90012 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.